نیو ایج اسلام ایڈٹ ڈیسک
13 جنوری 2022
اگست ۲۰۲۱ میں افغانستان میں تشدد
پسند تنظیم طالبان کے اقتدارمیںٰ آنے کے بعد سے ہی وہاں جمہوری اقدار کو دھچکا
لگاہے۔ خصوصی طور پر خواتین کو ہر شعبے میں ہراسانی کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔ طالبان
نے اپنے سابقہ دور اقتدار میں جو ۱۹۹۶
سے ۲۰۰۱
تک چالا خواتین پر بے جا پابندیاں عائد کی تھیں مگر دوسرے دور کے آغاز نے کچھ ایسے
بیانات دیئے تھے جن سے یہ امید بندھی تھی کہ وہ اس بار عالمی دباؤ میں خواتین کو
ان کے سماجی اور سیاسی حقوق دینگے۔طالبان لیدران نے یہ عندیہ دیا تھا کہ وہ خواتین
کو تعلیم اور ملازمت کا حق دینگے مگر عملی طور پر طالبان نے خواتین پر وہی
پابندیاں عائد کیں جو وہ پہلے کرچکے تھے۔ اس بار انہوں نے یہ پاللیسی اپنائی ہے کہ
وہ زبانی طور پرتو خواتین کو آزادی دینے کی بات کرتے ہیں مگر عملی طور پر وہ
خواتین کو ملازمت اور دیگر شعبہ حیات میں بالواسطہ طور پر ان کے حقوق سے محروم
کررہے ہیں ۔
طالبا ن کے اقتدار میں
آنے کے بعد صحافت کے پیشے سے جڑی خواتین کو ہراسانی کا سامنا کرنا پڑاہے۔ انہیں
گزشتہ برس میڈیا ہاؤسوں سے یا تو نکالا گیاہے یا انہیں صحافت چھوڑنے پر مجبور کیا
گیاہے۔کابل کی کچھ خواتین صحافیوں نے یہ شکایت کی ہے کہ انہیں طالبان اہم سرکاری
پریس کانفرینسوں میں شریک نہیں ہونے دیتے۔حالیہ دنوں میں کابل کے گورنر کی پریس
کانفرنس اور وزارت معدنیات کی پریس کانفرینس مین خاتون صحافیوں کو جانے سے روک
دیاگیا۔صحافی امینہ حکیمی، صحافی سہیہلہ یوسفی اور نظیفہہ احمدی نے یہ شکایت کی کہ
انہیں اہم سرکاری کانفرنسوں میں جانے سے روکا جاتاہے۔
طالبان کا خواتین کے ساتھ
یہ رویہ نیا نہیں ہے۔ ان کے حواس پر بقول علامہ اقبال عورت سوار ہے۔ جبکہ اسلام جس
کی علمبرداری وہ دعوی کرتے ہیں خواتین کو کسی بھی شعبے میں اپنی سماجی اور پیشہ
ورانہ ذمہ داریوں کو ادا کرنے سے نہیں روکتا۔ خواتین اپنی عزت و وقار کے ساتھ صحت
مند ماحول میں زندگی کے تمام شعبوں میں مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرسکتی ہیں۔
حیات نبوری کے دوران خواتین میدان جنگ میں مردوں کا علاج اور انکی تیمارداری کرتی
تھیں۔
طالبان کے ایک سنیئر اہل
کار نے خواتین صحافیوں کے ان الزامات کی تردید کی ہے اور ان الزامات کی تحقیق کرنے
کا وعدہ کیاہے مگر رپورٹرس وداؤٹ بارڈرس اورافغان انڈپنڈنٹ جرنلسٹ ایسو سی ایسشن
کے ایک سروے میں یہ پتہ چلاکہ گزشتہ اگست سے اب تک چالیس فی صد میڈیا ہاوس بند
ہوچکے ہیں کیونکہ صحافیوں خصوصا خواتین صحافیوں کے خلاف طالبان کا رویہ غیر جہہوری
بلکہ غیر اسلامی ہے۔طلوع نیوز کے مطابق طالبان حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد
میڈیا پر پابندیاں سخت کردی ہیں جن کی وجہ سے ان کے لئے کام کرنا تقریباً ناممکن
ہوگیاہے۔
اقٖغان خواتین صحافیوں کی
پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس اورنیٹ ورک آف ویمن ین
میڈیا انڈیا نے ایک رپورٹ سمبر میں شائع کی تھی جس مین اٖفغان خواتین صحافیوں کی
پریشانیوں اور ان کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کی داستان بنان کی گئی تھی۔اس
رپورٹ میں افغان خواتین صحافیوں کو پیش آنے والے جان اور ملازمت کے خطرات کا ذکر
تھا۔
افغان، ہندوستان اور دنیا
کی دیگر صحافیی تنظیموں نے اس مصیبت کی گھڑی میں خواتین صحافیوں کا ساتھ دیا ہے اور ان کے لئے فنڈریزنگ مہم چلائی
ہے جبکہ عورتوں کے حقوق کی علم برداری کا دعوی کرنے والے طالبان کی طرف سے جان اور
ملازمت کو خطرہ ہے۔ افغان خواتین صحافی کو طالبان حکومت کے دوران کس قدر دباؤ کا
سامنا ہے اس کا اندازہ میڈیا میں ان کی تیزی سے گھٹتی ہوئی تعداد سے لگایا
جاسکتاہے۔ گزشتہ اگست مین جب طالبان اقتدار میں آئے تھے اس وقت کل سات سو خواتین
میڈیا ہاؤسوں میں کام کررہی تھیں جبکہ ان میں سے صرف ایک سو خواتین ہی کام کررہی
ہیں اور جو خواتین کام کررہی ہیں وہ ہر روز جان ہتھیلی پر لیکر کام کررہی ہیں۔
طالبان اگر اسلامی شریعت
کی بنیاد پر حکومت چلانا چاہتے ہیں تو انہیں خواتین صحافیوں کو قرآن اور حدیث کے
مطابق حقوق دینے چاہئیں نہ کہ صرف خواتین دشمنی کی بنیاد پر فیصلے لیں ۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism