New Age Islam
Thu May 15 2025, 02:38 PM

Urdu Section ( 30 Nov 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Was the Waqf Beneficial for Muslim Society? کیا وقف مسلم معاشرے کے لیے فائدہ مند تھا؟

ارشد عالم، نیو ایج اسلام

 29 نومبر 2022

 ممکنہ طور پر یہ مسلم دنیا کی اقتصادی ترقی میں ایک رکاوٹ رہا ہے۔

 اہم نکات:

 1. وقف ایک مقدس کام ہے جسے ایک خاص مقصد کے لیے بنایا گیا ہے۔

 2. اگرچہ اس کی اصل اسلامی نہیں ہے، لیکن اس کا استعمال مسلم دنیا میں بڑے پیمانے پر تھا۔

 3. اپنی نوعیت کی وجہ سے یہ ادارہ غیر لچکدار تھا لہٰذا یہ بدلتے وقت کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہو سکا۔

 4. اس نے بڑے سرمائے کے انضمام میں رکاوٹ پیدا کی جو صنعتی دور کو شروع کرنے کے لیے ضروری تھا۔

 -------

 سچر کمیٹی نے 2006 میں کہا تھا کہ ہندوستان میں تمام وقف املاک کی کل قیمت تقریباً 60 بلین ہندوستانی روپے ہے۔ آج اس کی کوئی قیمت نہیں بچی۔ بہت سے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اگر اس رقم کو صحت اور تعلیم کے فنڈز کی طرح بہتر طور پر استعمال میں لایا جائے تو ہندوستانی مسلمانوں کی حالت بہتر ہو جائے گی۔ لیکن یہ صرف کہنے میں ہی بہتر ہے، بڑی حد تک اس کی وجہ یہ ہے کہ وقف کی نوعیت اور مصرف کو خود مسلمان پوری طرح سے نہیں سمجھتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب وقف خیراتی اداروں کے طور پر کام کرتا تھا جس میں کچھ عوامی کام بھی ہوا کرتے تھے، لیکن کم از کم سولہویں صدی کے بعد سے، ان وقف املاکوں نے اپنے ان کاموں کو انجام دینا چھوڑ دیا ہے اور مسلم معاشروں کے ترقی نہ کرنے کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے۔

 اس ادارے کی ابتداء کیسے ہوئی یہ غیر واضح ہے۔ لیکن ایک بات یقینی ہے کہ اس کی بنیاد اسلامی نہیں تھی۔ وقف جیسے ادارے رومی سلطنت کے ساتھ ساتھ ساسانیوں میں بھی موجود تھے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ ابتدائی اسلامی معاشرے نے اس ادارے کو ساسانیوں سے مستعار لیا تھا۔ اگرچہ بعد میں اسے فقہی نقظہ نظر سے اللہ کے لیے جائیداد وقف کرنا قرار دیا گیا، لیکن ایسا کوئی ریکارڈ نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ قدیم مسلمانوں نے ایسی کوئی گرانٹ قائم کی ہو۔ اس لیے مسلم معاشروں میں قدیم ترین وقف خلافت راشدین کے دور کی بجائے سلطنت کے قیام کے بعد کا ہے۔ لیکن جب مسلمانوں نے اسے اپنایا تو انہوں نے اس کا وسیع پیمانے پر استعمال کیا۔ اس ادارے کے ذریعے انہوں نے ہسپتالوں، مدرسوں، کاروان سراؤں وغیرہ کو مالی امداد فراہم کی۔ وقف کا قیام آسان تھا: جائیداد ہمیشہ کے لیے خدا کے لیے وصیت کی جاتی اور جائیداد کی نگرانی کے لیے ایک منیجر مقرر کیا جاتا۔ اس جائیداد سے آمدنی کی جاتی تھی جو فلاحی مقاصد کے لیے خرچ کئے جاتے تھے۔ لہٰذا آمدنی کا کچھ حصہ واقف کے خاندان کو بھی جاتا تھا۔

لہٰذا وقف ایک اہم کام کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کی مالی کفالت کا ذریعہ بھی تھا۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ، مؤخر الذکر نے سابق پر غلبہ حاصل کیا۔ لہٰذا، الجزائر اور استنبول کی طرح مسلم ممالک کے بہت سے شہروں میں، وقف املاک تمام رئیل اسٹیٹ کا تقریباً 30-50 فیصد بنتی ہیں۔ چونکہ تمام وقف ٹیکس سے مستثنیٰ تھے، لہٰذا اس کا مطلب صرف یہ تھا کہ ریاست کے پاس آمدنی کم تھی کہ جس سے وہ ریاستی امور انجام دیتی۔ لہٰذا ایک طرف تو وقف کی املاک نے خدمت خلق کا اہم فریضہ انجام دیا، لیکن اس کا ایک منفی پہلو بھی تھا: اور وہ ریاستی محصول کو محدود کرنا تھا۔ اگرچہ ایک بہت بڑی سلطنت تھی، لیکن سلطنت عثمانیہ کو دوسرے ممالک اور غیر ملکی بینکوں سے قرض لینے پر مجبور ہو گئی۔

 وقف املاک کی ایک بہت بڑی خرابی یہ تھی کہ یہ ٹیکس چوری کا ایک بہر بڑا ذریعہ بن گئی۔ اپنی نوعیت کی وجہ سے یہ ادارہ غیر لچکدار تھا لہٰذا یہ بدلتے ہوئے اقتصادی تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہو سکا۔ کیونکہ ایک بار وقف ہو جائے تو اس کے بعد اس کے مقصد میں تبدیل یا ترمیم نہیں کی جاسکتی۔ مثال کے طور پر بہت سے مسلمانوں نے قرون وسطی میں شاہراہِ ریشم پر کاروان سرائیں قائم کیں۔ یہ سرائیں تاجروں اور ان کے جانوروں کی فیس کے عوض اپنی خدمات پیش کرتی تھیں، جس کی آمدنی عمارت کی دیکھ بھال اور بانیان وقف کے بچوں کو جاتی تھی۔ تاہم، جیسے جیسے وقت کے ساتھ ساتھ شاہراہِ ریشم کا راستہ تبدیل ہوتا گیا، یہ سرائیں بے مصرف ہوتی گئیں اور ان سے آمدنی کا راستہ بھی بند ہوتا گیا۔ لیکن، اس حقیقت کی وجہ سے کہ یہ اوقاف تاجروں کی مستقل خدمت کے خاص مقصد کے لیے عمل میں آئی تھیں، ان کی نوعیت، کام یا مقصد کو تبدیل کرنے کا کوئی قانونی طریقہ نہیں تھا۔

 ہندوستان میں بھی ایسا ہی ہے۔ وقف کی اہمیت پر فخر کرنا اور اس سے بہتر مصرف نکالنا اچھی بات ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان املاک کی نوعیت مسلمانوں کو ان کا استعمال مختلف میں کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ یہ سچ ہے کہ وقف املاک پر سرکاری قبضے جیسے مسائل ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد ایسے املاکوں کی ہے جو قانونی چارہ جوئی کی وجہ سے غیر استعمال شدہ پڑی ہوئی ہے کیونکہ انہیں حل کرنے میں دہائیاں لگ جاتی ہیں۔ لیکن ان عوامل کے بغیر بھی، وقف کی نوعیت جائیداد کو ختم کرنے یا اس کے مقصد استعمال کو تبدیل کرنا انتہائی مشکل بنا دے گی۔ اگر کسی نے مدرسہ کو وقف کے طور پر قائم کیا ہے تو اسے ہمیشہ اسی مصرف میں استعمال کیا جائے گا۔ خدا نہ کرے اگر بانی نے کچھ کتابوں کا ذکر بھی کر دیا ہے جو ان کے خیال میں اس مدرسہ میں پڑھائی جانی چاہئیں تو وہ کتابیں سینکڑوں سال گزرنے کے بعد بھی نصاب سے خارج نہیں ہو سکتیں۔ اسی سختی نے وقف کو ہمارے زمانے کے لیے غیر افادیت بخش بنا دیا ہے۔ تاہم اس وقت کے مسلمانوں کو سینکڑوں سال آگے کی منصوبہ بندی نہ کرنے کا قصور وار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ قصور ہم، موجودہ دور کے مسلمانوں کا ہے کہ ہم نے اس کے منفی اثرات کو محسوس کیے بغیر وقف کے احیاء کی حمایت کی۔

 قرون وسطی کا آخری دور وہ وقت تھا جب مغربی دنیا میں بینکنگ کا نظام وجود میں آ رہا تھا۔ تاجر اکٹھے ہو رہے تھے، وسائل جمع کر رہے تھے اور بھاری سرمائے سے بینک قائم کر رہے تھے جس نے آنے والے صنعتی انقلاب کو تحریک دی۔ مسلم دنیا میں اس کے بالکل برعکس چل رہا تھا۔ ان کے پاس وسائل تو تھے لیکن وقف کی تخلیق سے یہ تیزی سے غیر منقولہ اثاثوں میں منجمد ہو رہے تھے۔ اس لیے مالی وسائل ختم ہونے لگے اور اس کی نوعیت نے اس پر لازم کر دیا کہ اسے کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ مزید برآں، مختلف وقفوں کو ایک ساتھ ضم نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ بانی ایسا کرنے کے لیے واضح ہدایات نہ چھوڑ دیں: جو بالکل ندارد نایاب تھے۔ یہاں تک کہ جب کچھ مسلمانوں کو اپنی حماقت کا احساس ہوا تو بہت دیر ہو چکی تھی اور بہت سے لوگوں نے ان علماء کے خوف سے زبان نہیں کھولی جنہوں نے اب تک ان وقف املاکوں کو مقدس ادارے قرار دے دیا تھا۔ مزید برآں، چونکہ وقف صرف دولت مند ہی کر سکتے ہیں، اس کا مطلب صرف یہ تھا کہ مسلم دنیا کی اشرافیہ نے خود کو ایک ایسے قانون میں جکڑ لیا ہے جو اب کسی کام کا نہیں تھا۔ اس کے علاوہ یہ ادارہ امیروں کے بچوں کے لیے بھی فائدہ مند نہیں تھا کیونکہ انہیں وقف کی طرف سے دی گئی رقم پر انحصار کرنا پڑتا تھا، لہٰذا وہ اپنی زندگی میں کوئی بڑا کام نہیں کر سکے۔

 آج ہندوستان میں جب ہم وقف املاک کی ممکنہ قیمت کے بارے میں بات کرتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کی تقدیر کیسے بدل سکتی ہے تو ہمیں اس کی تاریخی نوعیت کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ مختلف اوقاف میں پھنسے تمام رقوم کا بہتر مصرف نکالنے کا ایک واحد راستہ یہ ہے کہ ان اداروں کے 'مقدس' کردار کو بدلنے پر رضامندی قائم کی جائے۔ لیکن کیا مسلمان بڑی تعداد میں اس دعوت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں؟

English Article: Was the Waqf Beneficial for Muslim Society?

 URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/waqf-beneficial-muslim-society/d/128525

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..