New Age Islam
Sat Dec 14 2024, 07:07 AM

Urdu Section ( 8 Jan 2018, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Does Zihar Work As Talaq - The Rulings and Regulations of Zihar In Islam کیا ظہار سے طلاق واقع ہوتی ہے - ظہار اور اس کے احکام و مسائل


کنیز فاطمہ ، نیو ایج اسلام

انسان کے ہر عمل پر عذاب و ثواب ہے خواہ وہ قولی ہو یا فعلی اور ان تمام کے احکام و مسائل بھی وارد ہے،جن میں سے ایک ظہار کے الفاظ بھی ہیں کہ اس کی ادائیگی پر کیا حکم ہوگا کس مسائل سے کس طرح کے احکام صادر ہوں گے ان تمام کی تفصیلات درج ذیل ہے۔

ظہار کی تعریف اور اس کا حکم

ظہار کا لغوی معنیٰ: یہ لفظ ظہر سے مشتق ہے جس کے لغوی معانی پیٹھ اور پشت کے ہیں۔

شرعی اصطلاح میں ظہار کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو یوں کہہ دے‘‘تو مجھ پر میری ماں یا بہن (یا کوئی اور محرم خاتون) جیسی ہے’’۔

در المختار، رد المحتار اور فتاوی ہندیہ میں ظہار کا معنی و مفہوم باہمی مطابقت کے ساتھ  پیش کیا گیا ہے، چنانچہ فتاوی ہندیہ  میں ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے :

الظهار هو تشبيه الزوجة أو جزء منها شائع أو معبربه عن الکل بما لا يحل النظر إليه من المحرمة علی التأبيد ولو برضاع أو صهرية... سواء کانت الزوجة حرة أو أمة أو مکاتبة أو مدبرة أوأم ولد أو کتابية.

ظہار سے یہ مراد ہے کہ اپنی زوجہ یا اُس کے کسی جزوِ شائع یا ایسے جز کو جو کُل سے تعبیر کیا جاتا ہو، محرمات ابدیہ (یعنی جن سے نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہے) کے ایسے عضو سے تشبیہ دینا جس کو دیکھنا حلال نہیں۔اس میں حرمت والے رشتے بھی شامل ہیں، اگر چہ حرمت بسبب رضاعت یا رشتہ صہریت   (صہریہ رشتہ خسر و دامادی از مذکر و مونث ) کے پیدا ہوئی ہو ۔(فتاوی ہندیہ ، باب ۹، کتاب الطلاق ، ص ۵۰۶، مکتبہ رحمانیہ ، اردو بازار لاہور )

قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

الَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنكُم مِّن نِّسَائِهِم مَّا هُنَّ أُمَّهَاتِهِمْ ۖ إِنْ أُمَّهَاتُهُمْ إِلَّا اللَّائِي وَلَدْنَهُمْ ۚ وَإِنَّهُمْ لَيَقُولُونَ مُنكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُورًا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ

ترجمہ:  ‘‘وہ جو تم میں اپنی عورتوں  سے ظہار کرتے ہیں  (اُنھیں  ماں  کی  مثل کہہ دیتے) وہ ان کی مائیں نہیں ان کی مائیں تو وہی ہیں جن سے وہ پیدا ہیں اور وہ بیشک بری اور نری جھوٹ بات کہتے ہیں اور بیشک اللہ ضرور معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے’’ (سورہ مجادلہ، ۵۸:۲)

علامہ ابو الحسن علی بن بکر المرغینانی الحنفی (متوفی ۵۷۳ ھ) رقمطراز ہیں:

جب کوئی شخص اپنی سے کہے: تو مجھ پر میری ماں کی پشت کی مثل ہے تو اس پر حرام ہو جاتی ہے اور اب اس سے عمل زوجیت کرنا جائز نہیں ہے اور نہ اس کو چھونا اور بوسہ دینا جائز ہے حتی کہ وہ اس ظہار کا کفارہ ادا کرے جیسا کہ اللہ تعالی نے سورہ مجادلہ کی آیت ۳ میں ارشاد فرمایا ہے۔(اس کا تذکرہ آگے آئے گا)

علامہ مرغینانی مزید لکھتے ہیں:

‘‘اور ظہار زمانہ جاہلیت کی طلاق تھی۔ شریعت نے اس کی اصل کو بر قرار رکھا اور اس کے حکم کو وقت مقرر کی تحریم کی طرف کفارہ کے ساتھ منتقل کر دیا اور ظہار نکاح کو زائل کرنے والا نہیں ہے، اس لیے کہ یہ جھوٹ بولنے اور بری بات کہنے کا جرم ہے۔ اسی وجہ سے اس کے مناسب سزا ہے کہ ظہار کرنے والے پر اس کی بیوی کے ساتھ جماع کو حرام قرار دیا جائے اور کفارہ ادا کرنے سے حرمت ساقط ہو جائے۔ پھر جب اس سے عمل زوجیت کو حرام کیا گیا تو اس کے دواعی اور محرکات کو بھی حرام کر دیا گیا۔ اس کے بر خلاف حائض اور روزہ دار کے ساتھ جماع کے محرکات کو حرام نہیں کیا گیا کیونکہ حیض اور روزہ کا اکثر وقوع ہوتا ہے کیونکہ اگران میں عمل زوجیت کے محرکات کو حرام قرار دیا جاتا تو اس سے حرج لازم آتا ۔ اس کے بر خلاف ظہار کا اتنا وقوع نہیں ہوتا ، اس میں عمل زوجیت کے دواعی اور محرکات کو حرام قرار دینے سے حرج لازم نہیں آئے گا۔ (الہدایہ مع نصب الرایہ ج ۳ ص ۳۵۳، ۳۵۴، دار الکتب العلمیہ ، بیروت ۱۴۱۶ ھ۔ اس حوالہ کو علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی تبیان القرآن میں ذکر کیا ہے دیکھئے ج ۱۱، ص ۷۶۷، ۷۶۸، مکتبہ رضویہ ، ادبی دنیا مٹیا محل نئی دہلی)

ظہار کا حکم: اس کا حکم یہ ہے کہ اگر ظہار کی نیت سے کی جائے تمام فقہا کے نزدیک اس لفظ سے طلاق نہیں ہوتی،لیکن کفارہ ادا کئے بغیر بیوی کے پاس جانا حرام ہے۔ یہ حرمت اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک شوہر کفارہ ادا نہ کر دے، کفارہ ہی اس حرمت کو رفع کر سکتا ہے۔

کفارہ کی ادائیگی سے قبل بیوی سے جماع کرنا حرام ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

 

 وَالَّذِيْنَ يُظٰهِرُوْنَ مِنْ نِّسَآئِهِمْ ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَتَمَآسَّا ط ذٰلِکُمْ تُوْ عَظُوْنَ بِهِ وَاﷲُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌٌ

ترجمہ : ‘‘اور وہ جو اپنی بیویوں سے ظہار کر بیٹھیں  پھر جو کہا ہے اس سے پلٹنا چاہیں  تو ان پر ایک گردن (غلام یا باندی ) کا  آزاد کرنا لازم ہے قبل اس کے کہ وہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں، یہ ہے جو نصیحت تمہیں کی جاتی ہے، اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے’’ (سورہ مجادلہ ۵۸:۳)

کفارہ کی ادائیگی سے قبل بیوی سے جنسی منافع اٹھانا بھی حرام ہے۔ کفارہ ادا کرنے سے قبل ہر طرح   کا جنسی فائدہ اٹھانا حرام ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ‘‘مِنْ قَبْلِ اَنْ يَتَمَاسَّا’’ فرما کر کفارے کی ادائیگی کو مس کرنے سے قبل ضروری قرار دیا ہے اور مس کا اطلاق سب سے کم جس چیز پر ہوتا ہے وہ ہاتھ سے چھونا ہے۔ مس کا لفظ دونوں معنی جماع اور ہاتھ سے چھونے کو شامل ہے، تو معنی یہ ہوگا کہ کفارہ ادا کرنے سے پہلے عورت کو چھونا بھی جائز نہیں ہوگا ۔

قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے ظہار کا کفارہ تین انواع کا بیان کیا ہے، ان میں سے کسی ایک نوع کی ادائیگی سے کفارہ ادا ہو جائے گا۔ لیکن ان کی ترتیب ارشادِ باری تعالیٰ کے مطابق ہوگی۔ ارشاد ہے:

وَالَّذِيْنَ يُظٰهِرُوْنَ مِنْ نِّسَآئِهِمْ ثُمَّ يَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَتَمَآسَّا ط ذٰلِکُمْ تُوْعَظُوْنَ بِهِ ط وَاﷲُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌo فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يَتَمَآسَّاج فَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ فَاِطْعَامُ سِتِّيْنَ مِسْکِيْنًا۔ ذٰلِکَ لِتُؤْمِنُوْا بِاﷲِ وَرَسُوْلِهِ ۔ وَتِلْکَ حُدُوْدُ اﷲِ۔ وَلِلْکٰفِرِيْنَ عَذَابٌ عَلِيْمٌ۔

ترجمہ : ‘‘اور وہ جو اپنی بیویوں سے ظہار کر بیٹھیں  پھر جو کہا ہے اس سے پلٹنا چاہیں  تو ان پر ایک گردن (غلام یا باندی ) کا  آزاد کرنا لازم ہے قبل اس کے کہ وہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں، یہ ہے جو نصیحت تمہیں کی جاتی ہے، اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔پھر جسے(غلام یا باندی آزاد کرنے کے لیے) میسر نہ ہو تو لگاتار دو مہینے کے روزے (رکھنا لازم ہے) قبل اس کے کہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں پھر جس سے روزے بھی نہ ہوسکیں تو ساٹھ مسکینوں کا پیٹ بھرنا یہ اس لیے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے’’ (۵۸:۳، ۵۸:۴)

ان آیات میں قرآن مجید نے ترتیب کے ساتھ ظہار کے کفارہ کے لیے تین چیزوں کا ذکر کیا ان میں سے جس کی بھی قدرت رکھے وہ ادا کرے۔ (۱) غلام آزاد کرنا (۲) ساٹھ دن کے لگاتار روزے رکھنا (۳) ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا۔

یہ امر متفق علیہ ہے کہ ظہار کرنے والا شخص  عاقل و بالغ ہو اور بحالت ہوش و حواس ظہار کے الفاظ زبان سے ادا کرے۔ بچے اور مجنون کا ظہار معتبر نہیں ہے۔ نیز ایسے شخص کا ظہار بھی معتبر نہیں جو ان الفاظ کو ادا کرتے وقت اپنے ہوش و حواس میں نہ ہو، مثلاً سوتے میں بڑبڑائے، یا کسی نوعیت کی بیہوشی میں مبتلا ہو گیا ہو۔

ظہار کے حکم میں وہ تمام عورتیں داخل ہیں جو نسب، رضاعت، یا ازدواجی رشتہ کی بنا پر آدمی کے لیے ہمیشہ حرام ہیں، مگر وقتی طور پر جو عورتیں حرام ہوں اور کسی وقت حلال ہو سکتی ہوں وہ اس میں داخل نہیں ہیں۔ جیسے بیوی کی بہن، اس کی خالہ، اس کی پھوپھی، یا غیرعورت جو آدمی کے نکاح میں نہ ہو۔ ابدی محرمات میں سے کسی عورت کے کسی ایسے عضو کے ساتھ تشبیہ دینا جس پر نظر ڈالنا آدمی کے لیے حلال نہ ہو، ظہار ہو گا۔ البتہ بیوی کے ہاتھ، پاؤں، سر، بال، دانت وغیرہ کو محرم عورت سے، یا بیوی کو اس کے سر، ہاتھ، پاؤں جیسے اجزائے جسم سے تشبیہ دینا ظہار نہ ہو گا کیونکہ ماں بہن کے ان اعضاء پر نگاہ ڈالنا حرام نہیں ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ تیرا ہاتھ میری ماں کے ہاتھ جیسا ہے، یا تیرا پاؤں میری ماں کے پاؤں جیسا ہے، ظہار نہیں ہے۔

عورت کو بلا نیت ظہار یہ کہنا کہ ارے میری ماں یا ارے میری بہن تو ظہار نہیں ۔فتاوی عالمگیری میں ہے کہ عورت کو ماں یا بیٹی یا بہن کہا  تو ظہار نہیں ، مگر ایسا کہنا مکروہ ہے۔(الفتاوی الھندیۃ‘‘،کتاب الطلاق،الباب التاسع في الظہار،ج۱،ص۵۰۷)

صدر الشریعہ علامہ امجد علی علیہ الرحمہ  بہار شریعت میں در مختار اور عالمگیری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ  محارم کی  پیٹھ یا پیٹ یا ران سے تشبیہ دی یا کہا میں نے تجھ سے ظہار کیا تو یہ الفاظ صریح ہیں ان میں  نیت کی  کچھ حاجت نہیں کچھ بھی نیت نہ ہو یا طلاق کی نیت ہو یا اکرام کی نیت ہو، ہرحالت میں  ظہار ہی ہے اور اگر یہ کہتا ہے کہ مقصود جھوٹی خبر دینا تھا یا زمانۂ گزشتہ کی  خبر دینا ہے تو قضاء تصدیق نہ کرینگے اور عورت بھی تصدیق نہیں کر سکتی۔

حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ رقمطراز ہیں : ‘‘اور کوئی شخص ظہار کی نیت کے ساتھ یہ کہے کہ میں اپنی بی بی کو مثل ماں کے سمجھتا ہوں  تو ظہار ہو گیا ۔اس شخص پر کفارہ لازم  کہ ایک غلام آزاد کر دے۔چونکہ یہاں ہندوستان میں باندی یا غلام نہیں  ۔جب اس پر قدرت نہیں تو دو مہینے کے پے در پے روزے رکھے اور ان دو ماہ میں دن یا رات میں اس سے صحبت نہ کرے اور اگر کفارہ ادا کرنے سے قبل صحبت کرے گا تو  صرف یہی نہیں کہ گناہ گار ہوگا بلکہ نئے سرے سے دو مہینے کے لگاتار روزے رکھنے ہوں گے۔یوہیں اگر بیچ میں کوئی روزہ چھوٹ جائے تو پھر سرے سے دو ماہ کے روزے لازم ہوں گے ۔اور اگر بیماری سے یا بڑھاپے سے ایسا ہو گیا ہے کہ لگاتار دو ماہ کے روزوں کی طاقت نہیں رکھتا تو ساٹھ مساکین کو دونوں وقت بھر پیٹ کھانا کھلائے ۔ اور اگر ظہار مقصود نہ تھا بلکہ ان لفظوں سے یہ مراد تھی کہ میرے نزدیک وہ میرے ماں کی مثل عزت بزرگی رکھتی ہے میں اس کا اعزاز و اکرام ماں کی مثل سمجھتا ہوں تو اس صورت میں ظہار نہ ہوگا  اور نہ ہی اس پر کفارہ واجب ہوگا ۔(فتاوی مصطفویہ   ص ۳۷۹ ملخصا)

خلاصہ کلام یہ کہ ظہار کے الفاظ سے طلاق واقع نہیں ہوتی  لیکن کفارہ ادا کئے بغیر بیوی کے پاس جانا حرام ہے۔جیساکہ اوپر قرآن کریم کی آیات سے ثابت ہے۔ یہ حرمت اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک شوہر کفارہ ادا نہ کر دے، کفارہ ہی اس حرمت کو رفع کر سکتا ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ ہم تمامی کو زیادہ سے زیادہ احکام و مسائل سیکھ کر اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

 

To read in English: https://newageislam.com/islam-women-feminism/zihar-work-talaq-rulings-regulations/d/113840

URL for this article: https://www.newageislam.com/urdu-section/zihar-work-talaq-rulings-regulations/d/113855

 New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism


Loading..

Loading..