New Age Islam
Thu Apr 17 2025, 08:43 PM

Urdu Section ( 3 Oct 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Juloos-e-Mohammadi Has Taken the Form of a Sectarian Event, Promoted by Sectarian Clerics جلوسِ محمدی نے فرقہ وارانہ شکل اختیار کر لی ہے، جسے فرقہ پرست مولوی فروغ دے رہے ہیں

 نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر

 18 ستمبر 2023

 بریلوی فرقہ جلوس محمدی صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کو فروغ دے رہا ہے جبکہ دیوبندی اور اہل حدیث فرقے اسے بدعت سمجھتے ہیں

 اہم نکات:

 1. پیغمبر اسلام صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کا یوم ولادت مسلمانوں کے لیے ایک بڑا تہوار بن چکا ہے۔

 2. اس کا آغاز جمعیت علمائے ہند نے آزادی سے قبل کانپور میں کیا تھا۔

 3. اس میں گاندھی جی سمیت ہندو اور مسلم دونوں لیڈروں نے شرکت کی تھی۔

 4. جلوسِ محمدی کی روایت کو فرقہ پرست مولویوں نے دوبارہ زندہ کیا ہے۔

 5. جلوس محمدی میں شرکت کو عشق رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

 ------

 ربیع الاول کے اسلامی مہینے کی 12 تاریخ کو پیغمبر اسلام صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کا یوم ولادت اب برصغیر پاک و ہند میں ایک بڑے اسلامی تہوار کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ہندوستان میں پیغمبر اسلام کا یوم ولادت باراوفات کے نام سے منایا جاتا تھا اور 80 کی دہائی تک اس کا دائرہ محدود تھا۔ آنجہانی راجیو گاندھی کی حکومت نے پیغمبر اسلام صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کے یوم پیدائش کو تعطیل کا اعلان کیا۔ اس کے بعد سے اسے کافی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ لیکن جلوس محمدی نکالنے کی روایت 20 سال پہلے ہی شروع ہوئی تھی۔ اب جلوس محمدی نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کی سالگرہ کے موقع پر ایک بہت بڑی تقریب بن چکی ہے۔ اس کے بغیر ربیع الاول کی تقریب نامکمل سمجھی جاتی ہے۔

 جلوس کی تیاریاں ربیع الاول کا چاند نظر آنے سے ہی شروع ہو جاتی ہیں۔ بریلوی فرقہ اس تہوار کو خوب خوب فروغ دینے کی کوشش کرتا رہا ہے جبکہ دیوبندی اور اہل حدیث فرقے اسے بدعت سمجھتے ہیں۔ بریلوی مسلک کے نزدیک جلوس میں شرکت عشقِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کی علامت ہے جب کہ دیوبندیوں اور اہل حدیثوں کا کہنا ہے کہ عشقِ رسول کا اظہار ان کی سنت پر عمل کرنے سے ہوتا ہے نہ کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کے نام پر نکالے گئے جلوس میں محض شرکت کرنے سے۔ آج کل جلوس محمدی صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کی حمایت کرنے والے علماء نے جارحانہ موقف اختیار کیا ہوا ہے۔ ان کے نزدیک جو لوگ جلوس میں شرکت نہیں کرتے ان کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نہیں ہوتی۔ جلوسِ محمدی زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو اپنے گروہ میں شامل کرنے کی ایک چال بن گئی ہے۔ اس لیے علماء نماز جمعہ سے قبل خطاب کرتے ہیں اور اس میں اس دن کی اہمیت اور جولوس میں شریک ہونے پر اللہ کے انعام و اکرام کو بیان کرتے ہیں۔ جو لوگ اسے بدعت قرار دیکر اس کی مخالفت کرتے ہیں انہیں یہ لوگ عشق رسول سے محروم قرار دیتے ہیں۔ اس قسم کے فرقہ وارانہ اقدامات ماحول کو خراب کرتے ہیں۔ بریلوی فرقہ یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ جلوس محمدی صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کی روایت انہوں نے اس لیے شروع کی ہے کیونکہ وہ دوسرے فرقوں سے زیادہ نبی سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ جلوس محمدی صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کا آغاز کانپور میں آزادی سے قبل جمعیت علمائے ہند نے کیا تھا۔ یہ برطانوی حکومت کی جانب سے فوجی چھاؤنی میں جلسے کرنے پر پابندی کے خلاف نکالا گیا ایک جلوس تھا۔ چونکہ جلوس کا دن اتفاق سے 12 ربیع الاول کا تھا، اس لیے جمعیت نے اسے جلوس محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دیا۔ تاہم یہ کوئی مذہبی جلوس نہیں تھا بلکہ پابندی کی خلاف ورزی کا جلوس تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس جلوس میں گاندھی جی سمیت ہندو اور مسلم دونوں لیڈروں نے حصہ لیا تھا۔

 آزادی کے بعد جلوس محمدی کی اس روایت کو دوبارہ زندہ کیا گیا اور اس نے مذہبی جلوس کی شکل اختیار کر لی۔ لیکن جمعیت نے اس سے دوری اختیار کر لی کیونکہ آزادی سے پہلے کا جلوس سیاسی نوعیت کا تھا جبکہ آزادی کے بعد کا جلوس مذہبی نوعیت کا بن گیا، اور چونکہ جلوس نکال کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادت منانے کی نذیر اسلام میں نہیں ملتی، اس لیے جمعیت نے اس سے دوری اختیار کر لی۔ تاہم بریلوی فرقے نے اسے اپنایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سے عقیدت و محبت کے اظہار کے لیے ایک عظیم مذہبی تقریب میں تبدیل کر دیا۔

مغربی بنگال میں، تقریباً بارہ سال قبل کولکتہ سے متصل مسلم اکثریتی ضلع مٹیابروز میں پہلی بار جلوس محمدی نکالا گیا تھا۔ اس کے بعد جلوس محمدی صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نکالنے کی روایت ریاست بنگال کے دیگر حصوں میں بھی پھیلتی گئی۔ گلیوں کو سجایا جاتا ہے اور سڑکوں پر بڑے بڑے بینر آویزاں کیے جاتے ہیں جن میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کی آمد پر مبارکبادیاں دی جاتی ہیں۔ دس دنوں تک لاؤڈ سپیکر پر پوری آواز میں نعتیں بجائی جاتی ہیں۔ اب نعتوں کی کیسٹوں میں ان لوگوں کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگائے جاتے ہیں جو جلوس محمدی کی مخالفت کرتے ہیں اور انہیں گستاخ کہا جاتا ہے۔ لہٰذا پیغمبر اسلام صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کی یاد منانے کا تہوار اب ایک فرقہ وارانہ تقریب کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

 جمعہ کے دن، مغربی بنگال کے ہگلی ضلع کے رشرہ سے تعلق رکھنے والے ٹی ایم سی کے ایک مسلم لیڈر، شاکر علی نے اس فرقہ واریت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا اور مسلمانوں میں پمفلٹ تقسیم کیے جس میں ان سے کہا گیا کہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کے نام پر فرقہ واریت میں ملوث نہ ہوں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام مسلمانوں کے نبی ہیں کسی خاص فرقے کے نہیں۔ انہوں نے ان نام نہاد علماء کی بھی تنقید کی جو فرقہ واریت اور ایک دوسرے سے نفرت کو فروغ دیتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ماحول کو خراب کرنے کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔

 جلوسِ محمدی کی روایت نے ہندوؤں کے اندر ایک منفی ردعمل کو جنم دیا ہے۔ وہ اسے مسلمانوں کی طاقت کا مظاہرہ سمجھتے ہیں اس لیے انہوں نے مغربی بنگال کے مختلف قصبوں میں رام نومی اکھاڑوں کے علاوہ شوبھا یاترائیں شروع کر دی ہیں۔ آہستہ آہستہ، ان شوبھا یاتراؤں کا دائرہ زیادہ سے زیادہ شہروں میں پھیل گیا اور ان یاتراؤں کو کنٹرول کرنا انتظامیہ کے لیے ایک چیلنج بن گیا۔ چونکہ جلوس محمدی ملک کی دوسری ریاستوں میں بھی نکالا جانے لگا اس لیے دیگر ریاستوں میں بھی ان شوبھا یاتراؤں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ مذہبی جلوس مدھیہ پردیش، نئی دہلی، ہریانہ، مغربی بنگال اور مہاراشٹر کے کئی قصبوں میں امن و امان کا مسئلہ بن گئے ہیں۔ ان شوبھا یاتراؤں کے شرکاء ہتھیار لیے ہوئے ہوتے ہیں اور دوسری برادریوں کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہیں۔

 اب اس قسم کے مذہبی جلوسوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بجرنگ دل نے اعلان کیا ہے کہ وہ چار مرحلوں میں پورے مغربی بنگال کے اندر درگا پوجا سے پہلے شوبھا یاترا نکالیں گے۔ یہ یقینی طور پر مغربی بنگال میں درگا پوجا کے موقع پر فرقہ وارانہ کشیدگی کا باعث بنے گا جو اب تک پرامن طریقے سے منایا جاتا رہا ہے۔

 علماء نے ہی جلوس محمدی کو فروغ دیا ہے کیونکہ اس دن وہ جلوسوں کی امامت کرتے ہیں۔ وہ لاکھوں مسلمانوں کو اپنے پیچھے چلتے دیکھ کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ لہذا، ایک دن کی قیادت سے لطف اندوز ہونے کے لیے، انہوں نے ایک ایسی روایت فروغ دیا ہے جو پوری امت مسلمہ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی ہے۔ اسلام نے ہمیشہ نام و نمود کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ مسلمانوں نے وہ راستہ اختیار کیا ہے جس کی قرآن و حدیث نے حوصلہ شکنی کی ہے اور انہیں اس کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ پھر بھی وہ سبق نہیں سیکھتے اور جلوس محمدی کے نام پر طاقت کا جھوٹا مظاہرہ کرنے سے باز نہیں آتے۔

-------------

English Article: Juloos-e-Mohammadi Has Taken the Form of a Sectarian Event, Promoted by Sectarian Clerics

 URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/juloos-mohammadi-sectarian-clerics/d/130811

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..