مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام
27 جولائی 2018
ماسبق اقتباسات کا خلاصہ یہ ہے کہ راہ تقویٰ کااختیار کرنا احکامِ الٰہیہ کی نافرمانی اور تمرد sرکشی سے نجات کی ضمانت ہے۔ اور اس کے برعکس اگر کوئی تقویٰ کا دعویٰ کرے درآنحالیکہ اس کا نفس گناہوں کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس کا دعویٰ باطل ہے اور تقویٰ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اس لئے کہ اگر دین غیرت و حمیتِ ایمانی سے خالی ہو تو باقی صرف زنّاری رہ جاتی ہے۔ اور گناہوں کی گٹھری لیکر تقویٰ کی راہ پر چلنا کسی بھی طرح ممکن نہیں۔ جب تک بندہ گناہوں اور نافرمانیوں کو لات مار کر ان سے دور نہ ہو جائے تقویٰ کا نام بھی زبان پر لانا اس کے لئے جائز نہیں ۔ اس لئے کہ تقویٰ کا مقصد معرفت ربانی کا حصول ہے اور بندے اور رب کے درمیان نفس ایک حجاب کی مانند حائل ہے، جب تک یہ حجاب چاک نہیں ہوتا تب تک معرفتِ رب کا تصور بھی ممکن نہیں ہے اور صوفیائے کرام کی ہمیشہ یہی تعلیم رہی ہے کہ حجابِ نفس مخالفت کے بغیر کبھی مرتفع نہیں ہوتا ۔ حتی کہ نفس کی بندگی کرنے والوں سے حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ سخت لہجے میں خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
‘‘ہر چند با خویشتن آشنا تر میشوے آن سدِّ بدبختی و بند بیدولتی محکم تر میشود ۔ و تا باخود آشنائی ازوی بیگانۂ ،از خود بیگانہ شو تا باو آشنا گردی۔ ہر کہ در او راہ سدِّ خوشتن ماند گو خواہ مرقع پوش و سجادہ برگیر و خواہ قبا بربند و تیغ بردارد ہر دو یکی ’’۔
ترجمہ: ‘‘جب تک تو اپنے نفس میں مشغول رہے گا معرفت حق سے محروم رہے گا ، اور (یقین جان کہ) تو نے خود بینی اور نفس پروری سے کنارہ کشی اختیار کی نہیں کہ تجھے (ذات حق) سے آشانائی کی لذت مل گئی۔ اور جو اسی سنگ راہ (خود بینی اور نفس پروری) میں الجھا رہا وہ خواہ خرقہ پوشِ تصوف ہو یا جبہ و دستار باندھے مسند سجادگی پر متمکن کوئی صاحب سجادہ ہو یا ہتھیاروں سے لیس کوئی مسلح سپاہی ہو ، دونوں ایک جیسے ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں’’۔
مخالفت نفس کے متعدد طریقے تصوف میں بیان کئے گئے ہیں۔ جس طرح عبادت ، مجاہدہ اور ریاضت کی کثرت سے نفس کا شر کم ہوتا ہے اسی طرح ریاضت و مجاہدہ پر مداومت کے ساتھ ساتھ گناہوں کا خیال پیدا ہونے پر نفس کی مخالفت سے بھی نفس کے شر سے آزادی ملتی ہے اور بندہ معرفت الٰہی کی جانب دم بہ دم گامزن ہوتا رہتا ہے۔
تقویٰ کے بارے میں مذکورہ تصور حقوق اللہ کے حوالے سے تھا، جبکہ حقوق العباد کے حوالے سے بھی تقویٰ کا ایک تابناک پہلو ہے اور یہ ایک ایسا تصور ہے کہ اگر اسے گلے لگا لیا جائے تو ظلم اور حق تلفی کی بلاء معاشرے سے ٹل جائے گی۔ حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں؛
‘‘تقویٰ آنست کہ بہیچ آفریدہ بچشم تہاون ننگری اگر موری راہ بر تو گیرد زہرہ نداری کہ پائے برو نہی۔’’
ترجمہ: ‘‘پیارے سنو! تقویٰ (کی حقیقت) تو یہ ہے کہ کسی حقیر سے حقیر تر مخلوق پر بھی تیری نظر حقارت سے نہ اٹھے ’’۔
محترم قارئین آپ نے ما سبق میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے حوالے سے ایک مفصل حدیث کا مطالعہ کیا جس میں آپ نے یہ دیکھا کہ کس طرح غلطی سے ایک چیونٹی حضرت علی کے پاؤں سے دب گئی اور پیغمبر اسلام ﷺ نے خواب میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو یہ خبر دی کہ تمہاری اس چھوٹ سی غفلت سے آسمانوں میں ایک زبردست ہنگامہ برپاء ہے ، جس پر آپ ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے برہمی کا اظہار فرمایا اور یہ بھی کہا کہ اگر وہ چیونٹی خود اللہ کی بارگاہ میں تیری جانب سے عذر پیش کر کے تیری بخشش نہیں چاہی ہوتی تو اللہ کی بارگاہ میں تیری بڑی رسوائی ہوتی۔ اس پورے واقعہ کو نقل کرنے کے بعد حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ اپنے مکتوب میں رقمطراز ہیں ،
‘‘شفاعت آن مور ترا کہ شجاع درگاہ مائ بر فتراک منت او بستند و از تو عفو کردند۔ یا علی اگر شفاعت آن مور نبودی آبروئ تو درین درگاہ ریختہ شدی۔ این دانی چیست از حق خویش درگذرند ، اما از حق دوستانِ خویش درنگذرند۔ ہشیار باش کہ ہیچ ذرہ نیست در آفرینش کہ درو این حدیث بروی گذر نکردہ است’’۔
ترجمہ: ‘‘ائے علی اگر وہ چیونٹی تیرے حق میں سفارشی نہ بنتی تو بارگاہ رب العزت میں تیری رسوائی ہوتی۔ کیا تم اب بھی نہیں سمجھے کہ اس کا مطلب کیا ہے! اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے حقوق سے تو درگذر کیا جا سکتا ہے لیکن اپنے دوستوں کے حقوق سے چشم پوشی نہیں کی جاتی۔ میری بات غور سے سن لو اور اچھی طرح یاد رکھو کہ اس کائنات کا ایسا کوئی ذرہ نہیں ہے جسے یہ بات معلوم نہ ہو’’۔
مذکورہ حدیث سے چند باتیں متحقق ہوتی ہیں جو کہ تقویٰ کی روح ہیں ، اور جنہیں نظر انداز کرنے سے کبھی اللہ کی رضا حاصل نہیں کی جا سکتی۔ (۱) حقوق اللہ کی پابندی سے اس کائنات کا کوئی فرد بشر آزاد نہیں ، خواہ وہ اپنے زمانے کا نبی ، رسول ، ولی یا اللہ کا کتنا ہی مقرب بندہ کیوں نہ ہو ۔ (۲) حقوق العباد میں انسان تو انسان ہیں ، جانور ،چرند و پرند اور اللہ کی جاندار و غیر جاندار چھوٹی بڑی تمام مخلوق شامل ہے۔ (۳) حقوق اللہ یعنی اللہ بندوں پر عائد اپنے حقوق معاف کر سکتا ہے لیکن وہ کسی حق العباد کی پامالی معاف نہیں کرے گا۔ (۴)جب تک مظلوم معاف نہ کرے حق العباد اس وقت تک معاف نہیں ہوگا۔ (۵) انسان تو پھر بھی انسان ہے یہ کیوں نہ اللہ کی عبادت کرے ! اس کائنات میں پائے جانے والے تمام بہائم ، حیوانات و جمادات ، عظیم الشان اشجار و ابحار ، سربفلک پہاڑ اور چھوٹے چھوٹے چرند و پرند حتی کہ ماسویٰ اللہ ہر مخلوق کسی نہ کسی صورت میں اللہ کی بندگی اور تسبیح و تہلیل میں مشغول ہے اسی لئے انہیں حقارت کی نظر سے دیکھنا تقویٰ یعنی اللہ سے ڈرنے کے منافی ہے۔
URL for Part -1:https://www.newageislam.com/urdu-section/sufi-discourse-piety-enables-achieve-part-1/d/115819
URL for Part-2: https://www.newageislam.com/urdu-section/sufi-discourse-piety-urges-purify-part-2/d/115864
URL for Part-3: https://www.newageislam.com/urdu-section/sufi-discourse-piety-goes-heaven-part-3/d/115908
URL for Part-4: https://www.newageislam.com/urdu-section/sufi-discourse-taqwah-be-pursued-part-4/d/115919
URL for Part-5: https://www.newageislam.com/urdu-section/sufi-discourse-taqwah-antidote-haughtiness—part-5/d/115941
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism