وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ
إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ
پروفیسر محسن عثمانی ندوی
(آخری حصہ)
31 مئی ،2024
اب حضرت ابراہیم کا زمانہ
نہیں ہے جنہوں نے بت پرستی کے خلاف جہاد کیا اور خاندان سے اور ایوان حکومت سے
لڑائی مول لی، اب ملت ابراہیمی کو بت پرستی سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی ہے، اب شرک
اور توحید دونوں ایک دوسرے کے رفیق ہم ساز اور دمساز بن چکے ہیں اور جوتاجر ان توحید
ہیں وہ یہ کہنے لگے ہیں کہ خود مسلمانوں میں شرک سرایت کرچکا ہے اس لئے صرف
مسلمانوں کی اصلاح ہونی چاہئے ، توحید کا انبیائی مشن جس کاذکر قرآن کے صفحات میں
پھیلا ہوا ہے ختم ہوا اور علماء دین کا کام مسلمانوں کی اصلاح وتربیت وتزکیہ نفس
تک محدود ہوگیا، صورت حال اب یہ ہوگئی ہے کہ اگر کسی کو پیغمبر انہ مشن کی جانب
توجہ دلائی جائے اور توحید کی طرف دعوت دینے کے لئے کہا جائے تو جواب میں کہا جاتا
ہے اب اس کے لئے حالات سازگار نہیں ہیں،حکومت کے تیور بہت سخت ہیں، ۔ میں نے کہا
کہ حالات تو انبیاء کے زمانہ میں بھی ساز گار نہیں تھے اور جب حالات سازگار تھے او
رکئی سوسال تک ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت تھی تب تو انبیائی مشن پر عمل نہیں
ہوسکا، کسی نے اس کی طرف متوجہ نہیں کی، دلوں میں اس کام کی بے چینی ختم ہوچکی
تھی، اگر قرآن میں مذکور پیغمبرانہ مشن کو بروئے کار لاناہے تو اب ناسازگار حالات
میں ہی انبیائی مشن کو شروع کرناہوگا اور حضرت ابراہیم کی طرح آگ میں کودنے کیلئے
تیار ہوناپڑے گا اور پیغمبرانہ مشن کو دوبارہ زندہ کرنے کیلئے لسان قوم میں یعنی
ہندوستان کی زبانوں میں مہارت پیداکرنی ہوگی اور اس کے بغیر ہرگز حالات نہیں بدلیں
گے اور اس کام کی انجام دہی امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے،مسلمانوں پر یہ الزام غلط
نہیں کہ خیرامت کی خلعت فاخرہ انہیں مرحمت کی گئی تھی(ختم خیر امہ اخر جت للناس)
لیکن انہوں نے اپنے کو اس کااہل ثابت نہیں کیا اور ‘‘ اخر جت للناس’’ پر عمل نہیں
کیا، صرف مسلمانوں کے درمیان اپنی کوششوں کو محدود کرلیا اور لسان قوم میں‘‘ناس’’
تک یعنی بنی نوع انسان تک دین کی دعوت پہنچا نے کے بجائے صرف مسلمانوں تک خود کو
محصور کرلیا اور صرف لسان مسلمین میں مسلمانوں کے درمیان اردو میں تقریر کرلینے کو
اور شہر بہ شہر سفر کرلینے کو دعوت سمجھ بیٹھے ، صرف مسلمانوں میں اور صرف
مسلمانوں کی زبان میں خطاب کرنے کو انہوں نے دعوت کاکام سمجھ لیا۔ملک کے اندر لسان
قوم میں مہارت کی ضرورت تھی جو مدارس کے علماء کو حاصل نہیں ہوسکی اور نہ علماء اس
کی طرف متوجہ ہوئے۔
لسان قوم یعنی وغیرہ کے
علاوہ انگریزی کی بھی ضرورت ملک کے اندر او رملک کے باہر پیش آتی ہے عالمی حالات
کبھی بین المذاہب مکالمہ کے بھی متقاـضی
ہوتے ہیں، اس کے لئے بین الاقوامی زبان کا جاننا دین کی ضرورت لیکن ہمارے علماء اس
مکالمہ کی اہمیت سے واقف نہیں، ہمارے علماء کی ٹریننگ باہمی مناظروں کے میدان میں
ہوئی اور ان مناظروں کالب ولہجہ اور انداز و جادلہم بالتی ھی احسن کے بجائے حرب
وضرب کاہوتا ہے جب کہ بین الاقوامی تہذیبی مکالمہ میں وقولالہ قولا لینا پر عمل
کرنا ہوتا ہے ہمارے علماء عموماً عالمی حالات سے بے خبر او رعالمی زبانوں سے
ناآشنا او رتہذیبی مکالمات کی ضرورت او رنئے دور کے چیلنجوں سے ناواقف تھے، شرافت
زبان او رلطافت بیان کے ساتھ اسلامی اقدار کی پاسداری کرنا اور اسلامی نقطہ نظر کی
ترجمانی کرنا اور انٹلکچویل ڈبیٹ ہے جس میں مدارس علماء عام طور پر شریک ہونے سے
قاصر رہے۔
اگر کاتب سطور کی تحریر
سے اور فکر سے ارباب مدارس کو اتفاق ہے او رغلبہ اسلام کے خواب کی تعبیر مقصود ہے
تو ان کے کرنے کاکام یہ ہے کہ سیرت اور دیگر اہم موضوعات کی فہرست تیار کریں او
رایک انگریز ی اور ایک ہندی یا کسی او رمقامی زبان کیلئے کوئی ٹریننگ دینے والا
استاذ بحال کریں جسے متعلقہ زبان پر قدرت ہو او راپنے ادارہ میں انگریزی اور دوسری
مقام زبان میں اسلامیات پر کتابیں مہیا کریں اور ہر سال ان زبانوں میں ماہر خطیب
اسپیکر او رمضمون نگار تیار کریں ، مشق اور تیاری کے بعد استاذ کی نگرانی میں ہر
ہفتہ تقریر کی رہرسل ہو۔ پورے ملک میں دینی مدارس میں یہ شعبہ اگر قائم ہوگیا
توانگریزی اور لسان قوم کے ذریعہ قوم کو خطاب کرنے والے افراد تیار ہوجائیں گے
افسوس یہ ہے کہ اس طرح کااچھی کار کردگی والا کوئی شعبہ کسی مدرسہ میں قائم نہیں
ہے۔
کام کا یہ خلا ابھی تک پر
نہیں ہوسکا ہے او رمولانا علی میاں کی زبان میں اسلامی عقائد کے چشمہ حیواں سے
پانی لے کر زندگی کے کشت زاروں میں ڈالنے کابے حد اہم کام اور طالبان علوم نبوت
کامقام ابھی نا تمام اور تشنہ تکمیل ہے،یہ تاریخی غلطی اب سیکڑوں سال سے چلی آرہی
ہے اور اس غلطی کی اصلاح کی کوئی کوشش بھی نہیں کی گئی دوچار انگریزی کی ریڈروں کو
نصاب میں داخل کرنے سے غلطی کی اصلاح نہیں ہوتی ہے، نہ اس سے کوئی انقلاب برآمد
ہوتاہے، قرآن میں ہے :وما ارسلنا من رسول الابلسان قومہ یعنی ہم نے ہر رسول کو قوم
کی زبان میں کارسالت ادا کرنے کیلئے بھیجا لیکن چونکہ گاڑی پٹری سے اتر گئی تھی ہم
نے لسان قوم کے ذریعہ کاررسالت انجام دینے کے لئے ایک بھی تعلیمی ادارہ اپنی پوری
تاریخ میں قائم نہیں کیا، جامعۃ القردین مراکش میں 859 میں قائم ہوئی یہ مسلمانوں
کا قدیم ترین تعلیمی ادارہ ہے، جامعۃ ازہر دوسری قدیم یونیورسیٹی ہے یہ قاہرہ میں
970 میں قائم ہوئی، یہ دونوں ادارے اسلامی مملکتوں میں قائم ہوئے تھے جہاں مسلمان
رہتے تھے لیکن ہندوستان کا دارالعلوم دیوبند مشہور دین تعلیمی ادارہ جسے مولانا
قاسم نانوتوی نے 1866 میں قائم کیا ، او رمدرسہ مظاہر العلوم جس کی بنیاد 1866 میں
پڑی، مدرسۃ الاصلاح سرائمیر جو 1909 میں قائم ہوا اور پر ان مدرسوں کے نصاب او
رنظام کے مطابق او ران کے نہج پر بہت سے دوسرے مدرسے قائم ہوئے جن کی تعداد سیکڑوں
میں ہے، جئے پور میں جا معۃ الہدایۃ کاقیام عمل میں آیا جدید علوم او ردینی علوم
کا امتزاج جس کی خاص شناخت تھی، او ربے شمار ادارے جن سے مفسرین او رمحدثین فقہاء
اور سیرت نگار او ربڑے علما ء اور مفتیان کرام پیدا ہوئے یہ مدرسے دارالاسلام میں
نہیں قائم ہوئے ، شرک او ربت پرستی کی سرزمین میں قائم ہوئے ، لیکن پیغمبرانہ مشن
کو لے کر نکھڑ اہونے والا اور لسان قوم کے ذریعہ مشرکین کے درمیان انداز و تبشیر
کاکام کرنے والا کوئی ایک عالم بھی کوئی ایک مصلح بھی کوئی ایک مجدد بھی پیدا نہیں
ہوا، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان میں کوئی بھی مشرکین کی زبان سے اور لسان قوم سے واقف
نہ تھا، مسلمانوں نے مسلم یونیورسٹی قائم کی او راس طرز کے کچھ اور ادارے بھی ، ان
اداروں میں ضرور لسان قوم اور انگریزی زبان پر توجہ بھی کی گئی مقصد دوسرا تھا
سرکاری ملازمت او ربہتر معاشیات غرض وغایت تھی، پیغمبرانہ مشن پر کھڑا ہونا سرے سے
مقصد ہی نہیں تھا ۔ اکبر الہٰ آبادی نے اپنے شعر میں اور مخصوص رنگ میں یہ بات اس
طرح کہی ہے۔
ہے دل روشن مثال دیوبند
او رندوہ ہے زبان ہوشمند
او ر علی گڑھ کی بھی تم
تشبیہ لو
اک معزز پیٹ بس اس کو کہو
پیٹ ہے سب پر مقدم اے
عزیز
گوکہ فکر آخرت ہے اصل چیز
آمد برسر مطلب ،ایک بار
پیغمبرانہ مشن کی گاڑی جو تاریخ میں پٹری سے اتری تو پھردوبارہ پٹری پر نہیں آسکی
۔دینی تعلیم کے بہت سے مدرسے او رادارے اس ملک میں او رملک سے باہر قائم ہوئے کسی
ایک مدرسہ میں بھی لسان قوم پر خاطر توجہ نہیں دی گئی تاکہ پیغمبرانہ مشن کو از سر
نو زندہ کیا جاسکے او رجو اسلام سے نا واقف تھے انہیں اسلامی عقائد سے واقف کرایا
جائے ،ہماری تاریخ یہی رہی ہے کہ جہاں جہاں دینی تعلیم کے ادارے تھے وہاں کے فضلاء
لسان قوم سے ناآشنا تھے ،اس لئے قوم کے درمیان یعنی برادران وطن کے درمیان انداز
وتبشیر کاپیغمبرانہ کام وہ کرہی نہیں سکتے تھے اور جو جدید تعلیم کے ادارے
مسلمانوں نے قائم کئے تھے وہا ں لسان قوم کی تعلیم تو دی جاتی تھی لیکن پیغمبرانہ
مشن وہاں سرے سے مقصد ہی نہ تھا، ایک کے پاس وہ سفینہ نہ تھا جو ساحل مراد تک
پہنچا تا دوسرے کے پاس سفینہ تھا لیکن ساحل کی تمنا مفقود تھی بقول شاعر:
پرانی روشنی میں او رنئی
میں فرق اتنا ہے
اسے کشتی نہیں ملتی اسے
ساحل نہیں ملتا
لسان قوم سے لاعلمی اور
ناواقفیت کا خسارہ ایک آشوب قیامت سے کم نہ تھا جس نے پیغمبرانہ مشن سے امت کو بہت
دور کردیا اور شرک او ربت پرستی کے سبزہ کو اور بھی سرسبز ہونے دیا اور پھر امت کے
دل سے احساس زیاں تک کو ختم کردیا۔ علماء کی زبان کچھ اور تھی اور قوم کی زبان کچھ
اور بہت سے علماء دین کے دل میں یہ اطمینان پیدا ہوگیا اور یہ غلط فہمی پیدا ہوگئی
کہ انہوں نے قرآن کی تفسیر اردو یا عربی میں ایک سے زیادہ جلدوں میں لکھ دی ہے اور
حدیث شریف بخاری اور مسلم وغیر کی شرح اتنی جلدو ں میں کرڈالی ہے کہ اس بار گراں
کا ایک آدمی کے لئے اٹھانا بھی مشکل ہے۔ لیکن جلیل القدر محدث اور مفسر او ر مصنف
کے دل میں کبھی یہ قلق اور اضطراب پیدا نہیں ہواکہ اس نے دوچار مشرکین اور کفار تک
ان کی زبان میں دین اسلام کو پہنچا نے کی کوشش نہیں کی۔ اللہ کی مخلوق دوزخ کی طرف
جارہی ہے تو جائے اس جلیل القدر عالم دین اور مصنف نے پیغمبر کے غم کو کبھی ایک دن
کے لئے بھی اپنا غم نہیں بنایا جس کا ذکر قرآن میں ہے: لعلک باخعک نفسک ان
لایکونوا مومنین (الشعراء 3) اور دوسری جگہ ہے: لعلک باخع نفلسک علی آثار ہم ان لم
یومنوایھذا الحدیث اسفا(الکہف:6) یعنی ‘‘ اگر انہوں نے یہ بات نہ مانی تو لگتا ہے
آپ ان کے پیچھے اپنی جان ہلکان کردیں گے’’ بلاشبہ علماء نے عظیم علمی خدمت انجام
دی جس کا اعتراف کرنا چاہئے بلکہ شکر گذار بھی ہوناچاہئے لیکن اس سے یہ حقیقت بھی
آشکار ہوجاتی ہے کہ دعوت کی گاڑی ایک بار جو پٹری سے اتری ہے وہ دوبارہ پٹری پر
نہیں آسکی ہے، غیر مسلموں میں دعوت کا شاکلہ ذہنی (Mind
Set)
بدل چکا تھا مسلم عہد حکومت میں اور مسلمانوں کے دور عروج میں علمی کاموں کا
جوشاکلہ ذہنی تیار ہوگیا تھا وہی باقی رہا، جس دینی مدرسہ میں جائیے افتاء کی
ٹریننگ کا کورس موجود ہے جس میں انبوہ در انبوہ طلبہ داخلہ لے رہے ہیں لیکن کہیں
لسان قوم میں اور انگریزی زبان میں دین دعوت کے لئے کوئی شعبہ قائم نہیں ہے، ہونا
تو یہ چاہئے تھا کہ لسان قوم کی تعلیم لازمی ہوتی اور کم از کم سوعنوانات پر
انگریزی میں اور لسان قوم میں دینی مدارس میں تقریر وتحریر کی مشق کرائی جاتی اور
اس میں کامیاب ہوئے بغیر مدرسہ کی سند نہیں دی جاتی۔لیکن ایسا نہیں ہوا، اس کاسرے
سے شعور ہی نہیں تھا، قرآن پڑھنے اور حدیث پڑھنے اور دورہ حدیث میں شریک ہونے کے
باوجود پیغمبرانہ مشن کی ضرورت کا احساس تک نہیں تھا، اس لئے نہ تو پیغمبرانہ مشن
شروع ہوسکا نہ اپنی کسی غلطی کا یاکمی کا احساس ہوسکا۔ جب اسلاف نے یہ دعوتی کا م
نہیں کیا تھا تو بعد کے علماء کیسے کرتے۔سلف او ربہت قدیم علماء کے کاموں سے متعلق
تو تاویل اور حسن ظن ممکن ہے۔
تاویل اور حسن ظن یہ ہے
کہ مکی زندگی اور مدنی زندگی میں اور خلفاء راشدین کے عہد میں پیغمبرانہ مشن اور
دعوت وجہاد کے نتیجہ میں قرن اول کے بعد کی جو صدیاں ہیں وہ مسلم دور حکومت کی
صدیاں ہیں مسلمانوں کے عروج کا زمانہ ہے، مسلمانوں کے اقتدار کا شامیانہ نصب کیا
جاچکا ہے تمکین فی الارض کا خدائی وعدہ پورا کردیا گیاہے، مسلم ملکوں میں 80 اور
90 فیصدی مسلمانوں کی آبادی ہوگئی ہے، تھوڑے سے غیر مسلم ذمی کی حیثیت سے رہتے آئے
تھے اب دارالاسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے، کفر و شرک کے جارحانہ تیور ختم ہوچکے ہیں
اور اگر کسی سرحد پر کوئی خطرہ ہے تو اس کے لئے مسلمانوں کے پاس فوج ظفر موج اور
اسلحہ موجود ہے اب اگر ضرورت ہے تو دین اسلام کی علمی بنیادوں کو مستحکم کرنے کی
ضرورت ہے۔ اس لئے علماء کی ساری توجہ اصل پیغمبرانہ دعوتی مشن کے بجائے قرآن وحدیث
وفقہ اور سیرت وتاریخ اور دیگر اسلامی علوم کی تدوین کے کاموں کی طرف رہی اور
سائنسی علوم کے ترجموں کااور تہذیب کی ترقی کاکام شروع ہوا اور مسلمانوں نے سائنس
وصنعت اور ایئاد واختراع میں امتیازی حیثیت حاصل کرلی۔ اس وقت یہی کام مناسب تھا۔
ہماراکہنا یہ ہے کہ جب کبھی کہیں کسی ملک میں مکی زندگی واپس آجائے اور مسلمان
اقلیت میں ہوں اور دوسری قوموں کے درمیان گھرے ہوئے ہوں تو وہاں مقدم وہی کام
ہوناچاہئے جو مکی زندگی میں مقدم کام تھا یعنی لسان قوم میں قوم کو دعوت دینے کا
کام کیونکہ تمام انبیاء کا اصل مشن یہی تھا اور قرآن مجید کے ہر صفحہ سے یہی حقیقت
آشکار ا ہوتی ہے یعنی اسی کام کو دوسرے کاموں پر ترجیح حاصل ہے۔ مسلمانوں کی غلطی
یہ تھی کہ یہ کام جو اصل پیغمبرانہ مشن تھا انہوں نے نہ ہندوستان میں کیا اور نہ
اسپین میں کیا حالانکہ دونوں جگہ مسلمان اقلیت میں رہے۔دونوں جگہ اقتدار ان کے
ہاتھ میں تھا دونوں جگہ وہ وہی علمی کام کرتے رہے جو بنو عباس کی حکومت کے زمانے
میں کیا کرتے تھے یعنی خالص علمی نوعیت کے کام، یعنی قرآن وحدیث کی تفسیرین اور
شرحیں اور فتاوی کی تدوین یا زبان وادب میں مسلمانوں کا بن گیا تھا حالات کی
تبدیلی سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ اس میں ابتدائی دور کے مشائخ صوفیہ کا
استثناء ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسپین سے مسلمانوں کی حکومت ختم ہوگئی اور ہندوستان
اب اسپین کے راستے پر ہے۔ اور اب وہ خطرات منڈلارہے ہیں جس کی طرف بار بار مولانا
علی میاں اپنی تقریروں میں توجہ دلاتے رہے ۔ہمیں ہندوستان اوراسپین میں مسلمانوں
کی علمی خدمات کا استخفاف ہر گز مقصود نہیں لیکن ہندوستان اور اسپین میں مسلمانوں
کے زوال کی اصل وجہ یہ تھی کہ مسلمان پیغمبرانہ مشن سے دست بردار ہوچکے تھے۔مولانا
مناظر احسن گیلانی کامعارف میں ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے یہ لکھا
تھا کہ اسپین میں مسلمان چاہے مسجد قرطبہ او رمدینہ الزہر اء او ربے شمار عدیم
النظیر تعمیری کام نہ انجام دیتے لیکن وہ کام کرتے جو مسلمانوں نے مکی زندگی میں
کیا تھا دعوتی کام تو اسپین سے مسلمانوں کی حکومت نہ ختم ہوتی، مولانا مناظر احسن
گیلانی کی پیروی کرتے ہوئے ہم بھی یہ کہہ سکتے کہ ہندوستان میں مسلمانوں نے چاہے
تاج محل نہ بنایا ہوتاقطب مینار اور لال قلعہ وغیرہ کی تعمیر نہ کی ہوتی لیکن وہ
کام کیا ہوتا جو مسلمانوں نے مکی زندگی میں کیا تھا تو مسلمانوں کے اقبال کوگہن نہ
لگتا او ران کے اقتدار کا سورج غروب نہ ہوتا۔ یہاں بھی مسلمانوں کی تعمیری اور
تہذیبی اور تمدنی کاموں کا استخفاف مقصود نہیں ہے صرف یہ بتانامقصود ہے کہ
پیغمبرانہ مشن سے دست بردار ہونے کا انجام کیا ہوگا ہے۔
ہندوستان کی سرزمین میں
علماء اور صلحاء مصلحین او رمجددین کی تعداد کم نہیں ۔ ان کے روشن کارنامے ہیں
۔لیکن ان کارناموں سے مسلمانوں کا مستقبل روشن نہیں ہوسکتا۔ یہ اس لئے کہ ان
بزرگوں کے سارے کام تحفظ دین او رعلمی خدمت کے دائرے میں آتے ہیں ان کو وہ
پیغمبرانہ مشن نہیں قرار دیا جاسکتا جس کاذکر اللہ کی کتاب قرآن مجید کے صفحات میں
بھی موجود ہیں اور جو آخری پیغمبرانہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کامشن
تھا جو کہتا تھا کہ میں تمہاری کمر پکڑ کر جہنم کی آگ سے تمہیں بچانا چاہتا ہوں
اور تم بار بار میرے ہاتھ سے پھسل جاتے ہیں۔
دنیا کے نقشہ اور خریط پر
ہندوستان شرک او ربت پرستی کا سب سے بڑا قلعہ ہے جیسا کہ ڈیڑھ ہزار سال پہلے جزیرۃ
العرب تھا اسلامی نقطہ نظر سے اور سیرت طیبہ کی پیروی کرتے ہوئے شرک اور اصنام
پرستی کے سب سے بڑے قلعہ میں تو حید کی اذان دینا علماء اسلام کی اولین ذمہ داری
ہے اور یہ لسان قوم پر طاقتورگرفت کے بغیر ممکن نہیں ہے، دینی مدارس کے ذمہ داروں
کو اس صورت حال پر سنجیدگی سے غور وفکر کی ضرورت ہے وہی اس کا م کی ٹریننگ دے سکتے
ہیں،سیکڑوں کی تعداد میں ہندی زبان، مقامی زبان اور انگریزی زبان کے ادیب اور خطیب
کو ملک کے چپے چپے میں پھلا دینے کا ضرورت ہے یعنی ایسے خطیب جواسلامی موضوعات پر
غیر مسلم سوسائیٹی میں غیر مسلموں کی زبان میں لکچر دے سکیں ۔ رسالوں اور اخبارات
میں مضامین لکھ سکیں ،ان کی ایسی ٹریننگ ہوکہ وہ ایک طرف تو طاقتور انداز میں
توحید کی دعوت دیں دوسری طرف معبود ان باطل کوبرا بھی نہ کہیں کیونکہ اس سے منع
کیا گیاہے۔ ایک طرف وہ دیومالائی قصوں سے علم الاساطیر Hindu
Mythology سے
ہندووں کی مذہبی کتابوں سے اور ان کے معتقدات سے پورے طور پر آشنا ہوں غیر مسلموں
کی مذہبی کتابوں کا انہوں نے مطالعہ کیا ہو، دوسری طرف زبان کی احتیاط ہو، استہزاء
سے گریز ہو، قرآن کی آیتیں غیر مسلموں کو تجوید کے ساتھ سنائی جائیں اور ان کا
ترجمہ بتایا جائے منطقی استدلال ہو شرافت اور حسن اخلاق کانمونہ پیش کیا جائے،
سیرت کے اجتماعات منعقد کئے جائیں اور غیر مسلموں کو شرکت کی اہتمام کے ساتھ دعوت
دی جائے، ہندی زبان میں لسان قوم میں موثر انداز میں تقریر کرنے والوں کی ٹیم
موجود ہو اور یہ پیغمبرانہ مشن مختلف زبانوں میں پورے ملک میں برپا کیا جائے۔ کئی
ادارے تبلیغ اور دعوت کی ٹریننگ دینے کے لئے وجود میں آئے ہوں، ہر مدرسہ میں لسان
قوم کے ذریعہ دعوتی تقریروں کی مشق کرائی جاتی ہو۔ یہ ملک ایک زمانہ سے اس کام
کامنتظر ہے،کئی سوسال کی تاخیر ہوچکی ہے، لیکن غفلت کی نیند دے دینی مدارس بیدار
ہونے کے لئے تیار نہیں ۔ ملک آتش فشاں کے وہانے پر پہنچ چکاہے کشمکش اورکشاکش اپنے
عروج پر ہے، خطرہ کی گھنٹیاں بج رہی ہیں، دینی مدارس کی تعداد بہت ہے، لیکن عام
طور پر کہیں حالات کاشعور اوراحساس نہیں ۔ سچ پوچھئے تو قدم قدم پر دارالافتاء اور
دارالقضاء کی ضرورت اتنی زیادہ نہیں ہے جس قدر مقامی زبانوں میں اسلامی موضوعات پر
لکچر اور لکچر ہال کی ضرورت قائم کیجئے ۔ مکی زندگی میں ہر مسلمان داعی تھا، ہر
گھر دعوت کدہ تھا لیکن اب توحید اور شرک کے درمیان‘‘ دوستانہ تعلقات’’ قائم ہوچکے
ہیں مسجد او رمندر کے درمیان کوئی مخاصمت باقی نہیں ہے بلکہ اب مسجدیں مسمار کی
جارہی ہیں اور ان کی جگہ پر مندر تعمیر ہورہے ہیں یہ سب نتیجہ ہے پیغمبرانہ مشن سے
دست بردار ہوجانے کا، یہ سزا ہہے جو مسلمانوں کو قدرت کی طرف سے دی جارہی ہے،مسلم
پرسنل لا کو بھی ختم کیاجارہا ہے ، اسلام کی حفاظت کسی تنظیم سے کسی بورڈ سے اب
ممکن نہیں ہے ،اسلامی مشن کو دوبارہ شروع کرنا او راس گاڑی کو جوپٹری سے اتر گئی
ہے دوبارہ پٹری پر ڈالنا اس امت کامشن ہوناچاہئے یہی امت کے مرض کہن کا چارہ
ہے،دینی مدارس کو اور مختلف تنظیموں کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے، آخر
پیغمبرانہ مشن کیا ہے او رکیوں برپا ہوا ہے جس ذکر قرآن میں بار بار آیا ہے اور جس
پر کھڑے ہونے کا مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے اور اسلام کی بقا اب جس پر منحصر ہے
اور اسلامی تہذیب کا یہ بوسیدہ گھر جس کے بغیر گرا چاہتا ہے جس طرح اسپین میں
گرچکا ہے ، یہ پیغمبرانہ مشن ہے لسان قوم میں قوم کو توحید اور رسالت اور آخرت کے
عقیدہ کی دعوت دینا ، اور اس بوسیدہ ہوتے ہوئے اسلامی تہذیب کے اس گھر کو گرنے سے
کوئی چیز اگر بچا سکتی ہے تو وہ بت خانہ میں توحید کی اذان دینا ہے۔
یہی جان ڈالے گی باغ کہن
میں
اسی سے بہار آئے گی چمن
میں
ہمارے بہت سے عقلاء
،ماہرین تعلیم اور ارباب دانش وبنیش جب دینی مدارس کے نصاب تعلیم پر گفتگو کرتے
ہیں تو صرف یہ کہتے ہیں کہ نئے عصری علوم کو بھی داخل نصاب کرناچاہئے، قدیم اور
پیچیدہ عبارتوں والی کتابوں کی جگہ نئی اور آسانی کے ساتھ سمجھ میں آنے والی
کتابوں کو کورس میں داخل کرناچاہئے، یہ مشورہ بھی عام طور پر دیا جاتاہے کہ دینی
مدارس میں تدریس کے جدید عصری ذرائع ووسائل کو اختیار کرناچاہئے اور جدید ٹکنالوجی
کو قبول کرنا چاہئے، زبان میں مہارت حاصل کرنے کیلئے جو نئے طریقے اختیار کئے جاتے
ہیں ان سب کو اپنا ناچاہئے ۔ یہ سارے مشورے درست ہیں لیکن ہمارا مشورہ او رفکر
وخیال کچھ او ر ہے۔
اوروں کاہے پیام اور میرا
پیام اور ہے
عشق کے درد مند کا طرز
کلام اور ہے
میراپیام یہ ہے کہ قرآن
مجید کے صفحات میں تمام انبیاء کرام کا پیغام اور مشن جو پھیلا ہوا ہے اور جس کے
کچھ نمونے ان صفحات میں بھی دئے گئے ہیں اور جس کانچوڑ توحید کی دعوت اور معبود ان
باطل کا انکار ہے، دینی مدارس کے فارغین کو چاہئے کہ اس مشن کو زندہ کریں اس کے
بعد ہی وہ وارثین انبیاء کہلانے کے مستحق ہوں گے او راس مشن کو زندہ کرنے کے لئے
‘‘لسان قوم’’ پر عبور حاصل کرنا ہوگا او ر تعلیم کے دوران دینی اور اسلامی موضوعات
پر تقریر اور تحریر کی مشق کرنی ہوگی تاکہ بعد میں وہ پیغمبرانہ مشن کو زندہ کرنے
کے لئے انہیں اور دعوت اسلام کے لئے میدان میں اتر سکیں ،اگر دینی مدارس اس کاکام
بیڑا نہیں اٹھاتے ہیں تو وہ دینی مدارس نہیں ہیں۔ دراصل اس وقت ایسے وارثین انبیاء
کی ضرورت ہے جو پیغمبرکے غم کو اپنا غم بنالیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ دینی
مدارس سے جو فارغ ہوکر نکلتے ہیں ان میں اسے اکثر ضائع ہوجاتے ہیں لیکن ان میں کچھ
اچھے عالم اور خطیب او رمصنف بھی بن جاتے ہیں اور ان میں جن کواہل اللہ کی صحبت
میسر آجاتی ہے وہ مقامات تصوف بھی طے کرلیتے ہیں اور ذاکر وشاغل بن جاتے ہیں لیکن
کسی بھی مدرسہ کا کوئی فارغ پیغمبرانہ مشن کو لے کر کھڑا نہیں ہوتا ہے جو سب سے
بلند مقام ہے جس کے بغیر دنیا میں اسلام کا غلبہ نہیں ہوگا او ریہ مشن صدیوں سے
بند ہے اور جن لوگوں کوپیغمبروں کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے یہ مشن لے کر کھڑا ہونا
تھا ان کو اس کا خیال تک نہیں ہے اور ان مصلحین امت کو بھی اس کا خیال نہیں آیا
جنہوں نے مسلمانوں کی اصلاح کی فکر تو کی لیکن بندگان خدا کے عاقبت بخیر ہونے کی
فکر نہیں کی اور ‘‘آخرجت للناس’’ کامنصبی تقاضہ ان کی آنکھو ں سے اوجھل رہا۔اس
منصبی تقاضہ کو پورا کرنے کے لئے پہلے برادران وطن سے غیر سگالی کے تعلقات ضروری
ہیں ان کو اسلام اور مسلمانوں سے مانوس کرناضروری ہے جس کا خیال مولانا ابوالحس
علی ندوی کو آیا او رانہوں نے پیام انسانیت کی تحریک شروع کی۔ اس اعتبار خاص سے
میں حضرت مولانا کو صدیوں کی عظیم شخصیت سمجھتا ہوں ہندوستان میں پیغمبرانہ مشن کو
زندہ کرنا ہے تو مولانا کے اس کام کو اہمیت دینی ہوگی اسی کام کا تسلسل ہوگا اگر
مسلم اداروں اور تنظیموں کے ذمہ دار غیر مسلموں سے تعلقات قائم کرنے اور ان کو
اسلامی اخلاق سے متاثر کرنے کی کوشش کریں گے۔جماعت اسلامی ہند نے غیر مسلموں کو
مسجدوں میں لانے اور‘‘مسجد پریچے’’ کی جو تحریک شروع کی ہے وہ دعوتی شعور کی آئینہ
دار ہے۔ ہر شہر او رمحلہ میں مذہبی تعلیم یافتہ مسلمانوں کو حسن اخلاق اور خدمت
خلق سے برادران وطن کو قریب کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ہر جگہ مسلمانوں کی سرکردہ
شخصیتوں کو سوچنا چاہئے کہ اس اہم کام کا آغاز ان کے شہر میں کیسے ہو۔اور شہر کے
مسلم دشمن ناپسندیدہ عناصر کے شر سے محفوظ رہنے کی دفاعی تدبیریں بھی اختیار کرنی
چاہئیں۔مسلم جماعتوں اورتنظیموں کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ برادران وطن کی
سرکردہ شخصیتوں کو وقتاً فوقتاً اپنے یہاں بلائیں اور ان کے ساتھ شریفانہ اسلامی
اخلاق اور دلداری کا برتاو کریں ان کو تحفے دیں اور کتابیں بھی پیش کریں اب یہ
علماء کے غور کرنے کی بات ہے کہ ملک میں جہاں اندلس سے ملتے جلتے حالات پیدا
ہوجائیں وہاں دفع مضرت کے لئے اور تقریب الی الاسلام کیلئے اور تالیف قلب کیلئے
مولفۃ القلوب کی مد کا استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔
31مئی ،2024، بشکریہ: روز نامہ منصف، حیدر آباد
----------------
Part: 1 – Importance of "language of the nation" for
Madaris-Part-1 دینی
مدارس کے لئے ‘‘لسان قوم’’ کی اہمیت
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism