ڈاکٹر اسرار احمد
24 ستمبر،2021
آخری حصہ
چوتھا حق: اس پر عمل کیا
جائے
قرآن مجید کا چوتھا حق
ہر مسلمان پر یہ ہے کہ وہ اس کے احکامات پر عمل کرے اور اسے اپنی زندگی کے لئے
رہنما بنائے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قرآن کو پڑھنا اور سمجھنا تبھی زیادہ مفید ہو گا
جب اس پر عمل بھی کیا جائے۔ قرآن تو ھُدًی لِلنَّاس یعنی تمام لوگوں کے لئے
راہنمائی ہے۔ اس میں ہمارے لئےہر معاملے کے لئے ہدایات موجود ہیں۔ قرآن ہمیں
بتاتا ہے کہ ہمیں کن باتوں پر عمل کرنا چاہئے اور کن کاموں سے بچنا چاہئے۔ اس میں
انفرادی احکام بھی ہیں اور اجتماعی قوانین بھی۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ تفصیلی
ہدایات اسی لئے ہمیں عطا کی ہیں کہ ہم ان کے مطابق زندگی گزاریں۔ اگر ہم اللہ
تعالیٰ کے قانون اور اس کی شریعت کو نافذ نہیں کرتے تو یہ بڑی نا شکری کی بات ہے۔
سورۃ المائدہ میں ارشاد ہوا ہے:’’جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے (قرآن) کے مطابق
فیصلے نہیں کرتے وہی تو کافر ہیں۔‘‘
اسی بات کو نبی اکرم ﷺ نے
ایک اور انداز سے واضح فرمایا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’جس شخص نے کسی ایسی چیز کو
اپنے لئے جائز ٹھہرایا جسے قرآن نے حرام قرار دیا ہو تو ایسا شخص قرآن پر ایمان
نہیں رکھتا۔‘‘ یہ ہمارے لئے بڑی چونکا دینے والی بات ہے کہ اگر کوئی شخص ایسا کام
کرتا ہے جسے قرآن نے حرام قرار دیا ہو تو ایسے شخص کے بارے میں حضورؐ یہ فرما رہے
ہیں کہ وہ مومن نہیں ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ یہ ہماری بنیادی ذمہ داری ہے کہ ہم
قرآن کو اس ارادے سے پڑھیں اور سمجھیں کہ ہمیں ہر صورت قرآن کے بتائے ہوئے راستے
پر چلنا ہے، چاہے ہمیں کتنی تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں اور کیسی ہی قربانیاں
دینی پڑیں۔ اس کے بغیر قرآن پر عمل کا
حق ادا نہیں ہو سکتا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جو لوگ
قرآن کی صرف تلاوت کرتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے ان کے لئے قرآن کی تلاوت
کچھ زیادہ مفید نہیں ہو گی بلکہ اس بات کا اندیشہ بھی ہے کہ اس طرح کی تلاوت ان کے
حق میں مُضر ثابت ہو۔ امام غزالیؒ اپنی کتاب ’’احیاء العلوم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ
قرآن کے بعض پڑھنے والے ہیں کہ جنہیں سوائے لعنت کے کچھ حاصل نہیں ہوتا‘ اس لئے
کہ جب وہ قرآن میں یہ پڑھتے ہیں کہ: ’’لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین‘‘ یعنی جھوٹوں پر
اللہ کی لعنت ہو، اور اگر وہ خود جھوٹ بولتے ہیں تو یہ لعنت خود انہی پر ہوئی۔ اسی
طرح کم تولنے، تھوڑا ناپنے، پیٹھ پیچھے برائی کرنے والے اور طعنہ دینے والے قرآن
حکیم کو پڑھتے ہوئے خود قرآن مجید میں بیان کی گئی دردناک سزاؤں کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔
جب ہم حضور ﷺ اور آپؐ کے
اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایسا محسوس
ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی زندگیوں میں قرآن رچا بسا ہوا تھا۔ ان کا ہر عمل اس بات
کی گواہی دیتا تھا کہ انہوں نے قرآن کو واقعتاً اپنا رہنما بنایا ہے اور انہوں نے
اپنی مرضی کو قرآن کے فیصلے کے آگے جھکا دیا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہا سے ایک صحابیؓ نے یہ سوال کیا کہ نبی اکرم ﷺ کی سیرت کیسی تھی! انہوں نے
جواباً ارشاد فرمایا کہ ’’آپ ؐ کی سیرت قرآن ہی تو تھی‘‘ یعنی حضورؐ کی زندگی اس
طرح کے احکامات کے مطابق تھی، گویا آپ ؐ
ایک چلتا پھرتا قرآن تھے۔ ہمارے لئے اس میں رہنمائی یہ ہے کہ اگر ہم یہ
چاہتے ہیں کہ قرآن کے مطابق زندگی گزاریں تو ہمارے لئے حضور ﷺ کی زندگی ایک
بہترین نمونہ ہے۔ حضور ؐ کے نقش قدم پر چلنا،
قرآن پر عمل کرنے کا ذریعہ ہے۔
پانچواں حق:قرآن کو
دوسروں تک پہنچایا جائے
قرآن حکیم کا پانچواں
اور آخری حق یہ ہے کہ اسے لوگوں تک پہنچایا جائے۔ یعنی اس کے پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے پر ہی اکتفا نہ کیا
جائے بلکہ یہ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام لوگوں تک اس کے پیغامِ ابدی کو
پہنچائیں۔ اس لئے کہ اگر ہم مسلمان اس قرآن کو پوری دنیا تک نہیں پہنچائیں گے تو
اور کون پہنچائے گا؟ حضور ﷺ تو اللہ کے آخری نبی تھے۔ اب قیامت تک کوئی اور نبی
نہیں آئے گا۔ لہٰذا جن لوگوں تک اللہ کا پیغام ابھی تک نہیں پہنچا ان تک اس پیغام
کو پہنچانے کی ذمہ داری اب حضور ﷺ کی امت پر ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے مسلسل ۲۳؍
سال قرآن کی دعوت و تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیا۔
یاد رکھئے کہ یہ کوئی آسان کام نہ تھابلکہ بہت پُر مشقت اور محنت طلب کام
تھا۔ اس راہ میں آپؐ کو ہر قسم کی صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں۔ لیکن
آپؐ نے ہر مصیبت کو صبر و تحمل سے برداشت کیا اور اپنے مشن کو جاری رکھا۔ یہاں تک
کہ ۲۳؍
سال کی بھرپور جدوجہد کے نتیجے میں آپؐ نے عرب کے پورے خطے میں نہ صرف یہ کہ اللہ
کے پیغام اور اس کے آخری ہدایت نامے کو بھرپور انداز میں پہنچا دیا بلکہ اس ہدایت
کی بنیاد پر ایک نظامِ حکومت قائم کر کے یہ ثابت کر دیا کہ اللہ کا بتایا ہوا
راستہ ہی صحیح ترین راستہ ہے اور اللہ کا دین دنیا کے تمام نظاموں سے بہتر ہے۔ پھر
اپنے آخری خطبہ حج کے موقع پر پہلے تو آپؐ نے تمام صحابہؓ سے یہ گواہی لی کہ کیا
میں نے اللہ کا دین اور اس کا پیغام تم تک پہنچا دیا ہے؟ اور جب تمام صحابہؓ نے
بلند آواز سے یہ کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے تبلیغ کا حق ادا کر دیا ہے
تب آپؐ نے فرمایا: ’’اب جو لوگ یہاں موجود ہیں اُن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ کے
دین اور اس کے پیغام کو اُن تک پہنچائیں
جو یہاں موجود نہیں ہیں‘‘۔ یعنی حضور ﷺ نے اپنے مشن کو پورا فرمانے کے بعد اب قیامت
تک آنے والی بقیہ پوری نوع انسانی تک اللہ کے کلام کو پہنچانے کی ذمہ داری اُمت
کے کندھوں پر ڈال دی۔گویا
وقت فرصت ہے کہاں کام
ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اتمام ابھی
باقی ہے!
مسلمانوں کی اسی ذمہ داری
کو حضور ﷺ نے ایک اور انداز سے واضح فرمایا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: بَلِّغُوا
عَنِّی وَ لَوْ اٰیَۃٌ ’’پہنچاؤ میری طرف سے خواہ ایک ہی آیت۔‘‘ یعنی اگر کسی
شخص نے ابھی صرف ایک ہی آیت سیکھی ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اسی ایک آیت کو دوسروں
تک پہنچائے اور اس طرح تبلیغ قرآن کے نبوی مشن میں اپنا حصہ ادا کرے۔ معلوم ہوا
کہ قرآن کی تبلیغ کرنا ہر مسلمان کے ذمے ہے۔ جس نے جتنا قرآن پڑھا اور سیکھا
ہو،وہ اُس کی تبلیغ کرے اور جتنا سیکھتا جائے اتنا دوسروں تک پہنچاتا جائے۔ دیکھئے کسی کے ذہن میں
یہ خیال نہ آئے کہ قرآن کا پڑھنا اور پڑھانا کوئی معمولی درجے کا کام ہے۔ حضور ﷺ کا یہ فرمان تو بہت
مشہور ہے کہ : ’’تم میں بہترین شخص وہ ہے
جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔‘‘
ہم میں سے ہر ایک کی
خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے لئے بہترین کیرئیر کا انتخاب کرے، کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا
ہے تو کوئی انجینئر بننے کے لئے محنت کرتا ہے تاکہ دنیا میں عزت سے زندگی بسر کرے
لیکن آپ غور کریں کہ ہمارے نبیؐ نے ہمارے لئے جس بہترین کیرئیر کا انتخاب کیا ہے وہ نہ صرف دنیا میں عزت و
وقار کا باعث ہے بلکہ آخرت کی کامیابی کا ضامن بھی ہے۔ تو ہم میں سے کون ہے جو اس
کیرئیر کو اپناتے ہوئے قرآن کے پڑھنے پڑھانے ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لے!
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو قرآن مجید کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین!
24 ستمبر،2021، بشکریہ: انقلاب،
نئی دہلی
Related
Article:
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/quran-contains-instructions-concluding-part/d/125480
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism