ڈاکٹر اسرار احمد
(دوسرا
حصہ)
17 ستمبر،2021
باطنی و ظاہری آداب:قرآن
مجید کی تلاوت کرتے ہوئے چند آداب کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ جن میں سے بعض ظاہری
نوعیت کے آداب ہیں اور بعض کا تعلق انسان کے باطن سے ہے۔ ظاہری آداب میں باوضو
ہونا‘ لباس کا پاک ہونا اور قبلہ رُو ہو کر با ادب بیٹھنا شامل ہیں۔ اسی طرح
آدابِ تلاوت میں سے یہ بھی ہے کہ تلاوت کی ابتداء ’’اَعوُذ بِاللّٰہِ مِنَ
الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم‘‘ اور بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم سے کی جائے۔
باطنی نوعیت کے آداب یہ ہیں کہ دل میں اللہ اور اس کے کلام کی عظمت کا احساس ہو
اور اللہ تعالیٰ کے محاسبے کا خوف اور اس کی محبت کا جذبہ دل میں پیدا کرنے کی نیت
ہو۔ اسی طرح تلاوت ہمیشہ ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے کرنی چاہئے اور دل میں یہ
ارادہ ہونا چاہیے کہ جو کچھ سمجھ میں آیا اس پر عمل کروں گا۔ قرآن کے تقاضوں کے
مطابق اپنی زندگی کے رُخ کو موڑ دوں گا۔
روزانہ کا معمول:
قرآن حکیم کی تلاوت کا حق ادا کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی تلاوت کو
باقاعدہ اپنے روزانہ کے معمولات میں شامل کیا جائے۔ روزانہ کتنی تلاوت کی جائے، اس
میں کمی و بیشی کی کافی گنجائش موجود ہے۔ مختلف لوگوں کے لئے اس کی تعداد مختلف ہو سکتی ہے۔ تاہم
روزانہ کم سے کم ایک پارہ ضرور پڑھنا چاہئے تاکہ ایک ماہ میں قرآن حکیم کی تلاوت
مکمل ہو جائے۔ صحابہ کرامؓ کا معمول یہ تھا کہ روزانہ ایک حزب کی تلاوت کر کے سات
دن میں قرآن مکمل کر لیا کرتے تھے۔ اور یہ بات تو آپ کو معلوم ہو گی کہ قرآن
مجید کےکل سات احزاب ہیں اور ہر حزب تقریباً ساڑھے چار پاروں پر مشتمل ہوتا ہے جس
کی تلاوت انتہائی سکون اور آرام سے دو گھنٹوں میں کی جا سکتی ہے۔
خوش الحانی:
اللہ کے رسول ﷺ نے تاکیداً فرمایا ہے کہ ’’زَیِّنُو الْقُرْاٰنَ بِاَصْوَاتِکُمْ‘‘
یعنی قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کرو اور اس معاملہ میں کوتاہی پر بڑے سخت
الفاظ میں تنبیہ فرمائی ہے: ’’مَنْ لَمْ یَتَغَنَّ بِالْقُرْاٰنِ فَلَیْسَ
مِنَّا‘‘ یعنی جو شخص قرآن کو خوش الحانی سے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اس
لئے ہمیں اپنی کوشش کی حد تک قرآن کو بہتر سے بہتر انداز میں اور اچھی سے اچھی
آواز سے پڑھنا چاہئے۔
ترتیل:
قرآن کی تلاوت کا حق ادا کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اسے ترتیل کے انداز
میں پڑھیں۔ ترتیل کا مطلب ہے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا۔ یعنی قرآن کی ہر آیت پر رُکتے
ہوئے اس کے معنی اور مفہوم کو سمجھتے ہوئے اور اس کے اثرات کو دل میں سموتے ہوئے
پڑھا جائے۔ خود نبی کریم ﷺ کو شروع ہی میں یہ حکم دے دیا گیا تھا کہ:’’اے کمبل میں
لپٹ کر لیٹنے والے (محمدؐ)آپ رات کو (نماز میں) قیام فرمایا کریں مگر تھوڑی دیر
(کے لئے)، آدھی رات یا اِس سے تھوڑا کم کر دیں، یا اس پر کچھ زیادہ کر دیں اور
قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کریں۔ ‘‘ (المزمل: ۱؍تا۴) علامہ
اقبالؔ نے اس رات کے قیام کی کتنے خوبصورت انداز میں ترغیب دلائی ہے کہ ؏ ’’کچھ
ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحرگاہی‘‘۔
حفظ: قرآن کی تلاوت ہی کا ایک گوشہ حفظ قرآن بھی ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا
جاتا ہے کہ حفظ القرآن پورے کے پورے قرآن کو زبانی یاد کر لینے کا نام ہے اور یہ
کام کسی خاص طبقے کے لوگوں کے کرنے کا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ خیال درست نہیں۔ بلکہ حفظ
قرآن سے مراد یہ ہے کہ ہر مسلمان زیادہ سے زیادہ قرآن کو یاد کرنے کی کوشش کرتا
رہے تاکہ وہ اِس قابل ہو سکے کہ نفل نمازوں میں اور خاص طور پر تہجد کی نماز میں
زیادہ سے زیادہ قرآن پڑھ سکے۔ اس لئے کہ نبی اکرم ﷺ کا معمول یہی تھا کہ آپؐ
تہجد کی نماز میں طویل قرأ ت کیا کرتے تھے۔ بعض اوقات ایک ایک رکعت میں کئی کئی
پاروں کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ لہٰذا ہم میںسے ہر شخص کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ
قرآن کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور یاد کرے … اور قرآن مجید کے آخری تین چار پارے تو
ہم میں سے ہر شخص کو یاد ہونے چاہئیں اس لئے کہ آخری پاروں میں سورتیں زیادہ طویل
نہیں ہیں اور عام طور پر نمازوں میں انہی کو پڑھا جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص پورے
قرآن کو حفظ کرنے کا اہتمام کرتا ہے تو یقینا اس کے لئے بہت بڑا اجر ہے جس کا
تذکرہ حضور ﷺ کی احادیث میں موجود ہے۔
تیسرا حق: قرآن کو سمجھا
جائے
قرآن مجید کا تیسرا حق
یہ ہے کہ اسے سمجھا جائے۔ قرآن مجید دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہےـ
لیکن یہی وہ سب سے زیادہ مظلوم کتاب بھی ہے جو سب سے زیادہ بغیر سمجھے پڑھی جاتی
ہے۔ ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ خدانخواستہ بغیر سمجھے اس کی تلاوت کا کوئی ثواب
نہیں ہے۔ آنحضور ﷺ کا وہ فرمان مبارک ہمارے سامنے ہے جس میں آپؐ نے فرمایا ہے کہ
قرآن مجید کے ہر حرف پر دس نیکیاں ہیں۔ پھر آپؐ نے مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ الٓـمّ
تین حروف ہیں، ان کی تلاوت پر تیس نیکیاں
ملتی ہیں۔ آپؐ کے اس قول مبارک سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بغیر سمجھے تلاوت کرنا
بھی ثواب سے خالی نہیں۔ لیکن ہمارے لئے قابل غور بات یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے
دنیاوی تعلیم حاصل کرنے میں تمام زندگیاں کھپا دیں لیکن اللہ کے دین کو سمجھنے کے
لئے بنیادی عربی تک نہ سیکھ سکے،وہ اللہ کے ہاں کیا جواب دیں گے؟ ہم اگر دنیاوی
تعلیم حاصل کرنے کے لئے بیس سال لگا دیتے ہیں اور دولت کمانے کی خاطر ہر قسم کی
اجنبی زبان سیکھنے کے لئے ہر دَم تیار رہتے ہیں لیکن اللہ کے پاک کلام کو سمجھنے
کی خاطر عربی زبان سیکھنے کی کوشش تک نہیں کرتے تو اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ
ہماری نگاہوں میں اللہ کے کلام کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ اپنے اس طرز عمل سے جو
گویا قرآن کی تحقیر کے مرکتب ہو رہے ہیں جو بہت بڑا جرم ہے۔ لہٰذا وہ تمام لوگ
جنہوں نے دنیاوی تعلیم حاصل کی ہے یعنی ایف اے، بی اے یا ایم اے وغیرہ کیا ہے ان
کے لئے عربی زبان سیکھنا از بس ضروری ہے۔
قرآن مجید کے سمجھنے اور
اس سے نصیحت اخذ کرنے کے دو درجے ہیں۔ پہلا درجہ ’’تذکُرّ‘‘ کا ہے۔ تذکُرّ
کا لفظ ’’ذکر‘‘ سے بنا ہے جس کا مطلب ہے یاددہانی۔ یہ بات آپ کے علم میں
ہو گی کہ قرآن اپنے آپ کو ’’ذکریٰ‘‘ بھی کہتا ہے یعنی مجسم یاددہانی اور نصیحت۔
یاددہانی ہمیشہ کسی بھولی بسری بات کی کرائی جاتی ہے اور یاددہانی کے لئے کوئی
نشانی بہت کارآمد ثابت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ کے کسی عزیز دوست نے چند سال
قبل آپ کو تحفے میں کوئی عمدہ قلم دیا۔ وہ قلم آپ اپنی الماری کے کسی گوشے میں
رکھ کر بھول گئے۔ اُس دوست سے بھی کئی سال سے ملاقات نہ ہو سکی۔ اب اچانک کسی دن
آپ کو الماری میں دوست کا دیا ہوا وہ قلم نظر آ جاتا ہے۔ اس نشانی کو دیکھتے ہی
اس دوست کی یاد بھی تازہ ہو جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح قرآن کی آیات بھی نشانی کا
کام کرتی ہیں۔ ہم اپنی غفلت کی وجہ سے اللہ کو بھول جاتے ہیں، لیکن جب قرآن
کی تلاوت کرتے ہیں تو اُس کا ایک ایک جملہ
نشانی کا کام کرتا ہے۔ اور اس پر غور کرنے سے اللہ کی یاد دل میں تازہ ہو جاتی ہے۔
اس اعتبار سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ’’وعدۂ الست‘‘ (اس عہد کا ذکر سورۃ الاعراف
، آیت نمبر ۱۷۲؍میں
ہے) جو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں سے
اُس وقت لیا تھا جب ابھی صرف ارواح کی تخلیق ہوئی تھی، اس کو یاد دلانے کے لئے
قرآن مجید کو نازل کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کے ہر جملے کو آیت کہا
جاتا ہے جس کا مطلب ہے نشانی۔ یعنی قرآن کی آیات کو اگر ہم سمجھ کر پڑھیں تو
اللہ پر ایمان اور اس کی بندگی کے عہد کی یاددہانی ہو جاتی ہے۔ اور چونکہ اِس
یاددہانی کی ضرورت ہر شخص کو ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اس پہلو سے نہایت
آسان بنا دیا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے: ’’ہم نے قرآن کو یاددہانی کے لئے آسان بنا دیا
ہے۔ تو ہے کوئی اس سے فائدہ اُٹھانے والا؟‘‘(القمر:۳۲)
قرآن مجید کو سمجھنے اور
اس سے نصیحت اخذ کرنے کا دوسرا درجہ ’’تدبر‘‘ کہلاتا ہے۔ یعنی قرآن میں غور و فکر
اور سوچ بچار کرنا، اس میں سے علم و حکمت اور معرفت کے موتی چن کر نکالنا۔ آنحضور
ؐ نے فرمایا ہے کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کے مطالعے سے علماء کبھی سیر نہ ہو
سکیں گے۔ اور نہ ہی کثرتِ تلاوت سے اس کے لطف میں کمی واقع ہو گی اور نہ ہی اس کے
(علم کے) عجائبات کا خزانہ کبھی ختم ہو گا۔اس انداز سے قرآن کا مطالعہ کرنے اور
قرآنی علم کے عجائبات سے حقیقی طور پر فیض یاب ہونے کے لئے اعلیٰ درجے کی علمی
صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر دَور میں کچھ افراد ایسے ضرور ہونے چاہئیں جو اس
انداز سے قرآن کا مطالعہ کریں، پوری
زندگی قرآن پر غور و فکر میں کھپا دیں اور اس کی حکمتوں اور معارف کو عام کریں۔ (جاری)
17 ستمبر،2021، بشکریہ: انقلاب،
نئی دہلی
Related
Article:
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism