کنیز فاطمہ ، نیو ایج اسلام
26 مارچ 2022
اہم نکات:
1. آیت 9:5 مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان جنگ کے تاریخی تناظر
میں نازل ہوئی تھی۔
2. آیت 9:5 کا اطلاق موجودہ حالات پر نہیں منطبق نہیں جہاں ایسا قانون
موجود ہے جو مذہبی ظلم و ستم کی اجازت نہیں دیتی۔
3. آیت 9:5 میں لفظ مشرکین سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے امن معاہدے
کی خلاف ورزی کی اور مسلمانوں پر حملہ کیا۔
۔۔
کچھ لوگوں نے حال ہی میں قرآن
کریم کی 26 آیات پر اعتراض کیا ہے، باوجود اس کے کہ وہ مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے
درمیان جنگ کے تاریخی تناظر میں نازل ہوئی تھیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ سپریم کورٹ
کی طرف سے ان کی اپیلیں مسترد کر دی گئیں، کچھ سوشل میڈیا صارفین ان آیات کے بارے میں
گمراہ کن معلومات پھیلاتے رہتے ہیں۔ دینیات کا ایک عام طالبہ ہونے کی حیثیت سے ، میں
نے ان آیات کے بارے میں اپنی تحقیق اور تفہیم کی بنیاد نیو ایج اسلام ویب سائٹ پر شائع مضامین اور تشریحات پر رکھی ہے۔ میں امید کرتی ہوں
کہ زیادہ سے زیادہ لوگ سچائی کے بارے میں مزید
آگاہ ہو جائیں گے اور غلط معلومات پھیلانے سے گریز کریں گے، کیونکہ جھوٹ بولنا تمام
دھرموں اور عقائد کے نظاموں میں منع ہے۔
ان ۲۶ چھبیس
آیتوں میں پہلے ہم سورہ توبہ کی آیت ۵ پر گفتگو کریں گے جسے سب سے
زیادہ سیاق و سباق سے قطع نظر کرکے پیش کیا جاتا ہے ۔
آیت کریمہ میں اللہ تعالی
ارشاد فرماتا ہے :
‘‘پھر جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو تم (حسبِ اعلان) مشرکوں کو قتل
کر دو جہاں کہیں بھی تم ان کو پاؤ اور انہیں گرفتار کر لو اور انہیں قید کر دو اور
انہیں (پکڑنے اور گھیرنے کے لئے) ہر گھات کی جگہ ان کی تاک میں بیٹھو، پس اگر وہ توبہ
کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ بیشک اللہ
بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے’’ (سورہ توبہ آیت ۵)
مذکورہ بالا آیت سورہ توبہ
کی آیت ہے جسے اچھی طرح سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ اس سورۃ کے شان نزول
یعنی اس سورۃ کے نازل ہونے کے سبب اور بیک گراونڈ کو سمجھیں تاکہ اس آیت کے تعلق سے
جو غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں انہیں دور کیا جا سکے ۔
مدرسہ عربیہ اشرفیہ ضیاء العلوم
خیرآباد، ضلع مئو، یوپی، (انڈیا) کے سینیئر استاذ
مولانا بدر الدجیٰ رضوی مصباحی نے ۲۶ آیتوں کے تعلق سے جو بد گمانیاں
پھیلائی جا رہی ہیں اس کے متعلق سولہ قسطوں پر مشتمل ایک بہت عمدہ اور جامع سیریز لکھی
ہے جسے نیو ایج اسلام پر تینوں زبانوں میں شائع کیا چکا ہے ۔وہ اپنے مضمون میں لکھتے
ہیں :
سورۂ توبہ کی ابتدائی 30 یا
40 آیات کا نزول فتحِ مکہ کے بعد 9 ہجری میں ہوا مسلمانوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی
اجازت اور حضور ﷺ کے اتفاق سے مشرکینِ مکہ اور دیگر قبائلِ عرب سے جنگ بندی کا معاہدہ
کر رکھا تھا جس کی پاسداری فریقین پر ضروری تھی مسلمان اس عہد و پیمان پر عمل پیرا
رہے لیکن بنو ضمرہ اور بنو کنانہ کو چھوڑ کر دیگر مشرکین مکہ اور قبائل عرب نے عہد
شکنی کی جس کا ذکر سورۂ توبہ کی آیت نمبر
4 میں صراحت کے ساتھ موجود ہے حتی کہ صلح حدیبیہ
کے آخری معاہدے کو بھی انھوں نے پسِ پشت ڈال دیا جس کی دفعات بظاہر مسلمانوں کی کمزوری
کی طرف مُشعِر تھیں۔اس ترقی یافتہ دور میں غیر مسلم دنیا بھی عہد و پیمان کا احترام
کرتی ہے اور ایفائے عہد کو ہر حال میں لازم قرار دیتی ہے اور اسلام میں تو ایفاے عہد
کی سخت تاکید کی گئی ہے قرآن مجید میں جا بجا عہد و پیمان پر عمل آوری کا حکم دیا گیا
ہے اور یہاں تک فرمایا گیا ہے کہ تم عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہوگا۔ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ
إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا ( بنی اسرائیل ، آیت: 34)
لیکن ظاہر ہے کہ جب ایک فریق عہد
شکنی پر اتر آتا ہے تو عہد خود بخود ساقط ہوجاتا ہے اور یہی یہاں پر بھی ہوا، جب مشرکینِ
مکہ کی عہد شکنی سامنے آگئی تو حضور ﷺ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کو 9 ہجری
میں حج کے موقع پر امیر الحج بنا کر مکۃ المکرمہ روانہ فرمایا اور ان کے پیچھے عضبا
( اونٹنی ) پر سوار کرکے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی مکۃ المکرمہ بھیجا حضرت
ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے یوم ترویہ ( 8/ ذی الحجہ ) کو خطبہ ارشاد فرمایا
جس میں آپ نے مناسک حج بیان فرمائے اور یوم نحر 10/ ذی الحجہ ) کو حضرت علی کرم اللہ
وجہہ الکریم نے جمرہ عقبہ کے پاس کھڑے ہوکر مشرکین مکہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے
لوگو! میں تمھاری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرستادہ بن کر آیا ہوں مشرکین
نے کہا: آپ ہمارے لیے کیا پیغام لے کر آیے ہیں؟ اس کے جواب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ
نے سورۂ توبہ کی ابتدائی 30 یا 40 آیات طیبات کی تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ میں تمھارے
پاس چار باتوں کا حکم لے کر آیا ہوں (1) اس سال کے بعد کوئی مشرک کعبہ شریف کے پاس
نہ آئے (2) کوئی شخص برہنہ ہوکر کعبہ شریف کا طواف نہ کرے (3) جنت میں سوائے اہل ایمان کے کوئی داخل نہیں
ہوگا (4) ہر ذمی کے عہد کو پورا کیا جائے گا ( تفسیر ابی سعود ج: 4، ص: 41
مذکورہ تفصیل سے یہ مبرہن
ہوگیا کہ آیت نمبر 5 میں جن مشرکین کو اشہر حرم کے بعد مارنے یا ان سے جنگ کرنے کا
حکم دیا گیا ہے اس سے عام کفار و مشرکین مراد نہیں ہیں بلکہ اس کا تعلق ان مشرکینِ
عرب سے ہے جنھوں نے مسلمانوں سے نہ صرف یہ کہ عہد شکنی کی بلکہ دعوت اسلام کی پامالی
کے لیے اپنی ناپاک مساعی صرف کردیں جیسا کہ "فاقتلوا المشرکین" کی تفسیر
میں صاحب تفسیر ابی سعود فرماتے ہیں : " الناکثین خاصۃ فلایکون قتال الباقین مفھوما
من عبارۃ النص بل من دلالتہ" [ تفسیر ابی سعود ج: 4، ص: 43] (یعنی اس سے صرف وہ
مشرکین مراد ہیں جنہوں نے عہد شکنی کی ۔رہی بات باقی مشرکین کی تو ان سے قتال کرنا مراد نہیں جیساکہ نص کی عبارت
سے واضح ہے بلکہ دلالۃ النص سے بھی واضح ہے )
اور صاحبِ مدارک نے بھی اس
کی یہی تفسیر بیان کی ہے فرماتے ہیں :" الذین نقضوکم و ظاھروا علیکم" [ تفسیر
النسفی ، ج: 2، ص: 116، اصح المطابع ممبئی ]
بلکہ اس سورت میں اول سے آخر
تک خطاب انھیں کفار و مشرکین کے ساتھ ہے جنھوں نے اپنے عہد کی پاسداری نہیں کی جیسا
کہ اس سے اگلی آیت کی تفسیر میں صاحب تفسیر ابی سعود فرماتے ہیں : المراد بالمشرکین
الناکثون لان البراءۃ انما ھی فی شانھم [ ایضا، ص: 44]
ان مستند اور معتبر تفسیرات
سے یہ عیاں ہوگیا کہ سورۂ توبہ کی اس آیت مبارکہ میں جو مشرکین و کفار کو قتل کرنے
اور وہ جہاں ملیں وہاں انھیں مارنے اور دھر پکڑ کا جو حکم دیا گیا ہے اس سے عام کفار
و مشرکین اور برادران وطن مراد نہیں ہیں جیسا کہ وسیم رضوی اور اسلام دشمن عناصر پروپیگنڈہ
کر رہے ہیں بلکہ اس سے خاص عہد رفتہ کے وہ مشرکین مکہ اور قبائل عرب مراد ہیں جنہوں
نے مسلمانوں کے ساتھ قتل و غارت گری، دھوکہ دھڑی اور عہد شکنی جیسے بھیانک جرائم کا
ارتکاب کیا قرآن ہرگز اس امر کا داعی نہیں ہے کہ بلا وجہ چلتے پھرتے بے قصور یا دیگر
لوگوں پر کلاشنکوف سے گولیاں برسائی جائیں اور سیکڑوں بچوں کو یتیم اور عورتوں کے سروں
سے سہاگ کی ردائیں چھین لی جائیں قرآن تو اس کا داعی ہے کہ اگر ایک انسان نے بلا وجہ
کسی بھی انسان کی جان لے لی خواہ وہ کسی بھی مذہب کا متبع ہو تو گویا کہ وہ روئے زمین
کے تمام انسانوں کا قاتل ہے اور اگر کسی نے کسی بھی مظلوم و مقہور کمزور اور ناتواں
انسان کی جان بچائی تو گویا کہ اس نے روئے زمین کے تمام انسانوں کی جان بچانے کا کام
کیا قرآن فرماتا ہے:مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ
فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ
جَمِيعًاۚ(المائدہ
آیت: 32)
جس نے کوئی جان قتل کی بغیر
جان کے بدلے یا زمین میں فساد کے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا اور جس نے ایک
جان کو جلا لیا اس نے گویا سب لوگوں کو جلا لیا (کنز الایمان) بلکہ اگر کہیں پر صحیح
طرح اسلامی حکومت کا نظام نافذ ہو تو وہاں پر غیر مسلم اقلیت کی جان و مال اور حقوق
اتنے ہی محفوظ ہیں جتنے کہ مسلم اکثریت کی جان و مال اور حقوق محفوظ ہیں انہیں بھی
اپنے مذہب پر عمل کرنے اور عبادت خانے کی تعمیر کا وہی حق حاصل ہے جو مسلم اکثریت کو
حاصل ہے جیسا کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "مَنْ قَتَلَ مُعَاهِدًا
فِي غَيْرِ كُنْهِهِ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ"( المستدرک للحاکم،
ج: 2، ص: 142، کتاب قسم الفئی، دار المعرفہ، بیروت ، لبنان )
جس نے کسی معاہد کو بلا جرم
قتل کیا اس پر جنت حرام ہے
اور ایک اور مقام پر حضور
صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں " مَنْ قَتَلَ نفسا مُعَاهَدۃ لَمْ يَرَحْ رَائِحَةَ
الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا لیوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ خمسمائۃ عام ".(جمع
الجوامع للسیوطی، ج: 9، ص: 721، دار السعادۃ،)
جس شخص نے کسی معاہد کو قتل
کیا وہ جنت کی خوشبو نہیں پاسکے گا باوجودیکہ جنت کی خوشبو پانچ سو برس کی مسافت سے
سونگھی جاتی ہے۔ اور عہد و پیمان کے بعد اسے توڑ دینے والے کی سرزنش حضور علیہ الصلوۃ
والسلام اس انداز میں کر رہے ہیں: " اِن الغادِر یُنصب لہ لواء یوم القیامۃ فیقول
ھذہ غدرۃ فلان بن فلان" ( جمع الجوامع للسیوطی، ج: 8، ص: 370، دار السعادۃ،)
بے شک عہد شکن کے لیے قیامت کے روز نشان کھڑا کیا جائے گا اور کہا جائے
گا اس نے فلاں بن فلاں سے غدر کیا۔
اور ایک مسلمان قاتل سے مقتول
ذمی کے وارثین کے خوں بہا قبول کرلینے کی تصدیق کے بعد قاتل کو آزاد کرتے ہوئے حضرت
علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: "من کان لہ ذمتنا فدمہ کدمنا و دیتہ کدیتنا"
[السنن الکبری للبیہقی، ج: 8، ص: 63، کتاب الجراح الحدیث: 15934 دار الکتب العلمیہ
بیروت لبنان]
جو ہمارا ذمی ہوا اس کا خون ہمارے
خون اور اس کی دیت ہماری دیت کی طرح ہے۔
ملا حظہ کیجیے : URL: https://www.newageislam.com/debating-islam/badruddoja-razvi-misbahi-new-age-islam/the-verses-jihad-meaning-denotation-reason-revelation-background-part-2/d/124657
اسلامی اسکالر غلام غوث صدیقی
نیو ایج اسلام کے ایک مستقل کالم نگار ہیں ۔موصوف انتہاپسندانہ نظریات کی بیخ کنی کے
لیے جانے جاتے ہیں ۔ وہ اپنے مضامین میں داعش ، طالبان، اور دیگر انتہا
پسند گروہوں کے نظریات کا اکثر رد کرتے رہتے
ہیں ۔وہ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
یہ آیت "اور ان [مشرکین]
کو جہاں بھی پکڑو قتل ڈالو..." (۲:۱۹۱) مکہ کے ان لوگوں کے
لیے نازل ہوئی تھی جنہوں نے تقریباً 14 سالوں تک مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے
رہے اور انہیں اذیتیں دیتے رہے۔ اسی آیت کے اگلے حصے
میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ
’’اللہ کی راہ میں صرف ان سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور زیادتی نہ کرو‘‘ (۲:۱۹۱) اور اس کے ٹھیک بعد والی آیت
میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ ‘‘ پھر
اگر وہ باز آجائیں تو بیشک اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے’’ (۲:۱۹۲)۔ یعنی یہ جو مکہ کے ظالمین
ہیں جو مسلمانوں پر ان کے دین اسلام کی وجہ سے ظلم کرتے ہیں اگر اپنے ظلم سے باز آ
جائیں تو اللہ تعالی انہیں بخش دے گا اور پھر
اللہ تعالی مسلمانوں سے بھی یہ حکم دیتا ہے کہ
‘‘پھر اگر وہ باز آجائیں تو سوائے ظالموں کے کسی پر زیادتی روا نہیں’’ (۲:۱۹۳) ۔
اس تفصیل سے یہ بات اچھی طرح
معلوم ہو چکی ہے کہ سورہ توبہ کی آیت ۵ کا نزول مشرکین مکہ کے ظلم و ستم کو روکنے کے لیے ہوا
تھا ۔ اس آیت سے یہ نتیجہ نکالنا کہ قرآن آج کے دور کے امن پسند غیر مسلم شہریوں
کے قتل کی وکالت کرتا ہے بالکل جھوٹ اور بے بنیاد بات ہے۔ یہ تو ایک محض پروپیگنڈہ
ہے جو اسلام اور مسلم دشمن عناصر پھیلا رہے ہیں اور اس میں بھر پور مدد کرنے والے وہ
انتہا پسند گروہیں ہیں جو اپنے آپ کو دولت اسلامیہ تو کبھی طالبان اور کبھی القاعدہ
کہلاتے ہیں۔ان انتہا پسند گروہوں نے ایسی آیتوں کو اس طرح پیش کیا کہ عوام میں سے
ایک اسلاموفوبک تحریک نے جنم لیا اور پھر اسلام اور مسلم دشمنی کا پروپیگنڈہ شروع ہوا
۔ قرآن و سنت نے کبھی بھی کسی عام نہتے امن پسند شہریوں کے قتل کی حمایت نہیں کی اور
اس تصور کو سمجھنا ہو، اسلام کے مزاج کو سمجھنا ہو ، تو اسلاموفوبک
دانشوروں کو اتنی بات پر غور کرنا لینا کافی ہوگا کہ آخربچوں ، بوڑھوں ، نہتے شہریوں
، راہبوں اور مشرکہ عورتوں
کو حالت جنگ میں بھی مارنے سے کیوں روکا گیا ؟ وجہ بالکل صاف ہے کہ یہ افراد نازک ہوتے ہیں اور ان میں ظلم و تشدد کرنے
کی صلاحیت نہیں ہوتی ہے ۔ اس بات پر بھی غور
کریں کہ اسلام کا حکم یہ ہے کہ دشمن کی عورتوں کو حالت جنگ میں بھی نہیں مارا جائے
گا ، لیکن ایک شرط بھی لگا دی گئی کہ اگر ظالموں کی عورتیں اپنے مردوں کے ساتھ ملک
کر ظلم و ستم کرنے پر آمادہ ہو جائیں تو پھر عورتوں کو بھی ظلم سے روکا جائے گا ۔
مطلب صاف ہے کہ اسلام ظلم کو پسند نہیں کرتا
بلکہ امن کو پسند کرتا ہے ، اور جہاں جہاں ظلم ہوتا رہے گا وہاں امن و سلامتی
نہیں ۔
-----
کنیز فاطمہ عالمہ و فاضلہ
ہیں اور نیو ایج اسلام ویب سائٹ کی مستقل کالم نگار ہیں
English
Article: Debunking Islamophobic and Jihadi Myths about 26
Wartime Verses: Part 1 on Verse 9:5
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism