غلام غوث صدیقی ، نیو ایج
اسلام
(قسط اول)
اہم نکات :
گستاخ رسول کی سزا دینے
کا اختیار صرف اسلامی عدالت اور سلطان اسلام کو ہے ، لہذا اگر کوئی قانون ہاتھ میں
لیکر خود ہی سزا دے تو شریعت کی نظر میں ایسا شخص نہ صرف قاتل ہے بلکہ سزا کا بھی
مستحق ہے۔
زیر بحث مسئلہ میں سند
حدیث کی صحت و ضعف پر دور حاضر کے غیر ذمہ دار عوام کے سامنے ناقص تجزیہ پیش کرنے
سے بہتر ہے کہ عوام کو جلسوں اور جمعہ کے خطبات میں یہ بتلایا جائے کہ کوئی بھی
اسلامی سزا ہو، خواہ اس کا ثبوت قرآن کریم، حدیث (سنت)، اجماع یا قیاس سے ہو ، اس
سزا کو دینے کا اختیار صرف اسلامی عدالت یا سلطان اسلام کو ہے اور ہمارے وطن میں
اسلامی عدالت نہیں ہے۔
۔۔۔
کنہیا لال کے قتل کے بعد
درجنوں علمائے ہند کے مذمتی بیانات سامنے آئے جن میں ایک بات قدر مشترک تھی کہ
قانون ہاتھ میں لینے کا اختیار شریعت اسلامیہ میں کسی کو نہیں۔نیو ایج اسلام نامی
ویب سائٹ پر شائع مذمتی بیانات کے رپورٹ میں مذکور علمائے ہند میں کسی عالم دین نے
بھی حدیث کی سند کے صحت و ضعف یا قابل استدلال ہونے یا نہ ہونے پر گفتگو نہیں کی
بلکہ تمام علماء کا اتفاق اس بات پر تھا کہ شریعت کی نظر میں قانون ہاتھ میں لینا
جرم ہے۔
۔۔۔۔
کلک کیجیےاور رپورٹ پڑھیں:
اودے پور راجستھان
میں توہین رسالت کے نام پر ایک ہندو کا بہیمانہ قتل انتہائی شرمناک، قابل مذمت اور
غیر اسلامی ہے : مسلم تنظیمیں ، علما اور شخصیات
۔۔۔۔
اس سلسلے میں میرے نزدیک
سب سے موثر فتوی وہ ہے جو بریلی شریف میں واقع درگاہ اعلی حضرت سے مفتی سلیم نوری
کے واسطے سے صادر ہوا ۔ اس فتوی میں اعلی حضرت کے فتوی کی روشنی میں صاف لفظوں میں
یہ بات کہی گئی کہ گستاخ رسول کی سزا دینے کا اختیار صرف اسلامی عدالت اور سلطان
اسلام کو ہے ، لہذا اگر کوئی قانون ہاتھ میں لیکر خود ہی سزا دے تو شریعت کی نظر
میں ایسا شخص نہ صرف قاتل ہے بلکہ سزا کا بھی مستحق ہے ۔اعلی حضرت کے ماننے والوں
کے لیے یہ فتوی یقینا قابل عمل اور زیر بحث مسئلہ میں ہر طرح کی ممکنہ انتہاپسندی
کا قلع قمع کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوگا ۔
۔۔۔
بریلی درگاہ اعلی حضرت سے
صادر فتوی پڑھیں: उदयपुर धटना के संदर्भ में आला हजरत का फतवा
۔۔۔
زیر بحث مسئلہ میں سند
حدیث کی صحت و ضعف پر دور حاضر کے غیر ذمہ دار عوام کے سامنے ناقص تجزیہ پیش کرنے
سے بہتر ہے کہ عوام کو جلسوں اور جمعہ کے خطبات میں یہ بتلایا جائے کہ کوئی بھی
اسلامی سزا ہو، خواہ اس کا ثبوت قرآن کریم، حدیث (سنت)، اجماع یا قیاس سے ہو ، اس
سزا کو دینے کا اختیار صرف اسلامی عدالت یا سلطان اسلام کو ہے اور ہمارے وطن میں
اسلامی عدالت نہیں ہے۔یہاں ہمیں اپنی شکایتوں کا حل تلاشنے میں ظاہری طور پر دو
چیزوں پر منحصر ہونا پڑتا ہے: یا تو ہم ہندوستانی عدالت کی طرف اپنی شکایتیں درج
کرائیں یا پھر صبر و تحمل اختیار کرتے ہوئے اپنے مسائل و معاملات کو اپنے مالک
حقیقی کے سپرد کر دیں ۔ اگر کسی وجہ سے ہماری شکایت درج ہونے یا انصاف ملنے میں
تاخیر ہو جائے تب بھی کسی بھی ہندوستانی ، خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم ، اسے یہ حق
نہیں کہ قانون ہاتھ میں لیکر خود ہی فیصلہ کرے، کیونکہ قانون ہاتھ میں لینے والا
ہندوستان کی عدالت کی نظر میں مجرم ہے اور قابل سزا بھی ہے۔
اگر ہمارے ائمہ حضرات ،
علمائے کرام اور سوشل میڈیا پر لکھنے ، پڑھنے اور غور و فکر کرنے والے حضرات ،
خواہ ان کا تعلق کسی بھی طبقہ سے ہو ، خواہ وہ مدارس اور دینی مراکز سے مربوط ہوں
یا عصری تعلیم کے مراکز، کالجز اور یونیورسٹیوں کے عہدوں اور منصبوں پر فائز ہوں ،
یا عام پڑھے لکھے حضرات ہوں ، اگر یہ تمام حضرات اتنی آسان سی باتوں کو عام کرنے
میں مدد کریں تو زیر بحث مسئلہ یا دیگر تمام اسلامی سزاوں کے تعلق سے قانون ہاتھ
میں لینے کا پریشان کن مسئلہ ہی ختم ہو جائے ۔
لیکن اتنی سادہ باتوں کو
عام کرنے اور مسائل کا حل پیش کرنے کی بجائے بعض لوگ کم علمی کی بنا پر مزید
الجھنیں پیدا کرنے میں کوشاں ہیں۔ جب سے کنہیا لال کے دردناک قتل کا واقعہ ہوا ہے
، انگریزی زبان میں خاص طور پر کچھ تحریریں ایسی آئیں ہیں جو موثر ہونے اور مسائل
کا حل پیش کرنے کی بجائے عوام کے لیے مزید الجھنیں اور تشویش پیدا کرنے کا ذریعہ
بن رہی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بعض لوگ یہ ثابت کرنے میں لگے ہیں کہ جس
حدیث سے گستاخ رسول کی سزائے موت کا ثبوت ملتا ہے وہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے لیکن
چونکہ دیگر قرائن و شواہد کے ساتھ ملکر یہ ضعیف حدیث اپنی صحت میں تقویت پاچکی ہے
لہذا اس پر عمل کرنا ضروری ہو ہے۔ وہیں دوسری طرف بعض ایسی بھی تحریریں منظر عام
پر آئیں جن میں یہ ثابت کرنے کی کوششیں کی گئیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے اس لیے اعمال
اور سزا کے مسائل میں قابل استدلال نہیں۔کوئی تحریر یہ ثابت کرنے میں لگی ہے کہ یہ
حدیث موضوع ہے ۔ مختصر یہ کہ ان تحریروں نے مسائل کا حل پیش کرنے کی بجائے عوام کو
مزید الجھنوں میں مبتلا کر دیا ہے ۔ ممکن ہے کہ ان حضرات کا یہ فعل اگرچہ بالقصد
نہ ہو لیکن چونکہ ان کے اس فعل کی وجہ سے منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے اس لیے
یہ کہنا ضروری ہے کہ یہ حضرات خود الجھنوں میں مبتلا ہیں اور انہیں اس مسئلہ کا حل
نظر نہیں آ رہا ۔
بعض حضرات یہ الزام لگانے
سے بھی نہیں شرماتے کہ مدارس میں اس حدیث کی تعلیم دی جاتی ہے اس لیے کنہیا لال کے
قتل جیسا واقعہ پیش ہو رہا ہے۔ اگرچہ مدارس میں متعین نصاب کے اندر یہ حدیث داخل
ہی نہیں لیکن اہل مدارس و مساجد کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ عوام اور سوشل میڈیا
کے سامنے اس الزام کا ازالہ کھلے انداز میں کرتے اور ساتھ ہی یہ سادہ بات بھی بتا
دیتے کہ کوئی بھی اسلامی سزا ہو ، خواہ وہ قرآن سے ثابت ہو یا حدیث سے ، اس سزا
کو دینے کا اختیار کسی بھی عام مسلمان کو نہیں بلکہ اس سزا کو دینے کا اختیار صرف
اور صرف اسلامی عدالت کو ہے ، جیسا کہ کنہیا لال کے قتل کے بعد بریلی شریف سے صادر
ہونے والے فتوی میں کہا گیا ۔لیکن اتنی آسان اور واضح بات کو عوام و خواص میں
مقبول بنانے کی بھلا اس شخص سے زحمت کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے جو مسائل کا حل
پیش کرنے کی بجائے مسائل کو مزید الجھنوں میں مبتلا کرنے کے در پے ہوں۔
جو لوگ زیر بحث مسئلہ کے
متعلق مذکور حدیث کی صحت و ضعف اور قابل استدلال ہونے یا نہ ہونے میں پر اپنی تمام
تر اینرجی صرف کر رہے ہیں ، وہ اس بات کا انکار نہیں کر سکتے کہ چوری اور زنا کرنے
والے کی سزا کا بیان تو قرآن مجید میں قطعیت و صراحت کے ساتھ موجود ہے ۔قرآن
کریم میں صاف لفظوں میں مذکور ہے کہ چور ی کرنے والے کا ہاتھ کاٹا جائے گا اور
زانی کو سو کوڑے مارے جائیں گے ۔ یہ بات تو کسی ضعیف حدیث یا صحیح حدیث سے نہیں
بلکہ قرآن کریم سے قطعی طور پر ثابت ہے ۔ تو کیا یہ لوگ یہ کہہ سکیں گے کہ چوری
اور زانی کی سزا دینے کا اختیار عام آدمی کو ہے ۔ مجھے یقین ہے وہ ایسا ہرگز نہیں
کہہ سکیں گے ۔ انہیں اس مسئلہ میں اسلامی فقہ کے اصول اور فقہائے کرام اور اسلاف
کے موقف کی طرف رجوع ہی کرنا پڑے گا جن کی تعلیم مدارس اسلامیہ کے طلبہ و طالبات
کو بھی دی جاتی ہے کہ کوئی بھی سزا ہو ، خواہ قرآن سے ثابت ہو یا حدیث سے ، اس
سزا کو دینے کا اختیار صرف اسلامی عدالت کو ہے اور کسی عام مسلمان یا آدمی کو
قانون ہاتھ میں لینے کا اختیار ہرگز نہیں ۔
میں اسلامی قانون اور
ہندوستانی قانون کے مابین مقارنہ نہیں کرنا چاہتا بلکہ برائے تمثیل اس بات کی
وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک میں بھی سزائے موت کا قانون موجود ہے ، خواہ وہ
بھیانک جرم پر ہی کیوں نہ ہو، لیکن سزائے موت دینے کا فیصلہ اور اختیار صرف ہمارے
ملک کی عدالت کو ہے۔کسی عام ہندوستانی کو ہرگز یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ قانون ہاتھ
میں لیکر خود ہی ملزم یا مجرم کو سزائے موت دے ۔اگر کوئی ہندوستانی قانون ہاتھ میں
لیتا ہے تو ہندوستان کے قانون میں ایسا شخص مجرم اور قابل سزا تصور کیا جاتا ہے ۔
اس وقت کوئی شخص یہ دلیل دینے کی کوشش نہیں کرتا کہ قانون ہاتھ میں لیکر سزائے موت
دینے والے قاتل نے قتل کو انجام اس لیے دیا ہے کہ ہندوستانی قانون میں ایسا لکھا
ہوا ہے ۔ اس وقت تو ماہرین قانون کی نظر صرف اس بات پر ہوتی ہے کہ اگرچہ ہندوستانی
قانون میں مجرم کو سزائے موت دینے کا حکم لکھا ہوا ہے لیکن سزا دینے کا اختیار صرف
وطن عزیز کی عدالت کو ہے نہ کہ عام شہری کو ۔ یہ بات کتنی آسان ہے اور ہندوستان
کا تقریبا ہر شہری اس بات کو سمجھتا ہے ۔ ٹھیک اسی طرح ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے
کہ وہ اس بات کو پہلے سمجھیں اور پھر دوسروں کو سمجھائیں کہ کوئی بھی اسلامی سزا
ہو ، خواہ اس سزا کا حکم قرآن سے ہو یا حدیث سے ، اس سزا کو دینے کا اختیار صرف
اسلامی عدالت کو ہے اور کسی بھی عام مسلمان کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت ہرگز
نہیں اور جو شخص قانون ہاتھ میں لے گا وہ اسلامی شریعت کی نظر میں مجرم اور قابل
سزا مانا جائے گا ۔ انہیں یہ بات بھی بتانا ضروری ہے کہ ہمارے ملک ہندوستان میں
اسلامی قانون نہیں بلکہ ہندوستانی قانون ہے جس کا خیال رکھنا ہر ہندوستانی کے لیے
ضروری ہے ۔
مذکورہ بالا نقطہ کو
سمجھنا اور ایک عام انسان کو اس بات کو سمجھانا بہت آسان ہے ۔ لیکن اگر عوام کے
سامنے حدیث ، اصول حدیث ،حدیث کی روایت و درایت پر ناقص تشریحات پیش کریں، تو مگر
عوام کو الجھنیں پیدا ہوں گی۔ اگر آپ عوام کے سامنے اس موضوع پر عالمانہ تشریحات
بھی پیش کریں تو وہ اس قابل نہیں کہ ان تشریحات کو ہضم کر سکیں کیونکہ علم حدیث
اور فقہ حدیث کسی دوسرے میدانوں کے متخصصیں یا عام ذہنوں کا میدان نہیں کہ جیسے
چاہیں ویسے سمجھ لیں یا بیان کر دیں ۔ علم حدیث یا فقہ حدیث کے لیے سلف صالحین نے
کچھ اصول متعین کیے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے رائج
ہیں۔ ان اصولوں کو سیکھے اور جانے بنا فقہ حدیث حاصل کرنے میں خطا کرنا کوئی عجیب
بات نہیں۔
فقہ حدیث کے لیے جن فنون
اور اصولوں کے سمجھنا ضروری ہے ان میں چند خاص یہ ہیں: علم القرآن ، اصول حدیث ،
علم الفقہ، اصول تفسیر، علم روایت حدیث ، علم درایت حدیث ، علم الجرح والتعدیل،
علم اسماء الرجال وغیرہ ۔ لیکن ان علوم پر دسترس حاصل کیے بغیر صرف حدیث کے لفظی
معنی و مفہوم پر منحصر رہیں تو بے شمار احادیث کو سمجھنے میں آپ غلطی کریں گے ۔
یہ میدان اس علم کے ماہرین و متخصصین کا ہے ، اسے ان کے لیے رہنے دیجیے ۔ لہذا
عوام اور دوسرے میدانوں کے ماہرین سے بھی گزارش ہے کہ بجائے اس میدان میں اپنی
ذہنی ایجاد اور اتہام و الزام میں ڈوبے رہنے کی بجائے ، زیر بحث موضوع پر اتنی بات
ذہن نشین کر لیں جسے مذکورہ بالا عبارتوں میں بار بار تاکید کے ساتھ بیان کر دیا
گیا ہے کہ اسلامی سزاوں کو دینے کا اختیار صرف اسلامی عدالت اور سلطان اسلام کو ہے
اور کسی عام شہری کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت ہرگز نہیں اور ہمارے ملک کے اندر
اسلامی قانون نافذ نہیں اور جو شخص بھی اسلامی سزا کو دینے کے لیے قانون ہاتھ میں
لے وہ شخص اسلامی شریعت میں مجرم اور قابل سزا ہے ۔
(جاری)۔۔
اسلامک ریسرچ اسکالر غلام
غوث صدیقی نیو ایج اسلام کے مستقل کالم نگار اور متعدد زبانوں ، بالخصوص انگریزی ،
عربی، اردو اور ہندی کے مترجم ہیں۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism