ارشد عالم، نیو ایج اسلام
20 اکتوبر 2021
اس طرح کے خوفناک عمل میں
پنجاب کے توہین مذہب قوانین پر سیاست کا کردار ہے۔
اہم نکات:
1. لکبھیر سنگھ کو سنگھو بارڈر پر نہنگ سکھوں نے قتل کر دیا
2. مذہبی سزا کے طور پر اس کے اعضاء کاٹ دیے گئے، اس پر توہین مذہب
کا الزام تھا
3. سکھ برادری کے اندر اس مسئلے پر خاموشی تشویشناک ہے
4. اگر پنجاب میں توہین مذہب کے قوانین پر سیاست کو چیلنج کیا جاتا
تو نہنگ اور دیگر متشدد گروہوں کو اتنا حوصلہ نہ ملتا
-----
Lakhbir
Singh (left), cremation (right), images via Indian Express
-----
اس کی کلائی کاٹ دی گئی اور
شدید درد میں تڑپتا زمین پر پڑا ہوا انسان اپنے ارد گرد پگڑی دار سکھوں سے کچھ کہنے
کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ سب معمولی انسان معلوم ہوتے ہیں، ان کے بھی خاندان اور اعزا
و اقرباء ہوں گے۔ لیکن ان میں سے کسی میں انسانیت نہیں تھی کہ وہ زمین پر پڑے اس گھایل
و مظلوم انسان کو ہسپتال لے جائے۔ اس انسان کے کئے کسی کے بھی دل میں کوئی ہمدردی نہیں
تھی۔ کسی کو اس بات پر کوئی پچھتاوا نہیں تھا کہ انہوں نے اس انسان کے ساتھ کیا کیا
ہے۔
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ سکھ
مذہب محبت اور بھائی چارے کا مذہب ہے۔ بڑے پیمانے پر اس مذہب کے پیروکاروں نے قدرتی
آفات اور کووڈ-19 جیسی وبائی امراض کے دوران اس کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ گویا دوسروں
کی مدد کرنا ان کے مذہب کا بنیادی نعرہ ہے۔ لیکن ہم نے سنگھو بارڈر پر سکھ مذہب کا
ایک نیا چہرہ دیکھا، جہاں کسان کچھ قوانین کو منسوخ کرنے کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔
سکھوں کا ایک خاص فرقہ، نہنگ بھی اس احتجاج کا حصہ ہے۔ نہنگوں نے روزانہ مزدوری کرنے
والے لکبھیر سنگھ پر الزام لگایا کہ اس نے ایک 'ناپاک جگہ' پر مقدس کتاب رکھ کر توہین
مذہب کا ارتکاب کیا ہے اور آخر کار نہنگوں نے اس مزدور شخص کے اعضاء کاٹ کر اسے سزا
دیدی۔ لکھبیر بعد میں خون کی کمی کی وجہ سے مر گیا اور کچھ نہنگوں نے اس کے قتل کا
اقبال جرم کر لیا اور پولیس کے سامنے جود سپردگی کر دی۔ ہتھیار ڈالنے والے ان نہنگوں
کو مکمل یقین تھا کہ انہوں نے خالص مذہبی کام لیا ہے اور سکھوں نے انہیں سکھ مذہب کے
چیمپئن اور محافظ کے طور پر دیکھا۔ اگر ہمیں کوئی اسی مثال دیکھنی ہو کہ مذہب کس طرح
روح کو بگاڑ دیتا ہے تو لکھبیر کا قتل دیکھ لیا جائے۔
ایک ہولناک قتل جب ایک 'اعلیٰ
مقصد' سے جوڑ دیا جاتا ہے تو ایک مذہبی خدمت بن جاتا ہے۔ ہم نے اس کا مشاہدہ عیسائی
صلیبی جنگوں، مسلم جہاد اور '800 سالوں کے ظلم کا بدلہ لینے' میں ہندووں کے غصے میں
کیا ہے۔ لکھبیر کو قتل کر دیا گیا، اس کے ادھ مرے جسم کی نمائش کی گئی اور اسے پولیس
بیریکیڈ سے لٹکا دیا گیا۔ ایک دلت مزدور اور اس جیسے مزدوروں کا کسانوں کے ساتھ فطری
تعلق ہونا چاہیے کیونکہ دونوں ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ مذہب نے اس یکجہتی کو
توڑ دیا؛ کٹا ہوا ہاتھ اس چیز کی علامت بنتا جا رہا ہے جو ہندوستانی معاشرے میں خوفناک
ہے۔
Police
personnel with accused Nihang Singh for his alleged involvement in the murder
of Lakhbir Singh, who was killed at a farmers' agitation site in Delhi, during
a media briefing in Amritsar, Saturday, Oct. 16, 2021. (PTI Photo)
-----
جب بھی دلت لفظ کا ذکر ہوتا
ہے تجزیہ کار اسے اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ سماجی گروپ ترقی پسندی کا مترادف بن
جاتا ہے۔ دلتوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ برہمنی تسلط کی مخالفت صرف اس لیے کریں گے
کیونکہ وہ دلت ہیں۔ لیکن سماجی حقیقت خود کو کبھی شفاف آئینے میں پیش نہیں کرتی ہے۔
لکبھیر سنگھ کے قاتل خود دلت ہیں۔ لیکن وہ مذہبی جوش و جذبے سے اتنے زیادہ متاثر ہوئے
کہ انہوں نے بغیر کسی پچھتاوے یا احساس جرم کے اپنے ہی ساتھی کو قتل کر دیا۔
میں اس عقیدے کی بنیاد پر
دیگر مذہبی روایات پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتا ہوں کہ یہ مذہب کے پیروکاروں پر منحصر
ہے کہ وہ اس طرح کے خوفناک معمولات کے خلاف آواز اٹھائیں۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ
توہین مذہب کے نام پر لکبھیر سنگھ کے قتل کی خود سکھ برادری نے بھرپور انداز میں مذمت
نہیں کی۔ اور میں ان سیاسی جماعتوں کی تو بات ہی نہیں کرتا جن کے اپنے (ناجائز، میرے
خیال میں) وجوہات ہیں جن کی نبا پر وہ ایسے مسائل پر خاموش رہنا چاہتے ہیں۔ یہاں تک
کہ سکھ برادری کے اندر سول سوسائٹی سے بھی اس کے خلاف آوازیں بہت کم اٹھیں۔
بغیر کسی عذر کے قتل کی مذمت
کی جانی چاہیے ورنہ اس سے قاتلوں کو حوصلہ ملے گا۔ اگر کوئی قتل کو 'بدقسمتی' کہہ رہا
ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ توہین مذہب کے خلاف کوئی موقف اختیار نہیں کر رہا ہے تو اس کا
مطلب صرف یہ ہے اسے معاملے کی نزاکت کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہے۔ افسوسناک حقیقت یہ
ہے کہ سکھ برادری نہ صرف توہین مذہب کے معاملے پر خاموش رہی بلکہ درحقیقت اس نے یہ
مطالبہ بھی کیا ہے کہ اسے باضابطہ ایک قانونی شکل دی جائے۔
2018 میں پنجاب کے توہین مذہب بل میں کسی بھی مذہبی کتاب کی ’’بے حرمتی‘‘
کرنے والے کے لئے 10 سال کی سزا تجویز کی گئی تھی اور اس میں پولیس کو فوجداری کارروائی
شروع کرنے کے لئے بڑے اختیارات دیے گئے تھے۔ اس سے قطع نظر کہ یہ قانون بنتا ہے یا
نہیں، خود یہ نظریہ ہی نقصان دہ تھا اور اس کا مقصد مذہبی جذبات کو بھڑکانا تھا۔ کانگریس
حکومت اور یہاں تک کہ حزب مخالف اکالی دل بھی اس طرح کے قانون کی ضرورت پر متحد تھے۔
کون کون سی چیزیں مقدس ہیں اس میں ان کی پوری وضاحت کی گئی ہے جس سے پنجاب کے اندر
ہی بہت سے فرقے اس مجوزہ ظالمانہ قانون کا شکار ہوں گے۔
لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے
کہ اس واقعہ نے ہمیں بتا دیا ہے کہ حکومت خود مذہب کا چیمپئن بن کر ظلمت پرستی اور
مذہبی عدم رواداری کو فروغ دے رہی ہے۔ اس طرح کے قانون کا مطالبہ کئی دہائیوں سے انتہا
پسند مذہبی گروہ کر رہے تھے اور ان کی دل جوئی کر کے حکومت بالواسطہ طور پر ان کے مقصد
کو فروغ دے رہی تھی۔ سنگھو میں نہنگوں کی حرکتیں صرف اسی صورت میں بجا طور پر سمجھی
جا سکتی ہیں جب ہم اسے مذہبی سیاست سے جوڑ کر دیکھتے ہیں جو کہ ابھی پنجاب میں چل رہی
ہے۔ نہنگوں کی مذمت کرنا لیکن کانگریس اور اکالی دل کی رجعت پسندانہ سیاست کے خلاف
ایک لفظ بھی نہ بولنا سراسر منافقت ہے جس کا مقصد اس مسئلے پر کوئی معنی خیز بحث کرنے
کے بجائے اس میں پیچیدگی پیدا کرنا ہے۔
ایسا مانا جاتا ہے کہ سکھ
مذہب کے بانی نانک کو "ہندو کا گرو" اور مسلمانوں کا پیر" کہا جاتا
ہے۔ بڑے پیمانے پر سکھ مذہب رواداری اور عدم تشدد کا علمبردار ہے۔ لکھبیر کو قتل کر
کے یہ جنونی سکھ اپنے مذہب کے اصل پیغام کو فراموش کر رہے ہیں۔
------
English
Article: Politics around the Blasphemy Laws in Punjab: The
Murder of Lakhbir Singh; the Sikhs Need to Speak Up
Malayalam
Article: Politics around the Blasphemy Laws in Punjab പഞ്ചാബിലെ
മതനിന്ദ നിയമങ്ങളെ ചുറ്റിപ്പറ്റിയുള്ള രാഷ്ട്രീയം: ലഖ്ബീർ സിങ്ങിന്റെ കൊലപാതകം; സിഖുകാർ
സംസാരിക്കേണ്ടതുണ്ട്
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism