دیویندر اسر
10 جولائی 2023
یہ کہنا تو مشکل ہے کہ
حقیقت کیا ہے؟ جب ہر شے ، فکر اور تصور انسان، فلسفہ، ادب، ادیب، تاریخ، نظریہ،
مذہب، سیاست، جدیدیت، مارکسیت کی موت یا خاتمے کا اعلان کردیا گیا ہے یا ہر چیز
’’پوسٹ‘‘ ہوچکی ہے تو احساسِ مرگ اور ازالۂ سحر کے اس دور میں اصل اور عکس میں
امتیاز کرنا دشوار ہوگیا ہے۔ لہٰذا کوئی حقیقت مستقل، مستند اور آفاقی نہیں۔
ہمارے سامنے تہذیب، تفریح، اجناس، اطلاعات، طرزِ زندگی، ٹیکنالوجی اور حقیقتوں کا
سوپر مارکیٹ موجود ہے۔ کیا واقعی فرد حقیقت کے ذاتی ادراک سے آزاد ہے؟ کیا دنیا
بھر میں کسی ایک حقیقت کو تسلیم کرانے کیلئے کبھی مذہب، کبھی نظریہ، کبھی بم و
بندوق، کبھی پروپیگنڈا اور اطلاعاتی تنظیم اور ذرائع ابلاغ عامہ کے انٹرنیشنل ہائی
کا سہارا نہیں لیا جارہا ہے؟ اور کیا سوپر پاور کے ادراک حقیقت کو گلوبل حقیقت کا
درجہ نہیں دیا جارہا ہے ؟ اس لئے جب عالمی ادبی فکر کا ذکر کیا جاتا ہے تو سوال
پیدا ہونا لازمی ہے کہ جس عالمی رویے (ورلڈ ویو) کا ذکر کیا جارہا ہے وہ درحقیقت
’ورلڈ ویو‘ نہ ہوکر دنیا کے بارے میں مغرب کی مخصوص فکر ہے جسے غیرمغربی ممالک پر
مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
مابعد جدیدیت کے دور میں
حقیقت ایک سماجی تشکیل (سوشل کنٹریکٹ) ہے، ایک عکس ہے،ایک واہمہ ہے جس کی صداقت کو
ثابت نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی جس کے معنی کا تعین کیا جاسکتا ہے کیونکہ دنیا ایک
مصنوعی تفسیر ہے جس میں ہر چیز محض نقل ہے، عکس ہے اور جس کو مخصوص مقاصد کیلئے
استعمال کیا جارہا ہے۔ ہم صرف شبیہوں اور عکسوں میں اور ان کے ذریعے ہی زندگی بسر
کرتے ہیں۔ ہم حقیقت کا بھی دوسری اشیاء کی طرح صارفانہ استعمال کرتے ہیں۔
مابعد جدیدیت کے ممتاز
مفسر ژاک بودزیلا کی نظر میں تمام حقیقتیں ایک دوسرے کے مساوی ہیں، تمام حقیقتیں
اضافی ہیں۔ معروضیت محض ملمع ہے۔
انہوں نے حقیقت کی اتنی
پرتیں کھولی ہیں کہ آخر کار حقیقتوں کے نشان ہی باقی رہ جاتے اور پھر یہ نشان بھی
مٹ یا گم ہوجاتے ہیں۔ پس ساختیات نے جو سلوک الفاظ کے ساتھ کیا ہے وہ دراصل اسی
فکر کا حامل ہے۔
ہم جسے حقیقت کہہ رہیں وہ
بنیادی حقیقت کا عکس ہے۔ یہ عکس بنیادی حقیقت کی نہ صرف نقاب پوشی کرتا ہے بلکہ اس
کو مسخ بھی کردیتا ہے اور اس مسخ شدہ پوشیدہ صورت کا بنیادی حقیقت سے کوئی رشتہ
نہیں رہ جاتا۔
تو سوال اب یہ ہے کہ کیا
کسی بھی تاریخ یا تہذیب کی حقیقت کی تفسیر مابعد جدیدیت کے اس مغرب مرکوز ماڈل کی
رو سے کی جاسکتی ہے؟ بدقسمتی سے (اور ذہنی کاہلی کے باعث) ہمارے پاس اپنی تہذیب کی
تفہیم کا کوئی ماڈل موجود نہیں۔ یا تو اس کی بازیافت نہیں ہوئی یا اس کی تشکیل
نہیں کی گئی۔ اور جب ہمارے نقاد یہ پاتے ہیں کہ ہمارے پاس اپنے ادب کی تفہیم اور
تنقید اور پیمائش قدر کے پیرامیٹرز کے تعین اور اصطلاحات کی کمی ہے (کیونکہ اس
جانب بہت کم توجہ دی گئی ہے) تو ہم مغربی اصولوں کا سہارا لیتے ہیں اور مغربی
تھیوری کو ہی تنقید کا نیا گلوبل ماڈل قرار دیتے ہیں۔
ہمارے ادب کی تہذیبی
خودمختاری کی مہم مغرب کی تنقیدی تھیوری سے نہیں بلکہ اپنی تخلیقی تحریروں سے شروع
ہوگی ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ’’دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام ‘‘ لیا جائے۔
ہمیں احیاء پرستی اور مردہ پرستی کے خطرے سے بھی آگاہ رہنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ
صورت ِ حال میں یہ اور بھی ضروری ہے کہ جب ساختیاتی تنقید ادب سے آزادخودمختار
ڈسپلن کی حیثیت حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے اور متن اور زبان کے بارے میں ٹیکنو
کریٹک اصطلاحات کے استعمال سے ادب کے تخلیقی عمل سے مبرا اپنی الگ مملکت قائم
کررہی ہے۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ مغربی نقاد دوسرے مغربی نقادوں کے بارے میں لکھ
رہے ہوتے ہیں اور دوسرے نقاد کچھ اور نقادوں کے بارے میں لکھتے ہیں اور ہم ان کے
بارے میں لکھتے ہیں۔ تنقید میں ایک ایسا زوال شروع ہوگیا ہے کہ تخلیقی ادب کا ذکر
ان تنقیدی تحریروں سے غائب ہوتا جارہا ہے۔ اگر یہی صورتِ حال رہی تو وہ وقت دور
نہیں جب ادبی اسکالرز نقادوں ، سماجی سائنسدانوں اور فلسفیوں کے نام تو گنوا سکیں
گے لیکن قارئین تخلیق کار اور ان کی تخلیقات کے بارے میں بے خبر رہیں گے۔ وارث
علوی نے صحیح کہا ہے کہ خود کام تنقید کو ادب کی ضرورت نہیں رہتی۔ وہ بولتی رہتی
ہے ادب کے حوالوں کے بغیر، ادیبوں کے ذکر کے بغیر، تاریخ، فلسفہ، تہذیب اور
معاشرتی علوم کے متن کے بغیر۔ یہ تنقید ادب نہیں بولتی صرف تنقید بولتی ہے اور ایک
ایسی زبان میں جو اس کا جازکون کہلاتی ہے۔
نئے تنقیدی آئینہ کی
تشکیل بھی مغرب میں ہوئی ہے اور اس میں حقیقت کا عکس بھی اس نے ہی منتقل کیا ہے
اور پھر ہم سے کہا ہے کہ اس عکس میں اپنے ادب ، ذہن اور کلچر کو ڈھالو ۔ رد عمل کے
طور پر ہم نے اپنی تہذیبی حقیقت کو تاریخ کے کسی ایک مخصوص موڑ پر رہ کر ایک نقطے
پر مرکوز کرنے کی کوشش شروع کردی۔ حالانکہ ہمارے تخلیقی ادب کا اتنا زیادہ اور بیش
قیمت سرمایہ موجود ہے جس طرح کہ مغربی تنقید کا ماڈل مغرب کے ادب اور فلسفے سے
پیدا ہوا ہے اسی طرح ہماری تنقید کا ماڈل ہمارے ادب اور تہذیب کے بطون سے پیدا
ہوگا۔
ہم ایک ایسے دور سے گزر
رہے ہیں جس میں تبدیلیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے ، جس میں فکری
رویے تیزی سے بدل رہے ہیں، عالمی الیکٹرانک میڈیا کے مرکب امیجز اور اطلاعاتی نظام
کے جنگجو سپاہی تہذیبی یکسانیت کی ترویج بھی کررہے ہیں اور تہذیبی تفریقات اور
تفاوتوں کو اجاگر کرکے تہذیبی خلفشار بھی پیدا کررہے ہیں۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ
تاریخ، تہذیب اور روایت سے ہمارا رشتہ توہم پرستی، اندھ وشواس اور ماضی (مردہ)
پرستی کا ، اور حال سے صارفیت اور جارحانہ مادیت کا نہ ہوکر نامیاتی اور ارتقاء
پزیر ہو تو ہمیں خوداحتسابی کے عمل سے گزرنا پڑے گا۔ ہمیں اس امر کو بھی فراموش
نہیں کرنا چاہئے کہ ہمارے ادب اور کلچر میں جو وسعت اور قوت ہے، تازگی اور توانائی
ہے، حرکت اور حرارت ہے وہ اپنے ادب اور کلچر کا تنقیدی ماڈل خود تشکیل کرسکتی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مغرب کی تمام تر قدیم اور جدید فکر کا احاطہ کرتے ہوئے مشرق
کی تمام تر روایات کو ساتھ لیتے ہوئے ہم اپنے ادب کے دائرہ ٔ فکر میں شامل ہوں اور
اس کے اندر اپنے منفرد تنقیدی ماڈل کی تشکیل کریں۔
10 جولائی 2023،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
---------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism