New Age Islam
Wed Mar 22 2023, 03:09 AM

Urdu Section ( 13 Nov 2018, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Is It Possible To See Allah Almighty Through The Corporeal Eyes? Conclusion Part-9 کیا ان مادی نگاہوں سے ذات باری تعالیٰ کا دیدار ممکن ہے؟

مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام

12 نومبر 2018

اب تک کی تحریروں سے یہ بات واضح ہو چکی کہ ذات باری تعالیٰ کا دیدار ممکن اور واقع ہے اور یہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کی منجملہ خصوصیات میں سے ایک وصف خاص ہے جیسا کہ اکابر ائمہ و محدثین کی تحریروں سے واضح ہے کہ اللہ نے چند جلیل القدر انبیاء علیہم السلام کو کسی نہ کسی ایک خاص وصف کے ساتھ  ضرور متصف فرمایا ہے جو ان کی ذوات مقدسہ میں تمام صفات پر نمایاں ہوتی ہے مثلاً موسیٰ علی نبینا علیہ السلام کو اللہ نے کلیم بنایا یعنی اللہ نے موسیٰ علی نبینا علیہ السلام کو اپنے ساتھ شرف کلام سے مشرف فرمایا یہی وجہ ہے کہ اللہ کے ساتھ ہم کلام ہونا موسیٰ علیہ السلام کی شخصیت میں واضح طور پر نمایاں ہے ، اسی طرح اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تاج خلت سے نواز، ا  لہٰذا اللہ سے دوستی کا پہلو آپ کی زندگی میں سب سے نمایاں نظر آتا ہے ، بلا تشبیہ و بلا مثال بالکل اسی طرح اللہ نے ہمارے نبی ﷺ کو اپنی بارگاہ میں قبولیت اور عظمت و مرتب کے شایانِ شان شرفِ دیدار ذات سے مشرف فرمایا ۔ اور اگر یہ کہا جائے تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ کائنات نبوت میں مقام و مرتبت کے اعتبار سے جس طرح ہمارے نبی ﷺ کا کوئی شریک نہیں اسی طرح بچشم سر ذات باری تعالیٰ کا دیدار کرنے کے  آپ ﷺ کے وصف خاص میں بھی  کسی کا کوئی حصہ نہیں ۔  اس عنوان پر اپنی سلسلہ وار تحریر کی اس آخری کڑی میں راقم الحروف علامہ غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ کی کتاب تبیان القرآن کے حوالے سے آخرت میں مؤمنین کے لئے ذات باری تعالیٰ سے متعلق احادیث کریمہ اور معراج کی شب دیدار الٰہی کے متعلق چند اکابر علماء کے اقوال اختصار کے ساتھ پیش کئے ہیں ملاحظہ ہو:

‘‘امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ۲۵۶ھ روایت کرتے ہیں:

حضرت جریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اچانک آپ نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھا۔ آپ نے فرمایا : تم عنقریب اپنے رب کو اس طرح دیکھوگے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔ تمہیں اس کو دیکھنے سے کوئی تکلیف نہیں ہوگی پس اگر تم یہ کرسکتے ہو کہ طلوع آفتاب سے پہلے نماز پڑھنے سے مغلوب نہ ہو اور غروب آفتاب سے پہلے نماز پڑھنے سے مغلوب نہ ہو تو اس طرح کرو۔

( صحیح البخاری رقم الحدیث :۵۵۴۔۷۴۳۴ تا ۷۴۳۶ ’صحیح مسلم رقم الحدیث :۱۴۰۷ سنن ابوداؤد رقم الحدیث :۴۷۲۹ سنن الترمذی رقم الحدیث ۲۵۶۰ سنن کبریٰ للنسائی رقم الحدیث :۴۶۰ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :۱۷۷ مسند احمد رقم الحدیث ۱۹۲۱۱ طبع جدید مسند احمد ج ۲ص ۳۶۸ طبع قدیم)

امام ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ۲۷۹ ھ روایت کرتے ہیں:

حضرت صہیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا:

للذین احسنوا الحسنیٰ و زیادۃ ( یونس :۲۶) جن لوگوں نے نیک کام کیے ان کے لیے اچھی جزاء ہے اور اس سے بھی زیادہ ۔

آپ نے فرمایا: جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے تو ایک منادی نداء کرے گا کہ اللہ کے پاس تمہارا ایک وعدہ ہے وہ کہیں گے : کیا اللہ تعالیٰ نے ہمارے چہرے سفید نہیں کیے او رہم کو دوزخ سے نجات نہیں دی اور ہم کو جنت میں داخل نہیں کیا؟ وہ کہیں گے کیوں نہیں ! آپ نے فرمایا : پھر حجاب کھول دیا جائے گا آپ نے فرمایا : جنتیو کے نزدیک اس سے زیادہ محبوب کوئی چیز نہیں ہوگی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف دیکھیں ۔( صحیح مسلم رقم الحدیث :۴۴۲ سنن ترمذی رقم الحدیث :۵۶۱السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث :۱۱۲۳۴ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :۱۸۷ مسند احمد ج ۴ص ۳۳۲۔۳۳۳ طبع قدیم)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل جنت کا ادنیٰ درجہ یہ ہوگا کہ وہ اپنی جنتوں اپنی بیویوں اور اپنی نعمتوں اور اپنے خادموں اور اپنی باندیوں کی طرف ایک ہزار سال کی مسافت سے دیکھے گا اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ مکرم وہ ہوگا جو صبح اور شام اس کے چہرے کی زیارت کرے گا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی۔

وجوہ یومئذ ناضرۃ – الی ربھا ناظرۃ ( القبامہ : ۲۲۔۲۳) کتنے ہی چہرے اس دن تر و تازہ ہوں گے۔ اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے۔

امام ترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ ( سنن ترمذی رقم الحدیث :۲۵۶۳)

حضرت ابوبکر بن عبداللہ بن قیس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو جنتیں چاندی کی ہیں ان کے برتن او رجو کچھ ان میں ہے چاندی کا ہے اور دو جنتیں سونے کی ہیں ۔ ان کے برتن اورجو کچھ ان میں ہے سونے کا ہے اور ان لوگوں اور ان کے رب کے دیدار میں صرف اللہ کی کبریائی کی چادر ہے جو جنت عدن میں اس کے چہرے پر ہے ۔

( صحیح البخاری رقم الحدیث :۴۸۷۸ صحیح مسلم رقم الحدیث :۴۴۱ سنن الترمذی رقم الحدیث :۲۵۳۶ السنن الکبریٰ للنسانی رقم الحدیث :۷۷۶۵ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :۱۸۶ صحیح ابن حبان رقم الحدیث :۴۶۱۱ مسند احمد رقم الحدیث :۸۴۲۷ طبع جدید مسند احمد ج ۲ص ۳۳۵۔۳۳۹ طبع قدیم المستدرک ج ۱ص ۸۰)

شب معراج اللہ تعالیٰ کے دیدار کے متعلق علماء امت کے نظریات

علامہ ابوالعباس احمد بن عمر بن ابراہیم مالکی قرطبی متوفی ۶۵۶ ھ ’’ صحیح مسلم‘‘ کی شرح میں لکھتے ہیں :

متقدمین اور متاخرین کا اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے میں اختلاف رہا ہے۔ اکثر مبتدعین دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے کا انکار کرتے ہیں اور اہل السنہ اور اہل السلف دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے دکھائی دینے کے جواز اور وقوع کے قائل ہیں۔ پھر اس میں بھی متقدمین اور متاخرین کااختلاف ہے کہ ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے یا نہیں ؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما حضرت ابوہریرہ مشہور روایت کے مطابق حضرت ابن مسعودسلف صالحین اور متکلمین اور محدثین کی ایک جماعت نے اس کا انکار کیا ہے اور سلف صالحین کی ایک عظیم جماعت نے یہ کہا ہے کہ سید نا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہی مسلک ہے۔ انہوں نے کہا: حضرت موسیٰ کلام کے ساتھ خاص کیے گئے ۔ حضرت ابراہیم خلت کے ساتھ اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم رؤیت کے ساتھ خاص کیے گئے حضر ابوذر ’ کعب‘ حسن بصری اور امام احمد حنبل کایہی نظریہ ہے اور حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابن مسعودسے بھی ایک یہی روایت ہے۔امام ابوالحسن اشعری اور ان کے اصحاب کی ایک جماعت سے بھی یہی منقول ہے مشائخ کی ایک جماعت نے توقف کاقول کیا ہے۔ انہوں نے کہا: اس کی نفی اور اثبات پر کوئی قطعی دلیل نہیں ہے لیکن یہ عقلاً جائز ہے اور یہی صحیح ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنا عقلاً اور نقلاً جائز ہے عقلی دلائل علم کلام میں ہیں اور نقلی دلائل میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا رؤیت کاسوال کرنا ہے کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کو دیکھنا محال ہوتا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کا سوال نہ کرتے ۔ احادیث متواترہ سے یہ ثابت ہے کہ مؤمنین آخرت میں اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے ۔ ( المفہم ج ۱ص ۴۰۱۔۴۰۲ مطبوعہ دارابن کثیر بیروت ۱۴۱۷ھ)

امام ابوعبداللہ محمد بن احمد قرطبی مالکی متوفی ۶۶۸ھ لکھتے ہیں :

عبداللہ بن الحارث نے بیان کیا کہ حضرت ابن عباس اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہم کی ملاقات ہوئی۔ حضرت ابن عباس نے کہا: ہم بنو ہاشم یہ کہتے ہیں کہ سید نامحمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ہے۔ پھر حضرت ابن عباس نے کہا: کیا تم اس پر تعجب کرتے ہو کہ خلت حضرت ابراہیم کے لیے ہو اور کلام حضرت موسیٰ کے لیے اور دیدار سید نا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہو؟ پھر حضرت ابی بن کعب نے بہت بلند آواز سے کہا: اللہ اکبر ! حتیٰ کہ پہاڑ گونج اٹھے ۔ پھر حضرت ابن عباس نے کہا: اللہ تعالیٰ نے رؤیت اور کلام کو سید نا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسیٰ علی نبینا علیہ السلام کے درمیان تقسیم کردیا ہے اور امام عبدالرزاق نے روایت کیا ہے کہ حسن بصری اللہ کی قسم کھاکر کہتے تھے کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھاہے اور ابو عمرالطلمنکی نے اس قول کو عکرمہ سے روایت کیا ہے اور بعض متکلمین نے اس قول کو حضرت ابن مسعود سے بھی روایت کیا اور امام ابن اسحاق نے روایت کیا ہے کہ مروان نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سوال کیاکہ کیا سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں اور نقاش نے امام احمد بن حنبل سے روایت کیا ہے انہوں نے کہا : میں حضرت ابن عباس کی حدیث کے مطابق کہتاہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھا ہے۔

وہ بار بار کہتے رہے کہ آپ ﷺ نے اپنی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھا ہے حتیٰ کہ امام احمد کا سانس منقطع ہوگیا ۔ شیخ ابوالحسن اشعری اور ان کے اصحاب کا بھی یہی نظریہ ہے کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کواپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ حضرت انس ، حضرت ابن عباس ، عکرمہ ربیع اور حسن بصری کا بھی یہی نظریہ ہے۔ امام بوالعالیہ، قرظی اور ربیع بن انس کا یہ قول ہے کہ آپ نے اپنے رب کو اپنے دل سے دیکھا ہے ۔ حضرت ابن عباس او رعکرمہ سے بھی یہ قول منقول ہے۔ علامہ ابن عبدالبر نے امام احمد سے بھی اس قول کی حکایت کی ہے۔ امام مالک بن انس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں نہیں دکھائی دیتا کیونکہ اللہ تعالیٰ باقی ہے اور فانی آنکھوں سے باقی کو نہیں دیکھا جاسکتا اور جب مسلمان آخرت میں پہنچیں گے تو ان کو باقی رہنے والی آنکھیں دی جائیں گی تو پھر باقی آنکھوں سے باقی ذات کو دیکھ لیں گے ۔ قاضی عیاض نے کہا: یہ عمدہ کلام ہے ۔ اس دلیل کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنا محال ہے بلکہ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ دیکھنے والوں کی اس دنیا میں قدرت ضعیف ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے اتنی قدرت عطا فرمادے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دیدار کا بوجھ اٹھا سکے تو اس کے حق میں اللہ تعالیٰ کی رؤیت ممتنع نہیں ہے۔ ( الجامع لاحکام القرآن جز ۷ ص ۵۱۔۵۲ مطبوعہ دارالفکر بیروت ۱۴۱۵ھ—بحوالہ تبیان القرآن مصنفہ علامہ غلام رسول سعیدی ، جلد ۱۱ صفحہ ۱۱۳-۱۱۰)

URL for Part-1: https://www.newageislam.com/urdu-section/is-possible-see-allah-almighty-part-1/d/116668

URL for Part-2: https://www.newageislam.com/urdu-section/is-possible-see-allah-almighty-part-2/d/116688

URL for Part-3: https://www.newageislam.com/urdu-section/is-possible-see-allah-almighty-part-3/d/116705

URL for Part-4: https://www.newageislam.com/urdu-section/is-possible-see-allah-almighty-part-4/d/116722

URL for Part-5: https://www.newageislam.com/urdu-section/is-possible-see-allah-almighty-part-5/d/116743

URL for Part-6: https://www.newageislam.com/urdu-section/is-possible-see-allah-almighty-part-6/d/116760

URL for Part-7: https://www.newageislam.com/urdu-section/is-possible-see-allah-almighty-part-7/d/116769

URL for Part-8: https://www.newageislam.com/urdu-section/is-possible-see-allah-almighty-part-8/d/116803

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/is-possible-see-allah-almighty-part-9/d/116873

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


 

Loading..

Loading..