مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام
27 اکتوبر 2018
شب معراج دیدار الہٰی کے متعلق علماء مالکیہ کا نظریہ اور ان کے دلائل :
علامہ غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ اپنی کتاب شرح صحیح مسلم میں علمائے مالکیہ کا نظریہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں
قاضی عیاضی مالکی رحمتہ اللہ لکھتے ہیں: متقدمین علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا ہے یا نہیں؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما اس کا انکار کرتی تھیں ، مسروق بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے پوچھا اے ام المؤمنین کیا سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب عز و جل کو دیکھا ہے؟ حضرت عائشہ نے فرمایا تمہاری اس بات سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے،جو شخص بھی تم کو یہ تین باتیں بتائے اس نے جھوٹ بولا، جو شخص بھی یہ کہے کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب عز وجل کو دیکھا ہے اس نے جھوٹ بولا ، پھر حضرت عائشہ نے یہ آیت پڑھی:
لاتدرکہ الابصار (انعام 103)
ترجمہ: آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں ۔
پھر پوری حدیث ذکر کی علماء کی ایک جماعت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے نظریہ کی قائل ہے، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کامشہور قول بھی یہی ہے، اس کی مثل حضرت ابوہریرہ نے کہا کہ آ پ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا تھا، محد ثین اور فقہا ء کی ایک جماعت نے کہا کہ دنیا میں رویت باری ممتنع ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ نے اپنے رب کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، اور عطا ء نے حضرت ابن عباس سے یہ روایت کیا ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کواپنے دل سے دیکھا ، اور امام ابو العالیہ سے روایت ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل سے دو بار دیکھا، امام ابن اسحاق سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس ایک شخص کو بھیجا اور یہ پوچھا کہ کیا سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کودیکھا ہے حضرت ابن عباس نے فرمایا : ہاں ! حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے زیادہ مشہور روایت یہ ہے کہ آپ نے اپنے رب کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ، یہ حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے متعدد اسانید سے مروی ہے، حضرت ابن عباس نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو کلام کے ساتھ مختص کیا، حضرت ابراہیم کو خلت کے ساتھ اور حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رویت کے ساتھ مختص کیا، حضرت ابن عباس کی دلیل یہ آیت ہے:
مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىٰ- أَفَتُمَارُونَهُ عَلَىٰ مَا يَرَىٰ- وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ (النجم 13-11)
ان کے دل نے اس کے خلاف نہ کہا جو ان کی آنکھ نے دیکھا ، تو جوانہوں نے دیکھا تھا کیا تم اس پر جھگڑتے ہو؟ او ربے شک انہوں نے اسے دوسری بار ضرور دیکھا۔
امام مادردی نے کہا اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام او راپنی رویت کو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان تقسیم کردیا حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کو دیکھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دو بار اللہ تعالیٰ سے کلام کیا۔
ابوالفتح رازی اور ابو لیث سمر قندی نے کعب سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عباس اور حضرت کعب کی ملاقات ہوئی، حضرت ابن عباس نے فرمایا: ہم بنو ہاشم یہ کہتے ہیں کہ حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ہے، یہ سن کر کعب نے بلند آواز سے اللہ اکبر کہا حتیٰ کہ پہاڑ گونج اٹھے او رکہا اللہ تعالیٰ نے اپنی رویت او راپنے کلام کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درمیان تقسیم کردیا ہے، حضرت موسیٰ سے اللہ نے کلام کیا ، اور حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو اپنے قلب سے دیکھا اور شریک نے اسی آیت کی تفسیر میں حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے یہ نقل کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا اور سمر قندی نے محمد بن کعب قرظی اور ربیع بن انس سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ آپ نے فرمایامیں نے اپنے رب کو دل سے دیکھا ہے اس کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ، اور مالک بن یخامر نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب کو دیکھا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ملأ اعلی کس چیز میں بحث رہے ہیں ؟ الحدیث۔
امام عبدالرزاق نے روایت کیا ہے کہ حسن بصری اللہ کی قسم کھا کر کہتے تھے کہ بے شک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے، یہ حدیث عکرمہ سے بھی مروی ہے اور بعض متکلین نے اس کو حضرت ابن مسعود سے بھی روایت کیا ہے اور مام ابن اسحاق نے روایت کیا ہے کہ مردان نے حضرت ابوہریرہ سے پوچھا کہ کیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں!
نقاش نے روایت کیا ہے کہ امام احمد بن حنبل نے فرمایا میں حضرت ابن عباس کی حدیث کا قائل ہوں آپ نے اپنے رب کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، آپ نے اپنے رب کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ،امام احمد ان کلمات کو اتنی بار دہراتے کہ ان کا سانس منقطع ہوجاتا، ابو عمر نے کہا امام احمد نے فرمایا آپ نے اپنے رب کو اپنے دل سے دیکھا۔
اب عطاء نے الم نشرح لک صدرک کی تفسیر میں کہا آپ کا سینہ رویت کے لئے کھول دیا اور حضرت موسیٰ کا سینہ کلام کے لیے کھول دیا ۔ ابو الحسن علی بن اسماعیل اشعری رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب کی ایک جماعت نے کہا کہ آپ نے اللہ کو اپنی بصر اور سر کی آنکھوں سے دیکھا ہے او رکہا کہ جس نبی کوبھی جو معجزہ دیا گیا اس معجزہ کی مثل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی ہے اوررویت سے آپ کو تمام انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے۔ (قاضی عیاض بن موسی مالکی متوفی ۵۴۴ ھ ، الشفاء ، ص ۱۲۱-۱۱۹ ، ملخصاً ، مطبوعہ عبد التواب اکیڈمی ملتان –بحوالہ شرح صحیح مسلم از علامہ غلام رسول سعیدی )
ملا قرطبی ملکی ما کذب الفوا دما رای کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے آپ کی بصر آپ کے دل میں رکھ دی حتیٰ کہ آپ نے اپنے رب کو دیکھ لیا، اور اللہ تعالیٰ نے اس کو رویت کرد یا، ایک قول یہ ہے کہ آپ نے سر کی آنکھوں سے حقیقتہ دیکھا، پہلا قول حضرت ابن عباس سے مروی ہے اور صحیح مسلم میں ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل سے دیکھا، یہ حضرت ابو ذر اور صحابہ کی ایک جماعت کا قول ہے ، دوسرا قول حضرت انس او رایک جماعت کا ہے، نیز حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ تم کو اس پر تعجب ہے کہ خلت حضرت ابراہیم کے لئے ہو، کلام حضرت موسیٰ کے لیے ہو اور رویت حضرت سید نا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہو ! نیز حضرت ابن عباس نے فرمایا ہم بنو ہاشم یہ کہتے ہیں کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دوبار دیکھا ۔ (علامہ ابوعبد اللہ بن عبد اللہ مالکہ فرطبی متوفی ۶۶۸ھ ، الجامع لاحکام القرآن ، ج ۱۷ ، ص ۹۲ ، مطبوعہ انتسارات ناصر خسرو ایران ۱۳۸۷ ھ - بحوالہ شرح صحیح مسلم از علامہ غلام رسول سعیدی)
علامہ سنوسی مالکی لکھتے ہیں:
اس مسئلہ میں چار قول ہیں (حضرت عائشہ اور حضرت ابن مسعود رویت باری کا انکار کرتے ہیں، حضرت ابن عباس کا ایک قول یہ ہے کہ آپ نے دل کی آنکھ سے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ، حضرت ابن عباس کا مشہور قول اور حضرت انس کا نظریہ یہ ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کو سر کی آنکھوں سے دیکھا، امام ابوالحسن اشعری کا بھی یہی مذہب ہے اور بعض مثائخ نے اس مسئلہ میں توقف کیا ہے، تابعین میں سے سعید بن جبیری کی یہی رائے ہے) ان میں زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ آپ نے اپنے رب کو سر کی آنکھوں سے دیکھا ہے اور دنی فدلی کا معاملہ اللہ تعالیٰ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ہوا ہے اور اس سے قرب مجازی مراز ہے۔ (علامہ محمد بن سنوسی مالکی متوفی ۸۹۵ھ ، مکمل اکمال المعلم ج ۱ ، ص ۳۲۷ ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت -بحوالہ شرح صحیح مسلم از علامہ غلام رسول سعیدی)
علامہ دشتانی ابی مالکی لکھتے ہیں:
اس میں اختلاف ہے کہ آیا شب معراج سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا کلام سنا ہے یا نہیں حضرت ابن عباس متقدمین کی ایک جماعت ،امام ابو الحسن اشعری اور متکلمین کے ایک طائفہ کا یہ نظریہ ہے کہ اس رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا کلام سنا ہے او ران کی دلیل یہ آیت ہے:
فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ (النجم :10)
ترجمہ: تو اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی اپنے عبد خاص کو جو وحی فرمائی۔
انہوں نے کہا اس آیت کا منشا ء یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل کے واسطہ کے بغیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل فرمائی اور بعض علماء نے سماع کلام کی نفی کی ہے میں کہتا ہوں کہ اس وقت کلام کا سننا جائز ہے اور اس کے یقینی ثبوت کے لئے دلیل قطعی کی ضرورت ہے اور جب حضرت موسی علیہ السلام کا کلام کے ساتھ مشرف ہونا واقع ہے تو نبی ﷺ کلام کے ساتھ مشرف ہونے کے زیادہ حقدار ہیں ۔
URL for Part-1:
URL for Part-2:
URL for Part-3:
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism