کنیز فاطمہ ، نیو ایج اسلام
6 اگست 2018
قرآن کریم امن کو فروغ دیتا ہے۔ اس حقیقت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن ایمان کو ، جو کہ عربی لفظ امن سے مشتق ہے- انسانیت کے لئے ایک عظیم تحفہ مانتا ہے۔ خدا پر ایمان رکھنے کا روحانی تجربہ ہمیں اس حقیقت سے ہمکنار کرتا ہے کہ انسان ہر قسم کے خوف سے آزاد ہے جس کے نتیجے میں امن اس کا مقسوم ہے۔ قرآن کریم مومنوں کو خوشخبری دیتا ہے،
"اور ضرور ان کے اگلے خوف کو امن سے بدل دے گا میری عبادت کریں میرا شریک کسی کو نہ ٹھہرائیں۔" (24:55)
نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ایک حدیث میں خوف کے بدلے میں امن کی بات کی گئی ہے؛
اللہ تعالی اس حد تک امن قائم کرنے میں انسانوں کی مدد کرے گا کہ عورت مدینہ سے الحمراء تک یا اس سے بھی طویل کرے گی اور اسے کسی نگہبان کی ضرورت نہیں ہوگی وہ بے خوف ہوگی اور کوئی چور یا ڈاکو اسے خوفزدہ نہیں کر سکے گا۔ (مسند احمد بن حنبل)
قرآن یہ کہتا ہے کہ امن انسانوں کے لئے اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ اس کی اہمیت کا حوالہ دیتے ہوئے اللہ قرآن میں فرماتا ہے،
"جس نے انہیں بھوک میں کھانا دیا، اور انہیں ایک بڑے خوف سے امان بخشا" (106:4)
قرآن مجید کی ایک دیگر آیت میں واضح طور پر اللہ کا یہ فرمان موجود ہے کہ قرآن کے نزول اور نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مبعوث کرنے کا اصل مقصد انسانوں کے لئے امن کی راہیں کھولنا ہے۔ وہ آیت حسب ذیل ہے۔
"اے کتاب والو بیشک تمہارے پاس ہمارے یہ رسول تشریف لائے کہ تم پر ظاہر فرماتے ہیں بہت سی وہ چیزیں جو تم نے کتاب میں چھپا ڈالی تھیں اور بہت سی معاف فرماتے ہیں بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب، اللہ اس سے ہدایت دیتا ہے اسے جو اللہ کی مرضی پر چلا سلامتی کے ساتھ اور انہیں اندھیریوں سے روشنی کی طرف لے جاتا ہے اپنے حکم سے اور انہیں سیدھی راہ دکھاتا ہے۔ "(16-5:15)
قرآن کے مطابق امن کا راستہ دراصل روشنی کا راستہ ہے۔ صرف یہی ایک سیدھا راستہ ہے اور باقی تمام راستے ، فساد، ظلم اور ناانصافی کی طرف لے جاتے ہیں۔ قرآن ظلم اور ناانصافی کو روکنے اور امن و خیرسگالی کو فروغ دینے والے تمام اعمال کو قبول کرتا ہے ۔
قرآن مجید کی درج ذیل آیت میں واضح طور پر اس حقیقت کو ثابت کیا گیا ہے،
’’ اے ایمان والوں اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ پرہیزگاری سے زیادہ قریب ہے، اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ کو تمہارے کامو ں کی خبر ہے ‘‘۔ (5:8)
اسلام نے بطور مذہب اپنے روز اول سے ہی امن اور انصاف کو فروغ دینے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاہم، یہ ایک المیہ ہے کہ بعض لوگ اسلام کو جنگ اور تشدد کا مذہب سمجھتے ہیں۔ اگر ہم اسے عصر حاضر کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ وہ نام نہاد مسلمان ہیں جنہوں نے جہاد کو مکمل طور پر ایک غلط معنی دیکر اسے تشدد اور ظلم سے جوڑ دیاہے۔
جب ہم مجموعی طور پر قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جنگ کی اجازت صرف ناانصافی اور ظلم کے خلاف دفاع میں دی گئی تھی۔ دورِ جدید کے تناظر میں ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جنگ دہشت گردی کے خلاف مشروع ہے۔ قرآن اس حقیقت کی گواہی دیتا ہے،
"پروانگی (اجازت) عطا ہوئی انہیں جن سے کافر لڑتے ہیں اس بناء پر کہ ان پر ظلم ہوا اور بیشک اللہ ان کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے۔ وہ جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اتنی بات پر کہ انہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے اور اللہ اگر آدمیوں میں ایک کو دوسرے سے دفع نہ فرماتا تو ضرور ڈھادی جاتیں خانقاہیں اور گرجا اور کلیسے اور مسجدیں جن میں اللہ کا بکثرت نام لیا جاتا ہے، اور بیشک اللہ ضرور مدد فرمائے گا اس کی جو اس کے دین کی مدد کرے گا بیشک ضرور اللہ قدرت والا غالب ہے"(40-22:39)
اسی نکتے کی وضاحت قرآن کریم کی ایک دوسری آیت میں بھی کی گئی ہے۔
"اور تمہیں کیا ہوا کہ نہ لڑو اللہ کی راہ میں اور کمزور مردوں اور عورتوں اور بچوں کے واسطے یہ دعا کررہے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال جس کے لوگ ظالم ہیں اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی حمایتی دے دے اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی مددگار دے دے۔"(4:75)
یہاں یہ ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہیں کہ مسلمانوں کو ظلم، دہشت گردی اور برائیوں کے خلاف جنگ کرنے کی اجازت دی گئی تھی اور کمزور تاکہ بے یار و مددگار لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے لیکن یہ دفاعی اقدام سخت مجبوری کی حالت میں اٹھانا تھا۔
اللہ فرماتا ہے،
" اور اللہ کی راہ میں لڑو ان سے جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے نہ بڑھو اللہ پسند نہیں رکھتا حد سے بڑھنے والوں کو۔ "(2: 190)
اس آیت سے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تشدد اور ظلم و زیادتی کو ناپسند کرتا ہے۔ اللہ جنگ کی اجازت اس وقت دیتا ہے جب جنگ کے علاوہ اور کوئی راستہ باقی نہ بچے۔ ایک دوسری آیت سے بھی یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اگر دشمن جنگ کے دوران مصالحت کی کوشش کرے تو مسلمانوں کے لئے مصالحت کرنا لازمی ہے، جیسا کہ اللہ فرماتا ہے،
"مگر جو ایسی قوم سے علاقے رکھتے ہیں کہ تم میں ان میں معاہدہ ہے یا تمہارے پاس یوں آئے کہ ان کے دلوں میں سکت نہ رہی کہ تم سے لڑیں یا اپنی قوم سے لڑیں اور اللہ چاہتا تو ضرور انہیں تم پر قابو دیتا تو وہ بے شک تم سے لڑتے پھر اگر وہ تم سے کنارہ کریں اور نہ لڑیں اور صلح کا پیام ڈالیں تو اللہ نے تمہیں ان پر کوئی راہ نہ رکھی۔ "(4:90)
مندرجہ ذیل آیت میں بھی یہی بات کہی گئی ہے۔
"اور اگر وہ (جنگی یا ناراض ناراض) امن اور مصالحت سے انکار کرتے ہیں تو آپ اس سے بھی انکار کرتے ہیں اور اللہ پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ یقینا، وہ صرف سننے والا، جاننے والا ہے "(8:61)
اب تک ہم نے یہ دیکھا کہ قرآن مصالحت کو فروغ دینا اور امن قائم کرنا چاہتا ہے۔ مندرجہ بالا مباحث کے ذریعہ ہم نے یہ بھی نتیجہ اخذ کیا کہ قرآن اپنے پیروکاروں کو حدود سے تجاوز کئے بغیر کمزور اور پسماندہ لوگوں کی حفاظت کے لئے صرف دفاعی جنگ کی اجازت دیتاہے اور اس سے اسلام تشدد کا مذہب نہیں بنتا۔ لہذا جو لوگ مذہبی ظلم و ستم کے خلاف دفاع میں جنگ کی اجازت سے متعلق قرانی آیات کو غلط انداز میں پیش کر رہے ہیں اور امن کے ساتھ رہنے والے معصوم افراد کو قتل کرنے کے لئے ان کا استعمال کر رہے ہیں وہ دراصل اسلام کے مقصد اصلی کی خلاف ورزی کر رہے ہیں جو کہ امن کا قیام ہے۔
URL for English article: http://www.newageislam.com/islamic-ideology/by-kaniz-fatma,-new-age-islam/islam--a-religion-of-peace-or-violence?-the-evidence-in-quran---part-1/d/116051
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/islam-religion-peace-violence-evidence-part-1/d/116108
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism