New Age Islam
Tue Mar 18 2025, 01:55 AM

Urdu Section ( 20 May 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Chiragh Ali: First Indian Muslim Scholar To Refute The Popular Concept Of Jihad As Qital چراغ علی جہاد بالقتال کے معروف معنی کا رد کرنے والوں میں پہلے ہندوستانی مسلم اسکالر

گریس مبشر، نیو ایج اسلام

10 مئی 2024

چراغ علی کی " A Critical Exposition Of The Popular 'Jihad" ایک عظیم الشان کتاب ہے، جس میں  اسلامی روایت میں پائے جانے والے جہاد کے تصور کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ 1885 میں شائع ہونے والی یہ کتاب، جارحانہ جنگ کے معنی میں، جہاد کی موجودہ تشریحات کو چیلنج کرتی ہے، اور اسے قرآنی اصولوں کی بنیاد پر دفاعی اقدام قرار دیتی ہے۔ چراغ علی نے یہ ثابت کرنے کے لیے، قرآنی آیات اور تاریخی واقعات کا باریک بینی سے تجزیہ کیا ہے، کہ پیغمبر اسلام نے جو جنگیں لڑیں وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے دفاعی تھیں، جو صرف ظلم اور جبر کے جواب میں لڑی گئیں۔ اپنی تحریر میں، جو انہوں نے  اس بات پر زور دیا، کہ جہاد کو  فتوحات حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھنے کے  بجائے، حصول انصاف کی جدوجہد سمجھا جانا چاہیے، اس سے ان کے دور کے مسلم اسکالروں اور دانشوروں کے درمیان، اس حوالے سے  مثبت رائے اور تنازعہ دونوں نے جنم لیا۔ چراغ علی کی کتاب نے،  جدیدیت کے تناظر میں، جہاد اور اسلامی اخلاقیات پر گفتگو کو، ایک نئی جہت دینے میں کافی مؤثر کردار ادا کیا  ہے، اور اسلام کے ماہرین اب بھی اس کا مطالعہ، اور اس پر بحث و تمحیص جاری رکھے ہوئے ہے۔

اہم نکات:

1. 1870 کی دہائی کے اوائل میں، چراغ علی سید احمد خان سے ملے ، جو علی گڑھ میں جدید، سائنسی تعلیم کی تحریک کی قیادت کر رہے تھے۔

2. چراغ علی ایک مشہور مصنف تھے، جنہوں نے اپنی اشاعتوں کا آغاز 1871 کے اوائل سے کیا۔ انگریزی میں ان کی قابل ذکر کتابوں  میں "The Proposed Political, Legal, and Social Reforms in the Ottoman Empire" اور "A Critical Exposition of the Popular 'Jihad'" کے نام قابل ذکر  ہیں۔''

3. ان کے جدید نقطہ نظر نے، انہیں مجبور کیا کہ وہ اسلام کی تاریخی وراثت پر تنقید کریں، یہ مانتے ہوئے کہ، مسلمان قرآن میں بیان کردہ مثالی مذہب سے ہٹ چکے ہیں۔ کلاسیکی اسلامی فقہ پر ان کا تنقیدی تجزیہ اکثر روایتی علماء کو نہیں بھاتا ۔

4. اپنی تحریر میں، جو انہوں نے  اس بات پر زور دیا، کہ جہاد کو  فتوحات حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھنے کے  بجائے، حصول انصاف کی جدوجہد سمجھا جانا چاہیے، اس سے ان کے دور کے مسلم اسکالروں اور دانشوروں کے درمیان، اس حوالے سے  مثبت رائے اور تنازعہ دونوں نے جنم لیا۔

--------

چراغ علی، جو سید احمد کے حلقے کے ایک ممتاز رکن تھے، انہوں نے جہاد پر کلاسیکی اسلامی فقہ کا ایک تنقیدی اور از سر نوتجزیہ کرنے کی جسارت کی۔ انہوں نے 1880 کی دہائی کے دوران، ریاست حیدرآباد میں ایک سرکاری ملازم کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، جسے نظام کے اقتدار پر برطانوی حکام کے تسلط کا دور کہا جاتا ہے، باوجود اس کے، کہ وہ ایک نیم خود مختار ریاست تھی۔

کشمیری خاندان سے تعلق رکھنے والے چراغ علی کے دادا، انیسویں صدی کے اوائل میں پنجاب، اور پھر متحدہ صوبوں میں ہجرت کر گئے تھے۔ ان کے والد محمد بخش (1821–1856) متحدہ صوبوں میں پیدا ہوئے اور وہیں پرورش پائی۔ اس دور میں انگریزی زبان میں نایاب مہارت سے لیس، محمد بخش نے، سہارنپور کی ضلعی انتظامیہ میں بطورِ کلرک، ملازمت حاصل کی۔

چراغ علی، جو 1844 میں پیدا ہوئے، محمد بخش کے چار بیٹوں میں سب سے بڑے تھے، اور انہوں نے اپنی تعلیم بنیادی طور پر، اپنے ہی  گھر پر اپنے والدین اور دادی کی رہنمائی میں حاصل کی۔ اگرچہ، انہوں نے کوئی اضافی رسمی تعلیم حاصل کی ہو، اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے، لیکن اردو، فارسی اور انگریزی میں ان کی مہارت نے، انہیں  بستی میں ضلعی خزانے میں سب آرڈینٹ کلرک کی پوزیشن حاصل کرنے کے قابل بنایا۔ اس ابتدائی حصولیابی کے باعث ہی وہ اٹھائیس سال کی عمر میں، 1872 میں، لکھنؤ کی عدالت برائے جوڈیشل کمشنر میں نائب منصارم یا جونیئر لینڈ سیٹلمنٹ آفیسر کے عہدے پر فائز ہونے میں کامیاب رہے۔

1870 کی دہائی کے اوائل میں، چراغ علی سید احمد خان سے ملے ، جو علی گڑھ میں جدید، سائنسی تعلیم کی تحریک کی قیادت کر رہے تھے۔ جو کہ بالآخر، 1875 میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج (بعد ازاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) کے قیام کا باعث بنی۔ چراغ علی کی ذہانت اور صلاحیتوں کو تسلیم کرتے ہوئے، سید احمد نے انہیں ترجمے کا کام سونپا، جس کی مالی اعانت   ریاست حیدرآباد کے حکام کر رہے تھے۔ ترجمے کی کامیاب تکمیل سے متاثر ہو کر، سید احمد نے چراغ علی کے لیے،  سالار جنگ اول، یعنی  نظام انتظامیہ میں حیدرآباد کے وزیر اعظم جیسے اعلیٰ ترین عہدے کی سفارش کی ۔

کمشنر آف ریونیو کے اسسٹنٹ کے باوقار عہدے کی پیشکش کو قبول کرتے ہوئے، چراغ علی 1876 میں حیدرآباد پہنچے۔ اور یہیں سے علی گڑھ تحریک سے وابستہ، ایک معزز حلقے میں ان کا داخلہ ہوتا ہے، جس کا مقصد سر سید اور سالار جنگ اول کے ساتھ مل کر، حیدرآباد کی بیوروکریسی اور مالیات کے نظام میں  جدیدیت پیدا کرنا تھا۔ اس گروپ کی نمایاں شخصیات میں محسن الملک، وقار الملک، "ڈپیوٹی" نذیر احمد، سید حسین بلگرامی، جسٹس خدا بخش، اور فتح نواز جنگ شامل تھے۔

ایک دہائی کے اندر اندر، چراغ علی نے کافی تیزی سے ترقی کی، اور ورنگل اور گلبرگہ کے صوبیدار (ڈسٹرکٹ کمشنر) کے طور پر خدمات انجام دیں، اس کے بعد ریونیو بورڈ کے سکریٹری کے عہدے پر فائز ہوئے، جو کہ ایک بڑا اثر و رسوخ والا عہدہ تھا۔ 1887 میں، نظام نے شاہی سالگرہ کے ایوارڈ کی تقریب میں، چراغ علی کو 'نواب اعظم یار جنگ'  کے خطاب سے نوازا۔ پانچ سال بعد، انہیں حیدرآباد کے پولیٹیکل اور فائنانس ڈیپارٹمنٹ کے سکریٹری جیسا طاقتور عہدہ ملا، جہاں وہ 1895 میں اکیاون سال کی عمر میں، اپنی بے وقت موت تک، خدمات انجام دیتے رہے ۔

اے کریٹکل ایکسپوزیشن آف دی پاپولر جہاد

چراغ علی ایک مشہور مصنف تھے، جنہوں نے اپنی اشاعتوں کا آغاز 1871 کے اوائل سے کیا۔ انگریزی میں ان کی قابل ذکر کتابوں  میں "The Proposed Political, Legal, and Social Reforms in the Ottoman Empire" اور "A Critical Exposition of the Popular 'Jihad'" کے نام آتے ہیں۔ انہوں نے حیدرآباد کی معاشی اور انتظامی تاریخ پر بھی اہم کتاب تصنیف کیے، جن میں " Hyderabad (Deccan) under Sir Salar Jung " اور " History of Some of the Important Jagirs "  کے نام قابل ذکر ہیں۔ مزید برآں، بورڈ آف ریونیو کے سکریٹری کے عہدے پر رہتے ہوئے، انہوں نے ریاستی بجٹ کی تیاری اور اس کی اشاعت کا رواج متعارف کرایا، جو اس وقت ایک بالکل نیا اقدام تھا۔

اپنے افسر شاہی کے عہدے کے تقاضوں کے باوجود، چراغ علی، علمی مشاغل میں مصروف رہے۔ وہ اپنی روزمرہ کی مختلف سرگرمیوں کے دوران، تصنیف و تالیف اور کتب بینی جیسی عادات کے لیے جانے جاتے تھے۔ اپنے بہت سے بیوروکریٹک ساتھیوں کے برعکس، چراغ علی نے ایک قابل ذکر فکری تجسس اور سیلف ایجوکیشن (خود تعلیم) کا مظاہرہ کیا، متعدد زبانوں میں مہارت حاصل کی، اور تقابل ادیان جیسے  علوم میں مشغول رہے، جو کہ ایک ایسا شعبہ علم ہے، جسے اس وقت کے مسلم علماء نے بھی بڑی حد تک نظر انداز کر رکھا تھا۔

ایک طرف تو  بعض علماء دیگر مذاہب کا مطالعہ اس مقصد کے ساتھ کر رہے تھے، کہ مناظروں میں ان کی تردید کی جا سکے، لیکن چراغ علی نے اس سے ایک مختلف طریقہ اختیار کیا۔ انہوں نے پرانے اور نئے عہد نامہ کی تحقیق کی، اور عیسائی الہیات کو پڑھا اور سمجھا، اس لیے نہیں کہ عیسائی تعلیمات کو چیلنج کیا جائے،  بلکہ اس لیے کہ بائبل اور قرآن کے درمیان مشترکات تلاش کی جائیں۔ ان کے انتقال کے بعد، حیدرآباد کی آصفیہ اسٹیٹ سینٹرل لائبریری نے، ان کا وسیع کتابی ذخیرہ حاصل کر لیا۔ بدقسمتی، بے توجہی کے باعث، اب ان میں سے اکثر کتابیں خستہ حالی کا شکار ہیں۔

کبھی بیرون ملک سفر نہ کرنے کے باوجود، چراغ علی کی تحریریں، دارالاسلام کے مختلف خطوں کے جدید اندازِ زبان و بیان سے متاثر تھیں۔ 1880 کے ایک مضمون میں، انہوں نے مصری سیاح اور ماہر تعلیم رفاعہ رفیع الطحطاوی، بیروت کے سیف آفندی، تیونس کے ماڈرنسٹ خیرالدین پاشا، اور شامی صحافی احمد فارس الشدیاق کا حوالہ دیا۔ ان کے جدید نقطہ نظر نے، انہیں مجبور کیا کہ وہ اسلام کی تاریخی وراثت پر تنقید کریں، یہ مانتے ہوئے کہ، مسلمان قرآن میں بیان کردہ مثالی مذہب سے ہٹ چکے ہیں۔ کلاسیکی اسلامی فقہ پر ان کا تنقیدی تجزیہ اکثر روایتی علماء کو نہیں بھاتا ۔

چراغ علی کی سب سے متنازعہ فیہ تصنیف، " اے کریٹکل ایکسپوزیشن آف دی پاپولر جہاد" 1885 میں شائع ہوئی، جو سید احمد خان کے لیے وقف تھی، جس کا مقصد جہاد کی مروجہ تعبیرات و تشریحات کو چیلنج کرنا تھا۔ ایک طرف تو  وہ اپنی تحریروں سے ہندوستانی مسلمانوں کے اندر تبدیلی پیدا کرنا چاہتے تھے ، لیکن ان کے بنیادی ہدف میں، یورپی مستشرقین، مشنری، اور نوآبادیاتی اہلکار شامل تھے، جو مسلمانوں کو برطانوی سامراج کے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ چراغ علی نے انگریزوں کے ساتھ بود و باش اختیار کرنے کی جدید پالیسی کے حق میں، اسلامی بنیاد کو جاگر کرنے کی کوشش کی، اور اس تصور کا رد کیا، کہ مسلمان فطری طور پر انگریزی سامراج کے دشمن ہیں۔ ان کا مقصد اس نظریہ کو رد کرنا تھا کہ، اسلام طاقت کے زور پر پھیلنے والا مذہب ہے، اور برطانوی استعماریت کے اس بیانیہ کو چیلنج کرنا تھا، کہ یہ ایک فلاحی آزادی کا علم بردار ہے ۔

سید احمد خان، چراغ علی، اور سید امیر علی جیسے جدیدیت پسندوں نے ایڈورڈ سیل، میلکم میک کول، سیموئیل گرین، ولیم موئیر، اور ولیم رابرٹسن سمتھ جیسے برطانوی مصنفین کو جواب دینے کا بیڑا اٹھایا۔ "اے کریٹکل ایکسپوزیشن" میں چراغ علی کا مقصد، اس غلط فہمی کو دور کرنا تھا، جو یورپی اور عیسائی مصنفین نے پھیلا رکھا تھا، کہ پیغمبر اسلام ﷺ نے فتوحات حاصل کرنے، اور جبراً لوگوں کا مذہب تبدیل کروانے کے لیے جنگیں لڑیں۔ ان کی اس کتاب میں اکثر یورپی مصنفین کا حوالہ ملتا ہے، جس کا مقصد یا تو اپنے دلائل کی تائید حاصل کرنا،یا ان کے موقف کی تردید کرنا ہے۔ ان کا بنیادی اختلاف یہ تھا، کہ مشنری اور مستشرقین اسلام کےبارے میں رائے، قرآن میں بیان کردہ اصولوں کےبجائے، علمائے کرام کے بیان کردہ اسلامی قانون کی تشریحات کی بنیاد پر، قائم  کرتے  ہیں۔

اگرچہ،  چراغ علی کو یہودی اور عیسائی صحیفوں سے اچھی واقفیت تھی، لیکن حیرت کی بات ہے، کہ انہوں نے" اے کریٹکل ایکسپوزیشن " میں دوسرے مذاہب کی جنگی روایات کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔ بلکہ، انہوں نے صرف جہاد، اور پیغمبر اسلام ﷺ کی طرف سے لڑی جانے والی جنگوں کے حوالے سے، غلط فہمیوں کو دور کرنے پر ہی توجہ دی۔ چراغ علی کا کہنا یہ تھا، کہ پیغمبر اسلام ﷺ کی تمام جنگیں دفاعی تھیں، اور ان کا مقصد جبراًتبدیلی مذہب نہیں، بلکہ جائز حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ انہوں نے پورے شد و مد کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی، کہ پیغمبر اسلام ﷺ نے صرف اس وقت جنگ کا سہارا لیا، جب پرامن مذاکرات کی سبھی کوششیں ناکام ہو گئیں۔

اپنے اس دعوے کی تائید میں چراغ علی نے، مکہ میں پیغمبر اسلام ﷺ اور ان کے پیروکاروں پر، قریش کے مظالم کا حوالہ دیا ہے۔ صبر و استقامت کے ساتھ ظلم و ستم سہنے کے باوجود، پیغمبر اسلام ﷺ اور ان کے پیروکاروں کو  اپنی جان بچانے کے لیے، بالآخر مدینہ ہجرت کرنا پڑا۔ تاہم، ہجرت کے بعد بھی، قریش نے اپنا ظلم جاری رکھا، اور ہجرت کرنے والوں کے مکہ آنے پر پابندی لگا دی۔

چراغ علی کی دلیل ہے، کہ پیغمبر اسلام ﷺ نے اپنے دشمنوں کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے سے گریز کیا، جب تک کہ حالات نے انہیں، جنگ کا راستہ اختیار  کرنے پر مجبور نہ کر دیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ  کے ہر جنگ کے جواز کی اپنی ایک الگ بنیاد تھی، اور پیغمبر اسلام ﷺ نے بحالت مجبوری تلوار اٹھا ئی۔

چراغ علی کے نزدیک، قرآن کے اندر اس بات کے کافی ثبوت موجود ہیں، کہ پیغمبر اسلام ﷺ کی تمام جنگیں دفاعی نوعیت کی تھیں۔ اور یہ ثابت کرنے کے لیے قرآن کی  (193) 2:189،(39)  8:40 ، اور 9:5 جیسی آیات کا حوالہ پیش کیا، کہ قرآن مسلمانوں کو غیر مسلموں سے جنگ کرنے کی تعلیم نہیں دیتا ،  حتیٰ کہ وہ اس کے لیے مجبور نہ کر دیئے جائیں ۔ متنازعہ فیہ "تلوار والی آیت" (قرآن 9:5)  کی تشریح، چراغ علی، اس سے پہلے اور اس کے بعد والی آیات کے تناظر میں کرتے ہیں، اور یہ ثابت کرتے ہیں، کہ یہ آیت اہل مکہ کی طرف سے صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی، اور مسلم حلیفوں پر حملے، کے جواب میں نازل ہوئی تھی۔  ان کہنا ہے، کہ ان احکام پر عمل نہیں کیا گیا، کیونکہ مکہ بغیر کسی لڑائی کے مسلمانوں کے کنٹرول میں آگیا تھا۔

اسی طرح چراغ علی(193) 2:189  اور(39)   8:40جیسی آیات کا تجزیہ کرتے ہوئے، یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کہ جب دیگر قرآنی آیات کے تناظر میں انہیں دیکھا جائے، تو ان کی دفاعی نوعیت ظاہر ہو جاتی ہے۔ وہ ان آیات میں لفظ "فتنہ" (ظلم یا خانہ جنگی) سے،  قریش کی جارحانہ سرگرمیاں مراد لیتے ہیں۔ لہٰذا، وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں، کہ خدا صرف تشدد اور جبر کے جواب میں ہی، جنگ کا حکم دیتا ہے، اور صرف اس وقت تک، کہ جب تک کہ ظلم ختم نہ ہو جائے۔

قرآن کے علاوہ، چراغ علی پیغمبر اسلام ﷺ کی فوجی مہمات کے تاریخی پس منظر  کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں، تاکہ ان کی اس دلیل کی تائید ہو سکے کہ پیغمبر اسلام ﷺ صرف اپنے دفاع میں لڑ رہے تھے۔ چراغ علی پیغمبر اسلام ﷺ کے مسلم اور یورپی،  دونوں سوانح نگاروں پر تنقید کرتے ہیں، کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہونے والی جنگی مہمات کی تعداد بڑھا کر بیان  کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے، کہ  ان میں سے بہت سی "مہمات" غیر متشدد نوعیت کی تھیں،  مثلاً کوئی سفارتی مشن یا کوئی جاسوسی کی مہم تھی، اور اصل لڑائیوں کی تعداد صرف پانچ ہے: بدر، احد، احزاب، خیبر اور حنین۔ وہ ان لڑائیوں کو محدود فوجی مہم جوئی والی جھڑپیں قرار دیتے ہیں۔

پیغمبر اسلام ﷺ کی جنگوں پر ان کے تجزیہ کا مقصد، ان یورپی مورخین کی تردید کرنا ہے، جنہوں نے پیغمبر اسلام ﷺ کو بطورِ جنگجو پیش کیا ہے۔ مثال کے طور پر، بدر کی جنگ کے بارے میں، چراغ علی کا کہنا ہے، کہ پیغمبر اسلام ﷺ ، اس وقت مدینہ سے نکلے، جب قریش مدینہ پر حملہ کرنے کے ارادے کے ساتھ مکہ سے نکل چکے تھے۔ انہیں اس بات سے اختلاف ہے، کہ قریش مکہ سے قافلہ کے دفاع کے لیے نکلے تھے، بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ بدر کی جنگ اپنے دفاع میں لڑی گئی تھی۔

چراغ علی کا یہ کہنا کہ عہد نبوی کی تمام جنگیں دفاعی تھیں، ان کے اس استدلال کی بنیاد ہے، کہ جہاد کا واحد جائز مقصد، اپنا دفاع ہے۔ ان کا دعویٰ ہے، کہ قرآن مسلمانوں کو اسلام نافذ کرنے کے لیے کافروں کے خلاف جنگ کرنے کا حکم نہیں دیتا۔ اس کے بجائے، وہ قرآن میں مادہ ،  ج- ہ -د، ا ور اس کے مشتقات کی تشریح کرتے ہیں ، جس کا مطلب ہے "کوشش کرنا" یا "جہدوجہد کرنا" ، نہ کہ مذہبی جنگ ۔ ان کا کہنا ہے کہ جہاد کی یہ تفہیم ماقبل  اسلام کی عرب بول چال سے مطابقت رکھتی ہے، اور ہندوستانی مسلمانوں میں بڑے پیمانے پر رائج بھی ہے۔

چراغ علی نے قرآن کی مدنی آیات کا تجزیہ کرتے ہوئے،  جہاد کی مذہبی جنگ کے معنیٰ میں، بعد کی تعبیر کو چیلنج کیا۔ ان کا کہنا ہے، کہ جب ان آیات کو سیاق و سباق میں دیکھا جاتا ہے، تو ج- ہ -د کا معنی جنگ کے بجائے "جدوجہد" یا "محنت" معلوم ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ جہاد فی سبیل اللہ (اللہ کی راہ میں جہاد) جیسے جملے کی تعبیر،  ہجرت کے دوران برداشت کی گئی مشکلات، یا مکہ سے مدینہ ہجرت کے معنیٰ و مفہوم میں کرتے ہیں۔

یہ تسلیم کرتے ہوئے، کہ قرآن بعض قسم کی لڑائیوں کی اجازت دیتا ہے، چراغ علی کا دعویٰ ہے، کہ قرآن جارحانہ مذہبی جنگ کی اجازت نہیں دیتا۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف دو قرآنی آیات (2:245 اور 9:124) میں ہی،  کافروں کے خلاف جنگ کرنے کے حق میں، غیر مشروط احکامات موجود ہیں۔ اور یہ کہ، لڑائی یا جنگ سے متعلق دیگر آیات مشروط یا محدود نوعیت کی ہیں۔ ان کے مطابق، جب ایک ہی موضوع پر عام اور مقید، دونوں نوعیت کی آیات ٹکرا جائیں، تو اصول تفسیرکے مطابق، مقید کو ترجیح دی جائے گی۔ چراغ علی کا دعویٰ ہے، کہ کافروں کے خلاف جنگ کی اجازت،  پیغمبر اسلام ﷺ کے زمانے کے ساتھ مخصوص تھی،لہٰذا، اس کا اطلاق اب اس دورِ جدید پر نہیں ہو سکتا ۔ اپنی اس دلیل کی تائید میں ، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب، ان  دو احادیث کو چیلنج کرتے ہیں، جن کا حوالہ اکثر دائمی جہاد کے مدعیان پیش کرتے ہیں: "جہاد قیامت تک رہے گی" اور "مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم دیا گیا ہے، جب تک کہ وہ یہ قبول نہ کر لیں، کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں" وہ ان احادیث کی صداقت پر سوال اٹھاتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ احادیث، ان واضح قرآنی آیات سے متصادم ہیں، جن میں مومنین کو صرف اپنے دفاع میں لڑنے کا حکم دیا گیا ہے، جب تک کہ ظلم و ستم اور خانہ جنگی ختم نہ ہو جائے۔

نتیجہ

"اے کریٹکل ایکسپوزیشن آف دی پاپولرجہاد" کی اشاعت نے ایک بڑا ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا۔ ایک طرف تو، بہت سے ماڈرنسٹ مسلم مصنفین نے چراغ علی کی اس کتاب سے متاثر ہو کر، مختلف زبانوں میں جہاد پر خامہ فرسائی کی، جبکہ بے شمار مسلموں اور غیر مسلموں نے اس پر سخت تنقید کی۔ چراغ علی کا یہ استدلال، کہ اسلامی قانون اور اخلاقیات کا تعین کرنے میں، صرف قرآن کو ہی معیار بنایا جائے گا، اب مسلم جدت پسندوں کی ایک خاص پہچان بن گیا ہے۔

تاہم، ڈچ ریفارمڈ منسٹر ہرمن ٹی اوبنک جیسے ناقدین، اور کچھ مسلم اسکالروں نے کہا، کہ چراغ علی کے خیالات، کلاسیکی مسلم اسکالروں کی بیان کردہ، مرکزی دھارے کی اسلامی روایت، سے نمایاں طور پر منحرف ہیں ۔ انہوں نے ان کے نقطہ نظر کو، اسلامی نظریے کی مروجہ تشریحات کے خلاف قرار دیا۔

مثال کے طور پر، مستنصر میر نے چراغ علی کو، اسلام کو امن پسندی سے تشبیہ دینے کی کوشش کرنے والا معذرت خواہ قرار دیا، اور یہ کہا کہ ان کی تحریریں گھٹیا درجے کی ہیں ۔ اس طرح کی تنقید کے جواب میں، عائشہ جلال نے، اس تاریخی تناظر کو سمجھنے کی اہمیت پر زور دیا ،جس میں چراغ علی اور دیگر مصلحین نے لکھا تھا۔ انہوں نے کہا، کہ چراغ علی نے، عیسائی مصنفین کے جارحانہ حملوں کے جواب میں، اسلام کا دفاع کیا تھا، لہٰذا،  اسے صرف عصری تنقیدی معیارات سے ہی نہیں پرکھا جانا چاہیے۔ بلکہ، ان کی کتاب کو، ان چیلنجوں کے فریم ورک کے اندر دیکھا جانا چاہئے، جن کا انہیں اپنے وقت میں سامنا تھا۔

English Article: Chiragh Ali: First Indian Muslim Scholar To Refute In 1886 The Popular Concept Of Jihad As Qital

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/chiragh-indian-muslim-scholar-jihad-qital/d/132350

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..