یاسراسعد
29 اکتوبر،2021
علم اور اسلام کا چولی
دامن کا ساتھ ہے۔ بلکہ اسلام کی خشت اولین ہی ’’اقراء‘‘ یعنی ’’پڑھئے‘‘پر رکھی
گئی۔ دین کی تبلیغ وتشریح کے لئے عہد نبوت میں معلم اول نبی اکرم کی قیادت میں اہل
علم کا ایک عظیم گروہ تیار ہوا جس نے درس وتدریس اور دعوت وارشاد کے ذریعہ اس
پیغام کو عام کیا۔ چونکہ معاشرہ کی تشکیل مرد وعورت دونوں سے مل کر ہوتی ہے اس لئے
تعلیم وتربیت کا یہ دائرہ اسلام نے فقط مردوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ خواتین نے
بھی اس سے اپنا حصہ کشید کیا۔ تاریخ اسلامی کے مطابق خود خواتین نے نبی اکرمؐ سے
التماس کیا تھا کہ ان کی تعلیم کے لئے آپؐ ایک دن خاص کریں اور رسولؐ اللہ نے اسے
شرف قبول بخشا۔ چنانچہ بارگاہ نبوت سے اسلامی علوم کی ماہر جماعت نسواں تیار ہوئی
جس کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ حافظ ابن قیم لکھتے ہیں کہ نبی کریمؐ کے
دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد جن لوگوں کو آپؐ کے فتاویٰ کا علم تھا ان کی تعداد۱۳۰؍سے
زائد تھی جن میں مردوں کے ساتھ خواتین بھی تھیں۔(اعلام الموقعین:۲:۱۸) ان خواتین میں سب سے بلند
رتبہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ملا جنہیں کثرت سے حدیثیں بیان کرنے
والے لوگوں میں شمار کیا گیا، بلکہ آپؐ کی بیان کردہ احادیث کی تعداد بہت سارے
صحابہ کرام سے زائد ہے۔ حضرت ام سلمہ سے بھی سیکڑوں حدیثیں مروی ہیں۔ دیگر ازواج
مطہرات ان کے علاوہ ہیں۔ ان عفت مآب ہستیوں کی شاگردی ہزاروں صحابہ وصحابیات کرام
کے علاوہ بھی کثیر تعداد کو نصیب ہوئی۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ کے بارے میں امام
ذہبی لکھتے ہیں کہ وہ اس امت کی بلکہ علی الاطلاق سب سے ذی علم خاتون تھیں۔ امام
بدر الدین زرکشی نے حاکم نیشاپوری سے نقل کیا ہے کہ شریعت کا ایک چوتھائی حصہ حضرت
عائشہؓ سے مروی ہے۔ آپ کے فقہ وفتاوی پر ایک مستقل ضخیم کتاب شیخ فائز الدخیل نے
لکھی ہے۔
بعد کے ادوار میں بھی
خواتین اسلام اسلامی علوم کی ترویج واشاعت میں پیش پیش رہیں، وہ اپنے اساتذہ کرام
سے علم حاصل کرتیں، حدیثیں سیکھتیں اور پھر اپنے شاگردوں کو مستفید کرتیں۔ تاریخ
کے اوراق ان کی مثالوں سے معمور ہیں۔
امام مالک بن انسؓ کے
بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ بن سعد بن ابی وقاص سے علم حاصل کیا (الاصابہ)۔
نیز ان کے درس میں دروازے کے پیچھے ان کی بیٹی کھڑی ہوکر استفادہ کرتی تھیں، جب
کوئی طالب علم پڑھنے میں غلطی کرتا تو آپ دستک دیتیں اور امام مالک متنبہ ہوجایا
کرتے تھے۔(موطا مالک)
مجدد امام ابن تیمیہؒ کے
اساتذہ کی فہرست میں بھی کئی محدثات کے نام ملتے ہیں۔ جن میں چار کو خصوصی طور پر
ذکر کیا جاتا ہے: شیخہ صالحہ ام الخیر ست العرب بنت یحییٰ، شیخہ ام العرب فاطمہ
بنت ابو القاسم، شیخہ ام احمد زینب بنت مکی، شیخہ ام احمد زینب بنت احمد۔ ان کے
حضور میں امام ابن تیمیہ نے زانوئے تلمذ تہ کیا اور اپنی تصنیفات میں جا بجا ان کی
تعریف وتوصیف بھی کی ہے۔ علاوہ ازیں امام صاحب کے تلامذہ میں بھی بعض خواتین
شاگردوں کے نام ملتے ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ
کی ایک شاگردہ ام زینب فاطمہ بنت عباس حنبلیہ بغدادیہ کا تذکرہ البدایہ والنہایہ
میں مرقوم ہے کہ وہ مفتیہ تھیں، علم حدیث سے شغف کےساتھ وعظ ونصیحت بھی کرتیں،
مذہب حنبلی کے فقہ میں درک حاصل تھا، علماء نے ان کو اپنے زمانے کی خواتین کی
سردار کا لقب دیا۔ بدعتوں پر نکیر کرنے میں پیش پیش رہتیں۔ امام ابن کثیر کے بقول
دعوت وتبلیغ میں ان کی مساعی ایسی رہیں کہ مرد بھی اس کی طاقت نہیں رکھتے تھے، اس
راہ میں آپ کو قید وبند کی صعوبتیں بھی جھیلنی پڑیں، کافی مشقتیں اٹھائیں لیکن
صبر و ثبات کے ساتھ کہا کہ میں برائی پر نکیر کرنے سے باز نہیں آؤں گی۔ آپ برسر
منبر وعظ بھی فرماتیں، آپ کے استاذ امام ابن تیمیہ آپ کی تعریف فرماتے اور حافظے
کی مضبوطی کے ساتھ خشوع وخضوع اور صالحیت پر متعجب بھی ہوتے، بلکہ اثنائے درس آپ
کے سوالوں کے جواب دینے کیلئے خصوصی تیاری کرتے تھے، فقہ حنبلی کی کتاب مغنی لابن
قدامہ کا بیشتر حصہ آپ کو زبانی یاد تھا۔
امام صاحب کے شاگرد اور
نامور مفسر امام ابن کثیر ، امام ذہبی، امام سبکی اور امام مزی نے شیخہ زینب بنت
کمال المقدسی سے روایت کی ہے۔ جامع بنی امیہ دمشق میں مشہور زمانہ سیاح ابن بطوطہ
نے آپ سے سماع کیا۔ (اعلام النساء)
ان پاکباز ذی علم خواتین
میں ایک نام شیخہ کریمہ بنت عبدالوہاب قرشیہ دمشقیہ کا ہے جو طلبہ کو صحیح بخاری
روایت کرتی تھیں اور اجازہ بھی مرحمت فرماتی تھیں۔ (سیر اعلام النبلاء)
فقہائے سبعہ کے لقب سے
سات جلیل القدر محدثین اسلامی تاریخ میں معروف ہیں، کتب تراجم کے حساب سے ان میں
سے ہر فقیہ نے محدثات سے بھی کسب فیض کیا ہے، چنانچہ سعید بن مسیب نے حضرت عائشہؓ
وام سلمہ ؓسے روایت کیا ہے، عروہ بن زبیر ؓنے اپنی والدہ حضرت اسماءؓ اور خالہ
حضرت عائشہؓ کے حضور زانوئے تلمذ تہہ کیا، قاسم بن محمد بن ابو بکر صدیق ؓ اپنی
پھوپھی حضرت عائشہؓ کی زیر تربیت پروان چڑھے، ساتویں فقیہ وشاعر عبید اللہ بن عبد
اللہ الہذلی نے حضرت عائشہؓ وام سلمہؓ سے علم حاصل کیا۔ خراسان میں چھٹی صدی میں
عالمہ تقیہ شہدہ بنت احمد الابری(۵۷۴ھ)
فقہ ودیگر علوم میں مشہور ہوئی تھیں، پردے کے پیچھے سے طلبہ کو درس دیتی تھیں اور
ایک خلق کثیر نے آپ سےا ستفاد ہ کیا۔ فقہ حنفی میں مفتیہ فاطمہ بن علاء الدین
سمرقندی کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہیں، آپ امام علاء الدین کاسانی صاحب بدائع
الصنائع کی زوجہ تھیں، پہلے والد سے علم سیکھا، ابتدا میں ان کے گھر سے فتویٰ ان
کے اور ان کے والد کے دستخط کے ساتھ شائع ہوتا، جب امام کاسانی سے شادی ہوئی تو اس
فتوے پر اب تین دستخط ہوتے تھے۔ والد کی وفات کے بعد پھر دو دستخط ہونے لگے۔
بعض باحثین (محققین) نے
مکہ مکرمہ میں سکونت پزیر یا زیارت کے ارادہ سے آئی عالمات وفقیہات کو (نویں صدی
میں) شمار کیا تو ان کی تعداد ۲۷۰؍
کے لگ بھگ تھی۔ اسی سال دار المنہاج (جدہ) سے شائع شدہ ’’ الوفاء باسماء النساء‘‘ ۴۳؍
جلدوں پر مشتمل ڈاکٹر محمد اکرم ندوی کی کتاب ہے جس میں تقریباً دس ہزار ذی علم
خواتین کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس میں وہ قابل احترام محدثات و راویات ہیں جنہوں نے
فن حدیث کی تعلیم حاصل کی، پھر اپنے شاگردوں و شاگرداؤں کو اس کی تدریس و روایت
فرمائی۔ واضح رہے کہ علم وتعلم کا یہ مبارک سلسلہ شرعی حدود و قیود کی پابندی کے
ساتھ چلا، ان ذی علم خواتین نے اسلامی احکام کے افادہ واستفادہ کی سنہری روایت
قائم رکھی۔
29 اکتوبر،2021، بشکریہ: انقلاب،
نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism