ڈاکٹر ایم اقتدار حسین فاروقی،
نیو ایج اسلام
18 اپریل 2024
ایک مرد کی تعلیم کے معنی
ایک فرد کی تعلیم کے ہیں
۔ جبکہ ایک عورت کی تعلیم کے معنی ایک خاندان کی تعلیم کے ہیں۔
ہر شخص جو خدا کی ذات پر
ایمان رکھتا ہے اورمذہب کو زندگی کا ضروری حصہ مانتا ہے وہ یہ دعویٰ یقینا کرتا ہے
کہ اس کے دین میں مرد اور عورت کو برابر کا
حصہ دیا گیا ہے اور سماج میں ان کے درمیان کسی قسم کی تفریق کو ناپسندکیا
گیا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ نہیں ہی کہ آیامختلف ادیان میں عورت کا حق مردوں کے برابر
ہے یانہیں بلکہ اصل سو ال یہ ہے کہ کیادنیا کےبیشتر معاشروں میں دین کے اصولوں
پرعمل پیرا ہو کر مردوں نے عورت کواس کاحق دیا ہے اور صنف کی بنیاد پر کسی قسم کی
تفریق سے گریز کیا ہے؟ تاریخی حقائق اس سچائی کے اشارے پیش کرتے ہیں کہ پچھلے دو
ہزار سال کے دوران دنیا کے بیشتر معاشرتی نظام میں عورت کو اس کا دینی اور سماجی
حق دینے میں رکاوٹیں پیدا کی جاتی رہی ہیں۔ کبھی یہ رکاوٹیں روایتی تقاضوں کی بنا
پر پیدا کی گئیں تو کبھی غلط اندازے سے دینی اصولوں کو اپناکر۔ پچھلے چند سو سال
کی تاریخ تو یقینی طور سے عورت پر مظالم کی تاریخ ہے جس سے شاید ہی کوئی معاشرہ
بری الذمہ ہو۔ اسلامی معاشرہ میں بھی عورت کا درجہ پندرہویں صدی عیسوی کے بعد بہت
کچھ کم کردیا گیا۔ دینی اوردنیاوی علوم سے دور رکھ کر اسے بڑی حد تک گھروں کی چہار
دیواری میں قید کردیا گیا۔ اس کے سماجی حقوق سلب کر لئے گئے لیکن اس روش کے باوجود
اسلامی معاشرہ کاحال دنیا کے دوسرے معاشروں کی نسبت شاید بہتر ہی تھا۔ عورت کی
تذلیل جس حد تک دنیا کے بیشتر معاشرتی نظام کی جاتی رہی اس حد تک شاید اسلامی
معاشرہ میں نہ کی گئی۔ اس سچائی کو ایڈوڈاٹیا (Edward
Atiya)
تسلیم کرتے ہوئے لکھتا ہے۔
’’اسلامی معاشرہ میںعام
طور سے مسلمان عورت (بیوی) کی حالت یورپ کی عیسائی معاشرہ سے ہمیشہ سے بہتر تھی
اور یہ حال اس وقت تک رہا جب تک کہ عورت کے تحفظ کا حالیہ (1920) قانون یورپ میں
نافذ نہ ہوگیا‘‘۔ (The Arab. 1942)
Hitti، Guthriاور ؓ Brown جیسے
دیگر یورپی مورخین کانظریہ ہے کہ
اسلامی معاشرہ کا زوال پندرہویں صدی میں شروع ہوا اور اسی دور میں الف لیلیٰ کی
کہانیاں کچھ اسی طرح لکھی گئیں جن میں عورت کو ایک چالاک شخصیت کا روپ دیا گیا۔
عورت کی اس تصویر نے اس کو بڑا نقصان پہونچایا۔
اسلام کے وجود میں آنے کے
بعد یعنی ساتویں صدی عیسوی سے لیکر پندرہویں صدی عیسوی تک کے اسلامی معاشرہ کا
جائزہ لیاجائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان دنوں عورت سماج کا اتنا ہی اہم حصہ تھی جتنا
کہ مرد۔ تقریباً آٹھ سو سال کی اسلامی تاریخ خواہ وہ عرب کی ہو،اسپین کی ہو، مصر
کی ہو، مراکش کی ہو یا پھر ایران وبخارا کی، یہ ثابت کرتی ہے کہ روز مرہ کے
معمولات میں عورت نہایت مثبت رول ادا کرتی تھی اور علم کی دولت سے مالا مال تھی۔
اس صورت کی اصل وجہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ارشادات تھے جنہوںنے
مسلمان عورتوں میں خوداعتمادی اور آزادی کی ایک لہر پھونک دی تھی۔
اسلام سے قبل دنیا کے
دوسرے معاشروں کی طرح عرب معاشرہ میں بھی عورت کی پیدائش باعث شرم اور تردد تھی۔
پیدائش کے فوراً بعد ہی اسے دفن کردینا عربوں کا ایک معمول بن چکا تھا اور یہ جرم
اس حد تک بڑھ گیا تھاکہ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ سے تنبیہ فرمائی۔
’’اور جب قیامت کے دن زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ
کس گناہ پر ماری گئی (سورہ تکویر۔ آیت 9-8)
قرآنی تنبیہ نازل ہونے کے
بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے برتائو اور ارشادات سے مسلمانوں میںایسا
ماحول پیدا فرمایا کہ عورت بے خوف ہوگئی۔ مدینہ اور مکہ میں وہ اپنی بات کہتی،
اپنا حق جتاتی اور مردوں کے شانہ بشانہ اشاعت اسلام کے کاموں میں حصہ لیتی اس کی
خوشی کی انتہا نہ رہی جب اس نے حضور کی زبان مبارک سے یہ سنا کہ ’’جو شخص بیٹی اور
بیٹے میں فرق نہیں رکھتا اس کے لئے اللہ جنت کا دروازہ کھول دیتا ہے (ابودائود)
اور پھر حضور اکرم نے یہ بھی تو ارشاد فرمایا کہ ’’جس کسی نے اپنی تین (کئی)
لڑکیوں کو پرورش کی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کیا اس کے لئے جنت یقینی ہے‘‘۔ (ابو دائود، ترمذی)
ا رشادات کے علاوہ رسول
کریم کے اسوہ حسنہ نے عورت کواس کا صحیح مقام دلوایا۔ بخاری ومسلم کی متعدد احادیث
اس حقیقت کی روشن مثالیں ہیں۔ خوشی اور پریشانی کے وقت ہمیشہ عورت حضور کے قریب
رہی۔ یہ کون نہیں جانتا کہ جب رسول پر پہلی وحی نازل ہوئی اور اس کے نتیجہ میں بے
چینی اور فکر آپ میں پیداہوئی اسے رفع کرنے اور رسالت پر ایمان لانے والی ہستی بھی
ایک خاتون کی تھی (بخاری)۔ معراج کا واقعہ ہوا اور آپ پر ایک خاص کیفیت طاری ہوئی
تو اس کی اطلاع بھی حضور نے سب سے پہلے ایک خاتون کو دی۔ (سیرت رسول ابن ہشام)۔ یہ
واقعہ بھی سب کے علم میں ہے کہ نبی کریم زندگی کے آخری لمحات میں آپ کا سر مبارک
جس زانو پر تھاوہ زانو بھی ایک خاتون کاتھا۔ (بخاری)
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ
نبی کریم اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ زہرا سے بے پناہ محبت فرماتے اور وہ جب بھی آپ
کے پاس آتیں تو آپ ان کے سر کا بوسہ لیتے اور اپنے پاس ہی بٹھاتے۔(بخاری ،مسلم)
اسلامی تاریخ کے واقف کار
بخوبی جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں عورتوں نے
اسلام کی ترویج وترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ حضرت ام سلمیٰ جنک احد اور جنگ حنین
میں شریک تھیں۔ بخاری کی ایک حدیث کے مطابق حضرت ربیعہ بنت معوذ فرماتی ہیں ’’ہم
نبی کے ساتھ جہاد میں حصہ لیتے، اپنی قوم کو پانی پلاتے اور مقتولین ومجروحین کو
میدان جنگ سے لاتے‘‘ حضرت ام عطیہ نے فرمایا کہ ’’میں نے سات جہادوں میںحصہ لیا
اورمجروحین کی مرہم پٹی (تیمارداری) کی۔ (مسلم)
قرون وسطیٰ کے اسلامی
عروج کے تمام عرصے کے دوران کسی کے لیے اسلامی قانون میں موجود کسی بھی حکم کے
ذریعے عورت کے ساتھ کسی بھی بدسلوکی کا جواز پیش کرنا ناممکن تھا اور نہ ہی کوئی
خواتین کے دیے گئے واضح قانونی حقوق کو منسوخ کرنے، کم کرنے یا مسخ کرنے کی جرأت
کر سکتا تھا۔ شریعت میں درحقیقت مسلم خواتین کی ساکھ، پاکیزگی اور زچگی کے کردار
کو مغرب کے مبصرین نے سراہا ہے۔
ابن اسحاق (سیرت رسول) کا
قول ہے کہ خیبر کی جنگ میں عورتوں نے بڑی تعداد میں حصہ لیا .۔انصاری صحابیہ ام
امارہ نے جنگ احد میں نہایت بہادری کا مظاہرہ کیا اورنبی کریم کی حفاظت میں حصہ
لیتی رہیں (سیرت رسول۔ ابن ہشام)۔ مختلف جہادوں میں جنگی سامان (تیر وغیرہ)
اوردوائوں کومیدان جنگ میں پہنچانے کا کام عورتوں کے سپرد تھا (ابودائود) ۔رسول اللہ کی پھوپھی حضرت صفیہ بھی
جنگ احد میں شریک تھیں۔ انہوں نے غزوہ خندق میں بھی حصہ لیا۔ غزوہ قدسیہ میں حضرت
حسینہ اپنے چار بیٹوں کے ساتھ شریک تھیں۔ حضرت ام عامرہ نے جنگ احد کے علاوہ جنگ
خیبر اورجنگ حنین میں بھی حصہ لیا۔ حضرت انس بن مالک سے مروی ایک حدیث میں بیان
ہوا ہے کہ نبی کریم جہاد کے سفر کے دوران انصار عورتوں کو اپنے ساتھ لے جاتے جہاں
وہ مجاہدین کو پانی پلاتیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتیں (مسلم) ۔غرضیکہ نہ جانے
کتنی خواتین کے نام ہیں جودور نبوی میں نہایت اہم تھے اورجو اسلامی تاریخ کاحصہ بن
چکے ہیں۔ حضور اکرم کے زمانہ کے حالات بھی متعدد خواتین کے بیانات سے واضح ہوتے
ہیں۔ بخاری اور مسلم سمیت صحاح ستہ کی نہ جانے کتنی احادیث خواتین کے نام سے مروی
ومنسوب ہیں۔ ان میں سر فہرست نام حضرت عائشہ کا ہے جن کی بیان کردہ دو ہزار سے
زیادہ احادیث حضور کے معمولات پر بہت اہم روشنی ڈالتی ہیں۔
عورتوں کی آزادی کا سلسلہ
دور محمدی میں پروان چڑھا اور یہ خلفاء راشدین کے دور سے لے کر تابعین اور تبع
تابعین کی معرفت ہوتا ہوا اسپین اور بغدادکی خلافت تک کچھ اس طرح پہونچا کہ چہار
جانب عورت کی شخصیت کی چھاپ نظر آنے لگی۔۔ تجارتی منڈی کا کام بھی خواتین کودیا
جانے لگا۔ عطر کی تجارت میں حضرت اسماء
نام کی ایک خاتون نے بڑی شہرت حاصل کی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی اہلیہ نے بھی بڑے
پیمانہ پر تجارت کا کام شروع کردیا۔ چھوٹی اور بڑی تجارت میں عورتوں کی دلچسپی کا
سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں شروع ہوگیا تھا جس کا ایک اشارہ
بخاری کی اس حدیث سے ہوتا ہے جس میںحضرت سہیل بن سعد سے منسوب بیان کے مطابق ایک
خاتون جمعہ کے دن چقندر کا سالن پکاتیں اور بعد نماز جمعہ مسجد کے دروازے پر اسے
فروخت کرکے نمازیوں کی خاطر کرتیں۔
خلافت راشدہ کے دور میں
عورتوں کا رول اور اس کی اہمیت کا اندازہ مرغاب کی جنگ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہی
جب کہ اسلامی فوجوں کا مرغاب میں پڑائو تھا اور فارس کی فوج نے ان پر
زبردست حملہ کر دیا۔دن
بھر خوں ریز جنگ ہوتی رہی اوراسلامی فوج کی شکست کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ موقع کی
نزاکت کا احساس کرتے ہوئے مسلمان عورتیں اپنے خیموں سے باہر نکل آئیں اور اپنی
اوڑھنیوں کو جھنڈا بنا کر میدان جنگ میں کود پڑیں نتیجہ میں مسلمانوں کی ممکنہ
شکست فتح میں بدل گئی اور یہ فتح اسلامی تاریخ کا ایک اہم موڑبن گئی۔
صحابہ کرام کی بیویاں
کتنااثر ورسوخ رکھتی تھیں اس کی مثال فارس کی ایک اورجنگ سے دی جاسکتی ہے جب حضرت
سعد بن وقاص کی قیادت میں اسلامی فوجیں مجوسیوں سے بر سر پیکار تھیں۔ حضرت سعد کے
خیمہ کے باہر محجن نامی سپاہی زنجیروں میں جکڑا پڑا تھا جس کو حضرت سعد نے اس بات
کی سزا دی تھی کہ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی اس نے شراب نہ چھوڑی تھی۔ محجن خیمہ
سے جنگ کا منظر دیکھ رہا تھا اور یہ
شعرکہتا جا تا تھا جس کا مفہوم کچھ اس طرح تھا۔
میرے ساتھی جنگ میں
بہادری سے لڑ رہے ہیں کاش میں ان کے ساتھ ہوتا اور تلوار کے جوہر دکھاتا۔
یہ شعر سن کر حضرت سعد کی
بیوی سلمیٰ خیمہ سے باہر آئیں اورمحجن کی زنجیریں اس شرط پر کھول دیں کہ وہ جنگ
میں شریک تو ہو لیکن شہید نہ ہونے کی صورت واپس آکر پھر زنجیریں ڈلوالے۔ محجن نے
اس شرط پر قسم کھائی اورمیدان جنگ کا رخ کیا۔ اس نے دشمنوں پر شدید حملہ کیا
اورجنگ کاپانسہ پلٹنے میں معاون ہوا۔ لڑائی کے دوران حضرت سعد نے محجن کو دیکھا
اور متعجب ہوئے کہ وہ میدان جنگ میں کیسے آگیا۔ دیر شام کو وہ خیمہ میں واپس ہوئے
تو وہاں محجن کو زنجیروں میں پایا۔ حضرت سلمیٰ نے پورا واقعہ سنایا اور بغیر حضرت
سعد کی اجازت کے جنگ کے انتہائی نازک موڑپر محجن کو آزاد کردینے کے اپنے عمل کا
جواز پیش کیا۔حضرت سعد خاموش ہوگئے۔ یہ تھی ایک عورت کی ہمت اور اہمیت، اسلامی فوج
کے سپہ سالار کے سامنے۔
دینی معاملات میں بھی
عورتیں نمایاں رول ادا کرتی رہیں۔ حضرت زینب اپنے دور میں علم فقہ کی نہایت اہم ہستی مانی جاتی تھیں اورلوگ
ان سے دینی مسائل معلوم کرتے۔ وہ نہایت با ہمت خاتون تھیں۔ انہوں نے جس دلیری سے ملعون یزید کے دربا ر میں
اس پرسخت الفاظ میں لعنت بھیجی تھی۔ وہ
اسلامی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے ۔جبر
اور ظلم کے خلاف انکی پرجوش تقریریں حضرت زینب مسلم خواتین کے لئے
ایک رول ماڈل کا احساس دلاتی ہیں۔
وہ اسلام میں قربانی اورتقویٰ کی علامت تھیں
فاطمہ الفہری نامی ایک
امیر اور دولت مند خاتون نے 859
عیسوی میں مراکش کے شہر فیزمیںقراوین یونیورسٹی قائم کی۔ گنیز ورلڈ ریکارڈز اور
دیگر معتبر ذرائع کے مطابق قراوین کو دنیا
کی قدیم ترین یونیورسٹی کہا جاتا ہے جو آج بھی زیر استعمال ہے۔
حضرت رابعہ بصری (وفات ۸۰۱ء) بھی ایک زبردست دینی
شخصیت تھیں اور اسلامی تاریخ میںحضرت حسن بصری کے بعد دوسری اہم صوفی بزرگ تصور کی
جاتی تھیں۔
خلافت عباسیہ اوراسپین کی
خلافت کے دوران عورت غالباً سماجی اہمیت کے اعتبار سے اسلامی معاشرہ میں معراج پر
پہونچ چکی تھی۔ بغداد اور قرطبہ کی دس لاکھ آبادی کے شہروں میںبارہ سال کی ہر لڑکی
لکھناپڑھنا جانتی تھی۔ علم کے اس تابناک دور کی بابت ڈونالڈ کیمبل (Donald
Cambell)
رقم طراز ہے۔
When Caliphs of Baghdad and Cardova endowed and
fostered education amongst their subject to the extent that every boy and girl
of twelve could read and write, Barons, Lords and their ladies of Europe were
scarcely able to write their names.(Arab Medicine)
ترجمہ : جب بغداد اور قرطبہ
کے خلفاء تعلیم کو عام کرنے میں لگے ہوئے تھے اور وہاں بارہ سال کی ہر لڑکی اور لڑکا
پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔ اس وقت یورپ کے امراء اور رئوساء اوران کی عورتیں بہ مشکل اپنا
نام لکھ سکتی تھیں ۔
اینمیری شمل Annemarie Schimmel کہتی ہیں کہ
"عورتوں کے قبل از اسلام مقام کے مقابلے میں، اسلامی قانون سازی کا مطلب ایک
بہت بڑی پیش رفت ہے؛ عورت کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اس دولت کا انتظام کرے جو وہ
خاندان میں لائی تھی یا اپنے کام سے کمائی تھی۔" اسی طرح ولیم منٹگمری
واٹ William
Montgomery Watt
کا کہنا ہے کہ " محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، اپنے وقت کے تاریخی تناظر میں،
ایک ایسی شخصیت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس نے خواتین کے حقوق کو فروغ دیاـحد
تک بہتر کیا"۔ واٹ مزید بتاتاہے: "جس وقت اسلام شروع ہوا، اس وقت عورتوں
کے حالات خوفناک تھے - ان کے پاس جائیداد کا کوئی حق نہیں تھا، مرد کی ملکیت سمجھی
جاتی تھی، اور اگر مرد مر جائے تو سب کچھ اس کے بیٹوں کے پاس چلا جاتا ہے۔"
محمد صلی اللہ علیہ وسلم تاہم، جائیداد کی ملکیت، وراثت، تعلیم اور طلاق کے حقوق
قائم کرکے، خواتین کو بنیادی تحفظات فراہم کیے ہیں۔"
دور وسطیٰ کے اسلامی
معاشرہ میںعورت کی چھاپ پر اگر روشنی ڈالی جائے تواس کے لئے دفتر کے دفتر در کار
ہوں گے۔ عہد عباسیہ میں شہزادیوں کا خلافت کے سیاسی اور سماجی امور میں
برابر کا دخل ہواکرتا
تھا۔ ہارون رشید کی والدہ خیزران اور بیوی زبیدہ دونوں ہی امور مملکت میں حصہ لیتی
تھیں۔ زبیدہ اچھی شاعرہ تھیں اور ادبی محفلوں میں شرکت کرتیں۔ خلیفہ مقتدر کی
والدہ عدالت عالیہ کی صدر تھیں اوراہم فیصلے صادر کیا کرتی تھیں۔ خلیفہ مامون کے
دور میں ایک ہزار سات سو خواتین حکومت کے محکمہ ڈاک وجاسوسی میں ملازم تھیں۔۔
خلیفہ الامین کے دور خلافت میں عورتوں کی بڑی تعداد سرکاری ملازمت میں تھی۔ ۔ دور
فاطمی میں مصر کے اسپتالوں میں مریضوں کے لئے ایک طرف قراء ت سنانے کا انتظام تھا
تودوسری جانب ہلکی موسیقی سنائی جاتی اور عورتیں نرسنگ کا کام کرتیں۔ فاطمی دور ہی
میںحرہ نام کی خاتون یمن کی گورنر بنائی گئی تھیں۔
اسپین کا اسلامی دور یورپ
کی تاریخ کا درخشاں دور کہلاتا ہے۔ وہاں کی عورت اتنی باصلاحیت اورعلمی اعتبار سے
اتنی بلند تھی کہ یورپ کے دوسرے علاقوں کی عورتیں ان پر رشک کرتیں اوران کی نقل
کرنا فخر کی بات سمجھتیں۔ عائشہ نام کی
ایک خاتون جو قرطبہ کے پرنس احمد کی صاحبزادی تھیں فن خطابت اور فلسفہ میںاپنی
مثال آپ تھیں۔ لبنیٰ نام کی خاتون مشہور فلسفی تھیں اورخلیفہ الحکم کی پرائیوٹ
سکریٹری تھیں۔ اشبیلہ کے یعقوب انصاری کی بیٹی مریم عربی نیز عبرانی زبانوں پر
عبور رکھتی تھیں اور فن خطابت میں ماہر ہونے کی بناپر اسلامی دنیا میں خوب جانی
جاتی تھیں۔ عہد وسطیٰ کے اسلامی معاشرہ میںعورت کی شخصیت کی بہترین نشوونما ہونے
کا علم یورپ کی قوموں کو بخوبی تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اس معاشرہ کی پرورش پائی ہوئی
ہر عورت خواہ وہ مسلمان ہو یا یہودی، نصرانی ،یامجوسی، سب ہی علم کی دولت سے
مالالا مال تھیںاور تہذیب میں لاثانی۔،مذہب کی بنیادپر مسلم اورغیر مسلم عورتوں
میںکسی قسم کا فرق رکھنا اسلامی شعار کے خلاف سمجھا جاتا تھا۔ یورپین مورخین لکھتے
ہیں کہ صلیبی جنگوں کے درمیان عیسائی سپاہی یہ خواہش رکھتے تھے کہ ان کی شادیاں ان
عیسائی عورتوں سے ہوجائیں جو اسلامی ماحول میں پرورش پا چکی ہوں۔ یہ تھا دور وسطیٰ
کا اسلامی معاشرہ اور اس کا آزادانہ ماحول۔
دور وسطیٰ کے اسلامی
معاشرہ کا مقابلہ جب پچھلےچار سو سال کے
مسلم معاشرہ سے کیا جاتا ہے تودل دکھتا ہے، شرم محسوس ہوتی ہے۔ کہاں عہد عباسی کی
تعلیم یافتہ عورت اورکہاں پچھلے چارسو سال
کے معاشرہ کی علم سے بیگانہ عورت جس کی بابت یہ روش اپنائی گئی کہ مسلمان عورت کے
حق میں ہے کہ وہ عصری علوم سے دور رہے اور اگر علم حاصل کرے بھی تو پڑھنا جانے
لکھنا نہ جانے۔ یہ تک کہہ دیا گیا ’’تعلیم سے لڑکیوں میں بے حیائی پیدا ہوتی ہے بس
انہیں بہشتی زیور پڑھا دینا چاہئے‘‘۔ (اردو ہفت روزہ ( لکھنئو)میں شائع ایک معروف رہنما کا مضمون۔ اگست 1996ء)
1901میںکئے گئے سروے سے یہ حقیقت واضح بھی ہوئی کہ ایک سوہندوستانی
عورتوںمیں صرف دو عورتیں لکھنا پڑھنا جانتی تھیں۔ مسلمان عورتوں میں یہ تناسب دو
سے بھی کم تھا یہ حال کم و بیش پوری اسلامی دنیا کا تھا۔ اللہ اللہ۔ ازمنہ وسطیٰ
میں عورتوں کی خواندگی سو فیصد اور بیسویں صدی میں کم وبیش ایک فیصد۔ افسوس اور
حیرت تواس بات پر ہے کہ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں جن مسلم
دانشوروں نے ہندوستان میں عورتوں کی تعلیم کی خاطر مدارس کھولنے چاہے ان پرخوب لعن
طعن کی گئی اور ایسا مطعون کیا گیا کہ ان میں سے زیادہ تر دل برداشتہ ہوکر ہمت ہار
بیٹھے۔ بیسویں صدی کے شروع میں ایسے ہی ایک ذی علم مسلمان نے لکھنؤ میں ایک نسواں
اسکول کھولا تو ان کے خلاف سخت باتیں کہی گئیں اورمشورہ دیا گیا کہ ایسے آدمی کے
جنازہ میں مسلمانوں کو شرکت نہ کرنی چاہئے
بیسویں صدی میں دنیا کی بیشتر
قوموں نے مغرب کی ظالم طاقتوں
چھٹکارہ پا لیا ۔ مسلم دنیا بھی آزاد ہوئی لیکن عورتوں کی تعلیمی حالت کوئی امید افزا تبدیلی نہ لائی جا سکی۔۔ ایک خبر
رساں ایجنسی کے بموجب ـ۔
ــ. معاشرہ میں عورت کو
ناخواندہ رکھنے اور کمتر بنانے کی ذمہ داری غالباً مسلمانوں کے ہر طبقہ پر آتی ہے۔
مسلمان دانشور، دولت مند حضرات، زمیندار اور تعلقدار، امراء اور رئوساء اور رہنما،
غالباً سبھی اس حالت زار کے ذمہ دار ہیں۔
بہر حال وقت آگیا ہے کہ
ہم حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس قول پر دھیان دیں کہ۔
’’علم مومنوں کی کھوئی ہوئی بھیڑ (بکری) ہے اسے واپس لو (حاصل کرو)
خواہ وہ منکروں سے ہی کیوں نہ ملے‘‘۔ اور یاد رہے کہ علم وراثت ہے (کھوئی ہوئی
بھیڑ ہے) سارے مسلمانوں کی۔ خواہ وہ مرد ہوںیا عورت۔ کیونکہ نبی کریم کا ارشاد ہے۔
’’علم فرض ہے ہر مسلمان مرد اور عورت پر‘‘۔ (راوی حضرت انس بن مالک
۔ ابن ماجہ ۔ بیہقی)
امریکہ کے ایک دانشور محمد یحییٰ کا کہنا ہے کہ- ـــــ
ـاسلام کی شروعات میں مسلم
سماج میں عورتوں کا جو عروج تھا وہ دنیا کے کسی دوسرے سماج میں نہ تھا۔ افسوس کہ
آج کی اسلامی دنیا میں عورتوں کے حقوق کی پامالی ایک عام بات ہوگئی ہے۔
،سوڈان کے دانشورڈاکٹر حسن عبداللہ الترابی کا نظریہ ہے کہ- شریعت
کے وہ احکام جو آزادیٔ نسواں کے متعلق ہیں ان کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ آج کی زوال شدہ مسلم سوسائٹی
میں اسے وراثت میں وہ حصہ بھی نہیں ملتا
ہے، جو شریعت کے عین مطابق ہے۔عورت کو سماجی انقلاب لانے سے روکا جاتا ہے۔ چنانچہ
آج ایک ایسے انقلاب کی ضرورت ہے، جس میں عورت کو وہ آزادی ملے، جو اسلامی تعلیمات
کے عین مطابق ہو۔
آج ہمیںاس سچائی کو
تسلیم کر لینا چاہئے کہ ماضی بعید کے اسلامی معاشرہ میں جو اہمیت اور حیثیت خواتین
کی تھی وہ ماضی قریب میں گھٹتی رہی اور
بیسویں صدی کے اواخر تک بہت کم ہو گئی۔ لیکن نہایت مسرت کا مقام ہے کہ آج اکیسویں صدی کے ترقی
پسند سماج میں آزادی نسواں کے سلسلہ میںPositive طریقہ کار اپنایا جا رہا ہئے جسکا نتیجہ ہے کہ زیادہ تر مسلم
ممالک میں عوامی خواندگی بڑھنے کے ساتھ خواتین میں بھی خواندگی کا اضافہ ہوا ہے اور مرد۔عورت کے درمیان خواندگی
کے فرق میں خاطر خواہ
کمی آئی ہے
خوش قسمتی سے 21 ویں صدی
میں، خاص طور پر 2010 کے بعد، اسلامی دنیا میں خواتین کی تعلیم کو ترجیح ملنا شروع
ہوئی اور اس وجہ سے، مرد اور خواتین کی خواندگی کے درمیان فرق قابل تعریف حد تک کم
ہو رہا ہے۔ کے بعض مسلم سکالرز نے دعویٰ کیا ہے کہ حالات خواتین کے حق میںبڑی حد
تک بدل گئے ہیں جس کے نتیجے میں بہت سے ممالک جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں جیسے
انڈونیشیا، پاکستان، بنگلہ دیش اور ترکی کی قیادت خواتین نے کی ہے۔ مصر کی
پارلیمنٹ کا تقریباً ایک تہائی حصہ بھی خواتین پر مشتمل ہے۔
مسلم ممالک کی شرح خواندگی
کے بارے میں اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کی حالیہ رپورٹس انتہائی حوصلہ افزا ہیں۔ یہ
جان کر واقعی خوشی کی بات ہے کہ کم از کم ترقی یافتہ مسلم ممالک میں خواتین کی شرح
خواندگی میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس وجہ سے مرد اور خواتین کی شرح میں
فرق قابل تعریف حد تک کم ہو رہا ہے۔ یہ انتہائی تسلی بخش صورتحال ہے۔ کم از کم 22
ممالک مرد اور خواتین کے درمیان فرق کو 0 سے 5 فیصد تک کم ظاہر کرتے ہیں۔ وہ
اسطرح ہیں:
آذربائیجان (100%، خواندگی۔۔ فرق% 0.0)؛
تاجکستان--(100--0.0)؛ قازقستان
(100--0.0)؛ ؛ ترکمانستان
(100--0.0)؛ کرغزستان (100--0.0)؛ ازبکستان
(---100.0.0)؛
سعودی
عرب-(97.4%--2.6)؛ ترکیہ، ;(4.7%---97.8%) یو۔اے۔ای،
(1.1%--96.9%)
۔البانیہ: (97.8% :
0.7%) ؛ بحرین (94.9%
--(4.5%؛ بنگلہ دیش،(7%.82--3.7%)؛
بوسنیا،97.5%).2.0%--)؛ برونائی،
(4.7%---93.4%) مصر67.4%)
--4.5%)؛ انڈونیشیا94.6%)--(2.8%؛ ایران
(2.6% --88.8%)؛ اردن (0.8% --97.8%)؛ کویت (1.7% -- 95.4%)؛ لبنان (93.3%-3.6%)؛ ملیشیا
(93.6%--2.6%) ؛ مالدیپ
(98.1%--0.8%)ن؛ عمان (92.7%--4.3%)؛ قطر(92.4%--2.3%)۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے
مطابق الجزائر کی خواتین کی شرح خواندگی 81.4%تک پہنچ گئی ہے جبکہ مردوں کی شرح
خواندگی75.3% ہے جو کہ61% کا الٹا فرق ہے۔
غربت اور ناخواندگی ایک
دوسرے کے ساتھ چلتی ہے۔ برکینا فاسو جیسے غربت زدہ علاقوں میں تعلیم کے مراکز ہی بہت کم ہیں ۔
ڈیل میں وہ ممالک درج ہیں جنکی
خوندگی ساٹھ فیصد سے کم اسی لئے
مرد و عورت کے درمیاان خواندگی کا فرق گیارہ فیصد سےتیس
فیصد تک ہے:
افغانستان۔۔برکینا
فاسو۔۔شاذ۔۔گنی۔۔گنی بساؤ۔۔۔، کوموروس۔۔ گیمبیا۔۔۔۔ موریطانیہ۔۔ لیبیا۔۔مراکش۔۔
نائیجیریا۔۔ پاکستان۔۔سینیگال۔۔ سیرا لیون۔۔ سوڈان۔۔۔۔ سومالیا۔۔؛ یمن
نوٹ: عراق، ،لیبیا۔؛ تیونس، مراکش، تیونس اور پاکستان وہ ممالک ہیں جنکی خواندگی ساٹھ فیصد سے زیادہ تو ہے لیکن
مرد و عورت کی خواندگی میں فرق گیارہ
فیصد اور
بائیس فیصد کے درمیان ہے
یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ
خواندگی کی کم شرح، کم یا زیادہ ہونے کے باوجود، مسلم ممالک میں اعلیٰ تعلیم کے
مراکز میں خواتین کا داخلہ مردوں سے زیادہ ہے۔ فوری طور پر، ایران میں یونیورسٹی
کے موجودہ طلباء میں سے تقریباً 60 فیصد خواتین ہیں ایران میں اعلیٰ تعلیم میں
خواتین کی شرح میں 20 گنا اضافہ ہوا ہے – 1978 میں تین فیصد سے 2022 میں 80 فیصد
تک۔ (سرکاری رپورٹ 2023)۔
. سعودی عرب میں اس وقت 36 یونیورسٹیاں ہیں جن میں سے زیادہ تر
خواتین کو داخلے کی اجازت دیتی ہیں جن میں سے کئی صرف خواتین کے لیے ہیں۔ شہزادی
نورہ بنت عبدالرحمن یونیورسٹی دنیا کی خواتین کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے۔ یہ 1970
میں سعودی عرب میں خواتین کے لیے پہلے کالج آف ایجوکیشن کے طور پر قائم کیا گیا
تھا۔
2022 میں، ملیشیا کی پبلک یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے والے طلباء
(39%) اور طالبات61%) ) تھیں
(وزارت تعلیم ملیشیا، 2022)۔
2018 میں سائنس میں خواتین کے لیے لبنانی یونیورسٹیوں میں
طالبات کا اوسط اندراج تقریباً 54 فیصد تھا۔
2021 میں، مراکش کے سرکاری اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے
یونیورسٹی کی طالبات کا حصہ 52 فیصد تھا۔
اردن کی بادشاہی میں
یونیورسٹیوں کے طلبہ کی تنظیم میں طالبات
کا حصہ 56 فیصد ہے۔
پاکستان کے سرکاری اداروں
میں ڈگری سطح کی تعلیم میں طالبات کا داخلہ 62
فیصد ہے
اسلامی دنیا کی تقریباً
تمام اعلیٰ یونیورسٹیوں میں خواتین کے زیادہ داخلے کی اطلاع ہے۔ سعودی عرب کی کنگ
عبدالعزیز یونیورسٹی میں فوری طور پر،طالبات: طلباکا تناسب 45: 55 ہے۔ (تعلیمی
سیشن 2022-2023 کے لیے)
عالم اسلام سے کچھ اور
مثالیں درج ذیل ہیں: (طلبا:طالبات)
(۱) قطر یونیورسٹی،
)طلبا 28 : طالبات
72 ) (۲) متحدہ
عرب امارات یونیورسٹی، 23: (77
(۳) کویت
یونیورسٹی،::30 (70 (۴) کوک یونیورسٹی، ترکی،
(52:48)
(۵) ا
مریکن یونیورسٹی آف بیروت لبنان،) (52:4
(۶) امریکن
یونیورسٹی قاہرہ، (53:47)
(۷) اردن
یونیورسٹی آف سائنس، (65:44) (۸) کبانسان یونیورسیٹی، ملیشیا، (66:34)
(۹) قائداعظم
یونیورسٹی، پاکستان، (52:48) (۱۰) سلطان
قابوس یونیورسٹی، عمان،( 50: (50
(۱۱) یونیورسٹی
آف انڈونیشیا، ((57:43 (۱۲) یونیورسٹی
آف موناستیر، تیونس، (66:34)
(۱۳) یونیورسٹی آف ابو
بکر بیلقاید تلمسن، الجزائر،
(67:33)
صنفی مساوات
صنفی مساوات کا مفہوم یہ
ہے کہ تعلیم، صحت، سیاست اور معاشیات کے تمام زمروں میں مرد اور عورت کے ساتھ
یکساں سلوک کیا جانا چاہیے۔ تعلیم اور صحت کے حوالے سے صنفی مساوات میں مسلم ممالک
کا ریکارڈ انتہائی تسلی بخش رہا ہے۔ لیکن تمام زمروں کے لیے صنفی مساوات کی صورت
میں مسلم معاشروں کو سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم World Economic
Forum کا
گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس Global
Gender Gap Index (GGGI) دنیا کے دو سو ممالک کا
ہر سال جائزہ لیتا ہے، جنہیں 0 سے 1 کے درمیان ایک واحد GGGI ریٹنگ میں مرتب کیا
جاتا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق آئس لینڈ) (0.91)کے ساتھ
سرفہرست ہے یعنی کوئی بھی ملک انڈیکس 1 تک نہیں پہنچ سکا۔
کچھ دوسرے مسلم اور غیر
مسلم ممالک (موازنہ کے لیے) درج ذیل درجہ بندی دکھاتے ہیں:
(1 رینک) آئس
لینڈ،0.91؛ (5-رینک) جرمنی،0.81؛ (15R) برطانیہ، ;0.79(18R) البانیہ، ;0,79;
(21R) سوئٹزرلینڈ،۔ ;0.78
(26R) آسٹریلیا،0.78 (43) امریکہ
;0.75 (49) سنگاپور ;;0.74 (59) بنگلہ دیش، ; 0.72; (61) قازقستان، ;0.7( 0.71-UAE
(71)؛
((84)کرغزستان، ;0.70(86) بوسنیا،; 0.70 (87) انڈونیشیا، ;0.70(96)
برونائی، ;0.69(97) آذربائیجان، ;0.69(102) ملائیشیا، ;0.68(105) سینیگال،
;0.68(106) چین، ;0.68(109) برکینا فاسو، ;0.68(111) تاجکستان، ;0.67(112) سیرا
لیون، ;0.67(113) بحرین، ;0.67(114) کوموروس، ;0.66(119) کویت، ;0.65(124) مالدیپ،
;0.65(125) جاپان، ;0.65(126) اردن، ;0.65(128) تیونس، ;0.65(129) ترکی،
;0.64(130) نائجیریا، ;0.64(131) سعودی عرب، ;0.64(132) لبنان، ;0.63(133) قطر،
;0.63(134) مصر، ;0.63(136) مراکش، ;0.62(137) گنی، ;0.62(139) عمان، ;0.61(141)،
مالی، ;0.60(142) پاکستان، ;0.57(143) ایران، ;0.57(144) الجزائر، ;0.57(145) شاذ،
;0.57(146) افغانستان، 0.41
مندرجہ بالا ٹیبل
صنفی مساوات کو بیان کرتی ہے۔ اس
میں مسلم ممالک کے رینک Ranksاطمنان
بخش نہیں سمجھے جا سکتے ہیں۔ (18R) البانیہ، ;0,79;
(59) بنگلہ دیش، ; 0.72; (61) قازقستان،
;0.7( 0.71-UAE (71)؛ ((84)کرغزستان،
;0.70(86) بوسنیا، ; 0.70 (87) انڈونیشیا، ;0.70 صرف سات اسلامی ممالک
کو دنیا کے پہلے سو ممالک میں شمار
کیا گیا ہے ۔جہاں آ زادئ نسواں کو
قابل قدر مانا جا سکتا ہے۔
تعلیمی میدان میں ترقی کے
ساتھ عالم اسلام کو سائنسی اور فکری نشوونما کے لیے نشاۃ ثانیہ کی ضرورت ہے۔ جس میں عورت کو وہ سارے حقوق ملیں جنکی اسلام
نے اجازت دی ہے۔ تاکہ امت کو موجودہ فکری
(سائنسی طور پر) ترقی یافتہ معاشرے کے چیلنج کا مقابلہ کرنے میں مدد مل سکے۔ تیزی
سے بدلتی دنیا میں اپنا مقام پانے کا یہی
راستہ ہے ۔مولانا ابوالحسن علی مرحوم نے ایک عرصہ قبل امت سے یہی کہا تھا کہ’’ اب ضرورت ہے کہ مسلمان
اپنی بھولی ہوئی تحقیقی روش کو اپنائیں۔۔مسلمان ان مباحث میں جن کا دین وآخرت میں کوئی فائدہ نہ تھا صدیوں تک
دردسری کرتے رہے اور ان علوم اور تجربوں کی طرف توجہ نہ کی جو انکے لئے کائنات کی
طبعی قوتیں مسخر کردیتے اور اسلام کی مادی اور روحانی تسلط تمام عالم پر (پھر سے)
قائم کردیتے‘‘
بہر حال اب وقت آ
گیا ہے کہ ہم دینی مسائل پر بحثوں کا راستہ ترک کریںالزام تراشی کا سلسلہ ختم
کریں، مسلکی اور ملکی بنیاد پر دینی اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے دین حق کے اس
راستے پر چلیںجس پر چلتے ہوئے دور ماضی
میں ہم نے سماج میںعورت کو برابری کا درجہ دیا تھا ۔ عرب دنیا اس انقلاب کی قیادت کر سکتی ہے۔
(Sources:
World Economic Sources, UNESCO Reports, Factbook, Wikipedia, World Atlas.)
---------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism