کنیزفاطمہ،نیوایج اسلام
(قسط ۲ )
10نومبر،2023
پہلی قسط میں ہم نے اپنا
مطالعہ پیش کیا کہ لغت میں حکمت موقع و
محل اور سیاق کے اعتبار سے متعدد معانی میں مستعمل ہوتے ہیں ۔ قرآن و احادیث میں لفظ حکمت کا استعمال کئی
مواقع پر ہوا ہے اور اس کے معنی و مفہوم کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ ابو حیان اندلسی
نے صحابہ کرام و تابعین عظام اور فقہائے اسلام سے منقول پچیس اقوال کو پیش کیا جس کی تفصیل
گزشتہ قسط میں پیش کر دی گئی ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حکمت سے مراد قرآن ، فہم
قرآن ، نبوت ، علم و فقہ ،
قول و فعل کا درست ہونا ، دین میں
تقوی ، خشیت خدا ، اللہ تعالی کے احکام
میں غور و فکر کرنا اور ان احکام کی اتباع کرنا
اور اپنی خواہشات کی بجائے حق کے مطابق فیصلہ کرنا وغیرہ ہے ۔جن باتوں سے روح کو سکون ملے اسے بھی
حکمت کہا جاتا ہے ۔
نظر و فکر کے اعتبار سے
حکمت کی دو قسمیں ہوتی ہیں : حکمت نظری اور حکمت عملی
کوئی انسان جب اپنی بشری
طاقت کے مطابق اشیاء کے حقائق کا اس طرح علم حاصل کر لے جس طرح وہ اشیاء واقع میں
ہیں، تو اس وقت بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے
حکمت نظری حاصل کر لی ۔
حکمت عملی کا مفہوم یہ ہے کہ انسان
تمام برے اخلاق کو ترک کرے اور اچھے اخلاق کو اپنائے ۔
حکمت کی ایک تعریف یہ ہے
کہ کوئی شخص بشری طاقت کے مطابق اللہ
تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام پر عمل
کرے تو اس نے حکمت حاصل کر لی ۔
حکمت عملی کی بنیادی طور
پر تین قسمیں ہیں ۔ اگر حکمت
کا تعلق کسی ایک فرد کی اصلاح سے
ہو تو اس کو تہذیب اخلاق کہتے ہیں اور اگر حکمت کا تعلق کسی ایک خاندان کی اصلاح کے ساتھ ہو تو اسے
تدبیر منزل کہتے ہیں اور اگر حکمت کا تعلق
کسی ایک شہر یا ملک کی اصلاح کے ساتھ ہو تو اس کو سیاست مدنیہ کہتے ہیں۔ (مستفاد از تبیان القرآن ، علامہ
سعیدی رحمۃ اللہ علیہ )
حکمت کے متعلق قرآنی
آیات
قرآن مجید میں حکمت کا
استعمال
’’اے رب ہمارے اور بھیج ان میں ایک رسول انہیں میں سے کہ ان پر
تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور حکمت (پختہ علم) سکھائے اور
انہیں خوب ستھرا فرمادے بیشک تو ہی ہے غالب حکمت والا‘‘ (۲:۱۲۹)
یہاں مفسرین فرماتے ہیں
کہ کتاب سے مراد قرآن ہے اور حکمت سے مراد قرآن کے حقائق و معانی ، سنت، احکام
شریعت اور اسرار وغیرہ سب داخل ہیں ۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ حکمت
سے مراد سنت ہی ہے ۔ (تفسیر خازن ، صراط الجنان)
‘‘اور یاد کرو اللہ کا احسان جو تم پر ہے اور و ہ جو تم پر کتاب
اور حکمت اتاری تمہیں نصیحت دینے کو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ سب
کچھ جانتا ہے’’ (۲:۲۳۱)
‘‘تو انہوں نے ان کو بھگا دیا اللہ کے حکم سے، اور قتل کیا داؤد نے
جالوت کو اور اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت عطا فرمائی اور اسے جو چاہا سکھایا اور
اگر اللہ لوگوں میں بعض سے بعض کو دفع نہ کرے تو ضرور زمین تباہ ہوجائے مگر اللہ
سارے جہان پر فضل کرنے والا ہے’’ (۲:۲۵۱)
یہاں مراد یہ ہے کہ اللہ
تعالی نے حضرت داود علیہ السلام کو سلطنت اور حکمت یعنی نبوت عطا فرمائی ۔ یہاں
حکمت سے مراد نبوت ہے ۔ (صراط الجنان)
‘‘اللہ حکمت دیتا ہے جسے چاہے اور جسے حکمت ملی اسے بہت بھلائی
ملی، اور نصیحت نہیں مانتے مگر عقل والے’’ (۲:۲۶۹)
‘‘اور اللہ سکھائے گا کتاب اور حکمت اور توریت اور انجیل’’ (۳:۴۸)
‘‘اور بیشک ہم نے لقمان کو حکمت عطا فرمائی کہ اللہ کا شکر کر اور
جو شکر کرے وہ اپنے بھلے کو شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو بیشک اللہ بے پرواہ
ہے سب خوبیاں سراہا’’ (۳۱:۱۲)
‘‘یہ ان وحیوں میں سے ہے جو تمہارے رب نے تمہاری طرف بھیجی حکمت کی
باتیں اور اے سننے والے اللہ ساتھ دوسرا خدا نہ ٹھہرا کہ تو جہنم میں پھینکا جائے
گا طعنہ پاتا دھکے کھاتا’’ (۱۷:۳۹)
حکمت کی باتیں وہ ہیں جن
کی صحت پر عقل گواہی دے اور ان سے نفس کی اصلاح ہو۔ مذکورہ آیت اور اسی سورت کی
آیت ۳۱
سے لیکر ۳۹
نمبر کی آیت تک جو احکام بیان ہوئے ہیں وہ سب کے سب حکمت سے بھرے ہیں ۔
ان اَحکام کا خلاصہ یہ
ہے: (1) اولاد کا قتل ناجائز و حرام ہے۔ (2) زنا کے قریب نہ جاؤ۔ (3) کسی جان کو
ناحق قتل نہ کرو۔ (4) یتیم کے مال میں
خیانت سے بچو اور وقت پر اس کا مال اس کے حوالے کردو۔ (5) وعدہ پورا کرو۔
(6) ناپ تول میں کمی زیادتی نہ کرو۔ (7)
بغیر تحقیق کے باتوں کے پیچھے نہ پڑو۔ (8)
آنکھ، کان اور دل کی حفاظت کرو کہ ان کے متعلق سوال ہوگا۔ (9) زمین میں اِترا کرنہ چلو۔ تکبر و خود نُمائی اللّٰہ
عَزَّوَجَلَّ کو ناپسند اور عاجزی و اِنکساری پسند ہے۔ (10) شرک سے بچو۔ بعض
مفسرین نے فرمایا کہ اِن آیات کا حاصل توحید اور نیکیوں اور طاعتوں
کا حکم دینا اور دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی طرف رغبت دلانا ہے۔ ( خازن،
الاسراء، تحت الآیۃ: ۳۹،
۳ / ۱۷۵، صراط الجنان)
حضرت عبد اللہ بن عباس
رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ یہ (سورہ بنی اسرائیل یا اسراء، سورہ نمبر ۱۷ کی) اٹھارہ آیتیں وَ لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ
سے مَدْحُوْرًا تک حضرت موسی علیہ السلام کی تختیوں میں
تھیں ، ان کی ابتدا توحید کے حکم سے ہوئی اور انتہا شرک کی ممانعت پر۔
(تفسیر مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ: ۳۹،
ص۶۲۴) اس
سے معلوم ہوا کہ ہر حکمت کی اصل توحید و ایمان ہے اور کوئی قول و عمل اس کے بغیر
قابلِ قبول نہیں۔
ان کے علاوہ سورہ آل
عمران کی آیت ۸۱،
۱۶۴، سورہ النساء کی ۵۴، ۱۱۳، سورہ المائدہ ۱۱۰، سورہ النحل ۱۲۵، سورہ الاحزاب ۳۴، سورہ الزخرف ۶۳، سورہ القمر ۵ اور سورہ جمعہ کی آیت ۲ میں بھی حکمت لفظ کا
استعمال ہوا ہے ۔
حکمت کے متعلق چند احادیث
حافظ سیوطی بیان کرتے
ہیں : امام احمد نے کتاب الزہد میں مکحول
سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے
چالیس دن اللہ کے ساتھ اخلاص کیا اس کے قلب سے اس کی زبان پر حکمت کے چشمے پھوٹے
پڑیں گے۔
امام ترمذی نے حضرت
ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ ) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
نے فرمایا : حکمت مومن کی گم شدہ چیز ہے ،
جہاں سے بھی حکمت ملے تو وہی اس کا زیادہ حق دار ہے۔
امام طبرانی نے حضرت
ابوامامہ (رضی اللہ عنہ ) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
نے فرمایا : لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا : اے بیٹے ! علماء کی مجالس کو لازم رکھو
اور حکماء کا کلام سنو ، کیونکہ اللہ تعالیٰ حکمت کے نور سے مردہ دل کو اس طرح
زندہ کردیتا ہے جس طرح مردہ زمین تیز بارش سے زندہ ہوجاتی ہے۔
امام طبرانی نے ” معجم
اوسط “ میں حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ ) سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم (صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کم علم بہت عبادت سے بہتر ہے اور کسی شخص کے
فقیہ ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کرے ، اور کسی شخص کے جاہل ہونے لیے یہ کافی ہے کہ وہ
(قرآن اور سنت کے خلاف) اپنے رائے کو پسند کرے۔
امام طبرانی نے ” معجم
اوسط “ میں امام دار قطنی نے اور امام بیہقی نے ” شعب الایمان “ میں حضرت ابوہریرہ
(رضی اللہ عنہ ) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : دین میں فقہ حاصل کرنے
سے افضل کوئی عبادت نہیں ہے اور ایک فقیہ شیطان کے نزدیک ہزار عابدوں سے زیادہ سخت
ہوتا ہے اور ہر چیز کا ایک ستون ہوتا ہے اور دین کا ستون فقہ ہے اور حضرت ابوہریرہ
(رضی اللہ عنہ ) نے کہا : اگر میں ایک ساعت بیٹھ کر دین کا علم حاصل کروں تو یہ میرے
نزدیک ساری رات جاگ کر عبادت کرنے سے بہتر ہے۔
امام طبرانی نے حضرت
ابوموسی اشعری (رضی اللہ عنہ ) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بندوں کو جمع کرے گا ، پھر ان میں سے
علماء کو الگ کرے گا ‘ پھر فرمائے گا : اے علماء کے گروہ ! میں نے تمہیں عذاب دینے
کے لیے تم میں اپنا علم نہیں رکھا تھا ‘ جاؤ ! میں نے تم کو بخش دیا ہے۔
(الدرالمنثور ‘ ج ١
ص ٣٥١۔ ٣٥٠‘
مطبوعہ مکتبہ آیۃ اللہ العظمی ایران)
کنیز فاطمہ عالمہ و فاضلہ
اور نیو ایج اسلام ویب سائٹ کی مستقل کالم نگار ہیں ۔
English Article: The Concept of Hikmah (Wisdom) in Islam: Literal and
Quranic Meaning of Hikmah – Part 1
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism