New Age Islam
Thu Mar 20 2025, 04:14 AM

Urdu Section ( 5 Oct 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Can Muslims Prevent Blasphemy In This Age Of Social Media? کیا سوشل میڈیا کے اس دور میں مسلمان توہین رسالت کو روک سکتے ہیں؟ کیا ان کا پرتشدد ردعمل ان کے کام آ رہا ہے یا نقصان پہنچا رہا ہے؟

 توہین رسالت درحقیقت مسلمانوں کے پرتشدد ردعمل کے باوجود یا شاید اس کی وجہ سے مزید بڑھ رہا ہے۔

 اہم نکات:

1.            سلمان رشدی کے خلاف فتویٰ اسلام کے مخالفوں کو نہیں روک سکا۔

2.            نوپور شرما کی مبینہ توہین رسالت کوئی غلط بات نہیں ہے۔

3.            سوشل میڈیا نے توہین رسالت میں آسانیاں پیدا کی ہے۔

4.            غیر مسلم معاشروں میں سوشل میڈیا پر توہین مذہب کی نگرانی یا اسے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔

5.            مسلمانوں کو توہین رسالت کے بارے میں قرآن کی نصیحت پر عمل کرنا چاہیے۔

------

نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر

 23 ستمبر 2022

اسلام کے آغاز سے ہی توہین رسالت مسلمانوں کے لیے ایک مصیبت رہی ہے۔ توہین رسالت یا توہین آمیز کلمات یا غیبت انسانی معاشرے میں کوئی نئی بات نہیں ہے اور نہ ہی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ایسے پہلے انسان ہیں جن پر بہتان لگائے گئے ہوں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی شرمیلا ہونے اور عوام میں دوسروں کے ساتھ نہ نہانے کی وجہ سے برا بھلا کہا گیا تھا۔ تقریباً تمام انبیاء کو جھوٹا، جادوگر اور فریب کار قرار کہا گیا ہے۔ قرآن نے یہ گواہی دے کر ان کا دفاع کیا کہ وہ جادوگر، جھوٹے یا دیوانے نہیں، بلکہ خدا کے نبی ہیں۔

پیغمبر اسلام پر بھی یہی الزامات لگائے گئے۔ انہیں لوگوں نے پاگل، جادوگر اور جھوٹا کہا۔ درحقیقت ان کے مخالفین نے ان پر اپنے دیویوں اور دیوتاؤں کے خلاف توہین کا الزام لگایا تھا۔

 قرآن نے ان کا دفاع کیا اور گواہی دی کہ وہ واقعی خدا کے نبی ہیں اور انسانوں کی نجات کے لیے مبعوث کیے گئے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کو یہ بھی مشورہ دیا کہ وہ توہین آمیز ریمارکس پر جوابی کارروائی یا تشدد نہ کریں۔ قرآن کہتا ہے:

 ’’یقیناً تمہارے مالوں اور جانوں سے تمہاری آزمائش کی جائے گی اور یہ بھی یقین ہے کہ تمہیں ان لوگوں کی جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے اور مشرکوں کی بہت سی دکھ دینے والی باتیں بھی سننی پڑیں گی اور اگر تم صبر کر لو اور پرہیزگاری اختیار کرو تو یقیناً یہ بہت بڑی ہمت کا کام ہے۔" (آل عمران: 186)

 اسے توہین مذہب کے معاملات میں مسلمانوں کے لیے معیاری رویہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

گستاخ کے معاملے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر مخالفین کے سر قلم کرنے کے کچھ واقعات سخت ترین صورت میں ہوئے ہیں لیکن ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جب توہین کرنے والوں کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑ دیا یا معاف کر دیا ہے۔ لہٰذا اس بات پر اصرار کرنا کہ توہین کرنے والوں کا گلا کاٹنا ہی توہین رسالت کے معاملے میں اٹھایا جانا والا ایک واحد قدم ہے اس کی تائید نہ تو قرآن سے ہوتی ہے اور نہ ہی حدیث سے۔

 اسلام دنیا کے بیشتر حصوں میں پھیل چکا ہے اور مسلمان دنیا کے بیشتر حصوں میں آباد ہیں۔ وہ تقریباً 55 ممالک میں اکثریت میں ہیں لیکن سو سے زیادہ ممالک میں اقلیت میں ہیں۔ مسلمان ان ممالک میں اپنی مذہبی روایات کی بنیاد پر قانون کا مطالبہ نہیں کر سکتے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور ملک سیکولر قانون سے چلتا ہے۔ قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ خدا کسی پر اس کی قوت برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ یعنی قرآن واضح طور پر یہ کہتا ہے کہ خدا مسلمانوں سے وہ کام کرنے کے لیے نہیں کہتا جو وہ مذہبی تنازعات یا ذاتی مسائل کے معاملے میں نہیں کر سکتے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں مسلمانوں کو روزہ رکھنا فرض ہے لیکن جو لوگ کچھ جائز وجوہات کی بناء پر روزہ نہیں رکھ سکتے انہیں بعد میں فدیہ ادا کرنے کی رخصت دی گئی ہے۔ اس کا اطلاق توہین رسالت کے معاملے پر بھی ہوتا ہے۔ اگر مسلمانوں کو توہین رسالت سے دل آزاری ہوتی ہے تو وہ ملک کے قانون کے مطابق قانونی کارروائی کر سکتے ہیں۔ وہ زبانی یا تحریری مذمت یا پرامن احتجاج کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ ملک کے قوانین کے خلاف پرتشدد کارروائیاں کرتے ہیں، تو وہ قانون کی خلاف ورزی کرنے اور توہین مذہب میں ملوث بے گناہ لوگوں کو تکلیف پہنچانے کے مجرم قرار دیے جا سکتے ہیں۔ ہندوستان کے راجستھان کے ادے پور میں کنہیا لال کا قتل بھی کچھ ایسا ہی منظر تھا جس میں کہا جاتا ہے کہ اس نے نے مسلمانوں سے معافی مانگ لی تھی۔ پھر بھی وہ مارا گیا۔

1989 میں ایرانی سپریم مذہبی رہنما امام خمینی نے ناول نگار سلمان رشدی کے خلاف ان کی گستاخانہ کتاب Satanic Verses پر موت کا فتویٰ جاری کیا تھا۔ رشدی کو روپوش ہونا پڑا اور وہ اپنی جان کو لاحق خطرے کی وجہ سے الگ تھلگ زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی جان لینے کی کئی کوششیں کی گئیں لیکن وہ بچ گئے۔ ان پر تازہ ترین حملہ اس سال اگست میں کیا گیا تھا لیکن وہ پھر بچ گئے۔

 خمینی کے فتوے نے اسلام کے مخالفوں کو توہین آمیز تبصرے کرنے سے نہیں روکا۔ بہت سے توہین آمیز باتیں کہیں ہیں۔ پیغمبر اسلام کو منفی تناظر میں پیش کرنے والی فلمیں بنائی گئی ہیں۔ گستاخانہ کارٹون Jyllands Posten اور Charlie Hebdo نے شائع کیے ہیں۔ مسلمانوں نے ہر بار پرتشدد رد عمل کا اظہار کیا ہے اور یہاں تک کہ دہشت گردوں نے چارلی ہیبڈو کے دفتر پر حملے کر کے اس کے عملے کو ہلاک کر دیا۔ لیکن یہ تمام پرتشدد ردعمل اسلام کے مخالفوں کو پیغمبر اسلام، قرآن اور اسلام کے خلاف توہین آمیز تبصرے کرنے سے نہیں روک سکے۔

اکیسویں صدی سوشل میڈیا کا دور ہے۔ سوشل میڈیا نے توہین رسالت کو بہت آسان بنا دیا ہے اور ساتھ ہی اس کی نگرانی کرنا اور کنٹرول کرنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ توہین مذہب کے الزام میں کنہیا لال کے قتل کے بعد میڈیا اور سوشل میڈیا پر مزید گستاخانہ تبصرے کیے گئے۔ مسلمانوں نے پرتشدد مظاہرے کیے اور انہیں پولیس کی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ نوجوان گولی باری میں ہلاک ہوئے اور درجنوں زخمی اور گرفتار کر لیے گئے۔ یہ حرکت ان کے لیے مہلک ثابت ہوئی۔

 حقیقت یہ ہے کہ کر دور میں پیغمبروں کی توہین کی جاتی رہی ہے لہٰذا اس پر قابو پایا جا سکتا ہے اور نہ روکا جا سکتا ہے۔ یہ انسانی رویے کا ایک حصہ ہے۔ جب لوگ کسی کو دلائل سے شکست نہیں دے سکتے تو وہ گالیوں اور زبانی طعنوں کا سہارا لیتے ہیں۔ اور جب دنیا بھر میں سوشل میڈیا پر اس طرح کے گستاخانہ تبصرے کیے جاتے ہیں، تو مسلمانوں کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ ہر ایک ریمارکس کی نگرانی کریں اور اس پر فرد جرم عائد کریں، ہر گستاخ کا گلا کاٹنے کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔ بھارت میں بھی دلت سماج کے لوگ ہندو دیوی دیوتاؤں اور مذہبی عقائد کو قابل اعتراض الفاظ میں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لیکن ہندو انہیں نظر انداز کرتے ہیں۔

 اس حوالے سے مسلمانوں کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک جو توہین مذہب ہے وہ مغربی ممالک میں اظہار رائے کا حق ہے۔ ہندوستان میں، اگرچہ توہین مذہب اور فرقہ وارانہ تبصروں پر قوانین موجود ہیں، لیکن سیاسی وجوہات یا بیوروکریسی یا پولیس میں عمومی تعصب کی وجہ سے کارروائیاں نہیں کی جاتیں۔ حکومت پر تنقید کرنے والے کو گرفتار کیا جا سکتا ہے لیکن کسی خاص کمیونٹی کو دھمکی دینے والے کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔

 اس صورت حال میں مسلمانوں کو توہین رسالت کے معاملے میں عملی طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے۔ قرآن مجید نے سورہ آل عمران میں توہین رسالت کے بارے میں اپنا اصول واضح طور پر بیان کیا ہے اور مسلمانوں کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ اس اصول پر عمل کریں۔

English Article: Can Muslims Prevent Blasphemy In This Age Of Social Media? Is their violent reaction helping or harming?

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/muslims-blasphemy-media-violent-reaction/d/128107

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..