New Age Islam
Tue Jun 24 2025, 12:39 PM

Urdu Section ( 14 Nov 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Where are you Mr Gandhi! آپ کہاں ہیں مسٹر گاندھی

ودود ساجد

12نومبر،2023

آپ کہاں ہیں مسٹر گاندھی!......

گزشتہ 8 نو مبر کو ایک بڑی خبرآئی اورانتہائی خاموشی سے گزر گئی۔یہ خبر ایک اخبار کو چھوڑ کر قومی میڈیا میں کہیں نظر نہیں آئی۔ چینلوں نے تو اس کا ہلکا سابھی ذکر نہیں کیا۔سپریم کورٹ نے حکومت راجستھان کو جو سخت و سست سنائیں ان کا بھی کوئی ذکر نہیں ہوا۔ حیرت ہے کہ سپریم کورٹ نے شیطانی چینلوں کو ایک موقع دیا او رانہوں نے کانگریس کی راجستھان حکومت کے خلاف ملنے والے اس مواقع کو استعمال نہیں کیا۔ پرنٹ میڈیااو رچینلوں نے ایسا کانگریس کی محبت میں نہیں کیا بلکہ کانگریس کی گہلوت حکومت کو مسلمانوں کی نفرت میں بخش دیا۔ فی الواقع یہ سطور کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی سے براہ راست سوال کرنے کیلئے تحریر کی جارہی ہیں۔

13مئی 2008 کو جے پور کے مختلف مقامات پر پے درپے بم دھماکے ہوئے تھے۔ ان کے الزام میں مختلف مقامات سے متعدد مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ مقامی عدالت نے ان میں سے چار مسلم نوجوانوں کو مجرم مان کر پھانسی کی سزا سنادی تھی لیکن راجستھان ہائی کورٹ نے ان سب کو نہ صرف باعزت بڑی کردیا تھا بلکہ خاطی پولس افسران کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کا بھی حکم دیا تھا۔ ہائی کورٹ کے اس بے مثال فیصلہ کے خلاف راجستھان حکومت سپریم کورٹ چلی آئی لیکن گزشتہ 8نومبر کو سپریم کورٹ میں حکومت کو سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ میں نے اپنے ہنگامی کالم ’نوائے امروز‘ میں 31 مارچ کو راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت کو مخاطب کرتے ہوئے جو کچھ لکھا تھا اسے یہاں نقل کرنا مناسب ہوگا۔

میں نے لکھا تھا:”مسٹر اشوک گہلوت! ان چار بے قصور نوجوانوں کی داستان آپ تک ضرور پہنچ گئی ہوگی جنہیں 29 مارچ 2023 کو راجستھان ہائی کورٹ ’پھانسی کے پھندہ‘ سے اتار کر ’نئی زندگی‘ بخشی ہے؟ ان بے قصور نوجوانوں نے اپنی زندگی کے قیمتی 15 سال گنوادئے ہیں۔ جب انہیں 13 مئی 2008 کے جے پور بم دھماکوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا تو انہوں نے چیخ چیخ کر کہا تھاکہ ہم بے قصور ہیں لیکن راجستھان پولیس نے ان کی ایک نہیں سنی۔ جے پور کی خصوصی عدالت نے بھی پولیس کی کہانی پر یقین کرتے ہوئے انہیں 2019 ء میں سزائے موت سنادی۔ آخر کار راجستھان ہائی کورٹ نے ان بے قصوروں کی فریاد سنی او رانہیں 15 سال بعد یہ مثردہ سنادیا کہ تم بے قصور ہو۔

ہائی کورٹ نے ایک طرف جہاں ان مسلم نوجوانوں کو باعزت بری کیا وہیں دوسری طرف پولیس اور تفتیشی افسروں کو بھی کٹگھرے میں کھڑا کردیا۔ ہائی کورٹ نے آئین قانون او رانصاف کی لاج رکھی ہے۔ فاضل ججوں نے ان بے قصور نوجوانوں کو نہ صر ف باعزت بڑی کیا ہے بلکہ تفتیشی افسروں کی خوفناک،شرمناک اورذلت آمیز حرکتوں کو بھی طشت ازبام کردیا۔ فاضل عدالت نے راجستھان پولیس کے ڈائریکٹر جنرل کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے ان خطا کار پولیس والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے چیف سیکریٹری کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ شہریوں کے وسیع تر مفاد میں اس معاملہ کو خود دیکھیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عدالت نے بالواسطہ طور پر آپ کی حکومت کو بھی ذمہ دار قرار دیا ہے۔

مسٹر وزیر اعلیٰ! اب نہ تو آپ ان بے قصور او رباعزت بری ہوجانے والے نوجوانوں کی وہ قیمتی زندگی لوٹا سکتے ہیں جو دہشت گردی کے الزام کے خوفناک سائے میں برباد ہوگئی او رنہ ہی آپ انہیں وہ عزت وتوقیر واپس لاسکتے ہیں جو شرانگیز اور دہشت پسند میڈیا نے ان کی گرفتاری کے وقت روند کر رکھ دی تھی۔ بڑی بڑی شہ سرخیاں لگا کر ایجنسیوں کی تحقیقات اور عدالت کی کارروائی سے پہلے ہی انہیں بم دھماکوں کا مجرم قرار دے دیا تھا۔آپ ان کا وہ سکون بھی نہیں لوٹا سکتے جو شرپسندوں نے برباد کرکے رکھ دیا تھا۔ ہائی کورٹ کے انتہائی واضح سخت اور حقائق سے بھرپور فیصلہ کا اولین تقاضہ یہ ہے کہ آپ ان بے قصوروں کی زندگی برباد کرنے میں شامل ان تمام پولیس افسروں کو فی الفور برطرف کرکے گرفتار کریں جن کے خلاف ہائی کورٹ نے کارروائی کا حکم دیا ہے۔ اگر آپ ان بے قصور ہندوستانی شہریوں کی صعوبتوں او رکرب سے بھری ہوئی 15 سالہ زندگی کا ذرہ برابر بھی احساس رکھتے ہیں تو انہیں مناسب او رمعقول معاوضہ دیں انہیں سرکاری نوکری دیں ان کی سوشل سیکیورٹی کا بندوبست کریں۔

مسٹر گہلوت! آپ کی حکومت کی ایڈیشنل کونسل ریکھا مدنانی نے کہا ہے کہ ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی جائے گی۔ اگر ہائی کورٹ کے اتنے سخت واضح اور حقائق سے بھر پور فیصلہ اور حکم کے بعد بھی آپ کی حکومت سپریم کورٹ جارہی ہے تو پھر اس کا مطلب یہی ہے کہ آپ ان بے قصور مسلم نوجوانوں کی ہر حال میں پھانسی کے پھندہ پر لٹکا نا چاہتے ہیں۔ اس کا یہ بھی مطلب ہوگا کہ آپ ان تفتیشی افسروں کے خلاف کارروائی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے جن کا متعصبانہ کارروائی کے سبب ان کی زندگیاں تہہ وبالا ہوگئیں“۔(31مارچ کو لکھا گیا کالم نوائے امروز ختم ہوا)

راجستھان کے وزیر اعلیٰ پر 31مارچ کو کی جانے والی مذکورہ بالا اپیل کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ حکومت نے ہائی کورٹ کے اتنے شاندار او رواضح فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ کا رخ کیا او را س فیصلہ پر اسٹے لگا نے کی درخواست کی۔17مئی 2023 کو سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلہ پر اسٹے لگانے سے انکار کردیا تھا۔ راجستھان حکومت ہائی کورٹ کے فیصلہ پر اسٹے حاصل کرنے کی بڑی عجلت تھی اس وقت جسٹس بی آر گوائی، جسٹس پی ایس نرسمہا او رجسٹس اروند کمار پر مشتمل سہ رکنی بنچ نے کہاتھا کہ ”ہم اتنے اہم فیصلے پر یوں ہی میکانکی طو رپر کوئی فیصلہ نہیں دے سکتے، ہمیں ان لوگوں کو بھی سننا ہوگا جنہیں عدالت نے بے قصور قرار دیا ہے“۔

29 مارچ 2023 کو جب ہائی کورٹ نے مذکورہ بالا چاروں مسلم نوجوانوں کو باعزت بری کرتے ہوئے خاطی پولیس افسران کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دیا تو اسی وقت عدالت کے احاطہ میں ہی ریاست راجستھان کی ایڈیشنل کونسل ریکھا مدنانی نے کہا تھا کہ ہم اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کریں گے۔ ہم نے اس وقت سمجھا تھا کہ یہ حکومت کا نہیں ہے بلکہ ایڈیشنل کونسل نے ہائی کورٹ سے ملنے والی سبکی اور ہزیمت کو مٹانے کے لئے پیشہ وارانہ جوش میں آکر یہ کہہ دیا ہے کہ وہ اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ جائیں گی۔ اسی لئے ہم نے راجستھان کے وزیر اعلیٰ سے براہ راست اپیل بھی کی تھی۔

اب8 نومبر کو سپریم کورٹ میں جو کارروائی رونماہوئی ہے اس سے یقین ہوگیا ہے کہ چار مسلم نوجوانوں کو باعزت بری کئے جانے کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ تک آنے کا فیصلہ نچلی سطح کانہیں تھا بلکہ اس میں ریاستی حکومت کی اعلیٰ قیادت بھی شامل تھی۔ اگر ایسا نہ ہوتاتو سپریم کورٹ میں ریاستی حکومت کی نمائندگی ملک کا سب سے بڑا ’لاافسر‘ اٹارنی جنرل نہ کرتا۔8نومبر کو جب یہ معاملہ دوبارہ بنچ کے سامنے پیش ہوا تو عدالت نے اٹارنی جنرل آروینکٹ رمنی سے کہا کہ:”چاروں ماخوذ افراد کو بری کئے جانے کے فیصلہ کے خلاف آپ کی اسٹے عاید کرنے کی اپیل انوکھی ہے او رایسا پہلے کبھی نہیں سنا گیا۔ آپ کی اس غیر معمولی اپیل پر غور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم یہ جائزہ لیں کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ بادی النظر میں غلط ہے یا اس میں کچھ کجی ہے“۔ عدالت نے مزید کہا کہ”کسی عدالت کے ذریعہ رہا کئے جانے کا فیصلہ آجانے کے بعد ملزمین کی بے گناہی کے خیال کو مزید تقویت مل جاتی ہے“۔

اٹارنی جنرل ملک کا سب سے بڑا افسر ہوتا ہے۔ وہ فی الواقع سپریم کورٹ میں مرکزی  حکومت کا نمائندہ ہوتا ہے۔اس کے بعد سالیسٹرجنرل کا نمبر آتا ہے۔پھر اسی طرح ان کے متعدد نائبین ہوتے ہیں۔ ریاستوں میں سب سے برا لاافسر ایڈووکیٹ جنرل ہوتا ہے جو ہائی کورٹ میں ریاستی حکومت کی نمائندگی کرتاہے۔ اس کے بعد ریاست میں بھی متعدد نائبین ہوتے ہیں۔ اگر ریاست کو سپریم کورٹ میں کوئی اپیل کرنی ہوتی ہے تو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نمائندگی کرتاہے۔ لیکن ریاستیں مرکز کے نمائندہ کو او روہ بھی اٹارنی جنرل کو سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے لئے نہیں کہتیں۔ اس سے اتنا تو ثابت ہوہی گیا ہے کہ حکومت راجستھان ان بے قصور مسلم نوجوانوں کو ہر حال میں پھانسی پر چڑھا نا چاہتی ہے او را س کے لئے اس نے اٹارنی جنرل جیسے سب سے بڑے لاآفسر کی خدمات حاصل کی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ نے بھی معاملہ کی سنگینی کو محسوس کیا اور اٹارنی جنرل سے بہت واضح انداز میں کہا کہ ایسی اپیل کے بارے میں کبھی پہلے نہیں سنا گیا۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ 17 مئی کو پہلی سماعت پر سپریم کورٹ نے جے پور کی ٹرائل کورٹ نے اس قضیہ کا سارا ریکارڈ طلب کیا تھا۔ لیکن گزشتہ 8نومبر کو ہونے والی دوسری سماعت تک بھی یہ ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا۔یہ انتہائی حیرت انگیز امر ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود چھ مہینہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا او رجے پور کی ٹرائل کورٹ ریکارڈ پیش نہیں کرسکی۔ سپریم کورٹ نے 8نومبر کو دوسری بار رجسٹری کو ہدایت دی کہ وہ متعلقہ ریکارڈ کی حصولیابی کو یقینی بنائے۔ باعز ت بری کئے جانے والے نوجوانوں کی وکیل ریبیکاجون نے عدالت کو بتایا کہ بری کئے جانے کے باوجود مذکورہ نوجوانوں کو اس امر کاپابند کیا گیا ہے کہ وہ ہر روز دن میں دس بجے سے بارہ بجے تک انسداد دہشت گردی پولیس اسٹیشن میں آکر اپنی حاضری درج کرائیں۔سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ یہ شرط مذکورہ نوجوانوں کی آزادی کو غیر معقول طریقہ پر محدود کرتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’ہر چند کہ ہائی کورٹ نے انہیں بری کردیا ہے لیکن انہیں آزادانہ طو رپر گھومنے او رنقل وحرکت کی اجازت نہیں دی جاسکتی او راسی لئے ہم ہائی کورٹ کے فیصلہ پر اسٹے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

مسٹر راہل گاندھی! سپریم کورٹ میں ان چار بے قصور نوجوانوں کے لئے یہ سب آپ کی راجستھان حکومت کی طرف سے کہا گیا ہے۔ ہم آپ کو اس لئے مخاطب کررہے ہیں کہ وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے تو اپنے اندر کا ’اصل انسان‘ہم سب کے سامنے برہنہ کرکے رکھ دیا ہے کم سے کم آپ سے ہمیں ایسی برہنگی کی توقع نہیں ہے۔ حالانکہ ملک بھر میں جتنے مسلم نوجوان کانگریس اور یو اے پی اے کے دور اقتدار میں دہشت گردی کے معاملات میں ماخوذ کئے گئے اتنے کبھی نہیں کئے گئے۔لیکن پھر بھی ہمیں حسن ظن ہے کہ آپ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ مذکورہ نوجوانوں کا  قضیہ آپ کے لیے ایک ’ٹیسٹ کیس‘ ہے۔آپ کی گہلوت سرکار سپریم کورٹ میں انہیں انتہائی خطرناک بتاتی ہے او رہائی کورٹ سے رہائی کے اتنے واضح فیصلہ کے باوجود ان کی آزاد زندگی پر حدود نافذ کرناچاہتی ہے۔

میں بحیثیت صحافی آپ سے بس انہی مہذب الفاظ وانداز میں مخاطب ہوسکتا ہوں۔لیکن اگر آپ مجھ سے ایک عام ہندوستانی شہری کے طور پر جاننا چاہیں تو میرے پاس آپ کی گہلوت سرکار کو لعن طعن کرنے کے لئے مہذب الفاظ نہیں ہیں۔ راجستھان کا یہ تجربہ کار حکمراں ایسے نوجوانوں کو خطرناک بتا کر ان کی آزاد زندگی کو زنجیروں میں جکڑ نا چاہتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی 15 سال ناکردہ جرم کے الزام میں کاٹ دئے اور ہائی کورٹ ہر الزام سے نہ صرف بری کرچکی ہے بلکہ جس نے اپنے تبصروں سے ریاست کی پوری پولیس اور قانونی مشینری کو ہی کٹگھرے میں کھڑا کردیا ہے۔ یہ سب ایسے وقت میں ہورہا ہے راہل گاندھی صاحب کو جب دوریاستوں میں آپ کی پارٹی دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے لئے الیکشن کے میدان میں ہے او رایک ریاست بی جے پی سے اقتدار چھیننے کے لئے کوشاں ہے۔ ایسے میں آپ سے ہی امید ہے اور آپ سے ہی سوال کیا جاسکتا ہے۔کیا اس سلسلہ میں آپ کچھ کریں گے؟ آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔

12 نومبر،2023،بشکریہ: انقلاب نئی دہلی

----------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/where-mr-gandhi/d/131105

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..