New Age Islam
Sun Nov 09 2025, 03:11 PM

Urdu Section ( 15 Oct 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

War Is Avoided This Way جنگ ایسے ٹالی جاتی ہے

اسعد اعظمی

14 اکتوبر، 2022

یہ اس وقت کی بات ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 35 سال تھی۔ یعنی ابھی آپ نبی نہیں بنائے گئے تھے۔ اہل مکہ خانہ کعبہ کی تعمیر نو میں مصروف تھے کہ اچانک شدید اختلاف کا شکار ہوگئے جو انہیں ایک طویل جنگ میں جھونکنے کے درپے تھا۔ یہ ممکنہ جنگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت و فراست سے نہ صرف ٹل گئی بلکہ پھر سے جملہ قبائل شیر و شکر ہوکر کعبہ کی تعمیر میں مصروف ہوگئے۔

اس واقعے کی تفصیل سیرت نگاروں نے یوں بیان کی ہے کہ خانہ کعبہ کی دیوار سیلاب کی وجہ سے ٹوٹ رہی تھیں اس لئے قریش نے ا س کی تعمیر نوکا پروگرام بنایا ساتھ ہی یہ بھی اعلان کیا کہ خانہ کعبہ کی تعمیر میں صرف پاک حلال کمائی ہی لگائی جائے گی۔ اس میں کسی بدکار عورت، کسی سود خور اور کسی ظالم او ربے ایمان آدمی کا پیسہ نہیں لگایا جائے گا۔

قریش کے مختلف قبائل کیلئے خانہ کعبہ کے الگ الگ حصے متعین کردیئے گئے جس کی تعمیر کے وہ قبائل مکلف کئے گئے۔ تمام قبیلے والوں نے اپنے اپنے حصے کی تعمیر شروع کردی، جب دیوار اس قدر بلند ہوگئی کہ حجر اسود کو نصب کردیا جائے تو ان قبائل کے مابین یہ سوال اٹھا کہ کس قبیلے کو یہ شرف حاصل ہو کہ وہ حجر اسود کو اٹھا کر اس کے مقام پر نصب کرے۔چونکہ اس سعادت کے حصول کے لئے ہر قبیلہ خواہشمند او رکوشاں تھا اور اس سے دستبردار ہونے کو باعث خفت تصور کرتا تھا اس لئے ایک طرح کے نزاع اور مخاصمت کی شکل پیدا ہوگئی،گر وہ بندیاں ہونے لگیں او رعہد و پیمان کئے جانے لگے۔ جنگ کا وقوع یقینی نظر آنے لگا، یوں بھی اس عہد میں معمولی معمولی باتوں پر سالہا سال جنگ لڑنا معمول کی بات تھی۔ کچھ قبائل نے خون سے بھرے پیالے میں ہاتھ ڈبو کر لڑنے مرنے کا عہد کیا،چار پانچ روز تک یہی غیر یقینی صورت حال قائم رہی، پھر اسی مسجد حرام میں اس سلسلے میں ایک میٹنگ بلائی گئی او راس مسئلے پر غور خوض ہوا۔قریش کے ایک سن رسیدہ شخص ابوامیہ ابن مغیرہ نے یہ تجویز رکھی کہ اس اختلاف کو دور کرنے کیلئے سب لوگ اس بات پر اتفاق کریں کہ کل جو پہلا شخص اس مسجد حرام میں داخل ہوگا سب لوگ اسی کو حکم تسلیم کریں گے او روہ اس سلسلے میں جو بھی فیصلہ کرے گا اسے بے چوں چرا قبول کریں گے۔ تمام قبیلے والوں نے اس رائے سے اتفاق کیا۔ حسن اتفاق کہ سب سے پہلے مسجد حرام میں داخل ہونے والے جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے انہیں دیکھتے ہی سب کے سب بیک زبان بولے:”ھذا الامین رضینا، ھذا محمد“۔ یہ امین ہیں، یہ محمد ہیں، ہم ان کے فیصلے پر راضی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب ان کے پاس پہنچے تو انہو نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پورے واقعے سے باخبر کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس فیصلے سے مطلع کیا کہ اس نزاع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم مانا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

پہلے ایک چادر لے آؤ، چادر لائے جانے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو چادر پر رکھ دیا او رفرمایا: ہر قبیلے کا سردار چادر کا ایک کونا پکڑے او رسب مل کر چادر کو اوپر اٹھائیں، اس طریقے سے جب تمام قبیلے والوں نے مل کر حجر اسود کو اٹھایا اور اس مقام تک لے گئے جہاں اسے نصب ہوناتھا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے دست مبارک سے اٹھا کر دیوار کے اوپر رکھ دیا پھر اس کے اوپر حسب معمول تعمیر کا کام شروع ہوگیا۔(سیرت ہشام: 197-192/1)

دیگر واقعات کی طرح اس واقعے سے بھی پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سماج کے اندربلند مقام و مرتبہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دل عزیز او رمعتبر شخصیت کے مالک تھے۔ اعلیٰ اخلاق، امانت و دیانت، صداقت وشرافت او رعدل و انصاف جیسے اخلاق حسنہ کی بدولت ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام و مرتبے پر فائز ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قریش کے متحارب گروہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی بے ساختہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت و صداقت کا نعرہ بلند کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی فیصلہ صادر ہونے سے پہلے ہی اس فیصلے پر اپنی رضا مندی اور اطمینان کا اعلان کرنے لگے۔ کیونکہ وہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اعلیٰ اخلاق کے مالک، غیر جانبدار اور لائق اعتبار ہیں۔ وہ جو بھی فیصلہ کریں گے وہ حق تلفی او رنانصافی کے شائبہ تک سے بالکل پاک ہوگا۔ قریش کے اس موقف سے یہ بھی واضح ہوجاتاہے کہ اچھے اخلاق و کردار کو ہمیشہ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے حتیٰ کہ بگڑے ہوئے معاشرے بھی برملا اس کا اعتراف کرتے ہیں۔

اسی طرح خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت قریش کا اس امر پر اتفاق کرنا کہ اس میں صرف اپنی جائز او رحلال کمائی ہی لگائیں گے، بے ایمانی او رناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی دولت کا اس پر ہرگز استعمال نہ کریں گے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اہل جاہلیت بھی حلال وحرام او رجائز و ناجائز کا فطری طور پر شعور رکھتے تھے۔زنا کاری، سود خوری او رظلم و عدوان یہ تمام کی تمام ایسی قبیح او رمذموم خصلتیں ہیں جن کی قباحت اور شناعت پر پورے انسانی معاشرے کا اتفاق ہے۔ مگر افسوس کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں ان برائیوں کو سند جواز فراہم کیاجارہا ہے اور ان کو پھیلا نے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ یہ انسانی فطرت سے سراسر بغاوت ہے او رانشاء اللہ اسے کبھی بھی عمومی قبولیت حاصل نہ ہوگی۔

بہر حال اس واقعے میں اس طرح کی بہت ساری عبرتیں او رنصیحتیں پنہاں ہیں جن سے ہم اپنی انفرادی او راجتماعی زندگی میں بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اس واقعے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ نیک نیتی او ربے نفسی ہوتو بڑے سے بڑے تنازع کو ایک یا چند ایک افراد بھی ختم کرسکتے ہیں۔ اس کے برعکس مصلحت پسندی، بدنیتی،منافقت اور مفاد پرستی جیسی ذہنیت کے ساتھ ہزار وں افراد بھی کسی ممکنہ جنگ کو رکوانے یا ٹالنے کے لئے آواز اٹھا ئیں تو وہ صدابہ صحرا ہی ثابت ہوتی ہے۔ دنیا بار بار اس کو آزما چکی ہے او رنہ جانے کب تک آزماتی رہے گی۔

14اکتوبر، 2022، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/war-avoided-way/d/128182

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..