میر محمد حسین
22 دسمبر 2023
کسی قوم میں روحِ عمل
پھونکنے، اس کے خون کو گرمانے اور اس کے رگ و پے میں بجلیاں بھرنے والا تیسرا بڑا
عامل اس قوم کا نصب العین اور مقصد حیات ہے۔ یہ نصب العین حصولِ مسرت و آسائش بھی
ہوسکتا ہے اور اقتدار و استعلاء کا جذبہ بھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں ہر
مقصد انسان کو آمادۂ عمل بناتا ہے اور ممکن حد تک زیادہ سے زیادہ وسائل دوسروں
سے چھین کر اپنے قبضے میں لے آنے پر آمادہ کرتا ہے لیکن جو سیمابی کیفیت کسی قوم
میں اس کا نظریاتی مقصد ِ حیات پیدا کرتی ہے وہ کسی دوسرے جذبہ سے ممکن نہیں۔ یہ
نظریاتی مقصد اسے ایسا شعلہ ٔ جوالہ بنادیتا ہے جسے کسی کل چین نہیں پڑتا۔ اس کی
تبلیغ و تدویج کے لئے وہ قوم جدوجہد کرتی اور راہ کی تمام صعوبتوں کو خندہ پیشانی
سے برداشت کرتی ہے۔ نصب العین کی یہ آتشِ سوزاں اس میں وہ وسعت ِ نگاہ پیدا
کردیتی ہے کہ اس کی نظریں افق پار پر جا ٹھہرتی ہیں اور اسے وہ عزم اور حوصلہ
بخشتی ہے کہ نہ صحراؤں کی وسعتیں اس کی پیش قدمی روک سکتی ہیں اور نہ کوہساروں کی
رفعتیں۔ وہ آفاق پر نگاہیں جمائے، سمندروں میں گھوڑے ڈال دیتی ہے اور کشتیوں کو
جلا دیتی ہے کہ پسپائی کا امکان ہی باقی نہ رہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جدوجہد
کی ضرورت قیامت تک باقی رہے گی۔
لیکن اقتدار پالینے کے
بعد وسائل ِ معیشت پر تسلط ہوجانے کے بعد اس بات کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے کہ قوم
تعیشات و تنعمات کی عادی بن کر اپنے مقصد ِ حیات کو بتدریج پس پشت ڈال دے، جدوجہد
اور جفاکشی کی زندگی سے دست کش ہوجائے اور دولت کی محبت اسے بزدل بنادے، جب نوبت
یہاں تک پہنچ جائے تو سمجھ لیجئے کہ نہ صرف اس کے اقتدار و استعلاء کےد ن گنے
جاچکے بلکہ بہت ممکن ہے کہ بتدریج وہ ذلت و مسکنت کے گڑھے میں جاگرے، جیسا کہ بنی
اسرائیل کے ساتھ ہوا کہ ’’وہ جہاں کہیں بھی پائے جائیں ان پر ذلّت مسلط کر دی گئی
ہے۔‘‘ (آل عمران:۱۱۲) قرآن
مجید نے بنی اسرائیل کی ان تینوں کمزوریوں کا متعدد آیات میں ذکر کیا ہے۔ چنانچہ
متاعِ دُنیا سے ان کی محبت کا یہ حال ہوگیا تھا کہ اس کی خاطر وہ کتاب ِ الٰہی میں
تحریف سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ قرآن مجید کہتا ہے:’’پس ایسے لوگوں کے لئے بڑی
خرابی ہے جو اپنے ہی ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے
ہے تاکہ اس کے عوض تھوڑے سے دام کما لیں، سو ان کے لئے (اُس کتاب کی وجہ سے) ہلاکت
ہے جو ان کے ہاتھوں نے تحریر کی اور اس (معاوضہ کی وجہ) سے تباہی ہے جو وہ کما رہے
ہیں۔‘‘ (بقرہ: ۷۹) موت
سے ان کے دل اس قدر لرزاں تھے کہ ’’ہر ایک چاہتا ہے کہ کاش اسے ہزار برس کی عمر مل
جائے۔‘‘ (بقرہ: ۹۶) موت
کے اسی خوف کی وجہ سے انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہہ دیا کہ : ’’بس تم اور
تمہارا رب، دونوں جاؤ اور لڑو، ہم یہاں بیٹھے ہیں۔‘‘ (مائدہ:۲۴) ان دو باتوں کا نتیجہ یہ
کہ انہوں نے اپنے مقصد ِ بعثت کو پس پشت ڈال دیا۔ قرآن مجید کا بیان ہے کہ :
’’اِن اہل کتاب کو وہ عہد بھی یاد دلاؤ جو اللہ نے ان سے لیا تھا کہ تمہیں کتاب
کی تعلیمات کو لوگوں میں پھیلانا ہوگا، انہیں پوشیدہ رکھنا نہیں ہوگا مگر انہوں نے
کتاب کو پس پشت ڈال دیا اور تھوڑی قیمت پر اُسے بیچ ڈالا، کتنا برا کاروبار ہے جو
یہ کر رہے ہیں۔‘‘(آل عمران: ۱۸۷)
اقتدار و عروج حاصل
ہوجانے کے بعد کوئی قوم کتنی دیر تک اس سے بہرہ ور ہوتی ہے، اس کا انحصار اُس نظام
حکومت اور طرز معاشرت پر ہے جسے یہ قوم اپناتی ہے۔ یہ حقیقت اتنی واضح اور بدیہہ
ہے کہ اس پر کسی استدلال کی ضرورت نہیں۔ ظاہر ہے جب خدا کی مخلوق کو کسی قوم کے
سایہ ٔعاطفت میں امن و سکون اور عدل و انصاف میسر ہوگا تو جہاں مخلوق کے خالق کی
نصرت و حمایت اسے حاصل ہوگی وہاں خود وہ مخلوق بھی اس سایہ کو اپنے سروں پر دیر تک
قائم رکھنے کی خواہشمند ہوگی اور اس کے لئے کوشاں بھی۔ حمص کے عیسائیوں نے اپنے ہم
مذہبوں کے برخلاف مسلمانوں کی فتح و کامرانی کی اسی لئے دعا کی تھی کہ مسلمانوں کے
نظامِ عدل و انصاف میں وہ ایک مطمئن زندگی گزار رہے تھے جو انہیں اپنے ہم مذہبوں
کے زیراقتدار میسر نہ آسکی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں نئی ابھرتی ہوئی امت ِ
مسلمہ کو بار بار عدل و انصاف کی تاکید کی گئی۔
عدل کا مفہو م صرف جھگڑوں
اور تنازعات کو اصول انصاف کے مطابق طے کرنے تک محدود نہیں بلکہ یہ لفظ اپنے اندر
ایک بڑا وسیع اور ہمہ گیر مفہوم رکھتا ہے جو معاشرت، معیشت، محاکمات، سیاست، حکومت
اور انسان کے ساتھ انسان کے طرز عمل (اخلاق) کو محیط ہے۔ ان تمام شعبہ ہائے حیات
میں عدل و انصاف پر مبنی نظام ہی عدل و انصاف کہلا سکتا ہے اور یہ خوبی صرف اسلامی
نظام ِ حیات ہی میں پائی جاتی ہے۔ زندگی کے ان دائروں میں سے کسی ایک میں بے
اعتدالی کو ظلم و جور سے تعبیر کیا جائے گا۔
اگرکسی قوم کا معاشرہ عدل
کی بنیادوں پرقائم نہیں بلکہ اس میں رنگ، نسل، زبان، مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر
انسانوں میں اونچ نیچ قائم ہے، انسان انسان سے نفرت کرتا ہے، اس کے جان و مال اور
عزت و آبرو کو مباح ٹھہراتا ہے اور اسے اچھوت قرار دیتا ہے تو عدالتوں میں نام
نہاد انصاف کے باوجود وہ قوم ظالم شمار ہوگی۔ اسی طرح اگر کسی قوم کے نظام ِ معیشت
میں بے اعتدالی پائی جاتی ہے، چند صنعت کار یا جاگیردار ملک کی معیشت پر قابض ہیں
اور قوم کی اکثریت نادار و مفلس اور ان کی دست نگر ہے تو یقیناً یہ قوم بحیثیت
مجموعی ظلم کی مرتکب ہورہی ہے۔ وہ معاشرہ بھی یقیناً ظلم و عدوان میں مبتلا ہے جس
کے نظام اخلاق کی بنیاد انسان کے سفلی جذبات کے استحصال پر ہو اور جس کا مقصود و
منتہا صرف حصول لذت و مسرت ہو اور جہاں منکرات کی کھلی چھوٹ ہو۔
ظلم و جور کی یہ ساری
صورتیں ایسے عوام ہیں جو کسی بھی مقتدر قوم کو دیمک کی طرح چاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت اسامہؓ سے فرمایا تھا کہ پہلی قومیں اسی لئے تباہ و برباد
ہوئیں کہ ان میں عدل و انصاف نہ تھا، وہ جرائم کے ارتکاب پر نام نہاد معززین سے تو
درگزر کرتے تھے مگر بے بس و لاچار لوگوں کو تعذیب کے شکنجے میں کس دیا جاتا تھا۔ قرآن
مجید کے مطالعے سے بھی یہی بات سامنے آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قوموں کی ہلاکت و
بربادی کا جہاں بھی ذکر کیا ہے اس کی وجہ ظلم و عدوان، ان کی مجرمانہ زندگی اور ان
کا فسق و فجور ہی بتائی ہے۔ سورہ الحج، آیت نمبر ۴۵؍
میں فرمایا: ’’کتنی ہی خطاکاربستیاں ہیں جن کو ہم نے تباہ کیا ہے اور آج وہ اپنی
چھتوں پر اُلٹی پڑی ہیں، کتنے ہی کنویں بیکار اور کتنے ہی قصر کھنڈر بنے ہوئے
ہیں۔‘‘
اسی سورہ میں دوسرے مقام
پر فرمایا کہ ’’کتنی ہی بستیاں ہیں جو ظالم تھیں، میں نے ان کو پہلے مہلت دی، پھر
پکڑ لیا اور سب کو واپس تو میرے پاس ہی آنا ہے۔‘‘ (الحج: ۴۸)۔ قوم تبع اور ان سے پہلے
کی اقوام کے بارے میں کہا کہ : ’’ہم نے انہیں ہلاک کردیا، یقیناً وہ مجرم تھے۔‘‘
سورہ احقاف میں سنت الٰہی
بتائی ’’کیا نافرمان لوگوں کے سوا اور کوئی ہلاک ہو گا؟ ‘‘ (آیت:۳۵) آل فرعون اور ان سے پہلے
لوگوں کی بربادی کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا: ’’ہم نے انہیں ان کے گناہوں کی وجہ سے
ہلاک کیا۔‘‘
یہ بات ذہن میں رہے کہ کسی
معاشرہ کو ظالمانہ بنیادوں پر استوار کرنے اور اس میں فواحش و منکرات کو رواج دینے
والے ہمیشہ بقول قرآن مترفین یا بہ الفاظ دگر سرمایہ دار ہوتے ہیں۔ اپنے سرمائے
کے بل پر وہ لوگ ملک کے اندر ایسا نظام معیشت قائم کرتے ہیں جس سے زیادہ سے زیادہ
وسائل دولت انہی کے ہاتھ میں رہیں اور ملک کی بہت بڑی آبادی کو صرف قوت ِ لایموت
ہی میسر آسکے۔ قرآن مجید اس حقیقت کی نشاندہی ان الفاظ میں کرتا ہے:
’’جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوش حال
لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ
اس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔‘‘
(الاسراء: ۱۶)
22 دسمبر 2023 ، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
---------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism