New Age Islam
Tue Apr 22 2025, 02:46 PM

Urdu Section ( 28 Aug 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Destroying Places of Worship of the 'People of The Book' And Burning Their Holy Books Are Also Acts of Blasphemy 'اہل کتاب' کی عبادت گاہوں کو تباہ کرنا اور ان کی مقدس کتابوں کو جلانا بھی توہین ہے: کیا پاکستان اب اسے بھی اپنے توہین کے قوانین میں شامل کرے گا؟

ڈاکٹر محمد غطریف، نیو ایج اسلام

 22 اگست 2023

 کیا کوئی رہنما، عالم یا فقیہ مسیحیوں کے مذہبی جذبات کی توہین کو توہین مذہب قانون کی خلاف ورزی کہنے کی جرات کرے گا؟

 اہم نکات:

1.      علمائے کرام کا اس حادثے کے حوالے سے یہ کہنا ہے کہ جو ہوا وہ غلط تھا، لیکن مجرموں کا حساب و کتاب اللہ کے ذمہ ہے، کیونکہ ان کی نیت نیک تھی۔

2.      توہین مذہب کے قوانین میں بائبل کو جلانے سے لے کر گرجا گھروں کے انہدام تک ہر چیز شامل ہے۔

3.      ان جھوٹے الزامات کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔

4.      قانون نافذ کرنے والے ادارے امن بحال کرنے اور حالات کو معمول پر لانے میں مصروف ہیں۔

 ------

Photo: Hindustan Times

-----

پاکستان کے فیصل آباد کے جڑانوالہ قصبے میں جو کچھ ہوا، وہ انسانی حقوق، اقلیتوں کے حقوق، ملکی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے اور توہین مذہب کے قانون کی ایک صریح خلاف ورزی ہے۔

 تاہم، اس معاملے پر تمام مسلم مذہبی انتہاء پسند اور علمائے کرام بالکل خاموش ہیں!

 عیسائی قرآن کے مطابق اہل کتاب ہیں۔ یہاں تک کہ قرآن نے انہیں ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر آنے کی دعوت دی اور وہ خدا کی وحدانیت ہے, جو کہ تینوں ابراہیمی مذاہب یعنی اسلام، عیسائیت اور یہودیت میں مشترک ہے۔

 قل يا اهل الكتاب تعالو إلى كلمة سواء بيننا وبينكم ان لا نعبد إلاالله ولانشرك به شيئا

 آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب! ایسی انصاف والی بات کی طرف آو جو ہم میں تم میں برابر ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں۔ (آل عمران آیت:64)

 عیسائی ایک خدا پر یقین رکھتے ہیں، وہ عیسیٰ علیہ السلام کو بھی مانتے ہیں، جن کا ذکر قرآن میں سب سے زیادہ احترام کے ساتھ آیا ہے۔ وہ مقدس بائبل (عہد نامہ جدید) پر یقین رکھتے ہیں۔ اور اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن بات یہ ہے کہ توہین مذہب کا موجودہ قانون ہر اس شخص کو توہین مذہب کے جرم کا مرتکب مانتا ہے جو کسی بھی مذہبی کتاب کی بے حرمتی کرتا ہو یا اس پر حملے کرتا ہو خواہ وہ قرآن، بائبل، تورات (عہد نامہ قدیم) ہو، یا کسی بھی نبی کی بے حرمتی کرتا ہو۔

 اب ذرا دیکھیں کہ جرانوالہ میں کیا ہوا؟ ایک سخت گیر نیم پڑھے لکھے قاری اور قریبی مسجد کے امام کی قیادت میں ایک مشتعل ہجوم نے بنیاد پرست ٹی ایل پی کے کارکنوں کے ساتھ مل کر 14 اگست کی تقریبات کے بعد 16 اگست کی صبح ایک عیسائی علاقے پر حملہ کر دیا۔ 20 سے زیادہ گرجا گھروں کو آگ لگا دی، 700 گھروں کو نذر آتش کیا، اور لوٹ مار مچائی۔ ان کی غلطی کیا تھی؟ چوتھے درجے کے سرکاری ملازم سلیم مسیح اور اس کے 12 سالہ بیٹے پر توہین مذہب کا الزام ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ لڑکا اور اس کا باپ دونوں ہی غیر تعلیم یافتہ ہیں، تو اب ایسا کون احمق ہوگا جو قرآن کے پھٹے ہوئے اوراق کے ساتھ اپنی تصویر چسپاں کر کے قرآن کی توہین کرے گا اور اس پر اپنا پتہ بھی لکھے گا۔ کیا ملک کا نظام، جو آئینی طور پر سب کے لیے برابر ہے، اس شخص کی شناخت کر سکے گا جس نے دو بے گناہ عیسائیوں پر الزام لگانے اور آبادی میں انتشار پھیلانے کی سازش کرنے سے پہلے قرآن کے صفحات پر واقعی توہین آمیز کلمات لکھے؟ واضح ہے کہ جھوٹے الزامات کا مقصد ذاتی دشمنی نکالنا تھا۔ جیسا کہ اس طرح کے حالات میں عام طور پر ہوتا ہے، پولیس محض تماشائی بنی رہی۔ اگر پولیس فوری طور پر ایکشن میں آ جاتی تو اس افسوسناک سانحے کو روکا جا سکتا تھا۔

 علمائے کرام کا اس حادثے کے حوالے سے اب یہ کہنا ہے کہ جو ہوا وہ غلط تھا، لیکن مجرموں کا حساب و کتاب اللہ کے ذمہ ہے، کیونکہ ان کی نیت نیک تھی، یعنی ناموس رسالت کی حفاظت! اب ذرا دیکھیں کہ ان کی دلیل میں کیا خوبی ہے! اب سیاست دان اور علمائے کرام حسب معمول اس گھناؤنے جرم کی مذمت میں مصروف ہیں۔

 اب قانون نافذ کرنے والے ادارے امن بحال کرنے اور حالات کو معمول پر لانے میں مصروف ہیں۔ حکومت نے جلے ہوئے گرجا گھروں کی تعمیر نو کا اعلان کیا ہے لیکن 700 سے زائد متاثرین اپنی قسمت کا ماتم کر رہے ہیں۔ ان کی بحالی کا کیا ہوگا؟ جن مسلم تنظیموں کو کچھ خلیجی اداروں کی طرف سے مالی امداد ملتی ہے وہ ان کے لیے کچھ کریں گی یا نہیں؟ ملک میں سول سوسائٹی بہت کمزور، خوفزدہ اور پسماندہ ہے۔

 یقیناً اب بہت سی گرفتاریاں ہوں گی اور تمام گرفتار افراد عدم ثبوت وغیرہ کی بنیاد پر عدالتوں سے بری ہو جائیں گے اور پھر لوگ اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہو جائیں گے۔ اور کچھ عرصے بعد وہی واقعہ کسی اور علاقے میں پیش آئے گا جیسا کہ پاکستان کا ریکارڈ رہا ہے۔ اور یہ سلسلہ بغیر کسی روک ٹوک کے جاری رہے گا۔ علمائے کرام اور بعض دانشوروں کا دعویٰ ہے کہ یہ سانحات اس لیے رونما ہوتے ہیں کہ حکومتیں ہر بار توہین مذہب کا ارتکاب کرنے والوں پر مقدمہ چلانے اور انہیں سزا دینے میں ناکام رہتی ہیں۔

 ہمیشہ ایسا ہوتا رہا ہے کہ ایک طویل مقدمے کی سماعت کے بعد، حکومتیں اور عدلیہ ان کو آزاد کر دیتی ہیں کیونکہ کسی ایسے شخص کو سزا دینا ناممکن ہے جسے جھوٹے الزامات میں قید کیا گیا ہو۔ کیونکہ لاکھوں مساجد پر قابض مولویوں کی گرفت مسلم معاشرے پر مضبوط ہے اور فوج کی حمایت یافتہ مولویوں کا ہر طرف دور دورہ ہے۔

 فرسودہ اور فضول فتووں کا حوالہ دیتے ہوئے، وہ علم الدین ممتاز قادری اور ان جیسے دیگر ملعون قاتلوں کی تعریف کرتے ہیں۔ ان کے پیروکاروں کی تعداد لاکھوں میں ہے، اور میڈیا اہلکاروں اور یوٹیوب چینل چلانے والوں کی اکثریت ان مولویوں کی پیروی کرتی ہے جو عام لوگوں میں یہ ذہنیت پیدا کرنے میں سرگرم عمل ہیں کہ توہین رسالت کے معاملے میں، قانون کو ہاتھ میں لینا اور مجرم کو فوری طور پر سزا دینا شرعی حکم کے مطابق جرم نہیں ہے۔ جب ہر گاؤں میں ایک متعصب ملا چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو تربیت دے رہا ہے اور اس نعرے پر حلف اٹھا رہا ہے: گستاخ نبی کی ایک سزا سر تن سے جدا سر تن سے جدا۔ تو حالات میں بہتری کیسے لائی جا سکتی ہے؟

 پاکستان کے موجودہ حالات میں جہاں لوگ ابھی مذہبی جنون میں ڈوبے ہوئے ہیں، یہ بات مسلم ہے کہ توہین مذہب کا ملزم سب سے زیادہ قابل نفرت انسان ہے، کیونکہ ایسا شخص تمام قسم کے انسانی حقوق سے محروم ہو جاتا ہے، جسے کسی بھی طرح کی قانونی مدد نہیں کی جا سکتی، اور اس معاملے میں جج بھی منصفانہ اور آزادانہ کاروائی کرنے اور منصفانہ فیصلہ دنے سے ڈرے گا، کیونکہ ایسا جرم کرنے والا پاگل ہی ہو سکتا ہے۔

 علما اور مذہب کے نام پر انتہاء پسندی کرنے والوں کو اپنے اس دوہرے معیار کے بارے میں سوچنا چاہیے اگر ان کا ہوش و حواس سلامت ہے اور ان کا ضمیر ذرہ برابر بھی زندہ ہے۔ ایسے لوگ سوڈان یا کہیں اور قرآن کے جلائے جانے پر صدائے احتجاج کیسے بلند کر سکتے ہیں جب خود وہی بے قابو ہجوم کو اکٹھا کر کے گرجا گھروں کو آگ لگا رہے ہیں اور بائبل کو کہ ان کی مقدس کتاب ہے، جلا رہے ہیں؟

 جسٹس قاضی فیض عیسیٰ، جو ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس ہوں گے، انہوں نے 20.08.2023 کو اپنی اہلیہ کے ہمراہ جڑانوالہ کے مسیحی علاقے کا دورہ کیا، ان کے تباہ شدہ مکانات کا معائنہ کیا اور متاثرین سے اظہار یکجہتی کیا۔ اس موقع پر انہوں نے ان متاثرین سے ملاقات کی اور کھانے پینے کی اشیاء انہیں مہیا کی جن کے گھر مکان اور وسائل ضائع ہو گئے اور کہا کہ یہ عطیہ سمندر میں ایک قطرے کی مانند ہے اور متاثرین کے لیے مزید فلاحی کام کرنے کی ضرورت ہے۔

 درحقیقت انہوں نے ایسا کر کے بہت اچھی مثال قائم کی لیکن پھر بھی سوال یہ ہے کہ سیاستدان حتیٰ کہ علاقے کے ایم این اے وغیرہ متاثرہ کالونیوں کا دورہ اور متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کیوں نہیں کر سکے۔

 ہم ہندوستانی مسلمانوں کو اکثر اس بات کی تشویش لاحق رہتی ہے کہ ہماری پولیس، قومی میڈیا اور سیاسی جماعتیں مسلم اقلیت کے ساتھ کتنا ظالمانہ اور غیر منصفانہ سلوک کرتی ہیں۔ پاکستان جیسی مسلم اقوام کو غور کرنا چاہیے کہ اگر وہ اپنی اقلیتوں بشمول عیسائیوں، ہندوؤں اور احمدیوں کا خیال رکھنے میں ناکام رہیں تو وہ اخلاقی طور پر کشمیریوں یا ہندوستان میں مسلم اقلیتوں کے انسانی حقوق کا کس حد تک دفاع کر سکتے ہیں۔

 جڑانوالہ میں کئی گرجا گھروں کو تباہ کیا گیا اور اس دوران بائبل کے متعدد نسخوں کی بے حرمتی بھی کی گئی۔ اگر ملک کا نظامِ انصاف سب کے لیے یکساں ہے تو کیا پولیس کو ہدایت کی جائے گی کہ اس فساد میں ملوث تمام لوگوں کے خلاف توہین مذہب کے مقدمات درج کیے جائیں، اگر توہین رسالت جرم ہے تو جڑانوالہ کے تمام فسادی اس جرم میں ملوث تھے۔ کیا کوئی رہنما، عالم یا فقیہ مسیحیوں کے مذہبی جذبات کی توہین کو توہین مذہب قانون کی خلاف ورزی کہنے کی جرات کرے گا؟ جیسا کہ وہ عام طور پر مسلمانوں کے جذبات کی بات سامنے آنے پر کرتے ہیں؟

English Article: Destroying Places of Worship of the 'People of The Book' And Burning Their Holy Books Are Also Acts of Blasphemy: Will Pakistan Include This Crime Too in Its Anti- Blasphemy Laws Now?

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/worship-holy-books-pakistan-crime-anti-blasphemy-laws/d/130543

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..