محمد یونس ،نیو ایج اسلام
(مشترکہ مصنف Essential Message of
Islam،
آمنہ پبلیکیشن، امریکہ، 2009)
یہ قانون قرآن مجید کے
انصاف کے بنیادی اصول کا مخالف ہے، اسلام کو بے وقعت بنانے ، اس کی رسوائی
اور مسلم کمیونٹی کو الجھن میں ڈالنے کا باعث ہے
لہذا اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
توہین (blasphemy) کا مطلب ہے کسی عمل ، تقریر یا اشارہ کے ذریعے اللہ اور اس کے نبی کی شان
میں گستاخی کرنا ، یا ایک کمیونٹی کے نزدیک مقدس چیزوں پر لعن طعن کرنا ۔ تکنیکی طور پر نفرت انگیز
تقریر بھی توہین کے تحت آتا ہے ،کیو نکہ اس
سے ایک انسان کی اہانت ہوتی ہے جبکہ انسانی زندگی ( قرآن کریم کی
آیات 38:72، 32:9، 15:29 کے مطابق)بھی مقدس ہے۔ اسلامی قانون میں تو ہین کا
تصور اللہ تعالی ، قرآن کریم اور پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک محدود
ہے۔
قرآن کا واضح اعلان ہے
کہ ‘‘(اے مسلمانو) تم ان کو برا نہ کہو جن کی یہ اللہ کو چھوڑ کر عبادت
کرتے ہیں ورنہ یہ بے علمی اور جہالت سے
اللہ کو برا کہیں گے ’’ (6:108)۔ یہ ایک واضح نصیحت ہے کہ دوسروں کے نزدیک جو مورتی ،دیوی دیوتا یا نشانی مقدس مانی جاتی ہے ان کی تو ہین نہ کی
جائے ۔ تاہم قرآن اس طرح کے جرم کا
ارتکاب کرنے والوں کے لئے کوئی سزا تجویز نہیں کرتا ۔
قرآن کریم میں ہے : ‘‘اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے
لیے شیطان (صفت) انسانوں اور جنوں کو دشمن
بنا دیا جو (لوگوں) دھوکے میں ڈالنے کے لیے ایک دوسرے کو خوش نما باتیں القا کرتے
رہتے ہیں اور اگر آپ کا رب چاہتا تو وہ یہ نہ کرتے ، سو آپ انہیں اور ان کی
افترا پردازیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں۔اور تاکہ جو لوگ آخرت پر یقین نہیں
رکھتے وہ ان (خوشنما باتوں) کی طرف مائل ہوں اور ان کو پسند کریں اور ان برائیوں
کا ارتکاب کرتے رہیں جن کا وہ ارتکاب کرنے والے ہیں’’ (۶: ۱۱۲، ۱۱۳)
‘‘اور ہم نے اسی طرح ہر نبی کے لیے مجرمین میں سے دشمن بنا
دیے ہیں اور آپ کا رب آپ کو ہدایت دینے اور آپ کی مدد کرنے کے لیے کافی ہے ’’
(۲۵:۳۱)
لہٰذا
قرآن مجیدنے پوری انسانیت کو خبردار کیا ہے کہ ہمیشہ کچھ لوگ ایسے ہوں گے نبی کی شان میں تذلیل و تضحیک کے الفاظ کہیں گے (6:113) یا وہ نبی کے
دشمن ہوں گے( 25:31)، لہذا مومنوں کو یہ تعلیم ملی کہ وہ ان باتوں کو نظر
انداز کریں اور ان پر بالکل بھی توجہ نہ دیں ۔ دوسرے جملوں
میں یہ کہہ سکتےہیں کہ قرآن کریم توہین رسالت کے عمل کو اخلاقی خرابی کی حیثیت سے دیکھتا ہے
لیکن اسے قابل سزا جرم نہیں مانتا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کو مکہ کےدشمن جھوٹا ، مجنون،
دیوانہ (68:51، 44:14، 30:58) او رمجنون شاعر کہتے تھے (37:36) اور وہ وحی ٔقرآنی کا
مزاق اڑاتے تھے ( 45:9، 37:14، 26:6، 18:56) اسے عجیب و غریب اور ناقابل اعتماد بتاتے تھے ، ( 38:5،50:2)
اسے خواب، (21:5) قدیم زمانوں کی
کہانیاں کہتےتھے (68:15، 46:17، 27:68،
25:5، 23:83، 6:25،83:13) کفار نے جھوٹ
اور جادو کرنے کا الزام بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر لگایا ( 38:4، 34:43) خدا
کے خلاف جھوٹ بولنے ،جعل سازی کرنے اور کہانیاں بنانے والا بتایا ( 46:8، 38:7، 32:3، 11:13) جادو گری کرنے کا
بہتان لگایا ( 74:24، 43:30، 21:3) ایسا واضح جادو جو حیران کن تھا ( 46:7، 37:15، 10:2) اور کہا کہ ان پر
جادو کیا ہوا ہے یا وہ جنوں کے ذریعہ سحر
کردہ یا ان کے قبضے میں ہیں ( 23:70،
17:47، 34:8)۔وغیرہ وغیرہ ۔
یہ تمام اتہامات والزامات
توہین رسالت کے زمرے میں آتے ہیں۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسی توہین کرنے والوں کے
خلاف قرآن میں کہیں بھی کسی سزا کی تجویز نہیں کی گئی ۔ توہین رسالت کے قانون کی تائید کرنے والے، ہو سکتا ہے ، درج ذیل نکات
پیش کر یں:
1۔ یہ آیات مکہ کے اس دور
میں نازل ہوئیں (612۔610) جب دشمنوں
کے مقابلے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم
کے متبعین کی تعدا د بہت کم تھی
، اور ا ن کا تعلق سماج کے پسماندہ
طبقے سے تھا، اور یہ کمزور او رظلم رسیدہ(85:10، 8:25) تھے ،اور ان آیات
کا نزول ایک مخصوص سیاق وسباق میں ہوا تھا
۔
2۔ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم پر بہتان تراشیاں کرنے والے اور آپ ﷺ کے بد خواہ ، کارڈووا (اسپین ، 859۔851)کے پادریوں کی طرح
امن او راہم آہنگی کومتأثر کر سکتے تھے۔(1)
3۔ کسی مذہب ،مذہبی رہنما
یا اس کی مقدس کتاب وغیرہ پر دشنام
طرازیاں در اصل اس طبقے پر اخلاقی حملہ
ہے،جسکا مقصد،اس کی صورت مسخ کرنا اوراسے
غیر انسانی بنانا ، اور اس سے نفرت ،مذہبی تعصب اوردشمنی کو فروغ دینا ،
اورموجودہ دور کے تناظر میں اسلاموفوبیا
اور اسلامو فاشزم کو تقویت دینا ہے۔
یہ دلائل اطمینان بخش معلوم پڑ رہے ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ
قابل توجہ نکات حسب ذیل ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔
1۔ توہین رسالت کے اس
قانون سے مسلم معاشرے میں انتشار پیدا ہوسکتا ہے کیو نکہ کوئی بھی کسی پر توہین
رسالت کا الزام لگاسکتا ہے جیسا کہ پاکستان میں ہورہا ہے۔
2۔ ایک عام جھوٹا
شہری بھی کسی غیر مسلم یا مسلم پڑوسی سے بدلہ لینے کے لئے اس قانون کا غلط استعمال کرسکتا ہے ،اور ان کا
مالی استحصال کرنے کےلئے بھی توہین رسالت کے الزام کی دھمکی دے سکتا ہے۔
3۔ ایک اسلامی ریاست اپنے
سیاسی مخالفین کو دبانے کے لئے اس قانون کا
استعمال کرسکتا ہے۔
4۔ مزید یہ کہ سختی کے
ساتھ توہین رسالت کے قانون کے نفاذسے ایک سنی شرعی عدالت پورے اہل تشیع طبقے کونبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے قریبی رشتہ داروں ،پہلے تین خلفا، جو یا تو نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خسر (ابوبکر ؓ اور عمرؓ) تھے یا پھر داماد (عثمان ؓ)
کو لعن طعن کہنے پر توہین رسالت کا مجرم قرار دے سکتی ہے۔
5۔ اسلامی ممالک کے
فقہاءاسلام کو برا بھلا کہنے والے اسکالروں ، مصنفوں اور ان کی تقاریر ،تصانیف کو
توہین رسالت مان کر ان لوگوں کے خلاف فتویٰ جاری کرسکتے ہیں۔
6۔ توہین رسالت کے جرم
میں کسی شخص کو قتل
کرنا قرآنی انصاف کےاس بنیادی اصول کے خلاف ہے جس کے مطابق ایسی سزا ایک انسان کےذریعہ دوسرے انسان کے خلاف کئے گئے جرم میں ہی ملتی
ہے۔
یہی وہ وجوہات تھیں کہ
مذکورہ بالا آیات کے ارشادات کے منسوخ کرنے کےلیے بعد میں کوئی قرآنی آیت نازل
نہیں ۔مزید یہ کہ توہین رسالت کے لیے سزا تجویز کرنے کے بجائے قرآن مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ جب وہ سنیں کہ
‘‘اللہ کی آیتوں کا انکار کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو تم ان
کے ساتھ نہ بیٹھو حتی کہ وہ کسی دوسری بات میں مشغول ہو جائیں ورنہ بلا شبہ تم بھی ان کی مثل قرار دیے جاوگے
’’ (۴:۱۴۰) اور ‘‘ان لوگوں کو چھوڑ دیں جو اس (اللہ )کے ناموں میں غلط راہ اختیار
کرتے ہیں ’’ (۷:۱۸۰)
نتیجہ : توہین رسالت کے زمرے میں آنے والی چیزیں اتنی
وسیع ہے کہ اگر اس پر قانون کی تشکیل دی جائے تو ذاتی ، طبقاتی ، مسلکی ومشربی اور
بین الاقوامی سطح پر متعدد افراد بشمول
مسلمانوں کے متعدد فرقوں اور اسلام
کے مصنفوں اور ناقدین کے خلاف توہین رسالت کے الزامات کا
ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا ۔
چونکہ قرآن ان توہین
کی ان حالات سے بخوبی واقف ہو کر بھی توہین کرنے پر
کسی سزا کی تجویز نہیں کرتا ، لہذا تو ہین رسالت کے قانون کو منسوخ کر دینا چاہیے ۔ توہین
نفرت کی عکاسی کرتی ہے اور اس پر قانون
بنا دیا جائے تب بھی اس سے نفرتوں میں اضافہ ہی ہوگا ۔ نتیجتًا انتہا پسندی ، دہشت گردی اور فرقہ
وارانہ فسادات کو فروغ ملے گا ۔مسلم فقہا سلامتی کونسل کے ضابطہ اخلاق پر قائم
رہنے کی تاکید کرکے بہتر حالات پیدا کر
سکتے ہیں ،او ر سزائے موت کے قانون کے
بجائے توہین رسالت کے جرم کی کیفیت ،
اسکے ممکنہ اثرات او رمجرم کے رویے کو
مدنظر رکھتے ہوئے کوئی محدود سزا
تجویزکر سکتے ہیں ۔ وہ اپنے صحافیوں اور میڈیا
کو بھی توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والوں کے متعلق نظرانداز کرنے والے برتاو کے بارے میں مذکورہ
بالا قرآنی آیات (6: 113 ، 25:31) کا حوالہ بھی دے سکتے ہیں ۔
(1) 851اور 859 عیسوی کےدرمیان
موجودہ جنوبی اسپین کے کارڈ ووا کے کچھ پادری جان بوجھ کر عوامی مقامات پر سزائے
موت کی خواہش میں پیغمبر صلی اللہ
علیہ وسلم کی شان میں توہین
آمیز جملے کسا کرتے تھے۔ یہ عیسائی
طبقے کے ساتھ ساتھ ان کے امیر کے لیے بھی شرمندگی کی با ت تھی۔ اور انہیں
شرعی قانون کے تحت سزا دی جاتی تھی کیو نکہ یہی وہ واحد راستہ تھا جس کے ذریعہ عوام کے درمیان ایسی اشتعال انگیز ی کا خاتمہ
کیا جا سکتا تھا۔
محمد یونس نے آئی آئی ٹی
سے کیمیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے اور کارپوریٹ اکزی کیوٹیو کے عہدے سے
سبکدوش ہو چکے ہیں اور90کی دہائی سے قرآن کے عمیق مطالعہ اور اس کے حقیقی پیغام کو
سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کی کتاب
اسلام کا اصل پیغام کو 2002میں الاظہر الشریف،قاہرہ کی منظوری حاصل ہو گئی تھی اور
یو سی ایل اے کے ڈاکٹر خالد ابو الفضل کی حمایت اور توثیق بھی حاصل ہے اور محمد یونس
کی کتاب اسلام کا اصل پیغام آمنہ پبلیکیسن،میری لینڈ ،امریکہ نے،2009میں شائع کیا۔
URL for
English article: http://www.newageislam.com/islamic-sharia-laws/blasphemy-law-has-no-qur’anic-basis/d/5866
URL for Malayalam Translation: https://www.newageislam.com/malayalam-section/blasphemy-law-no-quranic-basis/d/122662
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/blasphemy-law-no-quranic-basis/d/123949
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia
in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism