New Age Islam
Mon Apr 21 2025, 04:48 AM

Urdu Section ( 28 Oct 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Just As Islamism Destroyed Pakistan, Zionism-Inspired Hindutva Ideology Threatens India's Cultural Ethos انتہا پسندی سے پاکستان کی تباہی اسی طرح صیہونیت زدہ ہندوتوا نظریہ ہندوستان کے لیے خطرہ

 نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر

 21 اکتوبر 2023

 ہندوستان کی تہذیب اور اخلاقی قدریں جو آج تباہ ہو رہی ہیں وہ ہمارا ہزاروں سال قدیم ورثہ ہیں۔ بدقسمتی سے، نہ تو ہندو اور نہ ہی مسلمان اپنے تہذیبی ورثے کی پرواہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

 اہم نکات:

1. جنرل ضیاء الحق نے اپنی کرسی اقتدار کو بچانے کے لیے اسلام پرستی کو فروغ دیا۔

2. صہیونیت کا پرچار انیسویں صدی کے آخر میں کیا گیا۔

3. ہندوتوا نظریہ 1920 کی دہائی میں سامنے آیا ۔

4. ہندوتوا، بطور ایک سیاسی نظریہ کے، صیہونیت سے متاثر تھا۔

5. اسرائیل کی پیروی اسلام پسندی کو روکنے کے طور پر کی گئی۔

6. قومی ریاستوں کا نظریہ بہت پرانا نہیں ہے۔

-----

Why would India want to behave like a Hindu Pakistan now?

Sourced by the Telegraph

------

سوشانت سنگھ کے مضمون میں ہندوتوا کے نظریے پر صیہونیت کے اثرات پر روشنی ڈالی گئی ہے اور جنرل ضیا کے اسرائیل اور پاکستان کے درمیان تقابل کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ جنرل ضیاء صرف ایک فوجی جرنیل تھے جنہیں اسلامی تاریخ یا فلسفے کا کوئی علم نہیں تھا۔

اسی طرح جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان اسرائیل جیسا ہو، وہ بھی ہندو مذہب اور ہندوستان کو اچھے طریقے سے نہیں جانتے۔ دراصل، جو لوگ فلسطین کے خلاف اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں وہ ہندوتوا کے نظریے سے متاثر ہیں جو ہندو راشٹر کے نظریے پر مبنی ہے، جو ایک ایسے ملک کی تصویر پیش کرتا ہے جہاں ہندو دھرم ریاستی مذہب ہوگا اور دیگر تمام مذہبی برادریوں کو دوسرے درجے کا شہری مانا جائے گا۔ ہندوتوا کا نظریہ صیہونیت کے نظریے سے متاثر ہے، جو 19ویں صدی کے اواخر میں وجود میں آیا اور ہندوتوا کا نظریہ 20ویں صدی کی تیسری دہائی میں ہمارے سامنے آیا۔

مشترکہ وراثت کی وجہ سے یہودیوں کی اسلام کے ساتھ مذہبی و سیاسی تصادم کی ایک طویل تاریخ رہی ہے، لیکن یہودی جدید دور یعنی 20ویں صدی میں عالم مغرب اور بالخصوص جرمن نازیوں کے ہاتھوں ستائے ہوئے ہیں۔ انہیں 1948 میں امریکہ اور برطانیہ نے فلسطین میں جلاوطن کر کے آباد کر دیا جس سے اسرائیل کے یہودیوں اور عالم عرب کے مسلمانوں کے درمیان ایک مسلسل تصادم کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ فلسطین ان کے جد اعلی اسرائیل کا وطن ہے جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے ہیں، جب کہ فلسطین کے مسلمان انہیں اپنے وطن پر ناجائز قابض سمجھتے ہیں۔ یہ اسرائیل کے یہودیوں اور فلسطین کے مسلمانوں کے درمیان تنازع کی جڑ ہے۔

فلسطین کا مسئلہ جنگ کی وجہ نہ بنتا اگر اسرائیل انہیں دی گئی اراضی پر قناعت کر لیتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل نے پچھلے 75 سالوں میں فلسطین کی سرزمین ایک معتدبہ حصہ قبضہ کر لیا ہے اور آج 46 کلومیٹر لمبی اور 12 کلومیٹر چوڑی زمین کا بس ایک ٹکڑا ہی ان کا بچا ہے۔

ہندوتوا کے حامی صیہونیت کے نظریے سے متاثر ہیں جس میں ایک عظیم ترین اسرائیل کے قیام کا منصوبہ شامل ہے جس کے تحت پورے فلسطین کو اسرائیل میں شامل کیا جائے گا اور اس کے اندر فلسطینی ریاست کی کوئی گنجائش نہیں بچے گی۔ فلسطینی، اسرائیل کے عربوں کی طرح دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت سے اس عظیم ترین اسرائیل میں رہیں گے۔ ہندوتوا میں بھی ہندو راشٹر کا نظریہ شامل ہے جہاں مسلمان دوسرے درجے کے شہری ہوں گے۔

لیکن ہندوستان میں، ہندوتوا نظریہ کے حامی ان آریاؤں کی اولادیں ہیں جو قبل مسیح کے دور میں مغربی ایشیا سے ہجرت کر کے یہاں آئے تھے۔ جنوب کے آدیواسی ہندوستان کے اصل باشندے ہیں جن پر آریاؤں کا غلبہ تھا کیونکہ وہ زیادہ ترقی یافتہ اور زیادہ مہذب تھے۔ ان کے منصوبے کے مطابق ہندو راشٹر میں قبائلیوں یا آدیواسیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔

لہٰذا، ہندو راشٹر میں نہ صرف مسلمان بلکہ قبائلی برادریاں اور نچلی ذاتیں بھی دوسرے درجے کے شہری ہوں گے۔ ہندوتوا بریگیڈ کا اصل زور مسلمانوں کو زیر کرنے پر ہے کیونکہ مسلمان ایک مہذب قوم ہیں جنہوں نے ایک وسیع خطہ ارضی پر حکومت کی ہے اور دنیا کے بیشتر حصوں پر وہ اب بھی حکومت کر رہے ہیں۔ ان کو زیر کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ ایک بار جب وہ زیر ہو جائیں گے، تو دوسری نچلی ذاتوں اور قبائلی برادریوں کو محکوم بنانا مشکل نہیں ہوگا، کیونکہ ناخواندگی اور محکومی کی ان کی ایک طویل تاریخ رہی ہے۔

اس لیے ان کے خلاف میڈیا میں مسلسل ایک گھناؤنی مھم چلائی جاتی ہے تاکہ مسلمانوں کی ایک منفی تصویر پیش کی جا سکے۔ قومی ٹی وی چینل ان کے خلاف منفی پروپیگنڈہ پھیلانے کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ وہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔ اسرائیل فلسطین تنازعہ نے انہیں ایک اور موقع فراہم کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو دہشت گرد اور ایک ایسی متشدد قوم کے طور پر پیش کریں جو کسی کو بھی مارنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔

چونکہ اسرائیل بھی مسلمانوں کے خلاف اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے، اس لیے ٹی وی چینل صرف اسرائیل میں ہونے والے حملوں اور تباہیوں کی رپورٹنگ کر رہے ہیں جبکہ غزہ میں ہسپتالوں، اسکولوں اور رہائشی عمارتوں پر بمباری اور تباہی و بربادی کے مناظر نہیں دکھائے جا رہے۔

رپورٹروں نے غزہ میں ہونے والی ہلاکتوں اور تباہیوں کو نہیں دکھایا اور اسرائیل کی طرف سے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کی وجہ سے فلسطینیوں کی بھوک مری اور ان کی حالت زار کو دنیا کی نظروں سے چھپا دیا ہے۔ بینجمن نیتن یاہو نے حماس کو 'زمین پر بدترین شیطان' کہا جب کہ وہ خود فلسطینیوں کی نسل کشی اور جنگی جرائم کے مجرم ہیں۔ وہ غزہ اور لبنان پر ممنوعہ سفید فاسفورس بم استعمال کرتے رہے ہیں۔

اسرائیل سیکولر اور وسیع النظر ہندوستانیوں کے لیے رول ماڈل نہیں ہو سکتا کیونکہ ہندوستان کی سیاست ایک تحریری آئین پر مبنی ہے اور جس میں تمام مذاہب اور مکاتب فکر کو احترام کا درجہ دیا گیا ہے۔ اسرائیل کے پاس کوئی آئین نہیں ہے اور وہ ارض فلسطین پر ناجائز قبضے سے وجود میں آیا ہے اور پچھلے 75 سالوں سے وہاں کے اصل باشندوں پر ظلم کر رہا ہے۔

---

Zia’s Long Shadow

ضیاء کا سایہ دراز

از، سوشانت سنگھ

19.10.23

آج پوری دنیا میں افراتفری کا ماحول ہے۔ گویا یوکرین پر روس کا حملہ کافی نہیں تھا، کہ اب غزہ پر اسرائیلی فوجی حملے کی ہولناکیاں اس سے بھی خطر ناک مناظر پیش کر رہی ہیں۔ باقی دنیا کی طرح ہندوستانی بھی مغربی ایشیا میں ہولناک تشدد اور انسانی المیے پر نظر بنائے ہوئے ہیں۔ ہندوستان کے کئی مرکزی دھارے کی میڈیا ہاؤس نے اپنے نمائندے ٹیلی ویژن صحافیوں کے روپ میں، اس خطے میں روانہ کیے ہیں۔ ان کی اسرائیل نواز کوریج - شاید اس کی وجہ پہلے دن ہی وزیر اعظم نریندر مودی کے اشارے تھے - اور محصور فلسطینیوں کے مصائب پر ان کی بے حسی، ان کا مکروہ چہرہ پیش کرتی ہے۔

اس سلسلے میں میڈیا کے بدنما کردار پر اس کا الزام لگانا - کیونکہ ہندوستانی میڈیا اس شعبے میں کئی گنا زیادہ افلاس کا شکار ہے - صرف سچائی کا ایک پہلو پیش کرنا ہے۔ بلکہ زیادہ الزام ایک ایسے بیانیے کی تشکیل پر ہونا چاہیے جس میں اسلام کو دہشت گردی کا علم بردار اور مسلمانوں کو فطری طور پر تشدد، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی عادی ایک قوم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس بیانے سے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ہندوتوا کے نظریات کو تقویت ملتی ہے، جسے حکومت ہند ابتدائی طور پر گزشتہ تین دہائیوں سے پاکستان کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کر رہی تھی، اور گزشتہ ایک دہائی سے ہندوستان کی موجودہ حکومت کشمیریوں اور مسلمانوں کو جارحانہ انداز میں بدنام کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ اگر مودی کے لیے اسلام پسند دہشت گردی اتنا بڑا مسئلہ ہے، تو ان کی حکومت نے افغانستان میں طالبان کے ساتھ قریبی سفارتی تعلقات کیوں بنائے، جو کہ ایک ایسی تسلیم شدہ دہشت گرد تنظیم ہے جس نے ہندوستانیوں کا قتل کیا ہے؟

دوسری طرف ہندوستان کے قدامت پرستوں کا اسرائیل کے حوالے سے ایک خیالی تصور ہے جو اسے سخت سیکیورٹی والی ریاست مانتے ہیں، جو ملک کے اندر اور باہر اپنے مخالفین کے خلاف اپنی تمام تر طاقتور انٹیلی جنس ایجنسی، ایک پیشہ ور فوج، اور اعلیٰ درجے کی دفاعی ٹیکنالوجی کا بے رحمی سے استعمال کرتی ہے۔ ایسے نادان لوگ اکثر یہ کہتے ہوئے دیکھے جا سلتے کہ ہندوستان اسرائیل جیسا کیوں نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ہندوستان اسرائیل نہیں ہے اور اسے ایسا ہونے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اسرائیل زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر ایک مصنوعی تعمیر ہے، ایک غیر محفوظ وجود ہے، جس کا کوئی آئین یا جس کی متعین سرحدیں نہیں ہیں، اور اسے صرف ایک مظلوم مذہبی طبقے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس کے برعکس، ہندوستان ایک مضبوط اور محفوظ ملک ہے جس کی متعین حدود ہیں، جس کا رقبہ بڑا وسیع و عریض ہے، جہاں دنیا کی سب سے بڑی آبادی بستی ہے، اور اس کا ایک تحریری آئین ہے جو مذہبی بنیادوں پر اپنے شہریوں میں امتیاز نہیں کرتا۔

ہندوتوا نظریات کے حامل افراد ہندوستان کو ایک خاص ہندو ملک تصور کرتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے اب ہندوستان کو 'ہندو ہوم لینڈ' کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں جس طرح اسرائیل اپنی شناخت 'یہودی ہوم لینڈ' کے طور پر پیش کرتا ہے۔ یہ ہندو راشٹرا کے ساورکر-گولوالکر کے خیال کے ساتھ ہم آہنگ ہے، جس سے ان نظریہ سازوں کو امید ہے کہ، اسرائیل کی طرح زبردست مغربی حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔ مغربی ممالک میں بہت سے ہندوتوا جماعتوں نے سخت گیر یہودی جماعتوں کے طرز پر کام کرنا شروع کر دیا ہے، اور وہ ان ریاستوں کی فنڈنگ اور لابنگ کی حکمت عملی میں یہودیوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں، تاکہ پالیسی سازی اور حکومتی فیصلوں پر اثر انداز ہو سکیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ مماثلت کی تلاش میں ہندوتوا نظریات رکھنے والے لوگ پاکستانی فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے نقش قدم پر چلنے لگے ہیں۔ پاکستان اسرائیل کی طرح ایک نظریاتی ریاست ہے۔ یہودیت کو اسرائیل سے نکال دیا جائے تو وہ تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے گا۔ 1981 میں ضیاء نے کہا تھا کہ 'اگر اسلام کو پاکستان سے نکال کر ایک سیکولر ریاست بنا دیا جائے، تو یہ گر جائے گا۔ لہٰذا یہ کوئی یک طرفہ کھیل نہیں ہے۔ بنجمن پوگرنڈ کے مطابق، جب بات ان فلسطینیوں کی زمینوں اور جائیدادوں پر قبضے کی آئی جو پہلے سے وہاں مقیم تھے، تو نو تشکیل شدہ اسرائیل نے، تقسیم کے بعد کے پاکستانی قیادت کی پیروی کی۔ ایک دہائی قبل، اسرائیلی دانشور، برنارڈ ایویشائی نے اسرائیل کے سامنے جو راستے تھے ان کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ یا تو ایک "عالمگیر عبرانی جمہوریہ ہوگا یا ایک چھوٹا یہودی پاکستان"۔

بنجمن نیتن یاہو نے یہی راستہ اختیار کیا۔ اور یہی راستہ اب 1.4 بلین ہندوستانیوں کے سامنے ہے۔ جب تک یہ ملک سیکولر، لبرل، جمہوریت کے بجائے خود کو ہندو پاکستان نہیں بنا لیتا، جس کی وجہ سے اسے مابعد نوآبادیت کے تمام ممالک میں ایک امتیازی پہچان ملی تھی، ہندوستان اسرائیل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان اور اسرائیل تاریخی طور پر بیسویں صدی کے جڑواں بچے ہیں، جنہیں مصنوعی طور پر سابق نوآبادیاتی آقاؤں نے مذہب اور مذہبی شناخت کی بنیاد پر پیدا کیا تھا۔ بھارت پاکستان نہیں ہے۔ ہندوستانیوں نے 1947 میں ایک ایسا راستہ چنا جو اس کے بدبخت پڑوس کے راستے کے برخلاف تھا۔ اس راستے پر چل کر ہمارا ملک سات دہائیوں سے پھل پھول رہا ہے۔ بھارت اب ہندو پاکستان جیسا کیوں بننا چاہے گا؟

ضیاء نے پاکستانی فوج کو خالص اسلام پسندی کے راستے پر ڈال دیا، اعلی فوجی تربیت میں اسلامی افسانوں سے لڑائیوں اور حکمت عملیوں کو تشکیل دیا۔ اس تبدیلی کے نتائج کئی دہائیوں تک دیکھنے کو ملے۔ حال ہی میں، ہندوستانی فوج نے پروجیکٹ ادبھو کا اعلان کیا ہے، جو ہندوستان کے قدیم ہندوستانی شاستروں سے ماخوذ سیاسی تدابیر اور اسٹریٹجک سوچ کے ورثے کو 'دوبارہ دریافت' کرنے کی ایک پہل ہے۔ گزشتہ ماہ دہلی میں منعقدہ ایک سمپوزیم میں اعلان کیا گیا کہ چوتھی صدی قبل مسیح سے لے کر آٹھویں صدی عیسوی تک کی قدیم سنسکرت اور تامل شاستروں کا مطالعہ کیا جائے گا، جو کہ مسلم حکمرانوں کے ہندوستان آنے سے پہلے کا دور ہے۔ اس سے پہلے فوج کی طرف سے ہندوستانی میدان جنگ کی حکمت عملیوں کی تالیف کی گئی، جو 2021 میں جاری کی گئی تھی۔ جس میں ماضی کے 75 ضرب الامثال، پارمپرک بھارتیہ درشن… رن نیتی اور نیتریتا شاشوت نیم (روایتی ہندوستانی فلسفہ…جنگ اور قیادت کے ابدی اصول) کا مطالعہ کرنا تمام فوجیوں کے لیے لازمی قرار دیا گیا تھا۔

یہاں تک کہ جغرافیائی سیاسیات طور پر بھی، آج کا ہندوستان پاکستان سے متوازی معلوم ہوتا ہے۔ پچھلی سرد جنگ میں، امریکہ نے افغانستان میں سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے ضیاء کے پاکستان کو فرنٹ لائن اتحادی کے طور پر استعمال کیا۔ واشنگٹن ڈی سی کی متعدد انتظامیہ نے اس عرصے کے دوران پاکستان کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنائے جانے، جوہری ہتھیاروں کی غیر قانونی تیاری یا پرتشدد، اکثریتی پرست مذہبی انتہا پسندی کے فروغ کو نظر انداز کیا۔ اس وقت ایسا لگتا ہے کہ بھارت چین کے خلاف اپنی نئی سرد جنگ میں امریکہ سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہے۔ چین کے ساتھ متنازعہ سرحد کا اشتراک کرنے والا ہندوستان اپنے شمالی ہمسایہ ملک کو کنٹرول کرنے میں دلچسپی لے رہا ہے جو کہ امریکہ کے مفادات میں ہے۔ یہاں تک کہ دو فریقی ریاستہائے متحدہ کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (United States Commission on International Religious Freedom) سمیت بڑے بڑے عالمی ادارے متعدد تنقیدی رپورٹ شائع کر چکے ہیں، جن میں 2014 کے بعد سے ہندوستان کی رو بہ زوال جمہوریت اور مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، لیکن بائیڈن انتظامیہ نے اس قسم کی تمام رپورٹوں سے منہ موڑ رکھا ہے۔

1980 کی دہائی میں پاکستان کی بداعمالیوں میں امریکہ کی شرکت کی قیمت جنوبی ایشیا کئی دہائیوں سے چکا رہا ہے لیکن اس کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کے غریب عوام کو ہوا۔ امریکہ نیتن یاہو کا استعمال کرتا ہے اور مودی کے ساتھ بھی ایسا ہی کر سکتا ہے۔ لیکن یہ اب ہندوستانیوں پر ہے کہ وہ سوچیں اور فیصلہ کریں کہ کیا وہ چاہتے ہیں کہ ان کا ملک پاکستان کے راستے ہر چلا جائے، براہ راست یا اسرائیل کے ذریعے۔

Source: Zia’s Long Shadow

----------------------

English Article: Just As Islamism Destroyed Pakistan, Zionism-Inspired Hindutva Ideology Threatens India's Cultural Ethos

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/islamism-pakistan-zionism-hindutva-ideology/d/130995

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..