New Age Islam
Fri Jul 18 2025, 12:50 PM

Urdu Section ( 25 Aug 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Muslim Marriages Are Not Made in Heaven مسلمانوں کی جوڑیاں جنت میں نہیں بنتیں

 ارشد عالم، نیو ایج اسلام

 23 اگست 2023

 'میڈ ان ہیون' کا نیا سیزن ہمیں یہی بتاتا ہے

 اہم نکات:

1.      میڈ ان ہیون کی ایک قسط کی کہانی مسلم تعدد ازدواج کے مسئلے پر مرکوز ہے۔

2.      ناقدین نے اس قسط پر مسلمانوں کو دقیانوسی ظاہر کرنے کی کوشش اور قدامت پسند ہندوؤں کا پروپیگنڈہ قرار دیا ہے۔

3.      جب میڈیا میں تعدد ازدواج جیسے مشکل مسائل کو اجاگر کیا جائے تو مسلمانوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

4.      یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ تعدد ازدواج معمول کا حصہ نہ بن جائے۔

 -------

Made in Heaven’ / Photo: Amazon.in

------

 او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر جاری کی جانے والی حالیہ سیریل مسلم اور دوسرے حلقوں میں بھی زیر بحث ہے۔ "میڈ ان ہیون" کے دوسرے سیزن کی ایک قسط میں ایک مسلمان ماں کی کہانی بیان کی گئی ہے، جس کا شوہر دوسری شادی کر لیتا ہے۔ وہ ابتدائی طور پر اس دوسری شادی کا انتظام و انصرام خود اپنی مرضی سے کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اور آخر کار، اس سے پیدا ہونے والے مسائل اس کی زندگی برباد کر دیتے ہیں اور وہ اپنی زندگی کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ عین موقع پر ایک ویڈنگ پلانر (شادیاں کروانے والا) اس کی جان بچا لیتا ہے، اس کے بعد و خاتون ایک مسلم خاتون کے طور پر نہیں بلکہ ایک ہندوستانی شہری کے طور پر اپنے حقوق کے لیے لڑنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ وہ اپنے شوہر سے کہتی ہے کہ اب میں عدالتوں میں جائوں گی کیونکہ کسی بھی دوسری عورت کی طرح مجھے بھی ہندوستانی آئین کے تحت انصاف حاصل کرنے کی حق ہے۔ یہ قسط یہیں ختم ہو جاتی ہے لیکن اس پر بحث و مباحثہ کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔

 سب سے پہلا اعتراض یہ ہے کہ اس قسط کو بنانے والے مسلمان خواتین کو ہر معاملے میں مظلوم قرار دے رہے ہیں۔ دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ مسلم خواتین کو ہمیشہ ستم رسیدہ اور اپنے مردوں کے رحم و کرم پر پلنے والی دکھایا جاتا ہے۔ آئیے اس الزام پر مزید غور کرتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ اس قسط میں مسلم خاتون کو اس کے اختیارات کا پتہ بہت بعد میں چلتا ہے۔ لیکن جب اس کا شوہر (اور اس کا خاندان) دوسری بیوی لانے پر تلا ہوا ہو تو اسے کیا کرنا چاہیے؟ ایک موقع پر، اس کی ساس نے اس کی تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے اسے بتایا کہ اسلام میں تعدد ازدواج کی اجازت ہے اور اس کا بیٹا جو کچھ کر رہا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ وہ اسے یہ بھی بتاتی ہے کہ اگر وہ اس بات سے زیادہ پریشان ہے، تو اس سے نجات پانے کا واحد راستہ طلاق کی درخواست کرنا ہے۔ عورت کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے وہ مزید کمزور پڑ جائے گی کیونکہ اس سے وہ اپنے بچوں کی تحویل سے محروم ہو جائے گی۔ لہذا، ہم دیکھتے ہیں کہ اب چاہ کر بھی اس کے پاس کوئی اور راستہ نہیں بچتا۔

 مسلم خواتین سے متعلق پریشان کن حقائق سے پردہ اٹھائے جانے پر جو لوگ ہمیشہ اسلامو فوبیا کا رونا روتے ہیں انہیں اس منظم تشدد کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس کا شکار ایسی بہت سی خواتین ہیں۔ (ایک وقت میں) چار عورتوں سے شادی کی اسلام نے اجازت دی ہے اور اگر ایک مسلمان مرد کے پاس اسباب ہوں اور وہ اپنے اس اختیار کو بروئے کار لانا چاہے تو اسے کوئی چیز نہیں روک سکتی۔ یقیناً کوئی یہ دلیل دے سکتا ہے کہ تعدد ازدواج کی مثالیں دیگر مذاہب کے ماننے والوں میں بھی موجود ہیں لیکن اس سے یہ حقیقت مٹ نہیں جاتی کہ یہ رواج مسلم معاشرے میں بھی موجود ہے۔ اور اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خواتین واقعی اس بات کو پسند نہیں کرتیں۔

 دوسرا اعتراض یہ ہے کہ چونکہ اس سیریل میں مسلم شادی پر صرف ایک ہی قسط تھی اس لیے تعدد ازدواج جیسے مسائل کو اس میں پیش کرنے سے مکمل طور پر گریز کیا جا سکتا تھا کیونکہ تجربہ اور مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت اب بھی ایک ہی شادی کو ترجیح دیتی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ چونکہ اس میں تعدد ازدواج پر خصوصی توجہ دی گئی ہے جو کہ قدامت پسند ہندوؤں کے دعوے کے عین مطابق ہے کہ تمام مسلم مردوں کی چار بیویاں ہوتی ہیں۔ اس حجت میں شامی یہ ہے کہ اس میں معاملے کو پوری سیریل کے تناظر میں دیکھنے کی بجائے صرف ایک قسط کو ہی چن لیا گیا ہے۔ میڈ ان ہیون سیزن 2 میں متعدد سماجی مسائل جیسے کہ طبقات، ذات پات، متبادل جنسیت، مذہب وغیرہ کو اٹھایا گیا ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تعدد ازدواج کا مسئلہ پوری دنیا میں مسلم خواتین کے لیے ایک سنگین تشویش کا باعث ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس سیریل کی ایک ہدایت کار زویا اختر ہیں، جو کہ خود ایک مسلمان تھیںں۔ چنانچہ ایک طرح سے وہ اپنی ہی برادری کی کہانی سنا کر مسلم خواتین کی حالت زار کو دنیا کے سامنے رکھ رہی تھیں۔ اس میں کیا غلط ہو سکتا ہے؟ اس طرح کا مسئلہ موجود ہے اور اس سے انکار مسلم ناقدین کو زیادہ دیر تک نہیں ٹکنے دیگا۔

 تیسرا اعتراض اور شاید سب سے اہم اعتراض اس مکالمے پر ہے جو اس خاتون کردار کا اپنے شوہر کے ساتھ ہوتا ہے یعنی عدالت سے رجوع کرنا اور وہی حقوق حاصل کرنے کی بات کرنا جو دوسری ہندوستانی خواتین کو حاصل ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے، اور شاید یہ صحیح بھی ہے، کہ یہ برسرِ اقتدار جماعت کے اس پروپیگنڈے کی طرف اشارہ ہے کہ ہم مسلمان مردوں کے ظلم و ستم سے مسلم خواتین کو بچانے والے ہیں۔ کیونکہ اسے لب و لہجے کے ساتھ تین طلاق پر پابندی والا قانون پاس کیا گیا تھا۔ اس طرح کے تبصرے کے ساتھ قسط کا اختتام، کچھ لوگوں کے مطابق، مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں حکومت کی مداخلت کی حمایت کے سوا کچھ نہیں۔

 اس طرح کے تجزیاتی تبصرے تو کیے ہی جا سکتے ہیں، لیکن کیا ہمیں اس سے بھی زیادہ بنیادی سوال یہ نہیں پوچھنا چاہیے کہ کیا مسلم قانون میں اصلاح کی ضرورت ہے؟ اس سیریل کی تنقید بالعموم خود مسلم خواتین کے ایک طبقے نے کی ہے، لیکن افسوس کہ جب مسلم پرسنل لا میں اصلاحات پر موقف اختیار کرنے کی بات آئی تو وہ سب خاموش رہیں۔ طلاق، وراثت اور ولایت وغیرہ کے حوالے سے مسلم خواتین کو جو مسئلہ درپیش ہے، وہ شاید ایسے ناقدین کی نظر میں کچھ بھی نہیں۔ اگر دنیا بھر کے مسلم معاشروں نے خواتین کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے اپنے قوانین میں اصلاحات کی ہیں تو ہندوستانی مسلمان ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ ہم مسلمانوں کو دقیانوس دکھانے کی بات کرتے ہیں لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ یہ مسئلہ بھی زمانے کے ساتھ آگے نہ بڑھنے کی وجہ سے ہے۔ مسلم خواتین غیر مساوی حقوق اور اختیارات کی وجہ سے بطور بیوی کمزور ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے نہ کہ محض ایک رائے۔ اور اگر میڈیا میں اس عدم مساوات کی بات کی جاتی ہے، تو پھر یہ مسلمانوں کو دقیانوس بنانا کیسے ہوا؟ اگر مسلمان اپنے مذہبی قوانین میں اصلاحی تبدیلیاں کرنے کا عزم کرلیتے تو یہ کوئی مسئلہ ہی نہ ہوتا۔

 اگر کوئی مسلمان عورت اپنے اس آئینی حق کو استعمال کرنا چاہے جس کا اس کے مذہب میں وعدہ کیا گیا ہے تو اس میں حرج کی کیا بات ہے؟ اسے اپنی 'ترجیحات' کو درست کرنے کے لیے تربیت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ نیز، وقت کے ساتھ آگے بڑھنے میں مسلم معاشرے کی ہچکچاہٹ اسے مہنگی پڑ رہی ہے۔ اگر ہندوستانی مسلمان اب بھی اس پر بضد رہتے ہیں کہ ان کے مذہبی قوانین آسمانی ہیں اور انہیں کبھی بھی تبدیل نہیں کیا جا سکتا، تو پھر بحث کے لیے کچھ بچتا ہی نہیں۔ کوئی بھی گفتگو تبھی آگے بڑھ سکتی ہے جب مسلمان عاجزی اختیار کریں اور یہ تسلیم کرنا شروع کر دیں کہ تمام مذہبی قوانین کی طرح اسلامی فقہ بھی انسانوں کی ہی بنائی ہوئی ہے اور اس میں بھی تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ اس قسط کی خاتون مرکزی کردار اپنی ساس کو یاد دلاتی ہے: "اسلام میں غلامی کی بھی اجازت ہے، لیکن اب کوئی غلام نہیں رکھتا۔"

 ہم تعدد ازدواج کے بارے میں بھی ایسی ہی اخلاقی بیزاری کیوں نہیں پیدا کر سکتے؟

English Article: Muslim Marriages Are Not Made in Heaven

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/muslim-marriages-heaven/d/130519

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..