رام پنیانی
19 ستمبر 2023
آر ایس ایس کا قیام
جدوجہد آزادی سے پیداشدہ طبقاتی اور صنفی مساوات کی کوششوں کی مخالفت کےطور پر ہوا تھا۔ اُس وقت ہندوستان
ایک قوم کے طور پر اُبھر رہا تھا اور اس عمل سے سرمایہ دارانہ اثرورسوخ کمزورہورہا
تھا۔یہی نہیں بلکہ ذات پات،فرقہ اور صنف
کی بندشوں اور حدبندیوں سے بالاتر ہوکر سبھی کو مساوی حقوق دینےکی بات
ہورہی تھی۔ اس کےردعمل میں کئی قوم پرست
اُبھرےجو نہیں چاہتے تھے کہ اونچ نیچ کی
یہ دیوار گرے۔
ہندو قوم پرست تنظیم آر
ایس ایس نے ہندوستان کے ماضی قدیم کی تصوراتی کہانی گڑھی۔ آر ایس ایس اُس دور کو
باعث فخر بتاتا ہے جبکہ اُس دورکا سماج بھی منو اسمرتی کے قانون کےزیر اثر تھا۔ اس
کا دعویٰ ہے کہ ہندو سماج مہان ہے جو تمام ذاتوں
اور فرقوں کو برابری کا درجہ دیتا
آیا ہے نیزخواتین کو احترام کی نگاہ سے دیکھتا آیا ہے مگرمسلم حملہ آوروں اور لٹیروں
کی وجہ سے ہندوستان کے قابل فخر اقدار کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ہندو سماج
میں خواتین کو اعلیٰ مقام حاصل تھا مگر
مسلم حملہ آوروں کی حرکتوں کے سبب خواتین پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد کرنا ہندوؤں کی مجبوری ہوگئی اور اسی سبب ستی کی رسم چل پڑی
اور اسے مضبوطی ملتی چلی گئی۔ یہ گمراہ کن وضاحت تھی جو ہندو قوم پرستوں نے اپنے دفاع میں دی۔ یہ
حقیقت نہیں تھی، مفروضہ تھا جسے عام ذہنوں
میں پہنچایا گیا۔
یہی مفروضہ آر ایس ایس کے
معاون سکریٹری کرشن گوپال نے خواتین کو بااختیار بنانے کے موضوع پر منعقدہ ایک
حالیہ سمینار میں پیش کیا۔اس موقع پر
اُنہوں نے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ
ہندوستان میں بااختیار خواتین کس طرح
کمزورہوئیں ۔ اس ضمن میں اُنہوں نے کہا: (مفہوم)کہ ’’بارہویں صدی تک ہندوستانی خواتین کافی بااختیار
تھیں لیکن قرون وسطیٰ میں حالات نہ صرف بدلے بلکہ ابتر ہوگئے۔‘‘ کرشن
گوپال کےبقول یہ بہت مشکل دور تھا، پورا ملک غلامی سے جوجھ رہا تھا، خواتین غیر
محفوظ تھیں جن میں سے بہتوں
کو اغوا کرکے دوسرے ملکوں میں فروخت
کردیا جاتا تھا۔یہاں آپ تاریخ میں جھوٹ ملانے اور جھو ٹ میں تاریخ ملا دینےکا فرق بخوبی محسوس کرسکتے ہیں ۔
آر ایس ایس کے معاون سکریٹری نے مذکورہ سمینار میں یہ بھی کہا کہ ’’ابدالی،غوری اورغزنی یہاں سے خواتین کو لے گئے اور انہیں بیچ دیا۔ وہ ہمارے دیش میں بے عزتی (اپمان) کا
دور تھا۔ جس کا نتیجہ تھا کہ ہمارے سماج نے ہماری خواتین پر کئی طرح کی
پابندیاں عائد کردیں ۔‘‘
دشمن بادشادہ یا راجہ کی
سلطنت میں لوٹ مار کرنااور ہار جانے
والوں کو غلام بنانا صرف مسلم حملہ
آوروں تک محدود نہیں تھا۔ ہندو اور دیگر مذاہب کےبادشاہوں یا راجاؤں
نے بھی مفتوحہ علاقوں کو لوٹا،
خواتین کو اغوا کیا اور مردوں کو غلام
بنایا۔ چول راجہ سری لنکا سے بڑی تعداد میں لوگوں
کو غلام بناکر لائے تھے۔ چھترپتی شیواجی مہاراج کی فوج کلیان کی ریاست
(کلیان راجیہ) جیتنے کے بعد وہاں سے مال و
متاع کے علاوہ وہاں کےمسلم حکمراں کی بہو کو بھی اپنے
ساتھ لے گئی تھی۔جن پابندیوں کی بات کرشن
گوپال کررہے ہیں وہ جنوب ایشیا کے مسلم
سلاطین کے سرزمین ہند پر قدم رکھنے سے پہلے سے ہندو خواتین پر نافذ تھیں ۔ ستی کی
رسم بھی بہت پہلے سے ہندوستان میں رائج
تھی۔
قدیم ہندوستان میں بھی خواتین مال ومتاع اور تعلیم کے حق سے محروم
تھیں ۔ قدیم گرنتھوں میں ستی کی رسم کا تذکرہ ملتا ہے۔مشہور تاریخ
داں رومیلا تھاپر نے تواپنی تحریروں اورکتابوں
میں یہ بھی بتایاہے کہ ستی کی رسم کے پس پشت مقاصد کیاتھے۔
اُس کے بعد کے دور میں
کاروباراور تجارتی امور میں گراوٹ کی وجہ
سے خواتین کی حالت بھی زوال پذیر ہوئی۔اُن کے حصولِ تعلیم کا راستہ بند کردیا گیا۔
کم عمرمیں شادی ہونے لگی اور کوئی خاتون
بیوہ ہوجائے تواس کی دوسری شادی پر بھی پابندی عائد کردی۔انہیں وجوہات کی بنا پر ستی کی رسم مستحکم ہوئی۔’’ویمن:اےہسٹری‘‘
میں چندربابو اور تھلگاویتی میں اس صورت حال کاکافی تفصیلی بیان کیاہے۔ان کا
کہنا ہے کہ لڑکیوں کو بہت کم یا نہ کے
برابر آزادی حاصل تھی۔ بہت چھوٹی کم عمر میں
ان کی شادی کردی جاتی تھی۔ تعلیم تک ان کی رسائی نہیں تھی۔ اب آر ایس ایس کے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ وہ صورت حال سے کیسے نمٹے۔ اس کیلئے
یہ بڑی چنوتی اس لئے ہے کہ آر ایس ایس مردوں
کی تنظیم ہے۔ اس نے ’’راشٹر سیویکا سمیتی‘‘ نامی ایک تنظیم بنائی ضرور ہے
مگر وہ آر ایس ایس کے تحت چلتی ہے۔ اس تنظیم کے نام سے یہ ظاہر ہے کہ وہ اس موضوع
پر یعنی خواتین کے حق اور آزادی کے معاملے میں
آزاد نہیں ہے۔ بتانے کی ضرورت
نہیں کہ اس کے نام میں ’سویم‘ غائب ہے ۔
راشٹرسیویکاسمیتی اپنی
خواتین اراکین کو کیا سیکھاتی ہیں یہ راز
تنظیم سے وابستہ خواتین کے بیان سے فاش ہوجاتا ہے۔بعض قارئین کو یاد ہوگاکہ جب روپ
کنورستی معاملہ سرخیوں میں تھاتب بی جے پی کی قومی نائب صدر وجے راجے
سندھیا نے کہا تھا کہ ستی کی رسم ایک قابل فخر روایت ہے اور ہندو خواتین کو ستی
ہونے کا حق ہے۔ مذکورہ سمیتی کی ایک اور لیڈر مردولا سنہا نے’جو بعد میں گواہ کی گورنر بنیں ‘ نے اپریل ۱۹۹۴ء میں دیئے گئے ایک انٹرویو میں خواتین کویہ صلاح دی تھی کہ وہ شوہر کی زیادتی
کو تسلیم کرے یعنی اس کے خلاف مزاحمت سے منع کیا تھا۔ اسی انٹرویو انہوں نے جہیز
کی رسم کا دفاع کرتے ہوئےیہ مشورہ بھی دیا تھاکہ جب تک بہت ضروری نہ ہو وہ اپنے
گھر کے باہرجاکر کام نہ کرے۔
اس سلسلے میں اور بھی کئی دلائل اور دستاویزی شواہد پیش کئے
جاسکتے ہیں لیکن اختصارکی غرض سے ہم ان سے
احتراز کررہے ہیں ۔ ہمارا مقصد بڑے
زوروشور سے جاری اس پروپیگنڈے کو گمراہ کن ثابت کرنا ہے جس کے تحت یہ سمجھانے کی
کوشش کی جاتی ہے کہ ہندوستانی سماج میں جو
بگاڑ ہے وہ مسلم سلاطین کے حملوں کا نتیجہ
ہے ورنہ اس سے پہلے سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھااورایسی کوئی بات نہیں تھی جو قابلِ اعتراض ہو۔
19 ستمبر،2023، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism