New Age Islam
Fri May 23 2025, 05:59 PM

Urdu Section ( 26 Sept 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Debunking Islamophobic and Jihadi Myths About 26 Wartime Verses Of Quran Considered Militant And Exclusivist: Part 2 On Verse 9:28 قرآن مجید کی 26 جنگی آیات کے بارے میں اسلاموفوبک عناصر کی غلط فہمیوں کا ازالہ :دوسری قسط آیت ۹:۲۸ پر

 قرآن کریم کی آیت 9:28 کے حوالے سے مشرکین کے نجس ہونے کے متعلق شکوک کا ازالہ

 اہم نکات:

·        آیت کا ارشاد کہ  مشرک ناپاک ہیں،  اس سے مراد مکہ کے مشرکین ہیں۔

·        قرآن میں مذکور "مشرک ناپاک ہیں" کا تعلق ،مشرکین مکہ کے شرک ،  ان کی غداری ، ان کے ذریعہ  امن کے وعدوں کی  خلاف ورزی اور اسلام قبول کرنے والے مسلمانوں پر ان کے  ظلم و ستم سے ہے ۔

·        مشرکوں کے نجس ہونے کے تعلق سے  حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی علماء نے مختلف تشریحات پیش کی ہیں۔

------------

کنیز فاطمہ، نیو ایج اسلام

 30 مارچ 2022

 ہم بات کر رہے تھے کہ چند شر پسند عناصر  قرآن کریم کی آیات کا غلط استعمال کرتے ہیں۔قرآن کریم کو حسن نیت کے ساتھ سمجھنے کی بجائے یہ لوگ ہمیشہ موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ کوئی آیت ایسی مل جائے جنہیں اسلام مخالف ایجنڈے کے لیے استعمال کر لیا جائے ۔ اپنی بھرپور  کوشش سے  انہوں نے  چھبیس آیتیں نکالیں اور انہیں حقائق سے الگ کر کے پیش کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ سادہ عوام ان کے بھڑکاو میں آکر ملک کی سالمیت کو خطرہ پہنچانے کا امکان پیدا کر سکیں۔ لیکن الحمد للہ ، ملک کی سالمیت اب بھی بڑے پیمانہ پر برقرار ہے ۔ اس سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے اب ہم سورہ توبہ کی آیت نمبر ۲۸ کا جائزہ پیش کریں گے ۔

شر پسند عناصر اسلام کے خلاف لوگوں کے  جذبات بھڑکانے کے لیے سورہ توبہ کی آیت ۲۸ کو بھی پیش کرتے ہیں ، جس کا اردو ترجمہ اس طرح سے ہے :’’اے ایمان والو! بے شک مشرک بالکل ہی ناپاک ہیں وه اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس بھی نہ پھٹکنے پائیں اگر تمہیں مفلسی کا خوف ہے تو اللہ تمہیں دولت مند کر دے گا اپنے فضل سے اگر چاہے اللہ علم وحکمت وا ہے۔" (9:28)

 مذکورہ بالا آیت کے حوالے سے کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ اس آیت میں مشرکین سے مراد کون ہیں؟ اس آیت میں مشرکین کو ناپاک کیوں قرار دیا گیا ہے؟ کیا وہ جسمانی یا روحانی طور پر ناپاک ہیں؟ یا وہ صرف اپنے شرکیہ اور کفریہ عقائد کی وجہ سے ناپاک ہیں؟ کیا مشرکین کے لیے مسجد حرام یا پوری دنیا کی تمام مساجد میں داخل ہونا حرام ہے؟ کیا ان کے لیے مسجد حرام میں صرف حج اور عمرہ کے دنوں میں جانا جائز ہے یا دوسرے دنوں میں بھی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات  پیش کرنے سے قبل میں  نے  دستیاب مواد کی طرف رجوع کیا ، اور پھر اس مضمون  میں کوئی بھی بات میں نے اپنی طرف سے نہیں کی ہے بلکہ  مضمون میں مذکور  تمام اقوال مروجہ تفاسیر قرآن سے ماخوذ ہیں۔

 اس آیت میں خاص طور پر جن مشرکین کا ذکر کیا گیا ہے وہ کون ہیں؟ وہ مکہ کے مشرکین ہیں جنہوں نے اپنے امن معاہدے کو برقرار نہیں رکھا جیسا کہ گزشتہ حصے میں بیان کر دیا گیا ہے۔

اس آیت میں مشرکین کو ناپاک کیوں قرار دیا گیا ہے؟ کیا وہ جسمانی یا روحانی طور پر ناپاک ہیں؟ یا وہ صرف اپنے شرکیہ اور کفریہ عقائد کی وجہ سے ناپاک ہیں؟ اگر آپ ان سوالات کے جوابات دریافت کرنے کے لیے مختلف تفاسیر قرآن کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ خدا کے اس علان سے کہ "مشرک ناپاک ہیں" ان کا شرک، امن معاہدوں کی خلاف ورزی اور مذہبی ظلم و ستم مراد ہے۔

 کیا مشرکین کے لیے مسجد حرام یا پوری دنیا کی تمام مساجد میں داخل ہونا حرام ہے؟ کیا ان کے لیے مسجد حرام میں صرف حج اور عمرہ کے دنوں میں جانا جائز ہے یا دوسرے دنوں میں بھی؟ ہاں، مشرکین کے لیے مسجد حرام میں داخل ہونا ممنوع تھا۔ اس ممانعت کی توجیہ مختلف طریقوں سے کی گئی ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس کا مقصد انہیں حج اور عمرہ کرنے سے روکنا اور ساتھ ہی حدود حرم کے اندر جاہلیت کی رسومات ادا کرنے سے بھی روکنا ہے۔ تاہم امام شافعی کا ماننا ہے کہ انہیں کسی بھی وجہ سے مسجد حرام میں داخل ہونا ممنوع ہے۔ امام مالک کے مطابق انہیں نہ صرف مسجد حرام بلکہ دنیا کی کسی بھی مسجد میں داخلہ منع ہے۔ مؤخر الذکر نقطہ نظر کو جمہور علماء اور فقہاء نے قبول نہیں کیا۔

 مفتی بدر الدجیٰ رضوی نے چھبیس آیات پر بہت شاندار مقالہ تحریر فرمایا جسے نیو ایج اسلام ویب سائٹ پر تینوں زبانوں میں نشر کیا گیا ۔  وہ متعدد علمائے اسلام کا حوالہ دیتے ہوئے مذکورہ آیت کے تعلق سے لکھتے ہیں:

 اس آیت میں نجاست سے اس کا متبادر مفہوم بول و براز (پیشاب،پاخانہ) مراد نہیں ہے جیسا کہ اسلام دشمن عناصر سمجھ رہے ہیں بلکہ اس سے ان کا وہ شرک مراد ہے جو نجاست کی منزل میں ہے یا انھیں اس آیت میں نجس اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ وہ صحیح طرح سے طہارت اور غسل وغیرہ نہیں کرتے ہیں اور نجاست سے اجتناب نہیں کرتے ہیں جیسا کہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ یہ کھڑے کھڑے پیشاب کرتے ہیں اور پیشاب کی چھینٹوں سے نہیں بچتے ہیں، ایک لوٹا پانی سے اجابت کرتے ہیں ان اسباب و وجوہات کی بنا پر ان پر نجاست کا اطلاق کیا گیا ہے۔  اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ بول و براز کی طرح عین نجس ہیں جیسا کہ تفسیر ابی سعود میں ہے: وصفوا بالمصدر مبالغۃ کانھم عین النجاسۃ أو ھم ذو نجس لخبثِ باطنھم او لان معھم الشرک الذی ھو بمنزلۃ النجس او لانھم لا یتطھرون ولایغتسلون ولا یجتنبون النجاسات فھی ملابسۃ لھم۔ (تفسیر ابی سعود ج: 4، ص: 57)

      بلکہ علامہ امام ابو زکریا بن شرف نووی دمشقی رحمۃ اللہ علیہ صحیح مسلم باب الدلیل علی ان المسلم لاینجس کے تحت فرماتے ہیں : طہارت و نجاست میں کافر کا وہی حکم ہے جو مسلم کا حکم ہے یہی شوافع اور جمہور سلف و خلف کا بھی مذہب ہے اور آیت مبارکہ "انما المشرکون نجس" سے کفار و مشرکین کے اعتقاد کی نجاست مراد ہے یہ مراد نہیں ہے کہ بول و براز اور ان کے امثال کی طرح ان کے اعضا نجس ہیں۔

 امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : و اما الکافر فحکمہ فی الطھارۃ و النجاسۃ حکم المسلم ھذا مذھبنا و مذھب الجماھیر من السلف و الخلف و أما قول اللہ عزو جل: "اِنَّمَا المُشرِکُونَ نَجَسٌ" فالمراد نجاسۃ الاعتقاد و الاستقذار و لیس المراد ان اعضاءھم نجسۃ کنجاسۃ البول و الغائط و نحوھما" ( شرح مسلم للنووی، کتاب الطھارۃ/ باب الدلیل علی ان المسلم لا ینجس، ص162: مجلس برکات جامعہ اشرفیہ مبارک پور)

فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَٰذَا  تو اس برس کے بعد وہ مسجد حرام کے پاس نہ آنے پائیں (کنزالایمان)

        اس آیت میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ کفار ومشرکین کو مسجد حرام کے قریب آنے سے روکیں۔

مام نووی شافعی دمشقی فرماتے ہیں : حرم کے علاوہ باقی مساجد میں مسلمانوں کی اجازت سے کافر کا داخل ہونا جائز ہے (خواہ وہ ذمی ہو یا مستامن بت پرست ہو یا اہل کتاب) اس لیے کہ ثقیف کا ایک وفد رمضان کے مہینے میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آیا آپ نے ان کے لیے مسجد میں خیمہ نصب کیا جب وہ اسلام لے آئے تو انہوں نے روزے رکھے اس حدیث کو طبرانی نے اپنی سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی وہ روایت بھی ہے جس میں ثمامہ بن اثال کو گرفتار کرکے مسجد کے ستون سے باندھنے کا ذکر ہے اس وجہ سے امام شافعی نے حکم لگایا ہے کہ مسلمان کی اجازت سے کافر کا مسجد میں داخل ہونا جائز ہے خواہ وہ غیر اہل کتاب ہو البتہ مکہ کی مساجد اور حرم میں کسی کافر کا داخل ہونا جائز نہیں ہے۔ علامہ نووی نے "مجموع" میں لکھا ہے کہ ہمارے اصحاب یہ کہتے ہیں  کہ حرم میں کسی کافر کو نہ داخل ہونے دیا جائے اور غیر حرم کی ہر مسجد میں کافر کا داخل ہونا جائز ہے اور مسلمانوں کی اجازت سے وہ رات کو مسجد میں رہ سکتا ہے (تکملہ شرح تہذیب ج 9 ص 436، 437 مطبوعہ دارالفکر بیروت)

       احناف کے نزدیک غیر معاہد (جن سے مسلمانوں کا معاہدہ نہ ہوا ہو) مشرکین کو حرم اور اسی طرح باقی مساجد میں داخل ہونے سے منع کیا جائے گا اور اہل ذمہ کو حرم اور اسی طرح باقی مساجد میں داخل ہونے سے منع نہیں کیا جائے گا۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ سیر کبیر میں فرماتے ہیں: و ذکر عن الزھری ان ابا سفیان بن حرب کان یدخل المسجد فی الھدنۃ وھو کافر غیر ان ذلک لا یحل فی المسجد الحرام قال اللہ تعالی: إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ (سیر کبیر مع شرحہ ج :1، ص 134 مطبوعہ المکتبۃ للثورۃ الاسلامیہ افغانستان )

    زہری سے روایت ہے کہ معاہدہ حدیبیہ کے ایام میں ابو سفیان مسجد میں آتے تھے حالاں کہ اس وقت وہ کافر تھے البتہ یہ مسجد حرام میں جائز نہیں ہے کیوں کہ اللہ  تعالیٰ فرماتا ہے: مشرکین نجس ہیں وہ مسجد حرام کے قریب نہ آئیں۔

      امام محمد کے اس قول سے متبادر ہوتا ہے کہ مطلق مشرکین کو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روک دیا جائے گا لیکن جامع صغیر میں انہوں نے اس کی صراحت کی ہے کہ اہل ذمہ کے حرم میں داخل ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ فرماتے ہیں: ولا باس بان یدخل اھل الذمۃ المسجد الحرام"  (جامع صغیر ص : 153 مطبوعہ مصطفائی ہند)

    امام محمد کی صراحت کے پیشِ نظر فقہاے احناف کا نظریہ یہ ہے کہ اہل ذمہ کو کعبہ شریف اور باقی مساجد میں داخل ہونے سے منع نہیں کیا جائے گا یہ ممانعت صرف مشرکین غیر معاہد کے لیے ہے۔

    عالمگیری میں ہے:

     لا باس بدخولِ اھل الذمۃ المسجد الحرام و سائر المساجد و ھو الصحیح کذا فی المحیط للسرخسی [ فتاویٰ عالمگیری، ج: 5، ص: 346، مطبوعہ مطبع کبریٰ امیریہ بولاق مصر]

    یہاں پر "وھو الصحیح" سے اس طرف اشارہ ہے کہ علامہ سرخسی نے  شرح سیرِ کبیر میں جو یہ لکھا ہے کہ مسجد حرام اور باقی مساجد میں حربی اور ذمی دونوں کے داخل ہونے کی ممانعت نہیں ہے یہ صحیح نہیں ہے۔

      امام مالک کے نزدیک کسی بھی قسم کے غیر مسلم کو کسی بھی مسجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے خواہ وہ مسجد حرم ہو یا غیر حرم کی مسجد۔

      امام احمد بن حنبل کے نزدیک مطلقا  حرم (مکۃ المکرمہ کا وہ حصہ جو حرم میں داخل ہے ) میں مشرکین کا داخلہ ممنوع ہے اس میں مسجد حرام کی کوئی تخصیص نہیں ہے اور غیر حرم کی مساجد میں ان کے دو قول ہیں۔

     یہ تمام حوالے جیسا کہ مفتی بدر الدجی رضوی نے کہا ہے کہ علامہ غلام رسول  سعیدی رحمہ اللہ کی شرح  صحیح مسلم ج: 3، ص: 681، 682، 683  سے لیے ہیں ۔

(جاری)

-------------

English Article: Debunking Islamophobic and Jihadi Myths About 26 Wartime Verses Of Quran Considered Militant And Exclusivist: Part 2 On Verse 9:28

Urdu Article: Debunking Islamophobic and Jihadi Myths about 26 Wartime Verses: Part 1 on Verse 9:5 قرآن مجید کی 26 جنگی آیات کے بارے میں اسلاموفوبک کی غلط فہمیوں کا ازالہ :پہلی قسط آیت 9:5 پر

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/islamophobic-myths-wartime-quran-militant/d/128034

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..