ڈاکٹر عبید اللہ فہد فلاحی
(آخری حصہ)
24نومبر،2023
حریف نہیں ،رفیق:
قرآن نے اہلِ ایمان کے معاشرے کی جو تصویر کھینچی ہے اس میں مرد اور عورت ایک
دوسرے کے ساتھی، دست و بازو اور ہمدرد و غمگسار ہیں ۔ وہ اس مشترک خصوصیت کے مالک
ہوتے ہیں کہ نیکی کو فروغ دیں ، بُرائی سے نفرت کریں ، خدا کی یاد خون بن کر ان کی
رگوں میں دوڑے، راہِ خدا میں خرچ کرنے کیلئے اُن کے دل اور ہاتھ کھلے ہوں اور خدا
و رسولؐ کی فرماں برداری اُن کی زندگی کا وطیرہ ہو۔ اس مشترک اخلاقی مزاج اور طرزِ
زندگی نے انہیں آپس میں ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے۔ وہ معاشرہ میں حریف بن کر کشاکش
اور کشمکش پیدا نہیں کرتے بلکہ رفیق بن کر ایک دوسرے کے لئے سہارا ثابت ہوتے ہیں۔
اہل ایمان کی یہ تصویرکشی اہلِ نفاق کی تصویر سے بالکل مختلف اور متصادم ہے۔
منافق مرد اور خواتین
دونوں برابر کے شریکِ جرم ہیں ۔ منافقین کے ساتھ قرآن نے منافقات کا بھی ذکر کیا
ہے تاکہ نفاق زدہ خواتین کو تنبیہ ہو کہ مردوں کے ساتھ ان کا بھی انجامِ بد مقدر
ہے۔ وہ بھی خدا کے غضب سے بچنے والی نہیں ہیں ۔ انہوں نے اپنے مردوں پر جان و مال
کی محبت کو غالب کردیا ہے اور انہیں بخیل و بزدل بنایا اور دین کے تقاضوں سے غافل
کیا ہے تو نفاق کے اِس کھیل میں حصہ داری نبھانے کی وجہ سے یکساں طور پر وہ اللہ
کی ناراضی کی مستحق ہیں۔ قرآن مجید بڑی خوب صورتی اور وضاحت کے ساتھ منافق معاشرے
کی کیفیت بیان کرتا ہے:
’’منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک ہی چٹّے کے بٹّے ہیں۔ یہ
بُرائی کا حکم دیتے اور بھلائی سے روکتے اور ہاتھوں کو بند رکھتے ہیں ۔ انہوں نے اللہ
کو بھلا رکھا ہے تو اللہ نے بھی انہیں نظرانداز کردیا ہے۔ یہ منافق بڑے ہی بدعہد
ہیں ۔ منافق مردوں ، منافق عورتوں اور کفار سے اللہ نے جہنم کی آگ کا وعدہ کر
رکھا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہی ان کے لئے کافی ہے اور ان پر اللہ کی لعنت
اور ان کے لئے دائمی عذاب ہے۔‘‘
(التوبہ : ۶۷-۶۸)
اس کے بعد سورہ توبہ ہی
کی آیت نمبر ۷۱؍
میں مومن معاشرے کی تصویر کشی کی گئی ہے:
’’ اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔ یہ
بھلائی کا حکم دیتے اور بُرائی سے روکتے ہیں ، اور نماز کا اہتمام کرتے اور زکوٰۃ
دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں ۔ یہ لوگ ہیں کہ اللہ ان کو
اپنی رحمت سے نوازے گا، اللہ عزیزوحکیم ہے۔‘‘
اُوپر کی آیت میں مسلمان
مردوں اور عورتوں کو اُن کی انفرادی حیثیت میں بھی اور اجتماعی سطح پر بھی، ایک
دوسرے کا ’ولی‘ قراردیا گیا ہے جس کی جمع ہے اولیا۔ ولی کے معنٰی ہیں دوست، رفیق،
دم ساز ، غم گسار اور محرم راز۔ مسلم معاشرہ میں صنفی امتیاز و تفریق کی گنجائش
نہیں ہوتی۔ مردوں کے حقوق و فرائض ہیں تو عورتوں کے بھی ہیں ۔ امربالمعروف ونہی عن
المنکر کے فریضے کی ادائیگی میں دونوں ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہیں ۔ اقامت ِ
صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ کا نظام دونوں مل کر قائم کرتے ہیں ۔ دونوں اصناف خدا و
رسولؐ کی اطاعت کے لئے پابند عہد ہیں ۔ مردوں اور عورتوں کی باہم رفاقت و ولایت کے
نتیجے میں معاشرہ رحمت خداوندی کا مستحق بنتا ہے۔ اس پر انعامات الٰہی کا نزول
ہوتا ہے اور تجلیاتِ ربانی کے فیضان سے وہ جگ مگ کرتا ہے۔ طبقاتی کشمکش، صنفی
تفریق، گروہی تصادم، نسلی و لسانی منافرت و مسابقت سے یہ معاشرہ کوسوں دُور ہوتا
ہے۔
تکریم خواتین
رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے اپنی احادیث میں خواتین کی تکریم و توقیر کی تعلیم دی، اُن کے ساتھ عفو و
درگزر کا رویہ اپنانے کی تلقین کی اور اُن سے حسنِ سلوک کرنے کا حکم دیا۔ حضرت
ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ عورت پسلی کی طرح ہوتی ہے۔ اگر اسے سیدھا کرو گے تو ٹوٹ جائے گی
اور اگر اُسی طرح اس سے استفادہ کرنا چاہو تو استفادہ کرسکتے ہو، کیونکہ اس کے
اندر ٹیڑھا پن موجود ہے۔‘‘
(بخاری، الجامع الصحیح، ج۵، ص ۱۹۸۷، حدیث ۴۸۸۹)
بعض حضرات اس حدیث سے
استدلال کرتے ہیں کہ عورت پیدائشی طور پر اپنی خلقت کے اعتبار سے ٹیڑھی ہوتی ہے اس
لئے وہ فروتر اور کم رُتبہ ہے۔ یہ حدیث کا غلط مطلب نکالنا ہے۔ فحوائے کلام بتا
رہا ہے کہ خواتین سے دھینگامشتی کرنے اور ان کے ساتھ جبرو تشدد کا رویہ اختیار
کرنے سے منع کیا جا رہا ہے۔ خواتین میں منفعل المزاجی، جذباتیت، اثرپزیری میں
سُرعت اور وسعت زیادہ ہوتی ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے خواتین سے معاملہ کرتے وقت اُن کی
اس فطرت کا لحاظ کرنے اور اُن کے ساتھ چشم پوشی اور رافت و رحمت کا سلوک کرنے کا
حکم دیا۔ پسلی کی ہڈی ٹیڑھی ہوتی ہے اور سخت بھی۔ اگر زبردستی اسے سیدھا کرنے کی
کوشش کی گئی تو وہ ٹوٹ جائے گی۔ اللہ نے عورتوں کو منفرد خصوصیات اور ممتاز اوصاف
سے ہمکنار کیا ہے۔ ان کی بھرپور رعایت کرنا ضروری ہے۔ ایک دوسری حدیث میں زیادہ
صراحت کے ساتھ یہ مثال موجود ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
’’ جو شخص اللہ پر اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اُس پر لازم
ہے کہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔ عورتوں کے ساتھ نیکی کرنے کے بارے میں میری وصیت
قبول کرو۔ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور سب سے اُوپر والی پسلی سب سے زیادہ
ٹیڑھی ہوتی ہے، اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو گے تو اسے توڑ دو گے اور اگر اُسے اس کے
حال پر چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی رہے گی، اس لئے عورتوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کے بارے
میں میری وصیت قبول کرو۔‘‘(ایضاً، حدیث ۴۸۹۰)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کی یہ تعلیم بہت اہم ہے۔ اس میں خواتین کے مزاج، ان کی سرشت اور طبیعت کا
بھرپور اِدراک ہے۔ اُن کی نفسیات اور طبعی خصوصیات پر بہترین روشنی اس میں ڈالی
گئی ہے۔ عام طور پر مردجفاکش، طاقتور، قوتِ مزاحمت اور قوتِ دفاع کا مالک ہوتا ہے۔
وہ بزور اپنی بات منواناچاہتا ہے۔ عورت لطیف و رقیق مزاج کی حامل ہوتی ہے۔ محبت و
عقیدت اور سرافگندگی اس کی فطرت کا ناگزیر حصہ ہوتی ہے۔ مرد اپنی مردانگی کے زعم
میں عورت کے لطیف جذبات کی پروا نہیں کرتا۔ وہ دھونس، دھاندلی اور جبرواِکراہ سے
عورت کو خاموش کرنا چاہتا ہے اور اسے مجبور کر کے اپنے مطالبات تسلیم کرواتا ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت دی کہ خواتین اپنی جبلت، خلقی فطرت اور
مزاجی ساخت کی بناء پر تکریم و توقیر کی زیادہ حقدار ہیں ۔ اگر ان کی فطرت اور
ساخت کو بزور بدلنے کی کوشش کی گئی تو وہ ٹوٹ جائیں گی۔ اُن کی صلاحیتیں ختم
ہوجائیں گی اور معاشرے کی تعمیر میں اُن کا کردار صفر ہوکر رہ جائے گا۔ اُن کی
قابلیت اور صلاحیت سے فائدہ اُٹھانا ہے اور بہتر سماج کی تشکیل میں ان کی حصہ داری
کو یقینی بنانا ہے تو اُن کے مزاج، طبعی ساخت اور صنفی خصوصیات کی بھرپور رعایت
رکھنی ہوگی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت بھی کردی کہ میں اُن
کے ساتھ ہرحال میں حُسنِ سلوک کرنے اور بھلائی کا معاملہ کرنے کا حکم دیتا ہوں ۔
اگر تمہیں اپنی خواتین کے اندر کوئی کجی، ضد اور انانیت کی کوئی رمق نظر آئے تو
اشتعال انگیزی اور پُرتشدد کارروائی سے بچو۔ محبت، عفوودرگزر اور حُسنِ سلوک سے
انہیں اپنانے اور اُن کا دل جیتنے کی کوشش کرو کیونکہ اگر اُن کا شیشۂ دل ٹوٹ گیا
تو خاندان ٹوٹ جائے گا، سماج بکھر جائے گا اور انسانیت ختم ہوجائے گی۔
عورت ہی ماں بھی ہے۔ ماں
کی حیثیت میں وہ سب سے زیادہ معظم، مکرم اور واجب الاحترام ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی
روایت ہے:
’’ایک شخص نے آپ ﷺکی خدمت میں حاضرہوکر سوال کیا: اے اللہ کے
رسولؐ! میرے حُسنِ سلوک کا سب زیادہ مستحق کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں ۔ اُس
نے پوچھا: اس کے بعد؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں ۔ اس نے تیسری بار سوال کیا: اُس
کے بعد؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں ۔ پھر پوچھا: اُس کے بعد؟ آپؐ نے فرمایا: تیرا
باپ۔(بخاری، الجامع الصحیح)
عورت ہی بیٹی بھی ہے اور
اللہ کے رسول ﷺنے اپنی لخت ِ جگر حضرت فاطمہؓ کے بارے میں تکریم کے جو الفاظ
استعمال کیے، اُن سے دنیا کی تمام بیٹیوں کی قدرومنزلت متعین ہوگئی کیونکہ حضرت
فاطمہؓ تمام دخترانِ انسانیت کے لئے اسوہ اور نمونہ ہیں ۔ آپؐ نے فرمایا: ’’میری
بچی میرا ہی گوشت پوست ہے۔ جو بات اس کیلئے موجب ِ تشویش ہوگی وہ میری تشویش کا
سبب بنے گی اور جو چیز اس کے لئے باعث ِ اذیت ہوگی اُس سے یقینا مجھے بھی تکلیف
پہنچے گی۔‘‘(ترمذی، السنن)۔ بیوی کے ساتھ حُسن ِ سلوک اور اس کی نازبرداری اسلام
کی تعلیم ہے یہاں تک کہ خالص مذہبی معاملات میں اس کے جذبات کی رعایت کی تلقین ہے۔
حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے:
ایک آدمی نبیؐ پاک کی
خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے سوال کیا:’’ اے اللہ کے رسولؐ! میرا نام فلاں فلاں غزوہ
میں لکھ لیا گیا ہے، جبکہ میری بیوی حج کرنے جارہی ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تم واپس
جائو اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔‘‘ (بخاری، الجامع الصحیح)
24 نومبر،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
-----------------
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism