میر محمد حسین
(پہلا حصہ)
15 دسمبر 2023
’’دنیا کی یہ زندگی (جس کے نشے میں مست ہو کر تم ہماری نشانیوں سے
غفلت برت رہے ہو) اس کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے ہم نے پانی برسایا تو زمین کی
پیداوار، جسے آدمی اور جانور سب کھاتے ہیں ، خوب گھنی ہو گئی، پھر عین اُس وقت
جبکہ زمین اپنی بہار پر تھی اور کھیتیاں بنی سنوری کھڑی تھیں اور ان کے مالک یہ
سمجھ رہے تھے کہ اب ہم ان سے فائدہ اُٹھانے پر قادر ہیں ، یکایک رات کو یا دن کو
ہمارا حکم آ گیا اور ہم نے اسے ایسا غارت کر کے رکھ دیا کہ گویا کل وہاں کچھ تھا
ہی نہیں اس طرح ہم نشانیاں کھول کھول کر پیش کرتے ہیں اُن لوگوں کے لئے جو سوچنے
سمجھنے والے ہیں۔‘‘ (سورہ یونس:۲۴)
قرآن مجید کی مذکورہ آیت
کریمہ میں بتایا گیا ہے کہ ظہور، کمال اور زوال فطرت کا وہ اصول ہے جو کائنات کی
ہر چیز میں جاری و ساری ہے۔ پودا زمین سے پھوٹتا، پروان چڑھتا، درخت بن کر پھیلتا
پھولتا اور پورے جوبن پر آکر مقررہ مدت کے لئے زمین کا زیور بنارہتا ہے،مگر
آخرکار اس کی جڑیں سوکھنے اور شاخیں مرجھانے لگتی ہیں تاآنکہ وہ ٹنڈمنڈ ہوکر
پیوند ِ زمین ہوجاتا ہے۔
کائنات کی ہر دوسری چیز
کی طرح خود انسان کی انفرادی زندگی کا بھی یہی حال ہے۔ وہ ایک ناتواں بچے کی صورت
میں جنم لیتا، بتدریج پروان چڑھتا اور عالم شباب کو پہنچتا ہے اور آخرکار بڑھاپے
میں اضمحلال ِ قویٰ کا شکار ہوکر موت کے سیاہ دبیز پردوں کے پیچھے ہمیشہ کے لئے
روپوش ہوجاتا ہے۔ اس کی اجتماعی زندگی میں بھی یہی اصول کارفرما ہے۔ قومیں صفحہ ٔ
ہستی پر نمودار ہوتی ہیں ، جدوجہد سے غلبہ و اقتدار حاصل کرتی ہیں اور آخر میں
زوال کا شکار ہوکر نکبت و ادبار کی ظلمتوں میں اس طرح گم ہوجاتی ہیں کہ صرف تاریخ
میں ان کا نام رہ جاتا ہے۔
فطرت کا یہ اصول اس قدر
ہمہ گیر ہے کہ دنیا کی کوئی قوم بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے:
’’ہر قوم کے لیے مہلت کی
ایک مدت مقرر ہے، پھر جب کسی قوم کی مدت آن پوری ہوتی ہے تو ایک گھڑی بھر کی تاخیر
و تقدیم بھی نہیں ہوتی ۔‘‘ (اعراف:۳۴)
ظہور و زوال کا یہ درمیانی
وقفہ کتنے عرصہ کا ہوتا ہے، فلسفہ اجتماع کے ماہرین نے اس کی مدت اپنے اپنے مشاہدے
اور مطالعے کے مطابق بتائی ہے۔ کوئی اسے فرد کی زندگی سے تشبیہ دیتے ہوئے اس کی
عمر، انسان کی زیادہ سے زیادہ ممکن عمر کے برابر یعنی ایک سو بیس کے قریب بتاتا ہے
اور کسی کی رائے میں پانچ صدیاں گزرنے کے بعد ہر قوم زوال پزیر ہوجاتی ہے۔ لیکن
سچی بات یہ ہے کہ اس بارے میں کوئی قطعی بات نہیں کہی جاسکتی۔ کیونکہ کسی قوم کی
نسلی خصوصیات، اس کی عادات و مزاج، اس کے مذہبی معتقدات و اعمال، اس کی تاریخی
روایات، آب و ہوا، محل وقوع، معاشی و تمدنی نظام، غرض بہت سے ایسے عوامل ہیں جو
اس کی صلابت و جلاوت یا اس کے ضعف و اضمحلال پر اثرانداز ہوتے ہیں ۔ ایک مضبوط اور
صحت مند جسم بیماریوں کا زیادہ دیر تک مقابلہ کرسکتا ہے اور زیادہ عرصہ تک جی سکتا
ہے جبکہ ایک پیدائشی طور پر لاغر و ناتواں انسان، آسانی سے جسمانی عوارض کا شکار
ہوکر بہت جلد موت کے گھاٹ اترسکتا ہے۔
اِسی طرح وہ قوم جو
جفاکش، شدائد و مشکلات کا تحمل کرنے والی ہو، جس کے اسلاف نے تاریخ میں غیرت و
شجاعت اور ایثار و قربانی کے غیرمعمولی یادگار کارنامے چھوڑے ہوں ، جنہوں نے اس
قوم کے اندر عزت سے جینے یا کٹ مرنے کا جذبہ ہمیشہ زندہ رکھا ہو، جو صحراؤں یا
کوہستانوں کی سخت کوش زندگی کی خوگر ہو اور جس کا مذہب اسے پاکیزہ خیالات رکھنے
اور پاکیزہ اعمال کی تلقین کرتا ہو، اس قوم کے مقابلہ میں زیادہ دیرپا ثابت ہوتی
ہے جس کے سامنے عزت سے جینے کی کوئی مثال اس کے اسلاف نے نہ چھوڑی ہو یا تعیش و
تنعم کی زندگی کی خوگر ہوجائے اور جسے خبائث اعمال سے روکنے والا اس کا اپنا کوئی
اجتماعی ضمیر بھی نہ ہو۔ غالباً اسی لئے قرآن مجید نے یہ بات تو بار بار دہرائی
ہے کہ لکل امۃ اجل کہ ہر قوم کے لئے ایک مدت مقرر ہے، لیکن اس مدت کا تعین کہیں
نہیں کیا۔
البتہ بنی اسرائیل کے زوال
اور امت مسلمہ کے کمال و عروج کی داستان ہمارے سامنے بڑی تفصیل سے رکھی ہے جس کے
مطالعہ سے ہم عروج و زوال ِ امم کے قرآنی اصولوں کو ضرور معلوم کرسکتے ہیں ۔ بے
شک دوسری بہت سی قوموں کے زوال کو بھی قرآن مجید میں بار بار دہرایا گیا ہے تاہم
اس میں اس تفصیل سے کام نہیں لیا گیا جس سے بنی اسرائیل کے کردار کو بیان کیا گیا
ہے۔
چونکہ قرآن مجید کوئی
عمرانیات کی کتاب نہیں ، اس لئے اس میں ان اصولوں کو اسی طرح گن گن کر تو بیان
نہیں کیا گیا جس طرح اس موضوع کی کسی دوسری کتاب میں بیان کیا جاتا ہے، البتہ امت
ِ مسلمہ کے احوال و احکام کو جس تفصیل، تذکرہ، تاکید، تمثیل، اولیت اور اعادہ و
تکرار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان امور کو کسی
قوم کے غلبہ اور تمکن فی الارض میں گہرا دخل ہے اور ان کا فقدان اس کے زوال و
انحطاط کا مؤجب بن سکتا ہے۔
اس سلسلے میں قرآن مجید
کے مطالعے سے جو چیز سب سے پہلے ہمارے سامنے آتی ہے وہ کسی قوم کا اتحاد و اتفاق
ہے۔ ظاہر ہے جب تک کسی قوم کے تمام افراد باہم متحد نہیں ہوتے اور کوئی مضبوط
رشتۂ وحدت انہیں باہم دگر وابستہ و پیوستہ نہیں کردیتا اس وقت تک اُسے وہ قوت و
طاقت میسر نہیں آسکتی جس سے کام لے کر وہ دنیا والوں سے اپنا لوہا منواسکے۔ یہی
وجہ ہے کہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مسلمانوں کے باہمی اتحاد و یگانگت کو نعمت
ِ عظمیٰ قرار دیا ہے، اسے قائم رکھنے کی تاکید کی ہے اور انتشار و افتراق کے
ہولناک نتائج پر متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور تم
کمزور پڑجاؤ گے ۔ چنانچہ آل عمران میں انہیں تاکید کی کہ ’’سب مل کر اللہ کی رسی
کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو ‘‘ (۱۰۳) اور سورہ انفال میں انتباہ کیا کہ ’’اللہ
اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری
پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی ۔‘‘ (۴۶)
دنیا میں غلبہ و تمکن کے
حصول کی اس خشت ِ اول کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ خود رسول اللہ ﷺ کو
مخاطب کرتے ہوئے کہا گیاکہ ایک دوسرے کے خون پیاسے قبائل کو باہم شیر و شکر کردینا
آپ کے بس کی بات نہ تھی۔ یہ اللہ کا بہت بڑا فضل سمجھئے کہ اس نے نفرت و عصبیت کی
دیواروں کو توڑ کر انہیں ایک دوسرے کا بھائی بھائی بنادیا ۔ ان عربوں کی مثال
ہمارے سامنے ہے۔ وہ بے شمار ایسے قبائل میں بٹے ہوئے تھے جو ہمیشہ معمولی معمولی
باتوں پر ایک دوسرے سے دست و گریباں رہتے تھے۔ ان میں قبائلی تفاخر کوٹ کوٹ کر
بھرا ہوا تھا۔ وہ ایک دوسرے کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ یہی سبب تھا کہ ان کی
کوئی قوت نہ تھی۔ لیکن آپﷺ کی بعثت کے بعد وہ کلمۂ توحید پر اس طرح اخوت و
یگانگت کے رشتے میں منسلک ہوگئے کہ ایک دوسرے کی خاطر جان دینے سے بھی دریغ نہیں
کرتے تھے۔ اس اتحاد و وحدت نے ان کو وہ قوت دے دی کہ وہ اپنے وقت کی دو سپر طاقتوں
کو پامال کرکے انہیں اپنے زیرنگیں لے آئے، مگر شومیٔ قسمت سے امت ِ مسلمہ کی یہ
وحدت زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی۔
کسی قوم کی ترقی و عروج کے
لئے دوسرا بڑا عامل علم ہے۔ ہوسکتا ہے ایک وحشی و جاہل قوم اپنی سفاکی و خونریزی
کی بدولت چند روز کے لئے برسراقتدار آجائے مگر اس کے قصر ِ اقتدار کی بنیاد اتنی
کمزور ہوتی ہے کہ بہت جلد زمین بوس ہوجاتی ہے جبکہ دنیا میں جتنی قوموں نے دیرپا
عروج حاصل کیا، علم ہی کی بدولت کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنی تعلیمات میں
حصولِ علم پر بڑا زور دیا ہے۔ قرآن و سنت کے صفحات میں جابجا اس کے فضائل نظر
آتے ہیں ۔ نبی کریم ؐ پر سب سے پہلی جو وحی نازل ہوئی اس میں حصول علم ہی کی
تاکید کی گئی اور سب سے پہلے انسان پر خدا کی نعمت ِ علم ہی کو شمار کیا گیا۔ اور
اس غیرمتناہی میدان میں جولانیوں کے لئے انسان کی غیرمحدود استعداد کی طرف اشارے
کئے گئے۔ علم کے لئے اسی غیرمحدود استعداد کی بدولت آدمؑ نے فرشتوں پر برتری حاصل
کی اور انہیں خلعت ِ خلافت سے نوازا گیا۔ اہل علم اور غیراہل علم میں جو
بعدالمشرقین پایا جاتا ہے اس کو یہ کہہ کر واضح کیا کہ ’’کیا جاننے والے اور نہ
جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہو سکتے ہیں ؟ ‘‘ (زمر:۹)۔ پہلے مسلمانوں کے نزدیک
علم کا کیا مقام تھا، اس کا اظہار حضرت معاذؓ کے ایک خطبے سے ہوتا ہے جو آپ نے
علم کے بارے میں ارشاد فرمایا۔ میرے خیال میں علم کے موضوع پر اس پر اضافہ ناممکن
ہے۔ آپ فرماتے ہیں :
’’علم حاصل کرو، کیونکہ اس
کا سیکھنا خشیت ِ الٰہی، اس کی تلاش عبادت، اس کا تکرار و اعادہ تسبیح، اس کی
تحقیق جہاد، اَن پڑھوں کو اس کا سکھانا صدقہ اور اہل لوگوں پر اس کا خرچ کرنا قربِ
خداوندی ہے، کیونکہ اس سے حلال و حرام کا پتہ چلتا ہے اور اس سے اہل جنت کی راہیں
روشن ہوتی ہیں ۔ یہ پریشانیوں میں مونس جان ، غریب الوطنی میں ساتھی، تنہائیوں میں
ہم سخن، دکھ سکھ میں راہنما، دشمنوں کے خلاف ہتھیار اور دوستوں میں زینت ہے۔ اس کی
بدولت اللہ تعالیٰ قوموں کو سربلند کرکے اچھے کاموں میں امام و پیشوا بنادیتا ہے
جن کے نشان ہائے قدم سے لوگ اقتباسِ نور کرتے، ان کے کارناموں کی پیروی کرتے اور ان
کی رائے سے استناد کرتے ہیں ۔ فرشتے اُن کی دوستی کے خواہاں ہیں اور اپنے پروں سے
انہیں چھوتے ہیں ۔ دنیا کی ہر رطب و یابس چیز حتیٰ کہ سمندروں میں مچھلیاں اور
دوسرے حشرات، خشکی کے درندے اور چوپائےان کے لئے استغفار کرتے ہیں ۔ کیونکہ علم
جہالت کی وجہ سے مردہ دلوں کے لئے باعث ِ حیات اور تاریکیوں میں آنکھوں کے لئے
چراغ ہے۔ اس کی بدولت انسان نیک لوگوں کے مرتبے تک پہنچتا بلکہ دنیاو آخرت میں اس
سے بھی بلند تر مقام پالیتا ہے۔ اس میں غور و فکر کرنا روزے اور اس کا پڑھنا
پڑھانا نماز کے برابر ہے۔ اس کے ذریعے رشتوں کو جوڑا اور حلال و حرام میں امتیاز
کیا جاتا ہے۔ علم، عمل کا امام اور عمل علم کا تابع ہے۔ یہ سعادت مندوں کو ہی نصیب
ہوتا ہے، بدنصیب اس سے محروم رہتے ہیں۔‘‘ (حیاۃ الصحابہ) (جاری)
15 دسمبر 2023 ، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
--------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism