سمت پال،
نیو ایج اسلام
6 جولائی 2022
مسلمان اپنی مذہبی ذہنیت سے
باہر آئے اور ایک خونی رسم کے نام پر بیچارے جانوروں کا خون بہانا بند کر دیا, جسے
صدیوں پہلے ہی ترک کر دیا جانا چاہیے تھا۔
اہم نکات:
1. قربانی یا اودھیا نہ صرف
اسلام میں بلکہ تمام مذاہب میں ایک علامتی اہمیت رکھتا ہے
2. اسلام میں قربانی کی روح
اس چیز کو اللہ کی رضا کے لیے قربان کرنا ہے جو قربانی کرنے والے کے نزدیک سب سے زیادہ
عزیز ہے۔
3. اللہ کے 99 اہم ناموں میں
سے 97 نام اس کی رحمقنی صفات کو ظاہر کرتے ہیں۔
4. یہ سوچ غلط ہے کہ جب آپ
بکرے، گائے، اونٹ یا کسی بھی چیز کی قربانی کرتے ہیں تو اللہ خوش ہوتا ہے۔
"ہر کسی کو حق ہے دنیا
میں جینے کا/ پھر وہ انسان ہو، پرندہ ہو یا ہو چرندہ"
- نزہت امروہی
ہر سال عید الاضحی کے موقع
پر بیچارے جانوروں کے لیے میری فکر اور ہمدردی کئی گنا بڑھ جاتی ہے کیونکہ مسلمانوں
کا گوشت کے ساتھ اتنا واضح تعلق کبھی نہیں ہوتا جتنا عیدالاضحیٰ (برصغیر میں بقرعید)
پر ہوتا ہے۔
اس روایت کو اب ہر سال دہرانے
کا کیا فائدہ جب ابراہیم نے اپنے بیٹے (اسماعیل یا اسحاق؟ -طبری نے کہا کہ وہ اسحاق
تھے، جو کہ عبرانی صحیفوں کی روایت سے ہم آہنگ ہے) کی قربانی اللہ کی رضا کے لیے پیش
کی تھی، اور پھر خدا کے حکم کے مطابق ایک بھیڑ (دمبا) کو ذبح کیا گیا۔
اس کے بعد سے، اب تک ایک قدیم
رسم کے احترام میں لاکھوں اور کھربوں معصوم جانوروں کو ذبح کیا جا چکا ہے۔
قربانی یا اودھیا کو نہ صرف
اسلام میں بلکہ تمام مذاہب میں ایک علامتی اہمیت حاصل ہے۔ ہندومت میں انسانوں کیی قربانی
کی روایت بہت پہلے سے موجود تھی۔ پھر یہ جانوروں کی قربانی کی طرف متوجہ ہوا اور آج
کل ہندومت میں علامتی طور کدو (جو کہ ایک سر سے مشابہ ہے!) کی قربانی رائج ہے، حالانکہ
مشرقی ہندوستان کے چند مندروں مثلاً کالی گھاٹ اور کامکھیا (دراصل کامکشیہ) جیسی مندروں
میں اب بھی جانوروں کی قربانی کی جاری ہے۔
اسلام میں قربانی کی روح اس
چیز کو اللہ کی رضا کے لیے قربان کرنا ہے جو قربانی کرنے والے کے نزدیک سب سے زیادہ
عزیز ہے۔ لیکن ہمیں سب سے زیادہ عزیز تو ہماری زندگی ہے تو ہم آپنی زندگی قربان کیوں
نہیں کرتے، تاکہ ہمارا رب ہم سے راضی ہو جائے؟ ہماری اپنی زندگی سے پہلے تو ہماری انا
(انانیت) ہے جسے ہمیں اپنے خدا کی خاطر مارنا ضروری ہے۔ جبکہ یہ بہت مشکل کام ہے۔ جب
دونوں میں سے کوئی بھی چیز قربانی نہیں کر سکتا، تو آپ بیچارے جانوروں کو پکڑتے ہیں
اور انہیں ذبح کرتے ہیں! یہ نہ صرف انصاف کے
خلاف اور موقع پرستی ہے بلکہ قابل مذمت بھی ہے۔
ہم خالق کو محبت کرنے والا
کہتے ہیں، "جو سب کا معبود ہونے کے ناطے سب کو مساوی نظروں سے دیکھتا ہے/ ایک
ہیرو مر جائے یا ایک چڑیا گر جائے" (الیگزینڈر پوپ)۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم اس کی ایک مخلوق کو ذبح کرکے
اس کے برعکس کرتے ہیں! ایک محبت کرنے والا
(!) اللہ اپنے نام پر بیچارے جانوروں کو ذبح کرنے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ کے 99 بڑے ناموں میں سے 97 نام اس کی
رحمانی صفات کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس لیے یہ سوچنا
غلط ہے کہ جب آپ بکرے، گائے، اونٹ یا کسی بھی چیز کی قربانی کرتے ہیں تو اللہ خوش ہوتا
ہے۔ یہ مذہبی علامت پسندی پسندی یا '(religio-metaphorical
symbolism) مذہبی-استعاراتی
علامت' ہے، (اس جملے کو سر کاروتھ ریڈ نے اپنے عظیم علمی شہ پارہ، 'Man
and his superstitions' میں ایجاد کیا ہے)۔
مزید یہ کہ اسلام میں جانوروں
کی قربانی واجب نہیں ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے صحابہ نے قربانی نہیں کی۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود جانوروں سے محبت کا اظہار کیا۔
صوفی اسلام گوشت کھانے اور
جانوروں کی قربانی کو ناپسند کرتا ہے، اگر چہ مذہب نے اس کی اجازت دی ہے۔ رابعہ بصری
اور رحیم باوا محی الدین جیسے صوفی سبزی خور تھے، جنہوں نے عید الاضحی کے موقع پر جانوروں
کی قربانی سے پرہیز کیا۔ رومی اور ان کے مرشد فرید الدین عطار نے کبھی پرندہ بھی قربان
نہیں کیا۔ صوفیاء کا ماننا ہے کہ چھوٹی ہو یا بڑی تمام مخلوقات کو جینے کا حق حاصل
ہے جسے کوئی چھین نہیں سکتا۔ کیا ہی شاندار
سوچ!
سبزی خور شہزادے دارا شکوہ
نے اپنے والد شاہجہان کو قائل کیا کہ بقرعید پر جانوروں کی قربانی محض ایک علامتی روایت
ہے۔ شاہ جہاں مان گیا۔ لیکن سخت گیر سنی اورنگزیب
اس سے بوکھلا اٹھا۔
سوئس ماہر نفسیات کارل گستاو جنگ
نے رسمی قربانی اور انسانوں کی خونخوار جبلتوں کے درمیان تعلق پایا ہے۔ ان کا خیال
ہے کہ رسمی قربانی نے انسانوں کے درمیان تشدد پسند ذہنیت کی راہ ہموار کی ہے۔ اس سے
بالکل انکار نہیں کیا جا سکتا۔ خاص طور پر اس دور میں جب کچھ مسلمان توہین مذہب اور
ارتداد کے نام پر دوسرے فرقوں کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے گلے کاٹ کر اپنی حیوانی
جبلت کو ثابت کرنے کے درپے ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے اور مسلمانوں
نے اپنی مذہبی ذہنیت سے باہر نکل کر ایک خونی رسم کے نام پر بے یار و مددگار مخلوق
کا خون بہانا بند کر دیا ہے جسے صدیوں پہلے ہی ترک کر دیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن، بہ
دیر آید درست آید۔ 'جب آنکھ کھلی تبھی سویرا'؟ کیا سمجھدار مسلمان ان باتوں پر عمل
کریں گے یا پھر اپنی ضد کی بنیاد پر اسی قدیم ذہنیت پر جمے رہیں گے؟
English
Article: Eid-al-Adha Is Sheer Religious Conditioning For All
Muslims
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism