New Age Islam
Sat Apr 26 2025, 08:47 PM

Urdu Section ( 24 Aug 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Women, Society, Politics and Media Attitude عورت ،سماج،سیاست اورمیڈیا کا رویہ

غلام علی اخضر

23 اگست،2023

دنیا حقوق نسواں اور آزادیٔ نسواں کے نام پر جس قدر بھی نعرے بازی کرلے اوراس کے تحفظ کا علم بلند کرلے لیکن اس کا مکر سامنے آہی جاتا ہے۔ اس معاشرے میں مرد کچھ بھی کرسکتا ہے، اس کے لیے پوری چھوٹ ہے۔ وہ جیسے چاہے چلے، جس طرح چاہے زندگی گزارے، جوجی چاہے پہنے، جہاں چاہے جائے،لیکن وہیں عورت ہو تو؟ سوطرح کی پابندیاں۔ مرد کی خوشی میں معاشرے کی خوشی ہے لیکن جب عورت کی بات آتی ہے تو پھر وہاں معاشرے کی خوشی میں عورت کی خوشی تلاش کی جانے لگتی ہے۔

 اس ترقی یافتہ دور میں بھی ایک بڑا طبقہ خواتین کا خود اعتمادی اورخود انحصاری کی راہ اختیار کرنے کو معاشرے میں فساد پیدا کرنے والا شدیدجرم تصور کرتا ہے۔بعض جگہوں پر تو خواتین سے معاملے ایسے رکھنے کا رواج چلا آرہا ہے جیسے وہ کوئی الگ ہی مخلوق ہو۔ ایسالگتا ہے کہ ناری کسی تیسری دنیا کی مخلوق ہے ۔ اسی طرح لڑکیوں کی زندگی میں اگرکبھی ایسا موڑ آجائے کہ جہاں انھیں سخت مقابلہ کی ضرورت ہوتی ہے اوراکیلا میدان فتح ہے تووہ حالات سے نبردآزما ہونے والے حربوں اور طریقوں کی ناآشنائی کی وجہ سے ڈر کر قدم پیچھے کرلیتی ہیں اور گھٹ گھٹ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں یہ اور بات ہے کہ کچھ نے اس روایت کو توڑا بھی ہے۔

 لڑکیوں کی آزادی پر تلوار کھینچے سے کہیں زیادہ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ اپنے لڑکوں کی صحیح اور اچھی تربیت کی جائے۔ڈیجیٹل دنیا نے جس طرح جنسی خواہشات کو اُبھار نے میں ادھم مچا رکھی ہے ایسے حالات میں والدین پر فرض ہے کہ وہ بچوں کی پرورش پوری ذمے داری کے ساتھ کریں اور یہ کام بچوں کو وقت دیے بغیر ممکن نہیں ، جس کا ان دنوں کافی فقدان ہے۔ وہ لوگ جو معاشرے میں برائیاں جنم لینے کی وجہ لڑکیوں کے باہر نکلنے کو سمجھتے ہیں ان لوگوں سے پوچھا جائے کے جن دو دو، تین تین اورچارچار سال کی بچوں کے ساتھ ریپ کی واردات انجام دی جاتی ہیں وہاں کون سی آزادی نسواں ذمے دار ہے؟ جن گھروں میں خود ہی گھر کا فردجنسی جرائم کا گنہگارہے وہاں کون ذمے دار ہے؟

  یہ نصیحت نہیں بلکہ سماج کا حقیقی چہرہ ہے اگر چہرے سے نقاب اٹھانے کی وجہ سے کوئی تکلیف ہے توہم اس کے لیے بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ اپنی غلطیوں کی خود اصلاح کریں، معاشرہ خود اچھا ہوجائے گا۔ لڑکوں کی طرح لڑکیاں بھی کچھ کرنے اور کچھ بننے کے خواب رکھتی ہیں ،والدین اپنی سہولت کے خاطر اور ذمے داری سے جلد از جلد چھٹکارا پانے کی غرض سے شادی کراکر ان کی خواہشات کی دنیا کو آگ نہ لگائیں۔ یہ خرابیاں ان معاشروںمیں زیادہ ہے جہاںغریبی عام ہے یاجہاں مذہب کی صحیح تعلیم نہ ہونے کی وجہ اپنی بات منوانے کے لیے متشدد قسم کے افرادمذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔

 افسوس ہے کہ بچیوں کو لے کر سماج نے اس طرح کارویہ اختیار کررکھا ہے جیسے وہ کوئی گھر کابوجھ ہو۔ جو والدین انھیں جنم دیتے ہیں وہی ان کے ساتھ دوہرارویہ اختیار کرتے ہیں۔ عورت کواپنی زندگی کاایک ہم سفر اورایک اچھا ساتھی سمجھنے کی بجائے اس کے ساتھ حاکمانہ رویہ اختیار کرنا سماج میں فخریہ سسٹم تصور کیا جاتا ہے۔یہاں والدین کا نظام نہیں صرف پدری نظام کو ضابطۂ حیات اور معاشرہ کی اصلاح کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔واضح رہے کہ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب کہ اس معاشرے میں مرد کے ساتھ ساتھ عورت کی نمائندگی کوسراہانہ جائے ۔ بچے والد سے زیادہ اپنی ماں کے قریب رہتے ہیں اور اس کا پہلا اسکول ماں کی گود ہے تو ضروری ہے کہ بچیوں کو ایسی تعلیم دی جائے جس سے وہ اپنے بچوں کی صحیح پرورش و پرداخت کرسکیں۔

لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرناآج کے وشوگرو بھارت میں بھی آسان نہیں ہے۔ادھروہ بارہویںکی کامیابی پر خوشی کی مٹھائی کھاتی ہے اور ابھی اس کے منھ کا ذائقہ بھی نہیں زائل ہوپاتا ہے کہ اُدھرسے حادثاتی طور پر اس کے سامنے شادی کی خبرآکر اس کے خوابوں کی اڑان کے پر کتر دیتی ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ لڑکیوں کے تئیں خود خواتین سیاسی لیڈران بھی جو اس عزم کے ساتھ سیاست میں قدم رکھتی ہیں کے ہم حقوق نسواں اور اس کی آزادی اور اس کی امید کی کرن کو روشن کرنے کے لیے جدوجہد کریں گے وہ بھی خود سیاست میں مقام حاصل کرنے کے بعد اس عزم کو بھول بیٹھتی ہیںاور حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ عورتوں پرہوئے ظلم و ستم کے خلاف بولنے کی بجائے اپنی پارٹی کے بچائو میں لگ جاتی ہیں۔ جو اسمرتی ایرانی کانگریس کے دور میں گیس مہنگائی سے لے کر متعددمعاملوں میں سرکار کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے ہر آن کمربستہ رہتی تھیں وہ ان دنوں مون رکھ چکی ہیں۔ اسمرتی ایرانی کو راہل گاندھی کے فلائنگ کِس پر عورتوں کا اپمان اور استحصال نظرآیا لیکن افسوس ہے کہ منی پور میں جس طرح عورتوں کو سرعام ننگا کرکے ہجوم کے ساتھ گھماتے ہوئے ان کے عضوخاص کے ساتھ چھیڑ چھاڑکرتے ہوئے متعدد لوگوں نے اپنی ہوس مٹا ئی جس سے عالمی سطح پر پورے ملک کا سرشرم سے جھک گیا اس پر اسمرتی ایرانی کو اپنی سرکار پرذرہ برابر بھی غصہ نہیں آیا اور نہ انہوںنے اس کے خلاف پارلیمنٹ میں ہنگامہ کیا۔منی پور کا معاملہ ہنوز افسوس ناک ہے۔

  یہ بھی عجیب المیہ ہے کہ جب کوئی لڑکی پریشان حال دربدرکی ٹھوکریں کھاتی ہے اس وقت کسی مذہبی افراد کو وہ نظر نہیں آتی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم (Central Council for Research in Unani Medicine) میں ڈاکٹر امان اللہ سائنٹسٹ کے ساتھ مارڈن میڈیکل سائنس پر اردو زبان میں کام کررہے تھے۔ جمعہ پڑھنے کے لیے قریب کی مسجد میں گئے تو دیکھا کہ مانگنے والوں کی صف میںمانگ پر سیندور لگائے ایک غیر مسلم عورت بھی اپنے بچوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس وقت اس کی غریبی پر کسی تنظیم کی نظر پڑتی اور نہ پڑتی ہے اور نہ نام نہاد مذہبی ٹھیکیداروں کی، لیکن لڑکی دوسرے مذہب کے کسی فرد سے محبت کرلے تو پھر ہنگامہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ حالت ہر مذہب کے ٹھیکیداروں کی ہے۔ لوجہاد اور لولائف کے نام پر نہ جانے کتنی لڑکیوں کی زندگی جہنم بنادی جاتی ہے۔ضمیر کو تارتارکردینے والی بات تویہ ہے کہ لڑکیوں کی عصمت دری پر بھی میڈیا مذہب دیکھ کر ہنگامہ آرائی کی محفل سجاتا ہے۔ لڑکیوں کا دوسرے مذہب کے لڑکوں سے محبت کرنا گناہ تصور کیا جاتا لیکن عجیب بات ہے کہ یہی چیز لڑکوں کے لیے فخریہ کام تصور کیا جاتا ہے۔ بلکہ ان دنوں تو پوری پلانگ کے ساتھ ایک طبقہ کی لڑکیوں کو اپنے جھانسے میں پھنسانے کے لیے اعلانیہ طور پر اپنے نوجوانوں کو کہا جاتا ہے۔مگر افسوس سماج، سسٹم ، مذہبی تنگ نظری اور سیاست کے بیچ لڑکیاں ہی پیسی جاتی ہیں۔

23 اگست،2023،بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی

------------------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/women-society-politics-media-attitude/d/130511

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..