کنیز فاطمہ، نیو ایج اسلام
9 اگست 2018
اس مضمون کے پہلے حصے میں ہم نے قرآنی آیات کی روشنی میں یہ دیکھا کہ اللہ کو ظلم و تعدی اور تشدد پسند نہیں۔ اللہ جنگ کی اجازت تبھی دیتا ہے جب کوئی اور راستہ نہ بچے، قرآن کا فرمان ہے:
‘‘مگر جو ایسی قوم سے علاقے رکھتے ہیں کہ تم میں ان میں معاہدہ ہے یا تمہارے پاس یوں آئے کہ ان کے دلوں میں سکت نہ رہی کہ تم سے لڑیں یا اپنی قوم سے لڑیں اور اللہ چاہتا تو ضرور انہیں تم پر قابو دیتا تو وہ بے شک تم سے لڑتے پھر اگر وہ تم سے کنارہ کریں اور نہ لڑیں اور صلح کا پیغام ڈالیں تو اللہ نے تمہیں ان پر کوئی راہ نہ رکھی۔’’(4:90)
‘‘اے کتاب والو بیشک تمہارے پاس ہمارے یہ رسول تشریف لائے کہ تم پر ظاہر فرماتے ہیں بہت سی وہ چیزیں جو تم نے کتاب میں چھپا ڈالی تھیں اور بہت سی معاف فرماتے ہیں بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب اللہ اس سے ہدایت دیتا ہے اسے جو اللہ کی مرضی پر چلا سلامتی کے ساتھ اور انہیں اندھیریوں سے روشنی کی طرف لے جاتا ہے اپنے حکم سے اور انہیں سیدھی راہ دکھاتا ہے۔’’(16-5:15)
‘‘اور تمہیں کیا ہوا کہ نہ لڑو اللہ کی راہ میں اور کمزور مردوں اور عورتوں اور بچوں کے واسطے یہ دعا کررہے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال جس کے لوگ ظالم ہیں اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی حمایتی دے دے اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی مددگار دے دے۔’’(4:75)
’’اور اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی جھکو اور اللہ پر بھروسہ رکھو، بیشک وہی ہے سنتا جانتا۔ ‘‘(8:61)
یہ قرآن مجید کی وہ آیات ہیں جن پر غور کرنا چاہیے۔ جس خدا نے اسلام کو ایک مذہب کے طور پر پسند کیا(3:19)اور اسے بھائی چارگی اور امن و آتشی کے پیغامات سے بھر دیا، وہ جنگ پر امن کو اس حد تک ترجیح دیتا ہے کہ پوری امت مسلمہ اور یہاں تک کہ خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی امن کی پیش کش قبول کرنے کا حکم دیتا ہے اگرچہ دشمنوں کی نیت بری ہو۔
صلح حدیبیہ کے پیچھے اصل جذبہ یہی تھا۔ ابن اسحاق ، ابن ہشام، ابن خلدون، ابن سعد اور ابن کثیر جیسے مورخین نے نقل کیا ہے کہ جب پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم حج ادا کرنے کے لئے مدینہ سے مکہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سترہ سو صحابہ کرام تھے جو تمام دشمنان اسلام سے لڑنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اشارے پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار تھے، لیکن انہیں کبھی بھی جنگ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ انہیں قبیلہ قریش کے ان دو سو سواروں کے ساتھ بھی لڑنے کی اجازت نہیں دی گئی جو سرکشی کے ساتھ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے تک پہنچ چکے تھے۔
جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سترہ سو صحابہ کے ساتھ حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو کفار مکہ نے انہیں مکہ میں داخل ہونے اور حج ادا کرنے کی اجازت نہیں دی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا کہ زبردستی شہر مکہ میں داخل ہونے سے خون خرابہ ہوگا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے ایک معاہدہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کو آئندہ سال حج کرنے سے نہیں روکا جائے گا تب تک کے لیے ان دو گروہوں کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوگی۔
ابن اسحاق لکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود وہ تمام سترہ سو بہادر صحابہ کرام اس امن معاہدے کے حق میں نہیں تھے۔ حضرت ابوبکر حضرت عمر فاروق اور حضرت علی مرتضیٰ جیسے اجلہ صحابہ کرام اس معاہدے کے حق میں بالکل ہی نہیں تھے۔ ابن ہشام نے جو روایت نقل کی ہے اس کے مطابق حضرت عمر فاروق نے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے یہاں تک سوال کر لیا تھا کہ کیا آپ اللہ کے رسول نہیں ہیں۔
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ‘‘ہاں میں ضرور اللہ کا رسول ہوں لیکن ہم مومن ہے اور وہ مومن نہیں’’۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے پوچھا کہ ہمیں کیوں اپنے مذہب کے بارے میں اتنا خوف زدہ ہونا چاہیے اور ہمیں کیوں دشمن کا سامنا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اس پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم نے بڑے صبرو استقامت کے ساتھ جواب دیا:
‘‘ میں اللہ پر ایمان رکھتا ہو اور اس کا رسول ہوں۔ میں کبھی اللہ کے حکم کے خلاف نہیں جاؤں گا’’۔ (ابن اسحاق، ابن ہشام۔ جلد 2. صفحہ220)
اللہ کی مرضی یہ تھی کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار مکہ کے درمیان خون خرابہ نہ ہو بلکہ ان دونوں فریقوں کے درمیان صلح اور امن ہو۔ آخرکار اس واقعے کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ نے امن معاہدوں کا سبق سیکھا۔ پورا معاملہ کچھ اس طرح ہے:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو معاہدہ امن لکھنے کا حکم دیا گیا جس کی ابتداء بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے تھی۔ تاہم ایک سخت دل کافر سہیل بن عمرو نے اعتراض کیا کہ ہم اس جملے سے واقف نہیں ہیں۔ اس نے کہا کہ اس کے بجائے ‘‘باسمک اللھم’’، لکھا جانا چاہیے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی کو وہی لکھنے کا حکم دیا جو سہیل چاہتا تھا۔ حضرت علی نے ایسا ہی کیا۔
جب اس معاہدے میں لفظ ‘‘محمد رسول اللہ’’ لکھا گیا تو سہیل نے ایک اور اعتراض کی اور کہا، ‘‘ اگر ہم محمد کو اللہ کا رسول مان ہی لیتے تو ہمارے درمیان نہ کوئی اختلاف ہوتا نہ کوئی جنگ ہوتی’’۔ اس نے کہا کہ محمدرسول اللہ کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور آپ کے والد کانام لکھا جائے۔
اس پر پیغمبر اسلام ﷺ نے حضرت علی کو لفظ ‘‘رسول اللہ’’، کاٹنے کا حکم دیا ، لیکن حضرت علی ان الفاظ کو مٹانا نہیں چاہتے تھے۔ محبت اور فرض کے درمیان ایک عجیب کشمکش شروع ہو گئی لیکن پیغمبر اسلام ﷺ نے مزید اس تنازع کو بڑھنے سے روک دیا اور خود آپ ﷺ نے لفظ ‘‘محمد رسول اللہ’’، کاٹ کر ‘‘محمد بن عبداللہ’’ لکھ دیا۔
میرا مقصد یہاں اس امن معاہدے کی پوری تفصیلات پیش کرنا نہیں ہے، لیکن میں یہاں ایک اہم بات یہ ضرور پیش کرنا چاہوں گی کہ اس امن معاہدے کے درمیاں بہت سارے ایسے نازک حالات پیدا ہوئے لیکن ہمارے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے امن، آشتی اور ہم آہنگی کی خاطر سہیل بن عمر کے تمام مطالبات قبول کر لئے۔
تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اس امن معاہدے کو کفار مکہ نے توڑا اور اس کے بعد جنگ ہوئیں، اس کے بعد جب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فاتحانہ شان و شوکت کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان فرمایا:
‘‘ جو سفیان کے گھر میں پناہ لے وہ مامون ہے، جو حکم بن حزم کے گھر میں رہے وہ بھی مامون ہے’’۔
مقصد اس نکتے کو واضح کرنا ہے کہ آیت2:191، نازل ہوئی اور ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے مشرکین سے جنگ نہیں کی بلکہ جنگ صرف انہیں سے کی گئی جنہوں نے معاہدے توڑے اور مسلمانوں پر حملے کیے۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے امن پسند مشرکین اور جنگجو مشرکین کے درمیان امتیاز کرتے ہوئے مندرجہ ذیل اعلان فرمایا:
‘‘ جو سفیان کے گھر میں پناہ لے وہ مامون ہے، حکم بن حزم کے گھر میں رہے وہ بھی مامون ہے’’۔
ابن اسیر کی روایت کے مطابق پیغمبر اسلام ﷺ نے اپنے صحابہ کرام سے یہ وعدہ لیا تھا کہ فتح مکہ کے دن وہ اس وقت تک کسی کو قتل نہیں کریں گے جب تک کوئی ہتھیار نہ اٹھا لے اور ان پر حملہ نہ کرے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں آئے تو آپ نے کفار و مشرکین سے خطاب کیا ، اپ نے ان سب کو معاف فرما دیا اور فرمایا، ’’ آج بھائی چارگی اور صلہ رحمی کا دن ہے‘‘۔ آپ نے صرف اسی دن کو بھائی چارگی اور صلہ رحمی کا دن قرار نہیں دیا بلکہ جب آپ نے یہ فرمایا تو اس میں آپ نے پوری نوع انسانیت سے خطاب کیا:
‘‘اے ابن آدم اور پوری دنیا کے مردوں اور عورتوں! تمہارا خون تمہاری دولت اور تمہاری عزت ہمیشہ ہمیش کے لئے حرام کر دی گئی- وہ اسی طرح سے حرام ہے جس طرح سے یہ دن ، یہ مقدس مہینہ اور یہ بیت الحرام’’۔
اس دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی زندگی کی حرمت کا اعلان کیا۔ اسٹینلی لین پول نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رواداری، درگزر اور فراخ دلی کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:
‘‘حقائق تلخ ہوتے ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اپنے دشمنوں پر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سب سے بڑی فتح کا دن خود ان کے لیے اپنے آپ پر سب سے بڑی فتح کا دن تھا۔ انہوں نے قریش کے ان تمام مظالم کو معاف کردیا جو انہوں نے اتنے سالوں تک آپ کے اوپر ڈھائے تھے’’۔ انہوں نے اس دن مکہ کی پوری آبادی کو عام معافی عطا کردی تھی۔ (The Prophet and Islam)
ایس پی اسکاٹ لکھتے ہیں:
’’ آپ ( صلی اللہ علیہ سلم) کی فراخدلی اور انسانی دل کے بارے میں آپ کا گہرا علم جس نے آپ کو ایک عظیم لیڈر بنا دیا، آپ کے عظیم کردار اور فتح مکہ کے دن کفار قریش کی عام معافی سے ظاہر ہے‘‘۔
(History of the Moorish Empire in Europe, Vol -1, pp 98-99 op.cit. The Arabian Prophet, p-390)
اس حوالے سے کچھ بنیادی اصول فراہم کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے:
’’اس سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کیے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا اور جس نے ایک جان کو جِلا لیا اس نے گویا سب لوگوں کو جلالیا، اور بیشک ان کے پاس ہمارے رسول روشن دلیلوں کے ساتھ آئے پھر بیشک ان میں بہت اس کے بعد زمین میں زیادتی کرنے والے ہیں۔‘‘(5:32)
صلح حدیبیہ کے واقعہ سے فتح مکہ کے دن ابوسفیان کے اور حکم بن حزم کے گھر میں امن و امان کی ضمانت سے ہمیں اسلام کی منشا کا اندازہ لگانا چاہیے۔ اس دور میں کہ جب کچھ جنگجو گروہ اسلام کو بدنام کرنے کے درپے ہیں ہمیں مسلسل قرآن کے ان پیغامات کی تشہیر کرنی چاہیے جن کا امن قائم کرنے میں ایک بڑا حصہ ہے۔ اسلام مومنوں کو ان حالات میں بھی امن قائم کرنے کا حکم دیتا ہے کہ جب کوئی دشمن امن کی پیشکش کرے۔
اللہ کا فرمان ہے،
’’اور اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی جھکو اور اللہ پر بھروسہ رکھو، بیشک وہی ہے سنتا جانتا۔‘‘(8:61)
اسلام کا پیغام بہت واضح ہے۔ اس کے باوجود بھی ہم یہ دیکھتے ہیں کہ چند جنگجوؤں گروہ زمین کے اوپر دہشت گردی اور فساد مچا رہے ہیں۔ ایسے جنگجوؤں کے لیڈر ہو سکتا ہے کہ اس طرح کے اسلامی پیغامات سے واقف ہوں یا ناواقف ہوں، لیکن ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ آج کے نوجوان اس طرح کے لیڈروں کے پروپیگنڈے کا شکار ہورہے ہیں۔ اسی لئے ہمیں اسلام کے اصل پیغامات کی تشہیر و اشاعت کرتے رہنا چاہیے، اس امید پر کہnewageislam.com پر انتہاپسندی کے خلاف ہماری جدوجہد کے مثبت نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کہ دیگر ممالک کو بھی مسلمانوں کے مذہبی حقوق سمیت دیگر انسانی حقوق کی پاسداری کو بھی یقینی بنانا چاہئے، اس لئے کہ ہو سکتا ہے کہ ان کے حقوق کی خلاف ورزی سے ان جنگجو گروہوں کو سادہ لوح مسلم نوجوانوں کی منفی ذہن سازی کرنے میں مدد ملے تاکہ وہ اسلام کے بارے میں ان کی غلط تعلیمات کو قبول کریں اور ان جنگجوؤں کے راستے پر نکل پڑیں، اور اس کے بعد اصلاح کی کوئی بھی کوشش انہیں امن کے راستے پر دوبارہ نہیں لا سکتی۔
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-ideology/islam-religion-peace-violence-evidence-part-2/d/116083
URL Part-1:
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism