مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
(تیسرا
حصہ)
26 اگست 2022
(6) ایک
اہم مسئلہ خود مسلمانوں کے اپنے معاملات کو سرکاری عدالتوں سے حل کرنے کا ہے۔
لوگوں میں قوت برداشت کم ہوگئی ہے۔ اخلاقی گراوٹ اور اسلامی اقدار سے دوری کی بنا
پر چھوٹی چھوٹی باتوں پر تنازعات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اس کا سب سے افسوسناک پہلو
طلاق وخلع کے واقعات کی کثرت اور عورتوں کو میراث کے حق سے محروم رکھنا ہے۔ پھر جب
کورٹ میںجاتے ہیں تو پریشانی اور ہراسانی کے علاوہ دو اور بڑے نقصان ہوتے ہیں۔ ایک
تو پیسوں کی بربادی، سالہا سال مقدمات لڑ کر وہ جو کچھ حاصل کرتا ہے، اس سے زیادہ
پیسے خرچ کرچکا ہوتا ہے، ایک دوسرے کو
دیکھ کر مقدمہ بازی کا رجحان بڑھتا ہے، لاکھوں روپے مقدمات میں خرچ ہو جاتے ہیں۔
دوسرے: جب کوئی فریق عدالت میں پہنچ جاتا ہے تو آپسی مصالحت کا دروازہ بند ہو
جاتا ہے اور نفرتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اس
کیلئے ضروری ہے کہ ملک کے مختلف علاقوں میں دارالقضاء یا محاکم شرعیہ اور
کاؤنسلنگ سینٹر قائم کئے جائیں، جن کے ذریعہ آپسی مسائل بیرون عدالت حل ہو جائیں۔ مسلمان وکلاء بھی اس میں اہم رول
ادا کر سکتے ہیں کہ وہ مسلم فریقوں کے کورٹ میں جانے کی حوصلہ افزائی نہ کریں بلکہ
صلح کے ذریعہ مسئلہ کو حل کریں اور اپنی واجبی فیس بھی حاصل کریں۔ جو مسائل صلح سے
یا دارالقضاء میں حل ہو سکتے ہیں، اُن کیلئے کوشش ہونی چاہئے کہ دار القضاء ہی میں
حل ہوجائیں۔ اگر دارالقضاء کے نظام کو ہم مضبوط کر لیں تو باہمی نزاعات کے معاملہ
میں خود مکتفی ہو سکتے ہیں، اور مقدمہ بازی کی سر گردانی، رسوائی اور کثیر اخراجات
سے اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں۔
(7) مسلمان
جیسے معیشت میں سب سے نیچے ہیں اور ان کی حالت بہت خراب ہے، اسی طرح صحت کے اعتبار
سے بھی مسلم آبادیوں کا حال بہت برا ہے۔ مناسب اور متوازن غذا کی قلت، اچھے ماحول
سے محرومی، صفائی ستھرائی کا ناقص انتظام، تنگ مکانات اور علاج کی سہولت مہیا نہ
ہونے وغیرہ کی وجہ سے بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ صحت انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔
اگر بچے صحتمند نہ ہوں تو وہ کیسے بہتر اور اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں؟ اگر
نوجوان صحت مند نہ ہوں تو وہ اپنی روزی کیلئے کس طرح دوڑ دھوپ کر سکتے ہیں؟ اگر
خواتین عدم صحت ہوں تو کیسے امت کے نونہالوں کی پرورش کر سکتی ہیں؟ اس لئے اس پر توجہ کی بڑی ضرورت ہے۔اس کیلئے دو
باتیں تو بہت ہی ضروری ہیں، ایک یہ کہ مسلم محلوں میں علاج کی سرکاری سہولتیں مہیا
کرانے کی کوشش کی جائے، سرکاری اسکیموں سے فائدہ اٹھایا جائے، مسلمانوں کو اس
سلسلے میں باخبر کیا جائے، مسلم محلوں میں دینی اجتماعات کے ذیل میں حفظان صحت کے
بھی پروگرام رکھے جائیں، حاملہ عورتوں، شیر خوار بچوں کی ماؤں نیز بوڑھے اور ضعیف
لوگوں کیلئے خصوصی پروگرام رکھے جائیں اور ان کی ان کے مخصوص حالات کے اعتبار سے
رہنمائی کی جائے۔ اس کے علاوہ ملت کی تنظیمیں اور بااثر شخصیتیں کوشش کریں کہ ہر
محلے میں سستے اسپتال قائم کئے جائیں، جہاں ڈاکٹروں کی معمولی فیس ہو، جنریک
دوائیں مہیا کی جائیں اور غریبوں کو مفت علاج کی سہولت دی جائے۔ اس کام کو تنظیمیں
بھی کر سکتی ہیں اور سماج کے لوگ بھی مل جل کر انجام دے سکتے ہیں۔ ڈاکٹروں سے
اعزازی طور پر ان کا کچھ وقت حاصل کیا جائے۔ میڈیکل سے دوائیں دینے کی اپیل کی
جائے۔ اصحاب خیر سے علاج کیلئے مدد فراہم
کرنے کو کہا جائے اور ہر محلہ میں سستے آؤٹ پیشنٹ اسپتال قائم کئے جائیں، غریب
اور مزدور مسلمانوں کا ہیلتھ انشورنس کرایا جائے، اس طرح ہم اپنی قوم کو ایک صحت
مند قوم بنا سکتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ایک صحتمند جسم ہی میں ایک
صحتمند دماغ پرورش پاتا ہے، اور جب کوئی قوم جسمانی طور پر بیمار اور کمزور ہو
جاتی ہے تو وہ حوصلہ وہمت سے بھی محروم ہو جاتی ہے۔ مسلمانوں میں تعلیم، معاشی
ترقی اور مذہبی مقاصد کیلئے تحریکیں اٹھتی رہی ہیں اور ادارے قائم ہوتے رہے ہیں
لیکن صحت کے بارے میں لوگوں نے بہت کم توجہ دی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ادھر مختلف
شہروں میں مسلمانوں نے اپنے اسپتال قائم کئے ہیں؛ لیکن وہ ضرورت کے اعتبار سے بہت
کم ہیں۔
(8) کسی
بھی ملک میں سیاسی قوت کا بڑا اثر ہوتا ہے مگر افسوس کہ مسلمان اس سلسلے میں
پسماندہ سے پسماندہ تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ آزادی سے پہلے متناسب نمائندگی کی بنیاد
پر الیکشن ہوتا تھا، اب بھی بعض ملکوں میں یہ طریقہ جاری ہے، اس میں ووٹوں کی
تعداد کے لحاظ سے نمائندوں کی تعداد متعین کی جاتی تھی، مثلاً اگر ایک لاکھ ووٹ پر
ایک نمائندہ منتخب ہونا ہے اور کسی پارٹی کو ۱۰؍
لاکھ ووٹ ملتے ہیں تو اس کے دس نمائندے ہوں گے۔ اس طرح کوئی ووٹ ضائع نہیں ہوتا
تھا مگر ۱۹۴۷ء
کے بعد الیکشن کا طریقہ یہ رکھا گیا کہ ہر حلقہ کے اعتبار سے وہاں ووٹنگ ہوگی اور
اکثریت حاصل کرنے والا کامیاب سمجھا جائے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جن گروہوں کی
آبادی بکھری ہوئی ہے، یا ان کے ووٹ کم ہیں، ان کی نمائندگی کم ہو گئی، پھر مزید
یہ صورتحال پیش آئی کہ حلقوں کی تقسیم میں تعصب برتا گیا۔ جہاں مسلمانوں کی
آبادی مرتکز تھی، اس کو اس طرح کاٹ کر ہندو اکثریت حلقوں کے ساتھ جوڑا گیا کہ
مسلمانوں کے ووٹ بے اثر ہوجائیں، ہر پارٹی مسلمانوں کو اس حلقہ میں کھڑا کرتی ہے،
جہاں مسلمانوں کی کثیر آبادی ہے اور جہاں ایک سیٹ کیلئے کئی کئی مسلمان امیدوار
کھڑے ہو جاتے ہیں، اس کا نتیجہ ہے کہ پارلیمنٹ اور اسمبلی میں مسلمان نمائندگی کم
سے کم ہوتی چلی جا رہی ہے، اور اب تو بی جے پی نے یہ تحریک شروع کی ہے کہ ہمیں
مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت نہیں، وہ نفرت انگیز پروپیگنڈوں کے ذریعہ اکثریتی ووٹ کو
متحد کرتی ہے تاکہ اقلیت کا ووٹ بے اثر ہو جائے۔ اس پس منظر میں دور رس اور وسیع
کوشش کی ضرورت ہے۔ ہر علاقہ میں باوثوق مسلم شخصیتوں کی ایک کمیٹی بنائی جائے جو
پارٹی اور خاندانی مفادات سے اوپر اٹھ کر مضبوط مسلمان امیدوار کی تائید کرے اور
متحدہ طور پر اس کو ووٹ دیا جائے۔ الیکشن کے وقت پارٹیوں کے سامنے اعلانیہ یا غیر
اعلانیہ طور پر اپنا ایجنڈا رکھا جائے اور جو پارٹی اس کو قبول کرے، اسی کی تائید
کی جائے، ووٹرس کے ناموں کا اندراج کرانے کی بھر پور کوشش کی جائے اور مسلمانوں کو
آگاہ کیا جائے کہ وہ ضرور اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں۔ ایک اہم بات یہ ہے
کہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کو پنچایت اور کارپوریشن کی سطح پر بہتر نتائج لانے
کی بھر پور کوشش کرنی چاہئے کیونکہ یہ نسبتاً آسان ہے۔ اب مقامی عوامی اداروں کو
بھی کافی اختیارات حاصل ہیں اور حکومت کی طرف سے ان کو مناسب فنڈ مہیا کیا جاتا
ہے، اس سے مقامی طور پر تعلیم، صفائی ستھرائی اور صحت کے سلسلے میں کافی کام ہو
سکتا ہے اور مقامی انتخابات میں اپنے اثرو رسوخ کا استعمال کر کے ہندو مسلم اتحاد
کی فضا قائم کرنے میں بھی اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ ان کوششوں کے ذریعہ یہ کہنا تو
مبالغہ ہوگا کہ ہم سیاسی معاملات میں خود مکتفی ہو جائیں گے؛ لیکن اتنا ضرور ہے کہ
اس وقت مسلمان جس سیاسی بے وزنی سے دوچار ہیں، اس میں کمی ہوگی اور بہت سے مسائل
کو وہ اپنی کوششوں کے ذریعہ حل کر سکیں گے۔
(9)شریعت
میں جان ومال کے تحفظ کو بڑی اہمیت حاصل ہے بلکہ یہ شریعت کے بنیادی مقاصد میں
شامل ہے۔ زندگی کے بچاؤ کیلئے شریعت میں بعض ایسی چیزوں کے استعمال کی بھی اجازت
دی گئی ہے جو بنیادی طور پر حرام ہیں اور ان کا شمار بڑے گناہوں میں ہے۔ نہ صرف
اپنی جان ومال کی حفاظت ضروری ہے بلکہ سماج کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ ہر انسان کو
بچانا ’’چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ‘‘ ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ اس وقت صورتحال
یہ ہے کہ مسلمانوں کی جان ومال پر حملہ، ہجومی تشدد (ماب لنچنگ) اور آتشزنی ایک
عام سی بات ہوگئی ہے۔ افسوس کہ حکومت بھی اس پر توجہ نہیں دیتی ہے، بعض واقعات تو
وہ ہیں کہ جن کا شور امریکہ تک پہنچ جاتا ہے مگرہمارے ملک کے حکمرانوں کے کانوں تک
نہیں پہنچتا۔ ان حالات میں یہ ضروری ہے کہ مسلمان ’’ اپنی حفاظت آپ‘‘ کا پروگرام
بنائیں۔
(10) سرکار
دو عالمؐ نے مسلمانوں کو اپنے ماحول میں آباد رہنے کی تلقین فرمائی ہے، مسلمانوں
کی آبادیاں اگر مرتکز ہوں تو اس سے سیاسی فائدہ بھی ہوگا، مسلمانوں کے اپنے
تعلیمی ادارے بھی قائم ہو سکیں گے، جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت بھی ہوگی،
مسلمانوں کی نئی نسل اپنی تہذیب پر قائم رہے گی اور مسلم تہذیب کو تقویت ملے گی۔
یہ ۱۰؍
نکاتی مشورہ ہے، جو علماء ،دانشوران، مسلم تنظیموں جماعتوں اور باشعور مسلمانوں کی
خدمت میں غور وفکر کیلئے پیش کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان زیادہ سے
زیادہ مسائل اور ضرورتوں میں خود مکتفی ہوں اور دوسروں کا محتاج ہو کر زندگی نہ
گزاریں۔ جو قوم اپنے مسائل خود حل نہیں کر سکتی ، وہ دوسروں کی عنایات اور نظر
التفات کے سہارے زندگی گزارتی ہے چنانچہ اپنی خودداری ہی کو متاثر نہیں کرتی،
بحیثیت قوم اپنا وزن بھی کھوتی ہیں اور اپنی شبیہ کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ مذکورہ
بالا گزارشات پر غوروخوض ہو اور اپنے اپنے علاقوں کی ضرورت کے اعتبار سے ہم اپنی
ترجیحات متعین کریں تو ان شاء اللہ خوشگوار نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
26 اگست 2022 ، بشکریہ: انقلاب،
نئی دہلی
Urdu Article Part: 2- Muslims Should Be an Active Community in Judicial,
Governmental, and Educational Institutions Part - 2 مسلمان ایک ایسی اُمت بنیں جس کی
شمولیت تعلیمی،پارلیمانی اورقانونی اداروں میں بھی ہو
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism