ڈاکٹر اسرار احمد
(پہلا حصہ)
10 ستمبر ، 2021
عزیزانِ گرامی!
آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہمارے گھروں میں ایک ایسی کتاب ہے جس کا بہت احترام کیا
جاتا ہے۔ اُس کتاب کو ہم عمدہ غلاف میں لپیٹ کر گھر میں کسی اونچی جگہ پر رکھتے
ہیں کہ اس کی بے ادبی نہ ہو۔ کبھی کبھی گھر کا کوئی بزرگ اسے کھول کر بہت اہتمام سے
باوضو ہو کر پڑھ بھی لیتا ہے۔ خاص طور پر بعض دینی گھرانوں میں گھر کے سب افراد
باقاعدگی سے اُسے پڑھتے ہیں اور بچوں کو بھی اس کی تعلیم دینے کا اہتمام کیا جاتا
ہے۔ لیکن آج کل اکثر گھروں میں اس کتاب کو پڑھنے کا کوئی اہتمام نظر نہیں آتا
اور اسے محض ایک مقدس کتاب کے طور پر گھر میں کسی اونچی جگہ پر رکھ دیا جاتا ہے۔
آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ
جس کتاب کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہ قرآن مجید ہے۔ یہ قرآن اُس اللہ کا کلام ہے جو
زمین و آسمان کا خالق و مالک اور ہمارا ربّ ہے اور یوں تو ہم پر اللہ تعالیٰ کے
احسانات اِس قدر ہیں کہ ہم زندگی بھر اُس کا شکر ادا کرتے رہیں تب بھی وہ اُن
احسانات کا بدل نہیں ہو سکتا، لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ اللہ کا سب سے بڑا
احسان کون سا ہے؟ ہمارے نبیؐ نے بتایا ہے کہ اس کائنات میں انسانوں پر اللہ کا سب
سے بڑا انعام اور سب سے عظیم احسان یہ ہے کہ اس نے انسان کو اپنا کلام یعنی قرآن
مجید عطا فرمایا ہے۔ اس لئے کہ قرآن مجید وہ نعمت ہے کہ اگر ہم اس سے وابستہ رہتے
ہیں تو ہماری دنیا بھی سدھر جاتی ہے اور آخرت بھی سنور جاتی ہے۔ غور کیجئے اگر
کسی شخص کے ہاتھ کوئی ایسا نسخہ آ جائے کہ جس کی بدولت اُسے دنیا میں بھی عزت و
کامرانی حاصل ہو اور آخرت میں بھی کامیابی کی ضمانت مل جائے تو کیا ایسے شخص کے
لئے وہ نسخہ ہی عظیم ترین دولت نہ ہو گا؟ اب، ہم مسلمانوں کی بد قسمتی دیکھئے کہ
ہمارے پاس وہ نسخہ ٔ ہدایت موجود ہے جو ہمیں دنیا و آخرت کی کامیابی کی ضمانت
دیتا ہے لیکن ہم اس کی عظمت سے ناواقف ہیں۔
ہماری مثال اُس فقیر کی سی ہے جس کے کشکول میں ہیرا موجود ہو لیکن وہ اپنی
نادانی میں اُسے کانچ کا ٹکڑا سمجھ کر دوسروں سے بھیک مانگتا پھرتا ہو۔
چنانچہ ہمارے لئے ضروری
ہے کہ سب سے پہلے تو قرآن کی قدر و قیمت کا شعور حاصل کریں۔ قرآن کی عظمت کی شان
تو یہ ہے کہ اس قرآن سے جو شخص بھی وابستہ ہو گا وہ حضورؐ کے ایک فرمان کے مطابق
تمام انسانوں میں بہترین قرار پائے گا اور جو قوم قرآن کو مضبوطی سے تھامتی ہے
اُسے اِس دنیا میں ہی عروج عطا کر دیا جاتا ہے۔ گویا قرآن تو وہ نسخہ کیمیا ہے جو
قوموں کی تقدیر بدل دینے کی قوت رکھتا ہے۔ بقول مولانا حالیؔ ؎
اتر کر حرا سے سوئے قوم
آیا=اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
لیکن یہ جان لیجئے کہ اگر
اللہ نے ہم پر اتنا بڑا احسان فرمایا ہے کہ قرآن جیسی عظیم دولت ہمیں عطا فرمائی
ہے تو ہمارا بھی یہ فرض ہے کہ ہم اس احسان
پر اللہ کا بھرپور انداز میں شکر ادا کریں۔
اللہ کا شکر ہم کس انداز
میں ادا کریں؟ اسے ایک مثال سے سمجھئے! دیکھئے اگر کسی سعادت مند لڑکے کو اُس کے
والد کوئی اچھی سی کتاب تحفے کے طور پر دیں تو سوچئے کہ اس کا طرز عمل کیا ہو گا!
وہ بچہ سب سے پہلے تو زبان سے اپنے والد کا شکریہ ادا کرے گا، پھر شکر و احسان
مندی کے جذبات کے ساتھ اُس کتاب کا مطالعہ کرے گا اور پھر اس کتاب کے مطالعے سے جو
اچھی باتیں اس کی سمجھ میں آئیں گی اُس پر عمل کرنے کی کوشش کرے گا۔ دراصل اسی
طرح کا طرز عمل ہمارا قرآن کے ساتھ بھی ہونا چاہئے ۔ یعنی یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم:
(۱) قرآن
پر ایمان لائیں (۲) اس
کی تلاوت کریں (۳) اس
کو سمجھیں اور اس پر غور و فکر کریں (۴) اس
پر عمل کریں، اور (۵) اسے
دوسروں تک پہنچائیں۔
اگر ہم قرآنِ مجید کے
اِن حقوق کو ادا کریں گے تو دنیا اور آخرت کی کامیابیاں ہمارے حصے میں آئیں گی
لیکن اگر ہم نے ان ذمہ داریوں کو ادا نہ کیا تو یہی قرآن اللہ کی عدالت میں ہمارے
خلاف بطور دلیل پیش ہو گا۔ تو آئیے ان حقوق کو بالتفصیل سمجھنے کی کوشش کریں۔
پہلا حق:قرآن پر ایمان
لایا جائے
یہ بات بظاہر عجیب سی
معلوم ہو گی کہ مسلمانوں سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ قرآن مجید پر ایمان لایا
جائے حالانکہ قرآن مجید پر ایمان لائے بغیر کوئی مسلمان کہلا ہی نہیں سکتا۔ لیکن
یہ بات آپ آسانی سے سمجھ جائیں گے اگر اس حقیقت کو ذہن میں رکھیں کہ ایمان کے دو
حصے ہوتے ہیں۔ ایک زبان سے اقرار کرنا اور دوسرا ہے دل سے تصدیق کرنا۔ اور ایمان
مکمل تبھی ہوتا ہے جب زبانی اقرار کے ساتھ ساتھ دل کا یقین بھی انسان کو حاصل ہو
جائے۔ اس لئے کہ جس چیز پر ہمارا یقین ہو ہمارا عمل اس کے خلاف نہیں جا سکتا۔ آگ
جلاتی ہے اس لئے کوئی شخص آگ میں انگلی نہیں ڈالتا۔ ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ
ہمیںقرآن مجید پر کامل یقین ہے لیکن ہمارا طرز عمل اس کے خلاف ہے اس لئے کہ ہمارا
معاملہ یہ ہے کہ ہم نہ تو اس کی تلاوت باقاعدگی سے کرتے ہیں اور نہ اسے سمجھنے کی
کوشش کرتے ہیں ا ور نہ ہی اس کے احکامات پر عمل کرتے ہیں۔ اس لئے ثابت ہوا کہ
دراصل ہمارا ایمان کمزور ہے۔ ہم زبان سے تو اقرار کرتے ہیں کہ یہ اللہ ربّ العزت
کا کلام ہے لیکن یقین کی دولت سے ہم محروم ہیں۔ ورنہ جسے یقین حاصل ہو جائے اس کا
تو اوڑھنا بچھونا ہی قرآن بن جاتا ہے۔ صحابہ کرامؓ کے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ
انہیں قرآن سے کس درجہ محبت تھی!
جیسے ہی قرآن کی آیات
نازل ہوئیں ان کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ انہیں جلد از جلد یاد کر لیں۔ پوچھا جا سکتا
ہے کہ اس کمی کو کیسے پورا کیا جائے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا بس ایک ہی ذریعہ
ہے اور وہ خود قرآن مجید ہے۔ بقول مولانا ظفر علی مرحوم ؎
وہ جنس نہیں ’’ایمان‘‘
جسے لے آئیں دکان فلسفہ سے
ڈھونڈے سے ملے گی قاری کو
یہ قرآں کے سیپاروں میں
جب ہمیں یقین ہو جائے گا
کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور ہماری ہدایت کیلئے نازل ہوا ہے تو پھر اس کے ساتھ
ہمارے تعلق میں ایک انقلاب آ جائے گا۔ پھر ہمیں محسوس ہو گا کہ اس زمین کے اوپر
اور آسمان کے نیچے قرآن سے بڑھ کر کوئی دولت اور اس سے عظیم تر کوئی نعمت نہیں
ہے۔
دوسرا حق:قرآن کی تلاوت
کی جائے
ہم مسلمانوں پر قرآن
حکیم کا دوسرا حق یہ ہے کہ اس کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کریں، اس لئے کہ کسی اچھی
کتاب کو نہ پڑھنا بڑی ناقدری کی بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب ِالٰہی کے اصل قدر
دانوں کی یہ کیفیت قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے:
یعنی’’ جن لوگوں کو ہم نے
کتاب عطا فرمائی وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے۔‘‘ (البقرۃ:۱۲۱)۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو
توفیق دے کہ ہم قرآن مجید کا حق تلاوت ادا کر سکیں (آمین)۔ اس ضمن میں سب سے اہم
بات یہ جاننا ہے کہ قرآن حکیم کی بار بار تلاوت کیوں ضروری ہے!
یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ
انسان اشرف المخلوقات ہے یہاں تک کہ فرشتوں نے بھی اسے سجدہ کیا تھا اور اس کی
برتری کو تسلیم کیا تھا۔
لیکن اس کے اشرف المخلوقات
ہونے کا اصل سبب یہ ہے کہ اس کی تخلیق میں جہاں مٹی اور گارا شامل ہے وہیں روح
ِربانی بھی اس میں پھونکی گئی تھی۔ گویا انسان کی تخلیق کے دو حصے ہیں۔ ایک اس کا
گوشت پوست کا جسد ہے جو مٹی سے بنا ہے اور دوسرا حصہ اس ’’روح‘‘ پر مشتمل ہے جس کی
نسبت خود اللہ نے اپنی ذات کی طرف فرمائی ہے۔ اس گوشت پوست والے حصے کی تمام تر
ضروریات زمینی وسائل ہی سے پوری ہوتی ہیں۔ ہم جو کچھ کھاتے ہیں وہ اسی زمین سے
حاصل ہوتا ہے، ہمارا لباس جن چیزوں سے تیار ہوتا ہے وہ بھی اسی زمین سے حاصل ہوتی
ہیں اور ہمارے مکانات تو مٹی گارے ہی سے تیار ہوتے ہیں لیکن روح کا تعلق چونکہ اس
زمین سے نہیں بلکہ علم ملکوت سے ہے، لہٰذا اس کی غذا بھی زمین سے حاصل نہیں ہوتی،
وحی الٰہی کی شکل میں آسمانوں سے آتی ہے۔ اس اعتبار سے قرآن حکیم دراصل ہماری
روح کے لئے غذا کا کام دیتا ہے اور اس کی تلاوت روح کی نشوونما اور اسے تر و تازہ
رکھنے کا اہم ذریعہ ہے۔ اب یہ بات واضح ہو گئی کہ جس طرح ہم اپنے جسم کو صحت مند
اور توانا رکھنے کے لئے مسلسل محنت کرتے ہیں اور اچھی سے اچھی غذا کا اہتمام کرتے
ہیں اسی طرح اپنی روح کو تر و تازہ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم بار بار قرآن حکیم
کی تلاوت کیا کریں اور اسے اچھے سے اچھے انداز میں پڑھنے کی کوشش کریں۔ تلاوتِ
قرآن کا حق ادا کرنے کیلئے درج ذیل باتوں کا اہتمام ضروری ہے:
تجوید : قرآن مجید کی درست تلاوت کے لئے تجوید کا سیکھنا بہت ضروری ہے۔ تجوید
سے مراد ہے عربی حروف کی پہچان، ان کی صحیح ادائیگی اور قرأ ت کے بنیادی اصولوں
سے واقفیت حاصل کرنا۔ تجوید کا جاننا اس لئے ضروری ہے کہ اس کے بغیر قرآن کی صحیح
تلاوت ممکن نہیں بلکہ اندیشہ رہتا ہے کہ کہیں قرآن کے معنوں میں ردوبدل نہ ہو
جائے۔ مثلا ً ’’قُل‘‘ کا مطلب ہے ’’کہو‘‘ لیکن اگر اسے ’’کُل‘‘ پڑھ دیا جائے‘،تو
اس کا مطلب ہو جائے گا ’’کھاؤ۔‘‘ اِسی طرح ’’اَنْعَمْتَ‘‘ کا مطلب ہے’تو نے انعام
کیا‘ لیکن اگر اسے ’’اَنْعَمْتُ‘‘ پڑھ دیا جائے تو اس کا مطلب ہو جائے گا ’ میں نے
انعام کیا۔‘ آپ نے دیکھا کہ زبر اور پیش کی معمولی سی غلطی سے مفہوم میں کتنا فرق
واقع ہو گیا۔ ثابت ہوا کہ تجوید کا سیکھنا تلاوت کی بنیادی شرط ہے۔ (جاری)
10 ستمبر ، 2021 ، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism