ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
9 اگست 2024
گزشتہ جمعہ کو ” ہم نرغے
میں ہیں‘‘کے عنوان سےجو مضمون آپ کے
سامنےرکھا در اصل وہ آج کی پیش بندی تھا۔ چند سوال قائم کرکے آگے بڑھتے
ہیں۔
۱۔کیا
سب خرابیاں، کمیاں اور کوتاہیاں ہمارے ہی اندر ہیں؟
ج۔ ہر گز نہیں!اس میں سب نے اپنا حصہ ڈالا ہے اور
ڈال رہےہیں۔ ہم تو شکار ہیں شکاری کوئی اور ہے؟
۲۔
کیا ہم ماضی کے غلام بن کر جینا چاہتے ہیں یا حال سے مستقبل کی نوید چاہتے ہیں؟
ج۔ ماضی باہر سے آئے غیر
ہندی نسل کے مسلمانوں سے تعلق رکھتا ہے! طے کرنا ہوگا کہ آپ ان سے جڑ کر
چلناچاہتے ہیں یا پھر اس مٹی سے جس پر ہماری پیدائش، موت اور قیامت میں اٹھایا
جانا مشیت ربی و منشائے ربی کے تحت ہے؟
۳۔
کیا تنازعات کو مزید پالنا اور پیچیدہ بنانا ملکی و ملی مفاد میں ہے یا انکے لئے
خطرہ؟
ج۔ مستقل ٹکراؤ ،پر امن
بقائے باہم اور ترقی کے ہمہ جہتی عمل کو متاثر کر رہا ہے۔ نتیجتاً تنزلی و پسپائی
کی دلدل میں ہم دھنستے چلے جا رہےہیں۔ اس حقیقت کا اعتراف راہیں کھول سکتا ہے جبکہ
انحراف گرہ کو گانٹھ میں بدل دیگا ۔یہ نکتہ سنجیدہ نظر ثانی کا متقاضی ہے۔
۴۔
کیا سیاست ہر مسئلے کا حل پیش کرنے کی متحمل ہے یا معاشرت ترجیح میں پہلے آتی ہے؟
ج۔ سیاست میں مسلم اقلیت
جس کو اکثریت مخصوص تناظر میں دیکھ کر
فطری تعصب کا شکار ہو جاتی ہے اس کو میانہ روی اختیار کرنا چاہئے یا پھر انتہائی
کیفیات کا خمیازہ بھگتنے کو اپنا مقدر بنا لینا چاہئے؟
دیگر ہندوستانی اقلیتوں
نے اپنے راستے اور پل بنا رکھےہیں، ایک مسلمان ہی وہ وحدت ہے جس کا حلیف کون ہے
اور کس نےاسے بنایا ہوا ہے میں نہیں جانتا؟ البتہ ملک کی دائیں بازو کی قوتوں کو
کھل کر اس نے اپنا حریف بنا لیا ہے۔جس کے سبب آمنے سامنے کی صورتحال پیدا ہو گئی
ہے۔ معاشرت سے جو مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں وہاں سیاست نا کام ہے! معاشرت کا
تعلق نفسیات، اخلاقیات، باہمی رشتوں، افہام و تفہیم، تحمل ، آپسی خوشگواری اور
ایک دوسرے کے لئے خیر سگالی کے جذبے سے ہے۔جذبات و احساسات یکطرفہ نہیں ہوتے یہ
فریقین کو سمجھنے کی ضرورت ہے!
۵) کیا
ہماری موجودہ قائدانہ روش، زبان و بیان،موافقت و مخالفت کے معیار اور معاملہ فہمی
کے زاویے کارگر ہیں یاو ہی حالات کو یہاں تک لانے کے ذمہ دارہیں ؟
ج۔ میرا نقطۂ نظر اس
حوالے سے واضح ہے! سابقہ سات دہائیاں بالعموم اور۱۹۴۷سے۱۹۵۱کےدرمیان کے چار سال میں جو
لازماً درکار تھا، بد قسمتی سے وہ نہیں ملا۔ پہلی غلطی آئین ساز اسمبلی میں
ریزرویشن کے سوال پر مسلم اراکین کا اس کے خلاف موقف اور دوسرا تقسیم ہند کے بعد
ایک مربوط سیاسی اور معاشرتی حکمت عملی کا وضع نہ کیا جانا؟ باقیات میں مسلم لیگ
اور مجلس اتحاد المسلمین جیسی خالص مسلم سیاسی جماعتوں کا تقسیم ہند کے بعد قومی
سیاست میں رہ جانا ، اکثریتی نفسیات کو موجودہ نہج پر لانے میں ایک کردار رکھتا
ہے۔ یہ پہلو بھی نظر ثانی مانگتا ہے!
۶۔ہم
اول وقت سے ہر بات کو اسلام سے جوڑ کر اور مسلمان بنا کر چلے۔ قومی اشوز و مسائل
کی ہم نے بات کم کی۔ ہٹ دھرمی کا مزاج زیادہ رکھا ،مفاہمت کا کم ! ہندو اکثریت ۱۹۸۶ تک ہندو گردی پر مبنی
سیاست کی مخالف رہی بعد میں جو ہوا وہ آپ کے سامنے ہے؟
ج۔ ہم آج تک اس بات کو
اپنی نفسیات میں نہ لے سکے کہ یہ ایک ہندو اکثریتی ریاست ہے اور ہمیشہ ایسا ہی رہا
ہے۔ فطری طور پر اس خفی مزاج کو ظاہر اور عام ہونا ہی تھا جو دور اب آچکا! سیکولر
سیاست کی دانستہ غلطیاں اور کچھ ہماری نا دانیاں حالات کے یہاں تک پہنچنے کی ذمہ
دار ہیں !
۷۔
کیا آپ اس بدلی ہوئی زمین کو بھانپنے اور اس سے وارد ہونے والے اشاریوں سے کچھ
سیکھنے اور اخذکرنے کے لئے تیار ہیں یا پھر روایتی غلطیوں کو دوہرانے کا عزم و عمل
یوں ہی ظلمتوں کی طرف دھکیلتاررہے گا؟
ج۔ زندگی میں نشیب و فراز
کا ہونا یا آنا کوئی ایسا انوکھا واقعہ نہیں جو انسانی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا
ہے یہ تو ایک فطری تسلسل ہے جس سے ہر دور، قوم و معاشرہ گزراہے۔ بالکل ویسے
جیسےپہیہ جب گھومتا ہے توکوئی ایک کیفیت ساکت نہیں رہتی! البتہ انسانی تاریخ کا
پہیہ ٹھہر ٹھہر کر گھومتا ہے اور کبھی کبھی تو اسکی مدت سالوں، دہائیوں اور صدیوں
تک پرمحیط ہوجاتی ہے۔ ہوشمند قومیں دیوار کا لکھا بر وقت پڑھ کر اپنی پریزینٹیشن Presentation تیار کر لیتی ہیں
اور کامیابی سے آگے نکل جاتی ہیں اور قدامت پسند سازشوں کارونا ہی روتے رہ جاتے ہیں۔متعدد
مثالیں ہمارے گرد و نواح میں رہنمائی کے لئے موجود ہیں! کیا ہم اور آپ کہیں سے
کچھ سیکھنا چاہیں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا کونسا دور آج
ہماری رہنمائی کر رہا ہے؟ سیرت پاک کا مطالعہ بہت سی گرہیں کھول سکتا ہے۔
سوالات بہت قائم کئے جا
سکتے ہیں مگر اب میں آپ کو اس طرف لے جانا چاہتا ہوں جس طرف ملّی فکر کا رخ ہونا چاہئے ، مسلمانان
ہند اس ملک کی تنہا سب سے بڑی وحدت ہیں۔ اوّل اس زاویے کو نفس میں اتارئیے! اپنے
کردارو عمل میں وہ تبدیلی لائیں کہ ہر قومی مسئلے میں آپ کی آواز نمایاں ہی نہ
ہو بلکہ اس کا رنگ حب الوطنی میں اس قدر غرق ہو کہ ہر دیگر وحدت اس میں اپنے آپ
کو اور اپنے حصے و نمائندگی کو محسوس کرے۔راستہ یہاں ہے!
دوسرے ملّی اداروں کو
اتنا مسلم ادارے نہ بنا ڈالیں کہ وہ سب کو سب کےسے نہ لگیں۔ یہ تفریق جس تعصب
کو جنم دے رہی ہے اس کا چند اداروں کی حد تک تو فیض ہے مگر پورے ملک کے ماحول پر
اس کے اثرات اچھے نہیں! خالص مسلم ادارے اس کردار اور مزاج کو اختیار کریں جس میں
تعلیم حاصل کرنے کو دیگر وحدتیں عام اداروں سے کچھ مختلف نہ سمجھیں؟ جنوبی ہند میں
ایسے کئی تجربے نہایت کامیاب ہیں۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں غیر مسلم طلباء کی
تعداد۳۰
سے۴۰ فیصدتک
رہتی ہے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تو لگ بھگ برابر ہی ہے لیکن تاثر یہ ہے کہ یہ
ادارے بس مسلمانوں کا ہی بھلا کر رہے ہیں۔ ایسےاحساس کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔
میرا اشارہ ادھر بھی ہے۔ میں اقلیتوں کے آئینی حقوق و تحفظات کے ساتھ کھڑا ہوں،
مگر ساتھ ہی میرا ماننا ہےکہ جہاں قانون کی دفعات کمزورپڑ جاتی ہیں وہاں باہم رشتے
کام کر جاتےہیں! آج رشتوں پر آنچ ہے!
تیسرے سیاست بالخصوص
انتخابی سیاست میں فریقین تو آپس میں دوستی یاری رکھتے ہیں مگر فریق آپ کو بناتے
ہیں، ٹکراؤ کا ٹھیکہ آپکا! راست دشمنی آپکی اور آپ سے! ظاہر ہے پھر خمیازہ بھی
آپ ہی کابھگتیں! نتیجہ گھر گھر اور بچے بچے میں ہمارے حوالے سے منفی و جارحانہ
فکر اور رجحانات جنم لے رہے ہیں ایک لمحے کے لئے ہر شئے کو الگ رکھیے
پھر سوچئے کہ ایسا ہم سے کیا ہو رہا ہے یاہو گیا ہے یا جسے ہمیں ٹھیک کرنا تھا،
میں وہاں کہیں چوک تو نہیں ہو گئی ہےکہ جب، جہاں، جس کو موقع ملتاہے نہ تو وہ بدزبانی میں
کسر کرتا ہے، نہ الزام تراشی میں گنجائش چھوڑتا ہے۔ہماری ہر اکائی کی توہین کرنے
کو وہ اپنا حق سمجھنے لگتا ہے، اس کی نفسیات میں ایسا کیا بیٹھ گیا یا بٹھا دیاگیا
ہے کہ جب ایک پولیس اہلکار، سرکاری اہلکار یا دیگر باا ختیار کو ایکشن کے لئے کہا
جاتا ہے تو اسکے اخلاق، اقدام و عمل میں ایسا کیوں لگتا ہے کہ جیسے مجھے زد وکوب
کرنے کے لئے کب سے وہ اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا؟ لنچنگ، بلڈوزنگ، مساجد کا
انہدام، عظمت قرآن و ناموس رسالت کی توہین، منافرت سے لبریز لہجہ، نہ اس کا کہیں
احساس اور نہ اس پر ندامت! یہ سب یہاں تک کیسے پہنچا؟ سوچنا توپڑے گا! میں یہاں
سیدھا خود سے مخاطب ہوں!
دوستو اس دور ستم ظریفی
کو بڑھانا ہے یا پھر کچھ ایسے پہلوؤں کی طرف اپنے قدم بڑھانے ہیں جن سے تدارک اور
بہتری کی صورت پیدا ہو۔ اس حوالے سے میرا موقف واضح ہے۔ یہ وطن سب کا ہے مگر ہم
کہیں اکیلے پڑتے جا رہے ہیں؟
مشورہ :
ہر سطح پر ان کے ساتھ اپنے تعلق کو جوڑئیے جن سے دوری بن گئی ہے! کوئی دشمن نہیں!
جب گلے لگا لیا جاتا ہے سب گلے شکوے مٹ جاتے ہیں۔ایمان،اساس، طرز معاشرت اور اپنی
اخلاقیات کو چھوڑ کر جو مسائل کے حل ڈھونڈتے ہیں وہ مسائل بڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔
اپنی وضع پر رہکر اور دوسرے کی وضع کا غیر منافقانہ احترام کر کے ہر مشکل پر قابو
پایا جا سکتا ہے۔ یاد رکھئے مخالف اور مخالفت کو پڑھ کر جو سیکھ ملتی ہے وہ کسی
دوسرے ذریعہ سے نہیں ملتی! ایوانوں میں جن مسلمانوں کو موقع ملتا ہے وہ زیادہ وقت
قومی مسائل کو دیں ۔مسلمان مسلمان کا ہر وقت رونا ہندو ہندو تک چیزوں کو لے آیا
ہے۔
9 اگست 2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
---------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism