ارشد عالم، نیو ایج اسلام
21 جولائی 2021
مدارس کو مسلمانوں کا نجی
شعبہ سمجھنا ایک نئی فکر ہے
اہم نکات:
1 قرون وسطی کی مسلم دنیا میں ایسا کوئی
طرہ امتیاز نہیں تھا
2 نصاب میں بھی نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں
3 دیوبند نے علوم عقلیہ کو نصاب سے خارج کر
دیا جو کہ خود ایک نیا موضوع تھا
-----
مدارس کے بارے میں ایک
کافی پرانی بات یہ کہی جاتی ہے کہ وہ صدیوں سے اسی طرح ہیں۔ اگر مدرسے کے کسی
مینیجر سے یہی سوال کیا جائے تو یہ جواب ملتا ہے کہ یہ ادارہ محمد رسول اللہ کے
زمانے میں قائم ہونے کے بعد سے اسی طرح ہے۔ یہ دعویٰ نہ صرف تاریخی اعتبار سے غلط
ہے بلکہ عقل کے بھی خلاف ہے۔ جزوی طور پر یہ دلیل مسلمانوں نے یہ ثابت کرنے کے لیے
دی ہے کہ مدارس شروع سے ہی مسلم ثقافت کا حصہ رہے ہیں لہٰذا اس میں اصلاح کی بات
کرنا ان کی تاریخی وراثت پر حملہ ہے۔ واقعی اس دلیل نے انہیں ریاستی دخل اندازی سے
محفوظ رکھا ہے کیونکہ وہ حکومت ہند کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں
کہ مسلم ثقافت کا ایک حصہ ہونے کی وجہ سے مدارس مسلمانوں کا ایک داخلی معاملہ ہے۔
درحقیقت، اسلامی تعلیم کو
مسلمانوں کا نجی شعبہ سمجھنا خود ایک نئی فکر ہے۔ اس لئے کہ نجی اور عوامی کے
درمیان فرق پہلی بار برطانوی نوآبادیاتی ریاست نے پیش کیا تھا۔ اس امتیاز نے مذہب
کو ایک 'نجی' معاملہ بنا دیا اور اسے متعلقہ معاشروں کے ہاتھوں میں ہی رہنے دیا۔
1867 میں قائم شدہ دیوبند نے اس فرق کو اپنایا کیونکہ یہ نوآبادیاتی منطق انہیں
کافی راس آئی۔ وہ ہمیشہ یہ کہہ سکتے تھے کہ چونکہ مذہب مسلمانوں کا نجی معاملہ ہے
اور وہ اس کے نگہبان ہیں لہٰذا اس معاملے میں ہر ریاستی مداخلت کی مزاحمت کی جائے
گی۔ یہ فرق مسلم دنیا میں کہیں نہیں تھا۔ در حقیقت ہندوستان کے اندر مذہبی معاملات
ہمیشہ عوامی نوعیت کے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، دیگر معاملات میں بھی علماء نے ہمیشہ
یہ دلیل دی ہے کہ اسلام ایک مکمل مذہب ہے جو زندگی کے تمام پہلوؤں کو منظم کرتا ہے
خواہ وہ عوامی ہوں یا نجی۔ لیکن اس نوآبادیاتی امتیاز کا استعمال کیا گیا کیونکہ
یہ ان کے منصوبے کے مطابق تھا۔
اب مدرسے کی نوعیت بھی
تبدیل ہو چکی ہے۔ آج مدارس بنیادی طور پر خاص مذہبی تعلیم کے مراکز سمجھے جاتے
ہیں۔ لیکن کیا یہ اپنے آغاز سے ہی ایسے تھے یا یہ مدارس کی ایک نئی شناخت ہے؟ ایسا
لگتا ہے کہ صرف اسلامی تعلیم کے ساتھ مدرسے کا یہ تعلق صدیوں پرانا نہیں ہے بلکہ
یہ دارالعلوم دیوبند کے قیام کے ساتھ شروع ہوا ہے۔ اس سے پہلے اسلامی تعلیم منظم
نہیں تھی اور زیادہ تر تقویٰ کی انفرادی کوششوں کا نتیجہ تھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں
ہے کہ بادشاہ یا ریاست نے کوئی مدرسہ ہی قائم نہیں کیا تھا بلکہ وہ اپنے آپ میں
ادارے نہیں ہوتے تھے کیونکہ وہ ذاتی نوعیت کے تھے۔
کیوں کہ ان میں کوئی
مقررہ یا معیاری نصاب نہیں ہوتا تھا بلکہ یہ انفرادی طور پر اساتذہ کی طبعیت اور
میلان پر منحصر تھا۔ یعنی کوئی استاذ حدیث کی کسی ایک خاص کتاب میں مہارت رکھتا
اور طلباء دور دراز علاقوں سے چل کر اس سے حدیث کی اس خاص کتاب کا درس لینے آتے۔
لیکن یہ ضروری نہیں تھا کہ ایسے اساتذہ صرف مذہبی علوم کے ہی ماہر ہوں۔ بلکہ
اساتذہ طب اور فلکیات وغیرہ کے علوم میں بھی ماہر ہوتے تھے اور ایسے خاص علوم کے
خواہشمند طلباء ان سے پڑھنے کے لئے آتے تھے۔ قرون وسطی کے بیشتر عرصے تک علوم
اسلامیہ میں تخصص کا کوئی ایسا رواج نہیں تھا جو آج ہے۔ زیادہ تر دینی اساتذہ طب
کو ہی اپنا پیشہ بناتے تھے۔
معیاری نصاب تعلیم کی طرف
پہلا قدم درس نظامی کا نظم تھا جو سب سے پہلے لکھنؤ کے فرنگی محل مدرسہ میں 18 ویں
صدی کے اوائل میں وضع کیا گیا۔ پہلی بار یہ متعین نصاب تعلیم پیش کیا گیا جس کے
تحت یہ طے ہوا کہ ایک مخصوص مدت میں یہ مخصوص نصاب مکمل کر لیا جائے گا۔ اس کے
علاوہ یہ نصاب معقولات سے بھرا ہوا تھا اور منقولات کا مواد کافی قلیل تھا۔ قرآن
اور حدیث کی صرف ایک ایک کتابیں پڑھائی جاتی تھیں۔ مدارس کے معیاری نصاب تعلیم کا
یہ عمل اورنگ زیب کی موت (1707) کے بعد رک گیا لیکن یہ نصاب اس قدر مروج و متداول
تھا کہ مستقبل میں قائم ہونے والے تمام مدارس میں اسے درس نظامی کے نام سے رائج کر
دیا گیا۔
یہاں تک کہ دیوبند نے بھی
ایسا ہی کیا لیکن دیوبند نے اپنے نصاب میں بنیادی تبدیلی یہ کی اس نے معقولات کو
مکمل طور پر خارج کر دیا اور منقولات کا اضافہ کرتے ہوئے تمام صحاح ستہ کو شامل
نصاب کر لیا۔ در اصل دار العلوم دیوبند کے بانی مولانا قاسم نانوتوی نے دوٹوک
انداز میں یہ کہا کہ معقولات پڑھنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ اس کی
تردید کی نیت سے پڑھی جائے۔ فلسفہ کے خلاف بھی ایسی ہی نفرت تھی جسے غیر اسلامی
قرار دیا گیا تھا۔ لہٰذا ہم نے دیکھا کہ دیوبند میں مدرسے کی نوعیت کے اعتبار سے
کافی تبدیلی آئی ہے جو کہ اب تک قائم ہے۔ اس کے بعد مدارس کو صرف مذہبی اداروں میں
شمار کیا جانے لگا۔ عصر حاضر میں صرف مذہبی تعلیم کے مراکز کے طور پر مدارس کی جو
شناخت قائم ہوئی ہے اس میں دیوبند کا کافی دخل ہے۔
نوآبادیات اور مسلم
طاقتوں کی شکست کے دور میں یہ تبدیلی رونما ہوئی۔ ایسا صدیوں میں پہلی بار ہوا تھا
کہ مسلم اشرافیہ ریاستی طاقت سے محروم تھا۔ مذہبی اشرافیہ کے لیے اقتدار کا ہاتھ
سے نکل جانا اس لیے ہوا کہ مسلمان 'حقیقی' اسلام کے راستے سے ہٹ چکے تھے۔ سیاسی
طاقت کا چھن جانا ان کے لئے اللہ کا ایک عذاب تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کو خدا
کے مطابق تعلیم دینا اور انہیں اسلام کا حقیقی پیروکار بنانا ضروری ہو چکا تھا۔
عوام کے اندر دینی شعور بیدار کرنے کے لئے تعلیم ایک اہم ہتھیار بن چکا تھا۔ لیکن
یہ تعلیم صرف قرآن اور حدیث پر مبنی ہونی چاہیے تھی۔ مدرسے کی نوعیت میں یہ تبدیلی
مسلمانوں کے مفادات کے لیے نقصان دہ رہی لیکن یہ ایک الگ قصہ ہے۔
یہ دلیل کہ مدارس میں
کوئی تبدیلی نہیں ہوئی بے بنیاد ہے۔ اس لئے کہ اس میں وقتا فوقتا نصاب، اہداف و
مقاصد اور اصول و منہج کے حوالے سے تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔ اس لیے موجودہ مدارس کے
نظام کو 'روایتی' نہیں سمجھا جانا چاہیے بلکہ اسے جدید نوآبادیاتی حالات کا آئینہ
دار سمجھا جانا چاہیے۔
English Article: The Understanding Of Madrasas As Traditional Institutions Is Erroneous; They Have Been Shaped By The Modern Colonial Context
Malayalam Article: The Understanding Of Madrasas മദ്രസകളെ
പരമ്പരാഗത സ്ഥാപനങ്ങളായി മനസ്സിലാക്കുന്നത് തെറ്റാണ്; അവ
രൂപപ്പെട്ടത് ആധുനിക കൊളോണിയൽ സന്ദർഭത്താലാണ്
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism