New Age Islam
Fri May 23 2025, 11:21 AM

Urdu Section ( 31 Aug 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Muslims Should Be an Active Community in Judicial, Governmental, and Educational Institutions Part - 2 مسلمان ایک ایسی اُمت بنیں جس کی شمولیت تعلیمی،پارلیمانی اورقانونی اداروں میں بھی ہو

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

دوسرا حصہ

19 اگست 2022

(۳)سب سے اہم مسئلہ تعلیم کا ہے، اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سرکاری ادارے کم ہوتے جا رہے ہیں، گورنمنٹ خود ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہے، عملاً عوام کی زیادہ تر تعلیمی ضرورت نجی اداروں کے ذریعہ پوری ہو رہی ہے۔ عیسائی مشنریز کا اس سلسلہ میں بڑا اہم رول رہا ہے۔ سنگھ پریوار کی ذیلی تنظیموں نے شاید بعد کو اس میں قدم رکھا لیکن اب ان کے اداروں کی بھی بہتات ہے اور انہیں حکومت کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ مسلمانوں میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد سے اس کی طرف توجہ بڑھی ہے اور اب مسلمانوں کے پرائمری سطح سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک کے کئی ادارے ملک میں قائم ہوئے ہیں۔ مگر اب بھی اس کی طرف بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ تعلیمی معیار کو اونچا اٹھایا جائے، طلبہ کی ایسی کوچنگ کرائی جائے کہ وہ پیشہ وارانہ کورسیز میں گورنمنٹ سیٹ حاصل کر سکیں۔ تعلیمی ماہرین کا کوئی گروپ ملک کے مختلف علاقوں کا جائزہ لے، مسلمانوں کی آبادی اور ان کی معاشی حالت کو سامنے رکھتے ہوئے مشورہ دے کہ کن کن شہروں میں کس قسم کے تعلیمی اداروں کی سخت ضرورت ہے اور وہاں اس کی مقبولیت کے کیا امکانات ہیں؟ پھر جو لوگ صاحب ثروت ہیں اور وہ کاروبار میں پیسہ لگانا چاہتے ہیں، وہ ان علاقوں میں ماہرین کے مشورہ اور علاقہ کی ضروریات کے مطابق تعلیمی ادارے قائم کریں اور اس میں خاص طور پر اس بات کا خیال رکھیں کہ جو غریب عوام ہیں، ان کے بچوں کی فیس میں رعایت برتنے کی کوشش کی جائے۔

 تعلیمی اداروں میں چھٹی کلاس سے لے کر بارہویں کلاس یا ڈگری تک لڑکیوں کیلئے مستقل تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں تاکہ بہتر اخلاقی ماحول میں بچیوں کی تعلیم ہو سکے، تعلیمی ادارے لڑکوں کے ہوں یا لڑکیوں کے، ان میں اس بات کی کوشش کی جائے کہ بیسک اسلامی تعلیم بھی مہیا ہو جائے، تعلیمی اوقات میں اس کیلئے وقت نکالا جائے، یا تعلیمی اوقات کے بعد ایک گھنٹی اس کیلئے رکھی جائے، یا ہفتہ کے دن نصف یوم یا اتوار کو صبح ۱۰؍ تا ۴؍ بجے ہفتہ وار کلاس رکھی جائے۔ ہو سکتا ہے کہ ہر جگہ لڑکیوں کیلئے مستقل اور علاحدہ تعلیم کا نظم قائم کرنا مشکل ہو تو ایسا کیا جائے کہ دو شفٹ میں تعلیم ہو، ایک شفٹ لڑکوں کیلئے اور ایک شفٹ لڑکیوں کیلئے، اگر عمارت میں کئی منزلیں ہوں تو لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے الگ الگ منزلیں مخصوص کی جائیں اور راستے بھی الگ رکھے جائیں، اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو کلاس روم میں لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان پلائی ووڈ کی چھ سات فٹ اونچی عارضی دیوار کھڑی کی جائے، کلاس میں آنے کیلئے الگ الگ راستے رکھے جائیں اور بیت الخلاء وغیرہ کے حصے تو الگ رکھے ہی جاتے ہیں، اس طرح ہم بچیوں کیلئے تعلیم کا محفوظ نظام قائم کر سکتے ہیں، اور لڑکیاں حجاب اور شریعت سے ہم آہنگ ڈریس کوڈ میں تعلیم حاصل کر سکتی ہیں۔ ہمارا مقصد تو اصل میں ملت کے بچوں اور بچیوں کی تعلیم ہو؛ لیکن برادران وطن بھی اپنے بچوں کو ہمارے اداروں میں داخل کرنا چاہیں تو ہم کو چاہئے کہ ان کا استقبال کریں۔

 روزانہ ۴۵؍ منٹ یا ہفتہ میں ایک دن چھ گھنٹے کا وقت کم نہیں ہے، اگر ہم ایک بہتر نصاب کے ذریعہ بچوں کی تعلیم کا انتظام کریں تو اس میں قرآن مجید ناظرہ، دو پارے حفظ، روز مرہ کی زندگی سے متعلق چالیس حدیثیں اور ضروری دعائیں تو پڑھا ہی سکتے ہیں، ان کے علاوہ سیرت، صحابہ کی زندگی، اسلامی تاریخ، ہندوستان کے مسلم دور کی تاریخ اور اسلام کے بارے میں پیدا کی جانے والی غلط فہمیوں کے جوابات وغیرہ بھی تعلیم میں شامل رکھ سکتے ہیں، اور اس طرح جو بچے اسکولوں سے پڑھ کر نکلیں گے وہ ان شاء اللہ فکروعمل دونوں جہتوں سے اچھے مسلمان اور قوم ووطن کے لئے مفید انسان ثابت ہوں گے۔

 (۴) اللہ کا شکر ہے کہ علماء کی کوششوں سے ملک کے چپہ چپہ میں دینی مدارس قائم ہیں، ان کے پاس عمارتیں بھی ہیں، طلبہ کی ضروریات کیلئے ضروری وسائل بھی مہیا ہیں اور ابتداء سے لے کر انتہاء تک اسلامی علوم کی اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے، ان ہی کے ذریعہ امت کی تمام دینی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں؛ لیکن ادھر محسوس کیا جا رہا ہے کہ علماء و عوام کے درمیان ایک فاصلہ پیدا ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے اور بھی اسباب ہو سکتے ہیں؛ لیکن بنیادی سبب زبان کا فرق ہے، مدارس میں طلبہ عربی فارسی کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور عربی آمیز فارسی آمیز اردو بولتےاور لکھتے ہیں، جس کو آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے بہت پسند کیا جاتا تھا، عوام بھی اسے پڑھتے اور سردُھنتے تھے۔ جدید تعلیم یافتہ حضرات کو بھی اس کی مٹھاس اور خوبصورتی متاثر کرتی تھی۔ آج انگلش میڈیم سے پڑھنا پڑھانا بچوں اور ان کے سرپرستوں کیلئےایک قابل فخر بات ہو گئی ہے؛ اس لئے معاشی پہلو سے ہٹ کر دینی پہلو سے بھی علماء کیلئے انگریزی زبان اور ضروری حد تک عصری علوم کی تعلیم بہت ضروری ہے تاکہ وہ امت کی نئی نسل سے ان کی مانوس زبان میں خطاب کر سکیں اور جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے رو بہ رو ہوسکیں نیز اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکیں؛ ورنہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ مدارس کے فضلاء امت کی نظر میں قابل احترام تو رہیں گے مگر قیادت کے مقام سے محروم ہو جائیں گے۔

  ملک میں تعلیمی نظام کو جس تیزی سے بدلا جا رہا ہے اور جس طرح تمام اداروں کو حکومت کی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جا رہی ہے، مدارس کیلئے اپنے مزاج اور فیصلہ کے مطابق اس تبدیلی پر غور کرنا بہت اہم ہوگیا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ملک کے نمائندہ دینی مدارس کے ذمہ داران بھی اب اس حقیقت کو محسوس کر رہے ہیں، ضرورت ہے کہ اب اس کو عملی جامہ پہنایا جائے ، بڑے مدارس اس میں پہل کریں، اور کوئی نظام مرتب کر کے جاری کریں۔

 (۵) عوام کو انصاف دلانے اور سماج کو ظلم سے بچانے کیلئے تین اہم ادارے کام کرتے ہیں: ایک عوام کے منتخب نمائندوں کا ایوان، یعنی پارلیمنٹ اور اسمبلی، دوسرے: پولیس جو حکومت کے تحت کام کرتی ہے، تیسرے: عدالت، جس کی ایک آزادانہ حیثیت ہوتی ہے۔ ان میں سے پہلا اقلیتوں کے تئیں مخلص نہیں ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ملک میں نہ اپوزیشن رہے اور نہ اقلیتیں۔وہ تیزی سے اس مقصد کی طرف آگے بڑھ رہا ہے اور ملک کے چپے چپے میں نفرت کی آگ سلگا رہا ہے۔ بیشتر معاملات میں پولیس کھلے طور پر جانبداری برت رہی ہے جس کی تصویریں اکثر سوشل میڈیا پر آتی ہیں؛ لیکن حکومت کا رویہ چشم پوشی کا ہے، وہ اپنے آپ کو بہرا اور گونگا بنائے ہوئے ہے۔

 ان حالات میں مسلمانوں، دلتوں اور دیگر اقلیتوں کیلئے صرف ایک ہی پناہ رہ گئی ہے، اور وہ ہے عدالت؛ اگرچہ عدالت کے بعض فیصلوں نے بھی مایوس کیا ہے، جس کی سب سے بڑی مثال بابری مسجد سے متعلق فیصلہ ہے لیکن بہر حال پھر بھی عدالت ہی امید کی کرن ہے۔ اس سمت میں ہمیں تین جہتوں سے کوشش کرنی چاہئے: اول یہ کہ ملت کے ذہین بچوں کو قانون کے شعبہ میں داخل کرایا جائے اور کریمنل لا کے ساتھ ساتھ سول لا کو بھی خصوصی اہتمام کے ساتھ پڑھایا جائے۔

  دوسرے: مسلمانوں میں قانونی بیداری پیدا کی جائے اور انہیں بتایا جائے کہ ظلم و زیادتی کے واقعات پر کس طرح پولیس سے رجوع کیا جائے؟ کیسے ایف آئی آر درج کرائی جائے؟ اور سمجھا جائے کہ پولیس نے صحیح طور پر کیس بک کیا ہے یا نہیں؟ پولیس اگر گرفتار کرنا چاہے تو اس کے ضوابط کیا ہیں؟ وغیرہ۔ اس وقت بعض معاملات میں پولیس جانبدار ہوگئی ہے۔ اگر ملزم، مسلمان یا دلت ہو تو پولیس کا رویہ ان کے ساتھ اتنا بے دردانہ ہو جاتاہے کہ قانون مجرموں کیلئے بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔

 بعض واقعات ایسے بھی ہیں جن میں مسلمان نوجوانوں پر جھوٹا الزام لگایا گیا۔ ابھی اس کا کوئی ثبوت فراہم نہیں ہوا نہ اس کی تحقیق کی گئی مگر تنگ نظر وکلاء نے اس کا مقدمہ لڑنے سے انکار کر دیا۔ ان حالات میں یہ بات بے حد ضروری ہے کہ مسلمان قانونی کارروائی کے سلسلے میں خود مکتفی ہوں، ان کے پاس باصلاحیت وکلاء موجود ہوں، جو اُن کے مقدمات لڑیں۔

 تیسرے: ججوں کے انتخاب کےجو امتحانات ہوتے ہیں، مسلمان وکلاء ان میں شرکت کی تیاری کریں۔ ان کیلئے کوچنگ رکھی جائے اوران کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ عدالتوں میں مسلمان جج بھی آسکیں۔ فی الحال سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں میں مسلمان ججوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اس میں تعصب کا بھی دخل ہے اور اپنی غفلت اور بے توجہی کا بھی، اس پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

 بہت سے غریب اور کم پڑھے لکھے مسلمان وہ ہیں جن پر فرقہ پرستوں کی طرف سے زیادتی ہوتی ہے۔ ان کے خلاف غلط مقدمات درج کئے جاتے ہیں اور وہ ظلم کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔ انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کس جرم میں جیل میں بند ہیں۔ ان کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے کہ وہ کسی مناسب وکیل کو اپنی طرف سے کھڑا کر سکیں اسلئے بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے سالہا سال وہ قید کی زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے بال بچے کسمپرسی کی حالت میں رہتے ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ ملک کے بڑے شہروں میں ملی تنظیمیں مشترکہ طور پر لیگل سیل قائم کریں اور ایسے مظلوم مسلمانوں کو قانونی مدد اور مشورہ فراہم کریں۔ اس وقت اس سلسلہ میں جمعیۃ علماء ہند کی کوششیں قابل تحسین ہیں، سیکڑوں بے قصور نوجوانوں کو انہوں نے جیل سے آزاد کرایا ہے اور کئی فرقہ پرست مقررین کی زبان کو لگام دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کوششوں کی خاطرخواہ قدردانی ہونی چاہئے لیکن ایک تنظیم کی کوشش اتنے بڑے ملک میں کافی نہیں ہو سکتی، اس لئے ضروری ہے کہ دیگر تمام تنظیمیں بھی اس میں اپنا حصہ ادا کریں تب ہی مسئلہ حل ہو سکے گا، اور یہ بھی ضروری ہے کہ مدد صرف اپنی تنظیم کے لوگوں تک محدود نہ ہو بلکہ تنظیمی اور مسلکی وابستگی سے اوپر اٹھ کر پوری ملت اسلامیہ کے لئے ہو۔)جاری(

19 اگست 2022 ، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

Urdu Article Part: 1- Self Sufficiency Is a Fantastic Blessing for Everyone, Not Just For the Particular Person but Also For the Nation and the Entire World Part-1 غنا انسان کی انفرادی ہی نہیں، قومی واجتماعی زندگی میں بھی ایک بڑی نعمت ہے

URL: https://newageislam.com/urdu-section/muslims-community-judicial-governmental-educational-part-2/d/127842

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..