مولانا ندیم الواجدی
17 اپریل 2020
جنون اور پاگل پن:
مکی زندگی کے چالیس سال اس طرح گزرے کہ مکہ کا ہر شخص، کیا چھوٹا کیا بڑا، کیا امیر کیا غریب، سب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کرتے، آپؐ کی باتیں دھیان سے سنتے، آپؐ کو سچا مانتے، ایمان دار تسلیم کرتے، اپنی امانتیں آپؐ کے پاس رکھواتے، اپنے جھگڑوں میں آپ ؐ کو فیصل بناتے اور آپؐ کے تمام فیصلے بسر وچشم قبول کرتے، لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا دعویٰ کیا اور لوگوں کو بت پرستی سے دور رہنے اور توحید کی طرف آنے کی دعوت دی تو یہ لوگ یک لخت بدل گئے۔ کوئی ساحر و کاہن کہنے لگا، کسی نے دیوانہ اور مجنوں کہا، قرآن کریم میں ایسے لوگوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو آپ ؐ کو (نعوذ باللہ) مجنوں اور دیوانہ کہا کرتے تھے، فرمایا: ’’اور (کفار گستاخی کرتے ہوئے) کہتے ہیں: اے وہ شخص جس پر قرآن اتارا گیا ہے! بیشک تم دیوانے ہو۔‘‘ (الحجر:۶) اسی طرح ایک اور آیت ہے: ’’اب اُن کا نصیحت ماننا کہاں (مفید) ہو سکتا ہے حالانکہ ان کے پاس واضح بیان فرمانے والے رسول آچکے، پھر انہوں نے اس سے منہ پھیر لیا اور (گستاخی کرتے ہوئے) کہنے لگے: (وہ) سکھایا ہوا دیوانہ ہے۔‘‘(الدخان، ۱۳۔۱۴)
حالاں کہ ان ہی میں سے کچھ سمجھ دار ایسے بھی تھے جو اس طرح کے الزامات کی تردید کرتے تھے، وہ لوگ یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ دیوانے اور پاگل ہیں، نہ ساحر اور کاہن ہیں، یہ جو کچھ کہتے ہیں کسی مافوق الفطرت ہستی ہی کا کلام معلوم ہوتا ہے۔ ولید بن مغیرہ کا قصہ گزر چکا ہے، اس شخص کے دل ودماغ پر مہر لگ چکی تھی اسی لئے وہ حق قبول نہ کرسکا، حالاں کہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جو الزامات لگائے جاتے ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اسی طرح مشہور صحابی ہیں حضرت ابوذر غفاریؓ ، انہوں نے اپنے بھائی انیس کو تحقیقِ حال کے لئے مکہ بھیجا تھا۔ وہ مکہ آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی، واپس جاکر اپنے بھائی کو بتلایا کہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو شاعر، ساحر اور کاہن کہتے ہیں، میں نے ان کے کلام میں نہ کاہنوں والی بات دیکھی ہے اور نہ شاعروں والی، اللہ کی قسم وہ سچے ہیں اور لوگ جھوٹے ہیں ۔
(صحیح مسلم:۴/۱۹۱۹، رقم الحدیث: ۲۴۷۳)
اسی طرح ایک صحابی اور ہیں جن کا نام حضرت ضمادؓ بن ثعلبہ الازدی ہے، وہ بھی انہی دنوں کسی کام سے مکہ مکرمہ آئے تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیوانہ، مجنوں، ساحر اور کاہن کہا جارہا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے مکہ کے چند بے وقوفوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ محمد (نعوذباللہ) دیوانے ہیں، مجنوں ہیں۔ میں نے دل میں سوچا، چلو میں ان کو دیکھ لیتا ہوں، شاید اللہ تعالیٰ میرے ذریعے ان کو شفا دے دے۔ یہ سوچ کر میں ان کے پاس گیا، ان سے ملاقات کی اور کہا: اے محمد! میں پاگل پن کا علاج کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے میری جھاڑ پھونک سے شفا بھی عطا کر دیتا ہے، کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کو جھاڑ (پھونک) دوں؟ آپؐ نے فرمایا: تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، ہم اسی سے مدد طلب کرتے ہیں، وہ جسے ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا، اور جس کو گمراہ کردے اس کو کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس کے بعد آپؐ نے مجھ سے فرمایا: اب تم کہو، کیا کہنا چاہتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ جو کلمات آپ ؐنے ارشاد فرمائے ہیں وہ دوبارہ کہیں، آپؐ نے ان کلمات کو تین بار دہرایا۔ میں نے عرض کیا: اے محمدؐ! میں نے کاہنوں کی باتیں بھی سنی ہیں، جادوگروں کے اقوال بھی سنے ہیں اور شعراء کے اشعار بھی سنے ہیں، مگر جو کلمات آپؐ نے ارشاد فرمائے میں نے ایسے کلمات کہیں نہیں سنے، یہ تو دریائے بلاغت کی تہہ تک پہنچے ہوئے کلمات ہیں، آپؐ اپنا ہاتھ بڑھائیں، میں آپؐ کے دستِ حق پر اسلام کی بیعت کرتا ہوں۔ پھر انہوں نے بیعت کی، اس کے بعد فرمایا: میں تمہاری قوم کی بھی بیعت لیتا ہوں، میں نے عرض کیا ہاں میری قوم کی طرف سے بھی۔ (صحیح مسلم:۲/۵۹۳، رقم الحدیث: ۸۶۸، الطبقات الکبری: ۴/۲۴۱، اسد الغابہ ابن الاثیر: ۳/۴۱، ۴۲)
شاعری:
کچھ لوگوں نے قرآنی آیات کو شاعری کہہ کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش بھی کی، کیوں کہ آپ کی زبان مبارک سے جو کلمات ادا ہوتے تھے وہ فصاحت وبلاغت اور زبان ومعیار کے اعلیٰ معیار پر ہوا کرتے تھے، اس لئے ان کو آسانی کے ساتھ اعلیٰ درجے کی شاعری قرار دیا جاسکتا تھا، قرآن کریم نے ان کے اس الزام کی بھی سختی کے ساتھ تردید کی، فرمایا: ’’بے شک یہ (قرآن) بزرگی و عظمت والے رسولؐ کا (منزّل من اللہ) فرمان ہے، (جسے وہ رسالۃً اور نیابۃً بیان فرماتے ہیں) اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں (کہ اَدبی مہارت سے خود لکھا گیا ہو)، تم بہت ہی کم یقین رکھتے ہو۔‘‘ (الحاقہ: ۴۰، ۴۱)
حضرت عمر ابن الخطابؓ فرماتے ہیں کہ اسلام لانے سے پہلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں پیش پیش رہا کرتا تھا، ایک مرتبہ میں آپؐ کو تلاش کررہا تھا، ڈھونڈتے ڈھونڈتے میں اس جگہ پہنچ گیا جہاں آپؐ نماز پڑھ رہے تھے، آپؐ اس وقت سورۂ الحاقہ کی تلاوت فرمارہے تھے، میں پیچھے کھڑا ہوکر سننے لگا، جو کلمات آپؐ کی زبان سے نکل رہے تھے وہ اتنے اچھے تھے کہ میں بیان نہیں کرسکتا، میں نے دل میں سوچا کہ محمدؐ یقینی طور پر ایک بہترین شاعر ہیں، ابھی میں یہ بات سوچ ہی رہا تھا کہ آپ ؐنے یہ آیت (الحاقہ: ۴۰، ۴۱)پڑھی۔ یہ پہلا موقع تھا جب اسلام میرے دل پر اثر انداز ہوا۔ (تفسیر ابن کثیر: ۸/۲۱۷)
سیرت کی کتابوں میں نضر بن حارث کا قصہ بھی مذکور ہے، یہ بھی سرداران قریش میں سے ایک تھا اور ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت میں اور آپؐ کو ایذا دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیاتھا۔ ایک مرتبہ اس نے قریش کے لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: اے گروہِ قریش! خدا کی قسم! تم ایک ایسی مصیبت میں گرفتار ہوچکے ہو جس کے ازالے کی کوئی تدبیر تمہارے پاس نہیں ہے، جب محمد جوان تھے تو ان کے مقابلے میں کوئی جوان تمہیں پسند نہ تھا، وہ سب سے زیادہ سچے تھے، اور دیانت و امانت میں بھی سب سے بڑھ کر تھے، اور اب جبکہ ان کی کنپٹیوں کے بال سفید ہورہے ہیں تو وہ تمہارے پاس ایک نئی بات لے کر آئے ہیں، تم نے انہیں جادوگر کہا، نہیں! واللہ، وہ جادوگر نہیں ہیں، ہم نے جادوگروں کو دیکھا ہے اور ان کی جھاڑ پھونک کا مشاہدہ بھی کیا ہے، تم انہیں کاہن کہتے ہو، حالاں کہ خدا کی قسم وہ کاہن بھی نہیں ہیں، ہم نے کاہنوں کو بھی دیکھا ہے، اور ان کی حرکتیں بھی دیکھی ہیں، اور ان کے مسجع فقرے بھی سنے ہیں، تم نے انہیں شاعر بھی قرار دیا، خدا کی قسم وہ شاعر بھی نہیں ہیں، ہم شعر سمجھتے ہیں اور شاعری کی جملہ اصناف سے واقفیت رکھتے ہیں، تم انہیں (نعوذ باللہ) پاگل اور دیوانہ بھی قرار دیتے ہو، واللہ، وہ مجنوں نہیں ہیں، ہم نے دیوانے دیکھے ہیں، اور ان کی بہکی بہکی باتیں بھی سنی ہیں، اے قریش کے لوگو! تم محمد کے معاملے میں غور وفکر کرو، معاملہ بڑا خطرناک ہے اور نہایت اہمیت کا حامل بھی ہے۔ (تاریخ اسلام للذہبی: ۱/۱۵۷)
تحقیر اور استہزاء:
یہ تہمتیں تو اپنی جگہ تھیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) مجنوں ہیں، دیوانے ہیں، شاعر ہیں، ساحر ہیں، کاہن ہیں، وغیرہ، عام لوگوں کو ورغلانے کے لئے وہ یعنی مخالفین جو کچھ بھی کرسکتے تھے کررہے تھے اور جو الزام لگانا چاہتے تھے لگا رہے تھے، اس کے ساتھ ہی وہ آپؐ کو حقارت کی نظروں سے بھی دیکھتے، آپؐ کا مذاق بھی اڑاتے، خاص طور پر پانچ افراد ولید بن المغیرہ المخزومی، عاص بن وائل السہمی، اسود بن عبد المطلب، اسود بن عبد یغوث اور حارث بن قیس بن الطلاطلۃ نے بے شرمی اور کمینگی کی ساری حدود پار کر دی تھیں۔ رسولؐ اللہ کو ان کے رویّے سے بڑی ذہنی تکلیف تھی اور کبھی کبھی آپ کے چہرۂ انور پر اس تکلیف کے اثرات نمایاں بھی ہوجاتے تھے اور کبھی دل گرفتہ ورنجور ہوکر عزلت نشینی بھی اختیار فرما لیتے تھے، یہاں تک کہ اللہ رب العزت نے آپ کو تسلّی وتشفی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’یقین رکھو کہ ہم تمہاری طرف سے ان لوکوں سے نمٹنے کے لئے کافی ہیں جو (تمہارا) مذاق اڑاتے ہیں۔‘‘ (الحجر:۹۵)
اس آیت کریمہ کے نزول کے بعد ایک روز حضرت جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپؐ اس وقت حرم کعبہ میں تشریف فرماتھے، یہ پانچوں بدبخت جو ہمہ وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑاتے تھے بیت اللہ کا طواف کررہے تھے۔ اتنے میں ولید بن المغیرہ قریب سے گزرا، حضرت جبریل علیہ السلام نے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! یہ شخص کیسا ہے، آپؐ نے فرمایا: بہت بُرا انسان ہے۔ حضرت جبریلؑ نے اس کی پنڈلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بس اب آپؐ اس کی فکر چھوڑ دیں۔ اس کے بعد عاص بن وائل گزرا، اس کے متعلق بھی یہی سوال جواب ہوئے، عاص کے بعد اسود بن عبد المطلب، اسود بن عبد یغوث اور حارث بن قیس بھی طواف کرتے ہوئے گزرے، حضرت جبریلؑ نے ان لوگوں کے متعلق بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ہی دریافت کیا کہ آپؐ کی نگاہ میں یہ شخص کیسا ہے، آپؐ نے ہر ایک کے متعلق یہی جواب دیا کہ نہایت برا انسان ہے، جواب میں حضرت جبریل نے وہی کہا جو ولید کے سلسلے میں کہاتھا کہ بس اب آپؐ مطمئن ہوجائیں، اور ان کا انجام اپنے رب پر چھوڑ دیں۔ روایات میں ہے کہ حضرت جبریلؑ نے عاص کے تلوے کی طرف، اسود کی آنکھوں کی طرف، اسود بن عبد یغوث کے پیٹ کی طرف اور حارث کے سر کی طرف اشارہ کیا۔ اس واقعے کے بعد یہ پانچوں یکے بعد دیگرے مکہ مکرمہ میں ہی ہلاک ہوئے۔ بنو خزاعہ کا ایک شخص اپنا ترکش درست کررہا تھا کہ اس میں سے تیر نکل کر ولید بن مغیرہ کی پنڈلی پر جا لگا جو ٹھیک اسی وقت ایک یمنی چادر اوڑھے ہوئے ادھر سے گزر رہا تھا، اس تیر کا وہ زخم اس قدر کاری تھا کہ ٹانگ گل سڑ گئی اور اسی میں ہلاک ہوگیا۔ عاص بن وائل اپنے بیٹوں کے ساتھ جنگل کی سیر سپاٹے میں مصروف تھا، سواری سے اترتے ہوئے اس کے پاؤں کے تلوے میں کانٹا چبھ گیا، اس کی تکلیف اس قدر شدید تھی کہ عاص یہ سمجھا کہ اس کے پاؤں میں سانپ نے ڈس لیا ہے، دیکھا تو کچھ بھی نہ تھا، گھر واپس آیا تو کانٹا اپنا کام کرچکا تھا، بڑھتے بڑھتے یہ زخم اتنا بڑھا کہ اس کا پاؤں اونٹ کے سر کی طرح ہوگیا، ماہر اطباء کا علاج بھی کار گر نہ ہوا، اسی زخم کی تکلیف سے تڑپ تڑپ کر ہلاک ہوگیا۔ اسود بن عبد المطلب کی آنکھوں کی طرف اشارہ ہوا تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ حضرت جبریل علیہ السلام نے ایک سبز پتّا اس کی طرف پھینکا جو ٹھیک اس کی آنکھوں پر جا کر لگا، وہ شدتِ کرب سے بلبلا اٹھا، اس کی آنکھوں کی بینائی جاتی رہی، آنکھوں میں اس قدر شدید تکلیف تھی کہ وہ بار بار اپنا سر دیواروں میں مارتا تھا، اسی حالت میں واصل جہنم ہوا۔ اسود بن عبد یغوث کو استسقاء کا مرض لاحق ہوا، اور وہ یہ کہتے کہتے مر گیا کہ مجھے محمد کے خدا نے مار ڈالا۔ حارث بن الطُّلَاطلۃ کے تمام سر میں پھوڑے اور پھنسیاں نکل پڑیں، اور وہ اسی تکلیف میں مر گیا۔
(تفسیر بغوی:۳/۶۸، تفسیر قرطبی: ۱۰/۶۲)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ اور مسلمانوں کے تئیں ان کے تمسخر اور استہزاء کی کیفیت معلوم کرنی ہو تو قرآن کریم کی یہ آیت ضرور ملاحظہ کیجئے جس میں کفار کے اس کمینے پن کی مختلف کیفیتوں کی عکاسی کی گئی ہے، فرمایا:
’’بیشک مجرم لوگ ایمان والوں کا (دنیا میں) مذاق اڑایا کرتے تھے، اور جب ان کے پاس سے گزرتے تو آپس میں آنکھوں سے اشارہ بازی کرتے تھے، اور جب اپنے گھر والوں کی طرف لوٹتے تو (مومنوں کی تنگ دستی اور اپنی خوش حالی کا موازنہ کر کے) اِتراتے اور دل لگی کرتے ہوئے پلٹتے تھے، اور جب یہ (مغرور لوگ) ان (کمزور حال مومنوں) کو دیکھتے تو کہتے: یقیناً یہ لوگ راہ سے بھٹک گئے ہیں، حالانکہ وہ ان (کے حال) پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے۔‘‘(المطففین: ۲۹،۳۳) (جاری)
17 اپریل 2020 بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/words-that-prophet-saw-read/d/121594
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism