سلطان شاہین،
فاؤنڈنگ ایڈیٹر، نیو ایج اسلام
4 جون 2022
عیسائیوں نے اس مسئلے پر مسلسل
بحث و تکرار کے باوجود اپنے خالی اور غیر مستعمل گرجا گھروں کی رفع حرمت یا ان کی تعمیر
نو کو ممکن قرار دیا ہے ، لیکن مسلمان روایتی طور پر مسجد کو مسجد ہی رکھنے پر بضد
رہے ہیں چاہے اس کا خمیازہ کچھ بھی ہو ۔
مثال کے طور پر ، ہمارے پنجاب کے
علاقے میں سینکڑوں مساجد کئی دہائیوں سے یا تو غیر مستعمل ویران پڑی ہیں یا مقامی لوگوں
کے قبضے میں ہیں کیونکہ 1947 میں تقسیم کے بعد علاقے کے زیادہ تر مسلمان پاکستان چلے
گئے تھے ۔ کچھ مساجد کی دیکھ بھال مقامی سکھ لوگوں نے کی ہے؛ جبکہ ایک مسجد کو حال
ہی میں مقامی سکھوں نے دوبارہ تعمیر کیا تھا، حالانکہ وہاں مسلمان بہت کم ہیں ۔ ان
کا ایسا کرنے کا مقصد مقامی مسلمانوں کے ساتھ خیر سگالی کا اظہار کرنا اور خود کو اس
دور کی یاد دلانا ہے جب گرو نانک نے وہاں نماز ادا کی تھی ۔ تاہم سیکڑوں مساجد یا تو
خالی پڑی ہیں یا غیروں کے قبضے میں چلی گئی ہیں جن کا استعمال مقامی لوگ مختلف مقاصد
کے لیے کرتے ہیں ۔ لیکن مسلمانوں کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ان اراضی کو فروخت کریں
اور اس سے حاصل ہونے والی رقم کو قوم کے دوسرے مقاصد خیر میں صرف کریں ۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کیا سڑک کو
کشادہ کرنے یا دیگر وجوہات کے پیش نظر مسجد کو کسی دوسری جگہ پر منتقل کیا جا سکتا
ہے؟ یہ معاملہ اس وقت خبروں کی سرخی بنا جب وشو ہندو پریشد نے ایودھیا کی بابری مسجد
کو دوسری جگہ پر منتقل کرنے کی پیشکش کی ۔ بلاشبہ مسلمانوں نے اس سے انکار کیا اور
بالآخر 1992 میں مسجد کو منہدم کر دیا گیا ۔
مسلمان مساجد کے بارے میں ایسا
غیر معقول رویہ کیوں اختیار کرتے ہیں جس سے قوم کو نقصان ہوتا ہے؟ ان کی ایک دلیل یہ
ہے کہ ایک بار جب ہم مسجد میں نماز پڑھنا شروع کر دیتے ہیں تو اس زمین کی ملکیت خدا
کو منتقل ہو جاتی ہے اور صرف وہی اسے بیچ سکتا ہے یا اسے کسی اور جگہ منتقل کرنے کا
فیصلہ کر سکتا ہے ۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ زمین پہلے خدا کی تھی ہی نہیں ۔ لیکن ان
کلاسیکی فقہا سے کون بحث کر سکتا ہے جو سینکڑوں سال پہلے فوت ہو گئے اور علماء کی استدلال
کی صلاحیت کو نیست ونابود کر دیا ۔ ہاں علماء اسلام میں عقلیت پسند مفکرین بھی موجود
رہے ہیں ۔ مختصر میں بتاتا چلوں کہ نویں صدی عیسوی کے اوائل میں انہیں خلفائے راشدین
کی حمایت بھی حاصل ہوئی، لیکن ان کی تمام تحریریں تباہ ہو گئیں اور اب ہم ان کے نظریات
کے بارے میں صرف ان پر تنقید کے لیے تیار کیے گئے لٹریچر کے ذریعے ہی جانتے ہیں ۔ ویسے،
ہندوستان میں عقلیت پسند اور مادیت پسند چارواک یا برہسپتیہ فلسفہ کے ساتھ بھی یہی
حشر ہوا ۔ جس طرح ہمیں چارواک کے نظریات کا علم صرف اس نظریات کی مخالفانہ تردید سے
ہی ہو سکتا ہے، بالکل اسی طرح ہمیں عقلیت پسند مسلم معتزلہ کے نظریات کا علم بھی ان
کی تنقید میں لکھی گئی کلاسیکی فقہاء کی کتابوں سے ہوتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ـ
لدھیانہ کی تحصیل ماچھی واڑہ
کے گاؤں ہیڈون بیٹ میں 100 سال پرانی مسجد اب بھی کھڑی ہے، حالانکہ گاؤں میں مسلمانوں
کی آبادی صفر ہے ۔ یہ مسجد جو 1920 میں تعمیر کی گئی تھی نمازی نہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ
دی گئی تھی۔ گاؤں کے بزرگوں کی بدولت مسجد
کو اب تک مسمار نہیں کیا گیا اور نہ ہی اب تک کوئی اس پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو سکا
ہے ۔ گاؤں کے بزرگ کسی کو بھی اسے مسمار نہیں کرنے دیتے کیونکہ ان کے خیال میں یہ خدا
کا گھر ہے ۔ تصویر بشکریہ: مسلم مرر
۔۔۔۔۔۔۔
مسلمان مساجد کی رفع حرمت کے معاملے
پر اپنے موقف پر نظر ثانی کرنے کے لیے کیوں تیار نہیں ہیں، حالانکہ عیسائی گرجا گھروں کی رفع حرمت کرتے ہیں اور حالات
کے مطابق انہیں فروخت بھی کر دیتے ہیں؟ اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس مسئلے کے پیچھے
اجماع کے فقہی اصول کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ میں اسلام کے انتہائی مستند فقہا کا حوالہ
نقل کرتا ہوں:
ابن حجر عسقلانی، ابن قدامہ، امام
نووی، اور ظفر احمد عثمانی جیسے اسلامی فقہاء نے اپنی تحریروں میں درج ذیل باتیں بیان
کی ہیں:
''حکم ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی
زمین مسجد کے لیے وقف کرتا ہے تو وہ زمین اس کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت
میں چلی جائے گی ۔ ایک بار جب مسجد قائم ہو گئی اس کے بعد نہ تو اسے خریدا، نہ فروخت
کیا اور نہ ہی تحفہ کے طور پر کسی کو دیا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح وراثت میں مسجد حاصل
کرنا حرام ہے ۔ قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس سب وقف کے لیے استعمال ہوتے ہیں ۔ حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور سے لے کر آج تک امت اسی اصول پر عمل پیرا
ہے ۔ مخلوق کو کوئی حق نہیں کہ وہ مسجد کو عبادت کے علاوہ کسی اور کام کے لیے استعمال
کریں ۔ لہٰذا اگر زمین مسجد کے لیے مختص کر دی جائے اور اس پر مسجد تعمیر کر دی جائے
تو وہ قیامت تک مسجد ہی رہے گی" ۔
مصادر و مراجع:
(1. ظفر احمد عثمانی (متوفی
1394/1974)، اعلاء السنن التھانوی، 13/98، مطبوعہ ادارۃ القرآن
(2. ابن حجر عسقلانی، فتح الباری،
5/404، مطبوعہ دار النشر للکتب الاسلامیہ/
(3. امام نووی، تفسیر صحیح
مسلم، 11/86، مطبوعہ ادارۃ القرآن
(4. ابن قدامہ، المغنی،
8/186، مطبوعہ الریاض دارالعلم الکتب)
---
اسلامی فقہ انسائیکلوپیڈیا
میں ہے، (جسے کویتی فقہ انسائیکلوپیڈیا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کیونکہ اسے کویت
میں متعدد مکاتب فکر کے علماء کی ایک جماعت نے نصف صدی پر محیط جدو جہد کے بعد 45 جلدوں
پر، 2018 میں مکمل کیا تھا) :
’’جمہور فقہاء کے نزدیک کسی
بھی مسجد کو دوسری جگہ منتقل کرنا جائز نہیں ہے۔… شافعی فقہاء فرماتے ہیں کہ اگر کوئی
مسجد منہدم ہو جائے اور اس کی دوبارہ تعمیر ممکن نہ ہو تو اسے کسی بھی حال میں فروخت
نہیں کیا جائے گا، کیونکہ اس وقت اس میں نماز پڑھنا ممکن ہے…….. جمہور فقہاء کا ماننا
ہے کہ مسجد کو بیچنا حرام ہے ۔ احناف کے نزدیک اگر کوئی شخص اپنی زمین کو مسجد قرار
دیتا ہے اور اس کے وقف کی تمام شرائط پوری کر لیتا ہے تو اب وہ اسے واپس نہیں لے سکتا،
نہ بیچ سکتا ہے اور نہ ہی اس کا وارث بنا سکتا ہے... مالکی فقہاء کے نزدیک کسی بھی
حالت میں مسجد بیچنا جائز نہیں ہے، خواہ وہ خالی ہو یا نہ ہو ۔ مسجد کو بیچنا یا منہدم
کرنا خلاف شرع ہے ۔ مسجد کے کھنڈرات کو بیچنا
بھی ناجائز ہے….. تفسیر قرطبی میں ہے کہ مسجد کو گرانا، بیچنا یا معطل کرنا کسی بھی
صورت میں جائز نہیں ہے خواہ محلہ ویران ہی کیوں نہ ہو….. (انسائیکلوپیڈیا آف اسلامک
جیورس پروڈینٹ، جلد 37، صفحہ 262-266)
فتاویٰ رضویہ میں ہے:
’’مسجد کو منتقل کرنا اور اس کی زمین پر سڑک یا مکان بنانا قطعی حرام
ہے، خواہ اس کی جگہ سونے کی مسجد ہی کیوں نہ تعمیر کر دی جائے۔‘‘ (امام احمد رضا بریلوی،
فتاوی رضویہ، جلد 6، صفحہ 385)
فتاویٰ قاضی خان میں ہے:
’’مسجد صرف اس زمین کا نام ہے جو نماز کیلئے وقف ہو یہاں تک کہ اگر
کوئی شخص اپنی نری خالی زمین مسجد کر دے مسجد ہوجائے گی، مسجد کا احترام اس کےلئے فرض
ہوجائے گا ۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد 6، صفحہ 390 میں منقول)
مسجد کی نقل مکانی کے ناجائز
ہونے کے بارے میں مختلف روایات کو نقل کرنے کے بعد مفتی اعظم ہند علامہ مصطفی رضا خاں
بریلوی رحمہ اللہ اپنے فتوے میں لکھتے ہیں:
’’مسجد ہمیشہ مسجد رہے گی اور
اس کی مسجدیت کبھی ختم نہیں ہوگی۔ مسجد کی شہادت اس کی مسجدیت کو باطل نہیں کرتی۔
(فتاویٰ مفتی اعظم ہند، ج3، ص177)
دارالعلوم جمدا شاہی، یوپی بستی
سے تعلق رکھنے والے مفتی نظام الدین کہتے ہیں،
"جو جگہ مسجد ہوگئی اب وہ ہمیشہ مسجد رہے گی، اس کو شہید کرکے
غیر آباد چھوڑ دینا بہت بڑا ظلم ہے" ۔
اللہ جل شانہ کا فرمان ہے:
"وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ
وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا ۚ
أُولَٰئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ ۚ
لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ”( یعنی: اس
سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے ذکر سے روکیں اور اس کے ویران کرنے
میں کوشاں ہوں، ان کو تو یہی ہہونچتا تھا کہ اس میں ڈرتے ہوئے داخل ہوں۔ ان کے لیے
دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں بڑا عذاب ہے۔
(سورہ بقرہ: ١١۴)
ماخذ: https://masailworld.com/masjid-ko-doosari-jagah-muntaqil-karna/
---
تاہم ذیل میں نقل کردہ ایک حالیہ
فتویٰ سے یہ امید پیدا ہوتی ہے کہ بعض مفتیوں نے شاید ان مسائل پر دوبارہ غور کرنا
شروع کر دیا ہے ۔
---
کیا مسجد کو دوسری جگہ منتقل کرنا
جائز ہے؟
سائل: ارتضیٰ احمد، سری نگر، کشمیر
جواب از صوفی سنی مسلم مفتی عبدالقیوم
ہزاروی، مطبوعہ: ڈاکٹر طاہر القادری کے زیر انتظام فتویٰ آن لائن، منہاج القرآن:
سائل: السلام علیکم! مفتی صاحب
ہم نے ایک رہائشی جگہ کو مسجد بنانے کے لیے خریدا، عارضی طور پر اسی عمارت میں پانچ
وقت سپیکر میں اذان اور نماز کی ادائیگی شروع کر دی مگر ابھی تک جمعہ شروع نہیں ہوا
تھا۔ ابھی ہم انتظامیہ نے مشورہ کیا ہے کہ اس عمارت کو فروخت کر کے کسی دوسری جگہ مسجد
بنانا چاہتے ہیں، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
سائل: ارتضیٰ احمدمقام: سرینگر،
کشمیر
تاریخ اشاعت: 18 جولائی
2018ء
زمرہ: مسجد کے احکام و آداب
جواب:
اگر آپ مسجد کو پہلے سے وسیع
اور بہتر جگہ پر منتقل کرنا چاہتے تو اس عمارت کو فروخت کر سکتے ہیں۔
فقہ حنفی کے امام حضرت ابن
عابدین شامي رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وَلِأَهْلِ الْمَحَلَّةِ
تَحْوِیلُ بَابِ الْمَسْجِدِ خَانِیَّةٌ وَفِي جَامِعِ الْفَتَاوَی لَهُمْ تَحْوِیلُ
الْمَسْجِدِ إلَی مَکَانِ آخَرَ إنْ تَرَکُوهُ بِحَیْثُ لَا یُصَلَّی فِیهِ، وَلَهُمْ
بَیْعُ مَسْجِدٍ عَتِیقٍ لَمْ یُعْرَفْ بَانِیهِ وَصَرْفُ ثَمَنِهِ فِي مَسْجِدٍ آخَرَ.
محلے دار مسجد کا دروازہ بدل
سکتے ہیں‘ یہی بات فتاویٰ خانیہ میں ہے اور جامع الفتاوی میں بھی ہے کہ اہل محلہ مسجد
کو بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ بدل سکتے ہیں۔ اگر اسے اس حال میں چھوڑ دیں کہ اس میں
نماز نہیں پڑھی جاتی۔ ان کو یہ بھی اختیار ہے پرانی مسجد بیچ دیں جس کے بانی کا اتہ
پتہ نہیں۔ اور اس کی قیمت دوسری مسجد پر خرچ کر لیں۔
ابن عابدین شامي، رد المحتار،
4: 357، بیروت: دار الفکر للطباعة والنشر
اس سے یہ اصول معلوم ہو گیا
کہ بوقتِ ضرورت انتظامیہ مسجد کو ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل کر سکتی ہے۔
امام ابنِ نجیم رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں:
حَوْضٌ أو مَسْجِدٌ خَرِبَ
وَتَفَرَّقَ النَّاسَ عَنْهُ فَلِلْقَاضِي أَنْ یَصْرِفَ أَوْقَافَهُ إلَی مَسْجِدٍ
آخَرَ وَلَوْ خَرِبَ أَحَدُ الْمَسْجِدَیْنِ فِي قَرْیَةٍ وَاحِدَةٍ فَلِلْقَاضِي
صَرْفُ خَشَبِهِ إلَی عِمَارَةِ الْمَسْجِدِ الْآخَرِ.
حوض یا مسجد ویران ہو جائیں
اور لوگ اِدھر اُدھر بکھر جائیں تو قاضی (عدالت) کو اجازت ہے اس کے اوقاف (زمین، جاگیر،
باغات، دکانیں، مکانات اور رقوم) کسی اور مسجد پر صرف کرے۔ اگر ایک بستی (محلہ) میں،
دو مسجدوں میں سے ایک ویران ہو جائے تو قاضی (عدالت) کو اختیار ہے کہ اس کی لکڑی (وغیرہ)
دوسری مسجد کی تعمیر میں خرچ کرے۔
زین الدین ابن نجیم، البحر
الرائق، 5: 273، بیروت: دار المعرفة
عبد الرحمن بن محمد، مجمع
الأنهر في شرح ملتقی الأبحر، 2: 595، بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیة
امام ابنِ عابدین اور دیگر
فقہاء اس سلسلے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
لَوْ خَرِبَ الْمَسْجِدُ،
وَمَا حَوْلَهُ وَتَفَرَّقَ النَّاسُ عَنْهُ لَا یَعُودُ إلَی مِلْکِ الْوَاقِفِ عِنْدَ
أَبِی یُوسُفَ فَیُبَاعُ نَقْضُهُ بِإِذْنِ الْقَاضِي وَیُصْرَفُ ثَمَنُهُ إلَی بَعْضِ
الْمَسَاجِدِ.
اگر مسجد ویران ہوگئی اور
آس پاس بھی ویران ہو گیا اور لوگ اِدھر اُدھر چلے گئے تو امام ابو یوسف رحمہ اﷲ کے
نزدیک وقف کرنے والے کی ملکیت میں دوبارہ نہیں لوٹے گی۔ لہٰذا قاضی کی اجازت سے اس
کا ملبہ فروخت کر کے اس کی قیمت کسی اور مسجد پر صرف کی جائے گی۔
ابن عابدین شامي، رد المحتار،
4: 359
مرغیناني، الهدایة شرح البدایة،
3: 20، المکتبة الإسلامیة
ابن الهمام، شرح فتح القدیر،
6: 236، بیروت: دار الفکر
زیلعي، تبیین الحقائق، 3:
330، القاہرۃ: دار الکتب الإسلامي
فقہاء کی اکثریت نے علامہ
حلوانی کی اس رائے سے نہ صرف اتفاق کیا ہے بلکہ اسے نقل بھی کیا ہے:
عَنْ شَمْسِ الْأَئِمَّةِ
الْحَلْوَانِيِّ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ مَسْجِدٍ أَوْ حَوْضٍ خَرِبَ، وَلَا یَحْتَاجُ
إلَیْهِ لِتَفَرُّقِ النَّاسِ عَنْهُ هَلْ لِلْقَاضِي أَنْ یَصْرِفَ أَوْقَافَهُ
إلَی مَسْجِدٍ أَوْ حَوْضٍ آخَرَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ.
شمس الائمہ الحلوانی سے پوچھا
گیا کہ جو مسجد یا حوض ویران ہو گیا اور اس کی ضرورت نہ رہی لوگ اِدھر اُدھر چلے گئے
کیا قاضی اس کے اوقاف کسی دوسری مسجد یا حوض پر خرچ کر سکتا ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں۔
ابن عابدین شامي، رد المحتار،
4: 359
الشیخ نظام وجماعة من علماء
الهند، الفتاوی الهندیة، 4: 478، بیروت: دار الفکر
علامہ شامی مزید فرماتے ہیں:
وَلَا سِیَّمَا فِي زَمَانِنَا
فَإِنَّ الْمَسْجِدَ أَوْ غَیْرَهُ مِنْ رِبَاطٍ أَوْ حَوْضٍ إذَا لَمْ یُنْقَلْ
یَأْخُذُ أَنْقَاضَهُ اللُّصُوصُ وَالْمُتَغَلَّبُونَ کَمَا هُوَ مُشَاهَدٌ وَکَذَلِکَ
أَوْقَافُهُ یَأْکُلُهَا النُّظَّارُ أَوْ غَیْرُهُمْ، وَیَلْزَمُ مِنْ عَدَمِ النَّقْلِ
خَرَابُ الْمَسْجِدِ الْآخَرِ الْمُحْتَاجِ إلَی النَّقْلِ إلَیْهِ.
خصوصاً ہمارے زمانہ میں کہ
مسجد، اصطبل یا حوض جب دوسری جگہ نقل نہ کئے گئے تو چور اور قابض باغی عناصر نے ان
کے ملبہ پر قبضہ کر لیا جیسا کہ ہمارے مشاہدہ میں ہے۔ یونہی اوقاف (زمین، جاگیر، باغات،
دکانیں، مکانات اور رقوم) کو منتظمین وغیرہ کھا جاتے ہیں۔ اس ملبہ کو دوسری جگہ منتقل
نہ کرنے سے دوسری مسجد جس کو اس سامان کی ضرورت ہے، وہ ویران رہتی ہے۔
ابن عابدین شامي، رد المحتار،
4: 360
مقاصد مسجد کی تکمیل ضروری
امر ہے:
بِخِلَافِ مَا إذَا کَانَ
السِّرْدَابُ أَوْ الْعُلْوُ مَوْقُوفًا لِمَصَالِحِ الْمَسْجِدِ فَإِنَّهُ یَجُوزُ
إذْ لَا مِلْکَ فِیهِ لِأَحَدٍ بَلْ هُوَ مِنْ تَتْمِیمِ مَصَالِحِ الْمَسْجِدِ فَهُوَ
کَسِرْدَابِ مَسْجِدِ بَیْتِ الْمَقْدِسِ.
اگر مسجد کا تہہ خانہ یا اوپر
(چھت) مقاصد مسجد کے لئے وقف ہے تو یہ جائز ہے کہ اس میں کسی کی ملکیت نہیں بلکہ اس
میں مقاصد مسجد کی تکمیل ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے مسجد اقصیٰ کے پانی ذخیرہ کرنے کے
سرد خانے۔
ابن نجیم، البحر الرائق،
5: 271
ابن عابدین شامي، ردالمحتار،
4: 357
ابن قامہ المقدسی المغنی میں
لکھتے ہیں:
وَمَا فَضَلَ مِنْ حُصِرَ
الْمَسْجِدِ وَزَیْتِهِ، وَلَمْ یُحْتَجْ إلَیْهِ، جَازَ أَنْ یُجْعَلَ فِي مَسْجِدٍ
آخَرَ، أَوْ یُتَصَدَّقَ مِنْ ذَلِکَ عَلَی فُقَرَائِ جِیرَانِهِ وَغَیْرِهِمْ، وَکَذَلِکَ
إنْ فَضَلَ مِنْ قَصَبِهِ أَوْ شَيْئٍ مِنْ نَقْضِهِ۔ قَالَ أَحْمَدُ، فِي مَسْجِدٍ
بُنِيَ، فَبَقِيَ مِنْ خَشَبِهِ أَوْ قَصَبِهِ أَوْ شَيْئٍ مِنْ نَقْضِهِ، فَقَالَ:
یُعَانُ فِي مَسْجِدٍ آخَرَ. أَوْ کَمَا قَالَ. وَقَالَ الْمَرُّوذِیُّ: سَأَلْت
أَبَا عَبْدِ اﷲِ عَنْ بَوَارِي الْمَسْجِدِ، إذَا فَضَلَ مِنْهُ الشَّيْئُ، أَوْ
الْخَشَبَةُ. قَالَ: یُتَصَدَّقُ بِهِ وَأَرَی أَنَّهُ قَدْ احْتَجَّ بِکُسْوَةِ
الْبَیْتِ إذَا تَحَرَّقَتْ تُصُدِّقَ بِهَا. وَقَالَ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ: قَدْ کَانَ
شَیْبَةُ یَتَصَدَّقُ بِخُلْقَانِ الْکَعْبَةِ.
مسجد کی چٹائی اور تیل میں
سے جو بچ جائے اور اس کی ضرورت نہ رہے تو اسے دوسری مسجد میں صرف کرنا یا مسجد کے پڑوس
میں موجود فقراء پر صدقہ کرنا جائز ہے یہی حکم مسجد کے بانس اور ملبہ کا بھی ہے۔ امام
احمد بن حنبل رحمہ اﷲ سے پوچھا گیا کہ ایک مسجد کی تعمیر کی گئی ہے اس سے کچھ لکڑی
اور ملبہ بچ گیا اس کا کیا کیا جائے؟ امام صاحب نے فرمایا کہ اسے دوسری مسجد میں خرچ
کر دیا جائے۔ مروذی کہتے ہیں میں نے ابو عبد اﷲ سے مسجد کی فاضل چٹائی اور فاضل لکڑی
کے بارے میں پوچھا، انہوں نے فرمایا کہ صدقہ کیا جائے میرا خیال ہے انہوں نے کعبہ کے
غلاف سے استدلال کیا کہ جب وہ پرانا ہو جاتا ہے تو اسے صدقہ کر دیا جاتا ہے شیبہ کعبہ
کے پرانے غلاف صدقہ کر دیا کرتے تھے۔
موفق الدین أبو محمد عبد
ﷲ بن أحمد بن محمد بن قدامة المقدسي، المغني، 5: 370، بیروت: دار الفکر
مذکورہ بالا تصریحات معلوم
ہوا کہ مسجد کی عمارت میں ہر ایسا تغیر وتبدل جس سے مقاصد مسجد میں خلل نہ آئے، اُس
کو عمل میں لانا جائز ہے۔ ایسے مسائل ضرورت وحالات کے پیش نظر ہوتے ہیں، اصل مقصد دین
اسلام کی ترویج واشاعت کے لیے بہترین مواقع پیدا کرنا ہے۔
ماخذ: https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/4895
مجھے امید ہے کہ عقلیت پسندی کی
طرف یہ رجحان جاری رہے اور آج کے علمائے اسلام تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے ایک
ایسی فقہ تیار کریں جو ہمارے دور کے لیے موزوں ہو اور اس کے اندر ہر زمانے میں پیدا
ہونے والے نت نئے مسائل کا حل پیش کرنے کی صلاحیت ہو ۔
English
Article: Why Can’t Mosques Be Relocated Or Deconsecrated And
Sold In Certain Situations As Churches Are?
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism