مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام
6 جولائی 2018
حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ توبہ کے حوالے سے صوفیائے کرام کے درمیان دو مسالک ہیں مسلک جنیدیہ کا موقف یہ ہے کہ توبہ اپنے کردہ گناہوں کو نسیا منسیا کر دینے کا نام ہے ، جبکہ حضرت خواجہ سہیل تستری فرماتے ہیں کہ توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ ہماری معصیت ہمیشہ ہماری نظروں کے سامنے رہے۔ یہ تصور پیش کرنے کے بعد حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان تضاذ محض لفظی ہے ، اس لئے کہ گناہوں کو نسیا منسیا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ گناہوں کی لذت وسرور تیرے دل سے نکل جائے۔
حضرت عبد الكريم بن هوازن بن عبد الملك القشيری (المتوفى: 465 ہجری ) رسالہ قشیریہ میں فرماتے ہیں:
أخبرنا أبو عبد الله الشيرازي، رحمه الله قال: سمعت أبا عبد الله بن مصلح، بالأهواز يقول. سمعت ابن زيري يقول: سمعت الجنيد يقول: دخلت على السري يوماً فرأيته متغيراً، فقلت له: مالك؟ فقال: دخل علي شاب فسألني عن التوبة، فقلت له: أن لا تنسى ذنبك! فعارضني، وقال: بل التوبة أن تنسى ذنبك. فقلت: إن الأمر عندي ما قاله الشاب. فقال: لِمَ؟ قلت: لأني إذا كنت في حال الجفاء فنقلني إلى حال الوفاء؛ فذكر الجفاء في حال الصفاء جفاء فسكت۔ (بحوالہ رسالہ قشیری۔ مصنفہ عبد الكريم بن هوازن بن عبد الملك القشيري (المتوفى: 465هـ۔ صفحہ 98)۔
ترجمہ: حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ میں ایک دن حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا ، میں نے دیکھا کہ ان کے احوال متغیر ہیں۔ تو میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کا کیا ماجرا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میرے پاس ایک نوجوان آیا اور اس نے توبہ کے بارے میں دریافت کیا ، میں نے جواب دیا کہ توبہ یہ ہے کہ تو کبھی اپنی معصیتوں کو فراموش نہ کرے۔ یہ سن کر اس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا ‘‘نہیں! بلکہ توبہ یہ ہے کہ تو اپنے گناہوں کو بھول جائے’’۔ تو میں نے عرض کیا کہ میرا بھی یہی موقف ہے جو اس نوجوان نے بیان کیا ہے۔ یہ سن کر حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کیوں؟ میں نے جواب دیا کہ ‘‘جب میں حالت جفا ءمیں (گناہوں میں ڈوبا ہوا) ہوں اور وہ (اللہ) مجھے حالت وفاء نصیب کرے (توبہ کر کے نیکیاں کرنے کی توفیق بخشے) تو حالت صفاء میں (اللہ کی اطاعت فرمانبرداری کی توفیق حاصل ہو جانے کے بعد) نافرمانیوں کو یاد کرنا بھی گناہ ہے’’۔ یہ سن کر حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ خاموش ہو گئے۔
سمعت أبا حاتم السجستاني، رحمه الله، يقول: سمعت أبا نصر السراج الصوفي يقول: سئل سهل بن عبد الله عن التوبة، فقال: أن لا تنسى ذنبك وسئل الجنيد عن التوبة فقال: أن تنسى ذنبك۔
ترجمہ: میں نے ابو حاتم السجستانی رحمۃ اللہ علیہ سے سنا ، وہ کہتے ہیں میں نے صوفی باصفا ابو النصر السراج سے سنا ، وہ کہتے ہیں کہ سہیل بن عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے توبہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا ‘‘توبہ یہ ہے کہ تو اپنے گناہوں کو نہ بھولے’’۔ اور حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ توبہ کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا ‘‘توبہ یہ ہے کہ تو اپنے گناہوں کو یاد نہ رکھے’’۔
قال أبو نصر السراج: أشار سهل إلى أحوال المريدين والمتعرضين، تارة لهم، وتارة عليهم، فأما الجنيد فإنه أشار إلى توبة المحققين فإنھم لا يذكرون ذنوبھم بما غلب على قلوبھم من عظمة الله تعالى، ودوام ذكره. قال: وهو مثل ما سئل رويم عن التوبة، فقال: هي التوبة من التوبة۔
ترجمہ: حضرت ابو نصر السراج فرماتے ہیں کہ سہیل بن عبد اللہ نے (توبہ کی اپنی تعریف میں) مریدین و معترضین (مبتدئین) کے احوال کی طرف اشارہ کیا ہے ، کیوں کہ ان کے احوال کبھی ان کے حق میں ہوتے ہیں اور کبھی ان کے خلاف ہوتے ہیں۔ اور حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے (توبہ کی اپنی تعریف میں) متحققین (عرفائے کاملین اور مقربان بارگاہ) کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس لئے کہ ان کے قلوب پر اللہ کی عظمت و جلال کا غلبہ اور اس کے ذکر کو دوام حاصل ہوتا ہے لہٰذا انہیں اپنے گناہوں کو یاد کرنے کی مہلت ہی میسر نہیں ہوتی۔ اور اس کی مثال حضرت رویم رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ جب آپ سے توبہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا ‘‘توبہ سے توبہ کر لینے کا نام ہی توبہ ہے’’۔
وسئل ذا النون المصري عن التوبة: فقال: توبة العوام من الذنوب وتوبة الخواص من الغفلة.
ترجمہ: حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ سے توبہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا ‘‘عوام کی توبہ گناہوں سے ہے اور خواص کی توبہ (یادِ محبوب میں) غفلت سرزد ہو جانے سے ہے۔
وقال أبو الحسين النوري: التوبة أن تتوب من كل شيء سوى الله عز وجل.
ابو الحسين النوری فرماتے ہیں کہ ‘‘توبہ (کی حقیقت) یہ ہے کہ تو اللہ کے علاوہ ہر شئی سے تائب ہو جائے’’۔
سمعت محمد بن أحمد بن محمد الصوفي يقول: سمعت عبد الله بن علي ابن محمد التميمي يقول: شتان مابين تائب يتوب من الزلات، وتائب يتوب من الغفلات، وتائب يتوب من رؤية الحسنات.
میں نے محمد بن احمد بن محمد الصوفی سے سنا، وہ فرماتے ہیں نے عبد اللہ بن علی ابن محمد التمیمی کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو اپنی معصیتوں سے توبہ کرے اس کی توبہ ، جو (یاد محبوب میں) میں اپنی غفلت سے توبہ کرے اس کی توبہ اور جو اپنی نیکیوں کو دیکھنے سے ہی تائب ہو جائے اس کی توبہ کے درمیان کافی فرق ہے، (ان تینوں کی توبہ کیفیت اور نتائج کے اعتبار سے ایک جیسی نہیں ہے)۔
وقال الواسطي: التوبة النصوح لا تبقي على صاحبها أثراً من المعصية سراً ولا جهراً ومن كانت توبته نصوحاً لا يبالي كيف أمسى أو أصبح.
حضرت واسطی نے فرمایا کہ توبہ نصوحہ بجالانے والے پر اس کے ظاہر و باطن میں گناہوں کا ذرہ برابر کوئی اثر باقی نہیں رہتا۔ اور جس کی توبہ ‘‘توبہ نصوحہ’’ ہو اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ اس کی شام کیسی گزری اور اس کی صبح کس کیفیت میں ہوئی۔
وقال ذو النون: الاستغفار من غير إقلاع توبة الكاذبين.
اور حضرت ذوالنون مصری فرماتے ہیں ‘‘گناہوں سے پرہیز کئے بغیر توبہ کرنا کاذبین (جھوٹے لوگوں) کی توبہ ہے۔
وسئل البوشنجي عن التوبة فقال: إذا ذكرت الذنب ثم لا تجد حلاوته عند ذكره، فهو التوبة.
اور حضرت بوشنجی رحمۃ اللہ علیہ سے توبہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ‘‘جب تمہیں گناہ یاد آئے اور اس وقت تم اس گناہ کی حلاوت اور چاشنی (اپنے دل میں) نہ محسوس کرو تو یہی تو (کی حقیقت) ہے۔
جاری.......................
URL for Part-1:
URL for Part- 2:
URL for Part-3:
URL for Part-4:
URL for part-5:
URL for Part-6:
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism