غلام غوث صدیقی ، نیو ایج
اسلام
(آخری قسط)
1. گستاخ رسول کی سزا دینے کا اختیار صرف اسلامی عدالت اور سلطان
اسلام کو ہے ، لہذا اگر کوئی قانون ہاتھ میں لیکر خود ہی سزا دے تو شریعت کی نظر
میں ایسا شخص نہ صرف قاتل ہے بلکہ سزا کا بھی مستحق ہے۔
2. زیر بحث مسئلہ میں سند حدیث کی صحت و ضعف پر دور حاضر کے غیر
ذمہ دار عوام کے سامنے ناقص تجزیہ پیش کرنے سے بہتر ہے کہ عوام کو جلسوں اور جمعہ
کے خطبات میں یہ بتلایا جائے کہ کوئی بھی اسلامی سزا ہو، خواہ اس کا ثبوت قرآن
کریم، حدیث (سنت)، اجماع یا قیاس سے ہو ، اس سزا کو دینے کا اختیار صرف اسلامی
عدالت یا سلطان اسلام کو ہے اور ہمارے وطن میں اسلامی عدالت نہیں ہے۔
۔۔۔
پچھلی قسط میں یہ بات
واضح کر دی گئی تھی کہ کوئی بھی اسلامی سزا ہو، خواہ اس کا ثبوت قرآن کریم سے ہو یا
حدیث (سنت) سے ، یا اجماع یا قیاس سے ہو، اس سزا کو دینے کا اختیار صرف اسلامی
عدالت یا سلطان اسلام کو ہے اور ہمارے وطن عزیز ہندوستان میں اسلامی عدالت نہیں
ہے۔اگر کوئی عام شخص قانون ہاتھ میں لیکر کسی ملزم ( جس کا جرم ثابت نہیں ہوا) یا مجرم
( جس کا جرم ثابت ہو چکا ہو ) کو سزا دے تو ایسا شخص اسلامی شریعت میں خود مجرم
اور قابل سزا ہے ۔
ہم نے یہ بات بھی بیان کر
دی تھی کہ اگر آپ عوام کے سامنے گستاخ رسول کی سزا کے تعلق سے حدیث ، اصول حدیث
،حدیث کی روایت و درایت پر ناقص تشریحات پیش کریں، تو عوام کو الجھنیں پیدا ہوں
گی۔ اگر آپ عوام کے سامنے اس موضوع پر عالمانہ تشریحات بھی پیش کریں تو وہ اس
قابل نہیں کہ ان تشریحات کو ہضم کر سکیں کیونکہ علم حدیث اور فقہ حدیث کسی دوسرے
میدانوں کے متخصصین یا عام ذہنوں کا میدان نہیں کہ جیسے چاہیں ویسے سمجھ لیں یا
بیان کر دیں ۔ علم حدیث یا فقہ حدیث کے لیے سلف صالحین نے کچھ اصول متعین کیے ہیں
جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے رائج ہیں۔ ان اصولوں کو سیکھے
اور جانے بنا لوگ فقہ حدیث حاصل کرنے میں خطا کر تے ہیں۔
فقہ حدیث کے لیے جن فنون
اور اصولوں کے سمجھنا ضروری ہے ان میں چند خاص یہ ہیں: علم القرآن ، اصول حدیث ،
علم الفقہ، اصول تفسیر، علم روایت حدیث ، علم درایت حدیث ، علم الجرح والتعدیل،
علم اسماء الرجال وغیرہ ۔ لیکن ان علوم پر دسترس حاصل کیے بغیر صرف حدیث کے لفظی
معنی و مفہوم پر منحصر رہیں تو بے شمار احادیث کو سمجھنے میں آپ غلطی کریں گے ۔
یہ میدان اس علم کے ماہرین و متخصصین کا ہے ، اسے ان کے لیے رہنے دیجیے ۔ لہذا
عوام اور دوسرے میدانوں کے ماہرین سے بھی گزارش ہے کہ بجائے اس میدان میں اپنی
ذہنی ایجاد اور اتہام و الزام میں ڈوبے رہنے کی بجائے ، زیر بحث موضوع پر اتنی بات
ذہن نشین کر لیں جسے مذکورہ بالا عبارتوں میں بار بار تاکید کے ساتھ بیان کر دیا
گیا ہے کہ اسلامی سزاوں کو دینے کا اختیار صرف اسلامی عدالت اور سلطان اسلام کو ہے
اور کسی عام شہری کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت ہرگز نہیں اور ہمارے ملک کے
اندر اسلامی قانون نافذ نہیں اور جو شخص بھی اسلامی سزا کو دینے کے لیے قانون ہاتھ
میں لے وہ شخص اسلامی شریعت میں مجرم اور قابل سزا ہے ۔
لیکن اس آسان بات کو
سمجھنے اور سمجھانے کی بجائے کچھ حضرات گستاخ رسول کی سزا کے تعلق سے سوشل میڈیا
اور انٹرنیٹ پر اپنا علمی جوہر دکھانے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔ہم ان کے مختلف
مواقف کو مختصر پیش کر رہے ہیں:
۱۔
بعض یہ تحقیق نقل کر رہے ہیں کہ یہ حدیث (من سب نبیا فاقتلوہ یعنی جو کسی بھی نبی
کی شان میں گستاخی کرے اسے قتل کر دو) صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور
صحیح مسلم ، صحیح بخاری اور ان کے علاوہ صحاح اربعہ میں کہیں بھی یہ حدیث مذکور
نہیں۔یہ حدیث پہلی مرتبہ مولی علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے تقریبا ۲۷۰ سالوں بعد نمودار ہوئیں۔
۲۔
بعض یہ تحقیق نقل کر رہے ہیں کہ یہ حدیث (۱) امام طبرانی کی معجم الصغیر ، (۲) علامہ دیلمی کی کتاب
الفردوس لماثور الخطاب، (۳) قاضی
عیاض مالکی کی الشفا بتعریف حقوق المصطفی میں دو سندوں کے ساتھ ، (۴) ابن تیمیہ کی کتاب الصارم
المسلول علی شاتم الرسول ، (۵) امام
نور الدین الھیثمی نے مجمع الزوائد و منبع الفوائد ، (۶) علامہ علاء الدین علی
المتقی نے اپنی معروف کتاب کنزالعمال ، (۷) امام سیوطی نے اپنی کتاب الجامع الصغیر، (۸) علامہ عبد الروف مناوی نے
فیض القدیر ، (۹) البانی
نے سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ اور (۱۰)
موجودہ دور کے عالم جاسم بن فہید الدوسری نے الروض
البسام میں منقول ہے ۔
۳۔
بعض اس حدیث کے متعلق محدثین کی آراء بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امام جلال
الدین سیوطی نے اپنی کتاب الجامع الصحیح میں اس حدیث کو ضعیف کہا ہے ۔ اسی طرح
امام سیوطی نے قاضی عیاض کی کتاب الشفا کی شرح ‘‘مناھل الصفا فی تخریج احادیث
الشفا’’ میں اس حدیث کو ضعیف قرار دیا۔ امام ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب لسان
المیزان کے اندر اس حدیث کو منکر قرار دیا ۔ابن تیمیہ نے گستاخ رسول کی سزا قتل ہے
کو ثابت کیا لیکن اس حدیث کو کئی وجہوں سے ضعیف قرار دیتے ہیں۔ البانی نے تو اس حدیث
کو ضعیف نہیں بلکہ موضوع قرار دیا ہے۔عبدہ علی کوشک نے قاضی عیاض مالکی کی کتاب
الشفا پر تعلیقات اور حاشیہ لکھا ہے جس میں وہ اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں
علماء نے اس حدیث کو منکر حدیثوں میں شمار کیا ہے ۔
۳۔
بعض اس حدیث کے ضعیف ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے اس تحقیق کو پیش کرتے ہیں کہ سب
سے پہلے اس حدیث کو امام طبرانی نے اپنی کتاب میں شامل کیا ۔ امام طبرانی نے اس
حدیث کو اپنے شیخ عبید اللہ بن محمد العمری سے روایت کیا جن کے بارے میں امام نور
الدین ہیثمی نے اپنی کتاب مجمع الزوائد میں لکھا کہ امام نسائی نے اس راوی کو جھوٹا
قرار دیا ہے ۔(مجمع الزوائد و منبع الفوائد، ج ۱۰ صفحہ۳۹۲، دار المنھاج المملکۃ
السعودیۃ ۲۰۱۵)۔
امام حافظ ذہبی نے اپنی کتاب تاریخ الاسلام میں امام نسائی کے حوالے سے لکھا کہ
عبید اللہ بن محمد العمری کذاب ہیں۔(تاریخ الاسلام و وفیات المشاھیر والاعلام ، ج ۲۲ صفحہ ۲۰۲، مطبوعہ دار الکتاب
العربی۔بیروت۔ ۱۹۹۱) امام
ابن حجر عسقلانی نے لسان المیزان میں عبید اللہ بن محمد العمری کو غیر ثقہ راوی
قرار دیا ہے ۔ امام دار قطنی نے اس راوی کو ضعیف قرار دیا ہے ۔ البانی نے تو یہاں
تک لکھ دیا کہ عبید اللہ بن محمد العمری متہم بالکذ ب اور متہم بالوضع یعنی جھوٹی
اور موضوع حدیث روایت کرنے والا قرار دیا ہے ۔ (لسان المیزان جلد ۵ صفحہ ۳۴۱ دار البشائر الاسلامیۃ،
بیروت، ۲۰۰۲)
۴۔
بعض حضرات یہ تحقیق نقل کر رہے ہیں کہ محدثین اور ماہرین حدیث نے درایت کے کچھ
اصول بیان کیے ہیں جن کی بنیاد پر حدیث رد یا قبول کیا جا سکتا ہے ۔ ان اصول میں
یہ بیان کیا جاتا ہے کہ حدیث کے مقبول ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ حدیث خلاف عقل
سلیم نہ ہو۔ وہ حدیث خلاف قرآن نہ ہو، وہ حدیث احادیث مشہورہ کے خلاف نہ ہو۔ وہ
حدیث اجماع کے خلاف نہ ہو۔ وہ حدیث شاذ نہ ہو۔ وہ حدیث رسول پاک صلی اللہ علیہ
وسلم کی سیرت میں ثابت شدہ واقعات کے خلاف نہ ہو۔ پھر ان اصول کو بیان کرنے کے بعد
وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ زیر بحث حدیث میں ان اصول کی خلاف ورزی نظر آ رہی ہے۔ وہ
کہتے ہیں کہ کسی بھی انسان کی بیوی اس کی سب سے بڑی ہم راز ہوتی ہیں اور ام
المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات کے
بارے میں بیان کرتی ہیں کہ ‘‘۔۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے
کبھی کسی سے بد لہ نہیں لیا۔ لیکن اگر اللہ کی حرمت کو کوئی توڑ تا تو آپ اس سے
ضرور بدلہ لیتے تھے۔’’(صحیح بخاری۔ کتاب المناقب، حدیث نمبر 3560)
پھر وہ یہ دلیل پیش کرتے
ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کبھی کوئی بدلہ نہیں
لیا تو اس کے برخلاف ہم کیسے مان سکتے ہیں کہ گستاخ رسول کی سزا قتل ہو ۔
وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ جب
عبداللہ بن ابی بن سلول مر گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تکفین کے لئے
اپنا کرتہ عطا فرمایا ( صحیح بخاری۔ کتاب تفسیر، حدیث نمبر4672) اور اس کی نماز
جنازہ پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ!
کیا آپ ابن ابیّ کی نماز جنازہ ادا کریں گے جس نے آپ کے متعلق بہت کچھ (نامناسب)
کہا۔ اس پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا ، عمر پیچھے ہٹو،
اورپھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ ادا فرمائی۔( صحیح بخاری۔
کتاب الجنائز، حدیث نمبر 1366)
۵۔
مذکورہ بالا موقف کے بر عکس بعض یہ تحقیق پیش کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں متعدد
آیتوں سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالی اپنے انبیا و رسل کی گستاخی کرنے والے کو
سخت عذاب میں مبتلا کرے گا اور گستاخی کرنے والوں پر اللہ تعالی کی طرف سے دائمی
لعنت ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ گستاخ رسول کی سزا قرآن و سنت دونوں سے ثابت ہے۔وہ
حدیث کے موضوع یا ضعیف قرار دیے جانے کے جواب میں لکھتے ہیں کہ یہ حدیث موضوع نہیں
بلکہ ضعیف ہے اور ضعیف حدیث اعمال میں مقبول نہیں لیکن علمائے امت اگر ضعیف حدیث
کو قبول کر لیں تو پھر سند حدیث دیکھنے کی بھی حاجت نہیں ہوتی یعنی سند حدیث کے
ضعیف ہونے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس حدیث کا مفہوم
قرآن و حدیث کے دیگر درجنوں دلائل اور فقہائے اربعہ سے ثابت ہے کہ گستاخی کی سزا
موت ہے اس کو قتل کیا جائے گا اور اس حدیث کو کئی مصنفین نے بطور شماریات اپنی
اپنی کتب میں ذکر کیا ہے۔
مذکورہ بالا پانچ موقفوں
کو مختصر بیان کرنے کے بعد ہم قارئین کو بتانا چاہتے ہیں کہ ان میں بعض نقاط قابل
تردید اور بعض تشریح طلب ہیں۔ لیکن اگر ان پانچ طرح کے بیانات کو عوام کے سامنے
رکھیں جائیں تو اس کا کیا اثر ہوگا ۔ کیا عوام اس قابل ہے کہ اس علمی گفتگو کو ہضم
کر پائے گی ۔عوام تو دور کی بات ہے ہمارے اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد آج اس کی
اہلیت نہیں رکھتے کہ وہ ان کے درمیان صحیح فیصلہ کر سکیں ۔ اگر وہ کسی ایک موقف کو
اپنے عقل کی بنیاد پر قبول کرتے ہیں تو کیا مسلم معاشرہ کا ہر فرد ان کے اس موقف
کو ماننے کے لیے تیار ہوگا ۔ مجھے اس بات کی بالکل بھی امید نہیں۔یعنی عام ذہن کے
حوالے ان موقفوں کو پیش کیا جائے تو ممکن ہے وہ اس موقف کو اختیار کریں گے جن کو
آپ رد کر چکے ہیں۔ لیکن اس بات سے قطع نظر کہ گستاخ رسول کی سزا قتل ہے یا نہیں
یہاں ایک بات ضرور ہے جوموثر ہے اور کسی کو بھی اسے قبول کرنے میں ہچکاہٹ نہیں
ہوگی اور وہ بات وہی ہے جو ہم شروع میں بیان کر چکے ہیں کہ کوئی بھی اسلامی سزا ہو
، خواہ اس کا ثبوت قرآن سے ہو یا حدیث سے ، اس سزا کو دینے کا اختیار صرف اور صرف
اسلامی عدالت یا سلطان اسلام کو ہے ۔کسی بھی عام انسان کو قانون ہاتھ میں لینے کا
اختیار نہیں اور جو شخص قانون ہاتھ میں لے گا وہ اسلامی شریعت کے نزدیک مجرم اور
سزا کا حقدار ہوگا ۔
۔۔۔
اسلامک ریسرچ اسکالر غلام
غوث صدیقی نیو ایج اسلام کے مستقل کالم نگار اور متعدد زبانوں ، بالخصوص انگریزی ،
عربی، اردو اور ہندی کے مترجم ہیں۔
--------
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism