گریس مبشر، نیو ایج اسلام
16 دسمبر 2022
اسلام دوسری شادی کو ایک انتہائی
عام اور فطری چیز مانتا ہے۔ یہ اسلامی ثقافت میں کافی وسیع تھا۔ اس لیے طلاق کوئی ایسی
چیز نہیں ہے کہ جس سے ایک عورت کی زندگی بدل جائے۔
------
گھریلو تشدد کی کچھ مثالیں کھلے
عام حملوں کی شکل نہیں اختیار کرتی ہیں۔ یہ ایک نظر، ایک لفظ، چہرے کے تاثرات، یا محض
خاموشی ہو سکتی ہے۔ اس میں بہت سے دبے ہوئے حقوق، ضروریات، خواب اور خواہشات ہو سکتی
ہیں۔ یہ غیر فعال تشدد اکثر ظلم کی شکل اختیار کر لیتا ہے جس کا سامنا خواتین کو گھر
میں ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ تشدد اور ناانصافی کی طرح نہیں لگتا ہے، بہت سے لوگوں کو اس
طرح کے کھلے بیانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس سوال کے ساتھ کہ 'اپ کو پریشانی کیا ہے؟'
گھر خواتین کے خلاف تشدد کی ایک
اہم جگہ ہیں۔ مردانہ تسلط پر مبنی خاندانی ڈھانچے اور خاندان کے تصورات پر ان کرداروں
کے تجربات کے ذریعے کیا جاتا ہے جو وہ اکثر خواتین کو حق رائے دہی سے محروم کرنے میں
ادا کرتے ہیں اور اس طرح کے تجربات کا اظہار کرنے والے فنون لطیفہ کے ذریعے بھی۔ ایسی
بحثیں، جو پدرسرانہ بالادستی کو چیلنج کرتی ہیں، اکثر مذہب اور رسم و رواج میں اختلافات
کا باعث بنتی ہیں۔
اس مضمون میں خاندانی ڈھانچے اور
خاندان میں خواتین اور مردوں کے حقوق اور ذمہ داریوں کا تجزیہ کیا جائے گا۔
ایک ایسے سماجی ماحول سے اسلامی
قانون کو سمجھنا جہاں خواتین کو طاقت کے مختلف ڈھانچے کے اندر دبایا جاتا ہے، امتیازی
لگ سکتا ہے۔ کیونکہ اسلام کے تصور کے مطابق مروجہ سماجی ماحول میں، مسلمان اسے قبول
کریں یا نہ کریں، عورت کو انفرادی حیثیت، آزادی اور وقار حاصل ہے۔ یہ پوچھنا بجا ہے
کہ کیا امتیازی سلوک مذہبی رسومات پر مبنی امتیازی سلوک ہے جہاں ایک عورت اسلامی ثقافت
کے فوائد سے لطف اندوز ہونے اور آگے بڑھنے سے محروم ہے۔ یا اس کا تعلق مقامی ثقافت
اور روایتی نسلی معمولات سے ہے؟
اسلام چیزوں کو اس انداز سے نہیں
دیکھتا گویا کہ مرد اور عورت ہر چیز میں برابر ہیں۔ ہاں یہاں تکمیلی حقوق اور فرائض
کا تصور ہے۔ اس میں، عورت اپنی جسمانی اور خاندانی کرداروں کے مطابق قانونی طور پر
بہت کم ذمہ داریوں کی پابند ہے۔ اگر ہم عائلی زندگی کے بارے میں اسلامی تعلیمات پر
نظر ڈالیں تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ عزت و وقار کی زندگی اور آزاد انفرادیت کی ضمانت
انہیں دی گئی ہے۔
شادی انسان کی زندگی کا ایک اہم
واقعہ ہے۔ مرد اور عورت دونوں آزادانہ طور پر یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ وہ کس کو اپنا
ہمسفر بنانا چاہتے ہیں۔ والدین کو اس پر کوئی اختیار نہیں ہے، حالانکہ واقعہ یہ ہے
کہ ان معاملات میں زیادہ تر والدین ہی فیصلہ کرتے ہیں۔ اگر شادی لڑکی کی دلچسپی اور
رضامندی کے بغیر یا اس کی شادی کی عمر سے پہلے ہو جائے تو اسے رشتہ ختم کرنے کا حق
حاصل ہے۔ مہر کے تعین اور وصول کا حق مکمل طور پر اس کا ہے۔ شادی کے بعد اس کا کھانا،
لباس اور رہائش کی ذمہ داری شوہر پر ہے۔ جو لوگ ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی استطاعت
رکھتے ہوں وہی شادی کر سکتے ہیں۔
ہمارے ملک میں عام طور پر نان و
نفقہ اور لباس فراہم کرنے کی صلاحیت کو سب سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ لیکن، عام طور پر،
شادی کے وقت کسی کی اپنی رہائش کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔ ایک ایسے سماجی ماحول میں
جہاں مشترکہ خاندانی نظام کو مقدس سمجھا جاتا ہے، اس میں ان لوگوں کو بھی جو اپنے گھر
کے مالک ہونے کی اہلیت نہیں رکھتے، چند سال خاندان سے دور رہنا چاہیے۔ جو لوگ شادی
کے فوراً بعد الگ ہو جاتے ہیں ان پر اپنی فیملی سے محبت نہ کرنے کا الزام لگایا جاتا
ہے۔ لیکن اسلامی ثقافت زوجین کی رازداری کو زیادہ اہمیت دیتی ہے۔
شادی کے بعد، زوجین کی حوصلہ افزائی
کی جاتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کو اپنے ذاتی مکانات میں منتقل کریں۔ اگر اسے مشترکہ خاندان
میں رہنا مشکل ہو جائے تو، مالی طور پر مستطیع شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی رہائش
کا خود انتظام کرے۔ فقہاء نے واضح طور پر اس شرط کو بیان بھی کیا ہے۔ مشترکہ خاندانی
نظام کو فروغ نہ دینے کی دو وجوہات اہم ہیں۔ زوجین کی رازداری کو سب پر فوقیت حاصل
ہے۔ ایسے حالات میں جہاں ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ سب کچھ شیئر کرنا پڑتا ہے اور ساتھ
رہنا پڑتا ہے، ہم اپنی محبت اور پیار کا اظہار کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ
بعض لوگوں کے مطابق ایسے زوجین کے لیے الگ ایک علیحدہ مطبخ ضروری ہے جو خود اندر جانے
سے قاصر ہوں۔ اس پر عمل کرنے والے لوگ ہندوستان کی کچھ ریاستوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
مؤخر الذکر حصہ اسلام کی اخلاقی
تعلیمات کا ہے۔ ایسے گھر میں رہنا مشکل ہے جہاں نامحرم (جن سے نکاح کرنا منع نہیں ہے)،
بشمول شوہر کے بھائی کے، پردہ کرتے ہیں اور دوسرے مردوں کے ساتھ تعلقات کی حدود کا
خیال رکھتے ہیں۔ اخلاقی حدود کو اکثر پامال کیا جاتا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے علیحدہ
ذاتی مکان حاصل کرنے کو کہا جاتا ہے۔
جب بات اتی ہے بیوی کے لیے اپنے
شوہر کے حق میں ذمہ داریوں کی، تو اس کی جنسی ضروریات اور ترجیحات کا خیال رکھنا ایک
اہم ذمہ داری میں شمار ہوتا ہے۔ مہر کا بھی تعلق اسی سے ہے۔ اگر جسمانی ملاپ سے پہلے
رشتہ ختم ہو جائے تو آدھا مہر واپس لیا جا سکتا ہے۔ شرعی حکم یہ ہے کہ جماع کے بعد
شوہر کو مہر سے کچھ بھی نہیں حاصل ہوگا۔ پیغمبرانہ تعلیمات جنسی تعلقات میں مردوں کے
یکطرفہ جذبات کو منع کرتی ہیں۔ حکم ہے کہ خواتین کے ذوق و شوق کا پورا خیال رکھا جائے۔
یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اس کے جنسی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو اور خاندانی زندگی
میں باہمی محبت بھری رہے۔
فقہاء بتاتے ہیں کہ بیوی کے فرائض
میں شامل ہے کہ شوہر کے ناپسندیدہ لوگوں کو گھر میں نہ آنے دے اور اس کی غیر موجودگی
میں اس کے مال کی حفاظت کرے۔
اس سے آگے کسی بھی چیز کو بیوی
کی ذمہ داری نہیں قرار دیا گیا ہے۔ کھانا پکانا، کپڑے دھونا اور دیگر صفائی کے کام
بیوی کے فرائض میں شامل نہیں ہیں۔ اگر گھریلو ملازم رکھنے کا رواج ہو، اور اگر بیوی
اس کا مطالبہ کر دے تو شوہر کو ایک نوکرانی مقرر ہوگا، اگر وہ اس کی اہلیت رکھتا ہو۔
بعض فقہاء یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر بیوی گھر کا کام خود سنبھالے تو وہ گھر کے کام کی
اجرت مانگ سکتی ہے۔ بچوں کی قانونی دیکھ بھال شوہر کی ذمہ داری ہے۔ اس لیے اگر بیوی
گھر کے کام کاج کرنے کی عادی نہیں ہو تو شوہر کو چاہیے کہ اس کے لیے دیگر انتظامات
کرے۔
فقہ حنفی کے ممتاز عالم امام قاسانی
رحمۃ اللہ علیہ کتاب 'البدع' میں فرماتے ہیں کہ "اگر شوہر کوئی ایسا کھانا لائے
جسے پکانے کی ضرورت ہو اور اگر بیوی کو کھانا پکانا مشکل ہو تو پکا پکایا کھانا لانا
شوہر کی ذمہ داری ہے۔" شافعی مذھب کے ابو اسحاق شیرازی اپنی کتاب المہذب میں کہتے
ہیں؛ "چاول پیسنا، کھانا پکانا اور کپڑے دھونا بیوی کی ذمہ داری نہیں ہے، جو شوہر
کی جنسی ضرورت نہیں ہے وہ بیوی پر فرض کے زمرے میں نہیں آتی"۔ مالکی مذہب بھی
اسی طرح کی رائے رکھتا ہے، لیکن ان بیویوں میں فرق کو دیکھا جا سکتا ہے جنہیں نوکر
کی ضرورت ہوتی ہے، اور جنہیں اس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ حنبلی مذہب میں گھر کا کام بیوی
کی ذمہ داری نہیں ہے، اگر ایسا کسی ملک کا رواج ہے۔
لیکن بعض لوگوں نے مشورہ دیا ہے
کہ جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خادم کا مطالبہ کرنے
آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے انکار کر دیا اور انہیں کام کا بوجھ ہلکا کرنے
کے لیے کچھ ذکر و اذکار کی تعلیم دی تاکہ گھر کے کام کاج انجام پا سکیں۔ لیکن دیگر
علماء نے اس حدیث کو اس معنی میں نہیں سمجھا کہ گھر کا کام فرض ہے جیسا کہ عموماً عورتیں
کرتی ہیں بلکہ اسے صرف بیٹیوں کے لیے ایک نصیحت مانا ہے۔ اگر یہ حدیث فرض کے معنی میں
ہوتی تو مروجہ مذاہب کا بھی فتویٰ یہی ہونا چاہیے تھا۔ مختصراً، ایسے کوئی قطعی شرعی
احکام نہیں ہیں جو قانونی طور پر خواتین کو گھر کے کام کاج کرنے کا پابند بناتے ہوں۔
لیکن، شریعت میں شوہر کی ذمہ داریاں واضح طور پر بیان کی گئی ہیں۔
اس بحث میں کہ آیا بچے کو دودھ
پلانا ماں پر فرض ہے یا نہیں، فقہ کا قانون یہ بتاتا ہے کہ ماں کا دودھ دستیاب ہونا
بچے کا حق ہے اور اسے فراہم کرنا باپ کا فرض ہے۔ اگر ماں انکار کرتی ہے تو باب کہیں
اور سے دودھ کا انتظام کرے۔ ماں صرف اسی صورت میں دودھ پلانے کی پابند ہے جب اس کے
لیے کوئی اور دستیاب نہ ہو۔ عربی ثقافت میں سروگیٹ بریسٹ فیڈنگ (دایوں کے ذریعے نوزائیدہ
بچوں کو دودھ پلانے) کا رواج تھا۔ اسلام نے اسے منسوخ نہیں کیا بلکہ دودھ کے رشتے کو
خون کے رشتے کی طرح مقدس قرار دیا۔ چونکہ ہمارے ملک میں اس طرح کے رواج نہیں ہیں، اس
لیے یہ فطری طور پر ماں کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔
مرد ازدواجی تعلقات میں تمام اہم
ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھاتا ہے۔ لہٰذا، خاندانی ہم آہنگی کے تحفظ کے لیے متعلقہ اختیارات
بھی بیان کیے گئے ہیں۔ عورت پر مرد کی سرپرستی سے وہ اپنے انفرادی مقام اور شناخت کے
حق سے محروم نہیں ہوتی۔
جائیداد کے حقوق میں خواتین کی
متناسب کمی اور مرد کو سرپرست بنائے جانے میں کوئی امتیازی سلوک نہیں ہے کیونکہ اسلام
کے پیش کردہ خاندانی ڈھانچے میں مرد ذمہ داریوں کا زیادہ بوجھ اٹھاتے ہیں۔ شوہر کی
زندگی کے کام کاج اور لازمی سماجی ذمہ داریوں کے بوجھ کو دیکھتے ہوئے، اگرچہ ذمہ داریوں
کے قانونی تناظر سے نہیں، اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور اسے خوش رکھنا اور اس کی زندگی
کو آسان بنانا ازدواجی زندگی میں بقائے باہمی کا ایک حصہ سمجھنا چاہیے۔ لیکن حقیقت
یہ ہے کہ جب خواتین کو اس لحاظ سے کوئی وقار اور انفرادیت نہیں دی جاتی تو مرد اور
عورت کے عدم مساوات کے تمام نظریات کو امتیازی سمجھا جاتا ہے۔
اسلام دوسری شادی کو ایک انتہائی
عام اور فطری چیز مانتا ہے۔ یہ اسلامی ثقافت میں کافی وسیع تھا۔ اس لیے طلاق کوئی ایسی
چیز نہیں ہے کہ جس سے ایک عورت کی زندگی بدل جائے۔ لیکن ہمارے معاشرے نے دوبارہ شادی
کو بہت مشکل اور پیچیدہ صورت حال بنا دیا ہے۔ فطری طور پر ایسی صورت حال میں اسلام
میں طلاق کو زن مخالف سمجھا جاتا ہے۔
یہاں تک کہ اگر چیزیں ویسی ہی ہوں
جو اوپر بیان کی گئی ہیں، ازدواجی تعلقات اور خاندانی زندگی صرف حقوق و فرائض اور قانون
کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ محبت و الفت اور شفقت اس رشتے کی بنیاد ہے۔ فقہ میں
محبت اور رحم کا کوئی اصول نہیں ہے بلکہ یہ مکمل طور پر موضوعی اور جذباتی ہے۔ باہمی
افہام و تفہیم اور تعاون سے آگے بڑھنا ضروری ہے۔ اس لیے کہ دنیا کے کاموں کو پورا کرنے
کے لیے مرد اور عورت کے آپسی فرائض ہیں۔ چونکہ خاندان کی مالی ذمہ داری شوہر پر ہے
اس لیے اسے نوکری کرنا ضروری ہے۔ ایک ساتھ زندگی بسر کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ بیوی
اپنے شوہر کا بوجھ کچھ ہلکا کرے تاکہ وہ خوشی خوشی شوہر اپنے کام کو انجام دے سکے۔
یہ ضروری ہے کہ بیوی کو عزت دی جائے کیونکہ وہی عورت ہے جو اپنے فرائض سے اوپر اٹھ
کر گھر کے کام کاج سنبھالتی ہے اور اپنے شوہر کی مدد کرتی ہے۔ اب اگر یہ دونوں نوکری
پیشہ ہیں تو گھریلو معاملات میں ان دونوں کو ایک دوسرے کا تعاون اور مدد کرنا چاہیے۔
مشترکہ خاندان کے معاملے میں بھی اصولوں سے ہٹ کر سمجھوتہ ضروری ہوگا۔ یہ اسلامی تعلیمات
کا نچوڑ ہے کہ والدین کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ ایسے حالات میں اپنے بچوں کے ساتھ کھڑے
رہیں جہاں انہیں ان کی ضرورت ہو، اور جب وہ نہ ہوں تو تعلقات کو فعال کرنے کے لیے بہت
محتاط اور دھیان سے کام لیں۔
اس کے ساتھ ہی، عرف (ہر جگہ کے
مروجہ معمولات) کو اسلام میں اہمیت دی گئی ہے۔ گھر کے کام کاج اور مشترکہ خاندان کے
معاملے میں ہمارے ملک کا رواج عربی مسلم ثقافتوں سے مختلف ہے۔ اس طرح کے معمولات اس
وقت تک مستثنیٰ نہیں ہے جب تک کہ وہ اسلامی شریعت سے متصادم نہ ہوں۔ شادی کے وقت اپنا
گھر بنانے کے قابل ہونا ایک ایسا کام ہے جو ہمارے ماحول میں صرف ایک چھوٹی سی اقلیت
ہی کر سکتی ہے۔ اگر آپ اس پر اصرار کرتے ہیں تو موجودہ حالات میں معاملات پیچیدہ ہو
جائیں گے۔ لیکن جس ماحول میں اس کی اہمیت سمجھی جائے، اسے شعوری طور پر پیدا کیا جانا
چاہئے اور اس میں ترجیحات ہونی چاہئیں تاکہ سب کو یہ باور کرایا جائے کہ مشترکہ خاندان
اتنا مقدس نہیں ہے اور میاں بیوی ایسی زندگی چاہتے ہیں جہاں انہیں ذیادہ سے ذیادہ خلوت
مل سکے۔
گھر کے کام کے سلسلے میں مقامی
رسم و رواج پر چلنا شریعت کے خلاف نہیں ہے۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان پر عمل
کرتے ہوئے انصاف کا انکار اور تشدد کا ارتکاب نہیں ہونا چاہیے۔ جب اس سطح پر جائزہ
لیا جائے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ تشدد اکثر قدامت پسند اصولوں کے تحفظ کے نام پر جنم
لیتا ہے۔ یہ جائز نہیں ہے۔ پرامن ماحول ضروری ہے، لیکن انصاف کے بغیر امن چند دنوں
کا امن ہے۔
اسے ایک مسئلہ کے طور پر دیکھا
جانا چاہیے کہ عورتوں پر گھر کے کام کا بوجھ اس طرح زیادہ ہوتا ہے کہ ان کے پاس اللہ
کی اطاعت، عبادات اور روحانی امور مثلاً ذکر، دعا اور نماز وغیرہ کے لیے وقت نہیں ہوتا۔
بیوی کے لیے یہ انصاف کے مفاد میں ہے کہ وہ یہ سمجھے کہ اگر وہ اپنے روحانی حقوق اور
آزادی اظہار سے محروم ہو جاتی ہے تو اس کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے کیونکہ اسے ایسی چیزوں
میں مشغول ہونا پڑتا ہے جن کے لیے وہ قانونی طور پر پابند نہیں ہیں۔
قرآن جہاں شادی کی بات کرتا ہے،
وہاں میاں بیوی کو 'من انفسکم' (جو تم میں سے ہیں، 30-21) سے تعبیر کرتا ہے۔ یعنی جو
شخص آپ کی زندگی میں آتا ہے وہ آپ ہی کی طرح مہارتوں، خامیوں، خواہشات، خوابوں، غموں
اور خوشیوں والا شخص ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کو سمجھ کر اور سمجھوتہ کرتے ہوئے آگے بڑھنا
چاہیے۔ رشتوں میں ایک دوسرے کو آزاد افراد کے طور پر عزت دینا اور ایک دوسرے کے ساتھ
اسی کے مطابق برتاؤ کرنا ضروری ہے۔
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism