گریس مبشر، نیو ایج اسلام
10 اپریل 2023
دہشت گردی کے خلاف امریکی
جنگ نے اسلامی/اسلام پسند سیاست کے بارے میں کافی لٹریچر فراہم کیا ہے۔ 2011 میں
شروع ہونے والی عرب بہاریہ نے مسلم سیاست کی تفہیم میں بنیادی تبدیلیوں کو جنم
دیا۔ لٹریچر اگر واضح طور پر اسلامو فوبیائی نہیں تو بیاناتی ضرور ہیں۔ وائل حلاق
کی کتاب ’‘The Impossible State; Islam, Politics and
Modernity’s Moral Predicament’ قومی ریاستوں پر مغربی ناکامیوں اور اسلامی قانون کی فراہم کرنے
والی مسلم ریاستوں کے موجودہ مطالبات کی نوآبادیاتی جڑوں سے اس مسئلے پر روشنی
ڈالتی ہے۔ یہ کتاب ریاست اور معاشرے کے مغربی تصورات میں پائے جانے والے تضادات سے
مسلم ریاست کے موضوع کا تجزیہ پیش کرنے کی ایک جرات مندانہ کوشش ہے۔
یہ کتاب مغربی اہل علم اور
عوامی دانشوروں کے لیے ایک تحقیقی مآخذ کے طور پر پیش کی گئی ہے۔ اس کتاب میں
اسلام کو مسابقت میں ارتقا پذیر نظریہ کے طور یا سماجی ترقیات کی تکمیل کے طور پر
پیش کیا گیا ہے۔ وہ مسلمانوں کے اسلامی حکومت کے مطالبے کو مغربی استعمار یا اس کے
ثقافتی اور سیاسی آثار کا متبادل تلاش کرنے کے لیے ایک فطری پیش رفت قرار دیتے
ہیں۔ اس کتاب میں اسلامی سیاست کے تجزیہ کے ساتھ سماجی اور سیاسی محرکات کا تعارف
کرایا گیا ہے جس کی وجہ سے اسلامک ریاست کے لیے عوامی مطالبات سامنے آئے۔ یہ کتاب
حلاق کی پہلی کتاب ’کیا شریعت بحال ہوسکتی ہے‘ کا تسلسل ہے۔ اس کے بعد ایک اور
تصنیف ہے جس کا عنوان ہے 'Restating Orientalism: A
Critic of Modern Knowledge، جس میں وہ اسلام اور مسلم معاشرے کو سمجھنے میں مغربی دنیا میں
تعصب کا تنقیدی مطالعہ کرتا ہے۔
کتاب کا آغاز اسلامی ریاست
کے بارے میں ان کے واضح موقف کے ساتھ ہوتا ہے کہ یہ ایک ناممکن منصوبہ ہے، چاہے اس
کی مسخ شدہ، کم ترین شکل میں ہی کیوں نہ ہو۔
وہ کہتے ہیں، "یہ
کتاب جدید قومی ریاستوں کی ایک اخلاقی تنقید ہے۔ قومی ریاستیں مغربی جدیدیت کی
پیداوار ہیں۔ لہٰذا، مغربی قومی ریاستوں پر مبنی اسلامی ریاست ناممکن اور غلط نام
ہے۔ کیونکہ اسلام کے مطابق، یہ جدید ریاست کے تمام کرداروں سے عاری ہے، مثلا
یکسانیت، نسلی اور علاقائی انضمام"۔ وہ اسلامی ریاست اور قومی ریاست میں
قانون سازی کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے تضادات کی طرف اشارہ بھی کرتے ہیں۔ ایک قومی
ریاست میں، عوام یا نمائندہ ادارے کو قانون سازی کے لیے خودمختار حقوق سونپے جاتے
ہیں، لیکن اسلامی ریاست کے معاملے میں یہ اللّٰہ کا اختیار ہے۔ شریعت اسلامی ریاست
کی قانونی بنیاد ہے۔ قومی ریاستوں میں قوانین تحریری، مرکزی اور مکمل طور پر افسر
شاہانہ ہوتے ہیں؛ اس میں قانون پر ریاست کی اجارہ داری ہوتی ہے جس میں سماجی
تقاضوں کے مطابق رد و بدل ہو سکتا ہے۔ لیکن اسلام میں، قانونی نظام غیر مرکزی اور
ہمیشہ ترقی پذیر ہے۔ حکمران صرف نگہبان اور شریعت کے نفاذ کرنے والے بہت سے اداروں
میں سے ایک ہوتے ہیں۔ اسلام، ریاست کی حاکمیت کے جدید تصورات کو یکسر مسترد کرتا
ہے۔ عالم مغرب اور اسلام کے مطابق ریاست کے تصور میں زبردست تضادات کی نشاندہی
کرتے ہوئے، مصنف مغربی قومی ریاست کی طرز پر اسلامی ریاست کو ناممکن قرار دیتے
ہیں۔
وہ ریاست کے دو ماڈلوں کے
مختلف ذرائع کو دونوں تصورات کے درمیان بنیادی تضاد قرار دیتے ہیں۔ مغرب میں جدید
ریاست مغربی جدیدیت کا سیاسی عمل ہے جبکہ اسلامی ریاست شریعت کے مطابق تشکیل دی
گئی ہے۔ ان کے مطابق مغربی ریاست کا مرکزی دائرہ ٹیکنالوجی ہے جبکہ اسلام کا
اخلاقیات ہے۔
وہ جدید دور میں اسلامک
اسٹیٹ کے ناممکن ہونے کے اپنے استدلال کو ثابت کرنے کے لیے دونوں ماڈلوں کا مقامی
اور زمانی تجزیہ کرتے ہیں۔ دولت اسلامیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا تھا، جس کے متعدد
نیم آزاد علاقے مقامی ضروریات کے مطابق انتظامی امور اور انصاف فراہم کر رہے تھے۔
ایک غیر مرکزی تعلیمی نظام اور انصاف کی فراہمی نے اس سیاست میں مدد کی۔ جب استعماریت
نے اس تنوع کو تجارتی رکاوٹ کے طور پر پایا، تو انہوں نے اسلامی تاریخ میں پہلی
بار وحدت پیدا کرنے کی کوشش کی، اور اس عمل میں عدم مطابقت کو نظر انداز کیا۔ مصنف
اس افسوسناک حالت پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں جب اس عمل میں اسلامی ریاست کی
تشریحی متحرکیت ختم ہو گئی تھی اور شرعی قانونی نظام نے استعماری طاقت کو سہولت
فراہم کرنے کا کام کیا تھا۔ اس عمل میں اسلام کے سخت اور تحریری ضابطے پیش کیے
گئے، جس سے اس کے تنوع پر ضرب لگی۔ مصنف اس حقیقت پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ
جدید ریاست کا تشدد لوگوں کو متبادل تلاش کرنے پر مجبور کرتا ہے اور مسلم ممالک
میں لوگ جدید دنیا میں اس کے ناممکن ہونے سے بے خبر اسلامی حکومت کی طرف رجوع کر
رہے ہیں۔
"مثالی اسلامی
حکومت" جو اخلاقی طور پر صحیح "مثالی شریعت" پر مبنی ہو اور جو
مطلق العنانیت کی حمایت نہ کرے اور بلحاظ مراتب تادیبی نظام کو اس یورپی نظام کے
ساتھ حلاق نے متضاد قرار دیا ہے۔ مسلمانوں نے خدا کے اختیار کے بغیر حکومت کی۔ ان
کے پاس قانون سازی کا اختیار نہیں تھا، جو الہی قانون کے ثالث کے طور پر کام کرنے
والے علماء کے ہاتھ میں رہا۔ حلاق "انتظامی سلطانیت" سے "عارضی خاندانی
حکمرانی" مراد لیتے ہیں جس کے لیے موجودہ دور میں "ریاست" کے معنیٰ
میں عربی لفظ الدولہ استعمال کیا جاتا ہے (ص 66)۔ حلاق کے مطابق، غلاموں سے مسلمان
سلطانوں کی فوجیں بنائی جاتی تھیں کیونکہ "اسلام میں کبھی بھی بھرتی کا کوئی
تصور نہیں تھا۔" مسلم معاشرے میں، نظم و ضبط کے اقدامات نیچے سے اوپر تک
اخلاقی اقدار کے ذریعے لاگو کیے جاتے تھے۔ مصنف کا دعویٰ ہے کہ، اس طرح ایک نیا
"اسلامی ریاست" "ناممکن ریاست" ہے۔ "جدید ریاست کو
اخلاقی بنیادوں پر تعمیر نہیں کیا جا سکتا، اور نہ ہی یہ ایک اخلاقی وجود کے طور
پر کام کر سکتی ہے۔ یہ "اخلاقی دائرے میں داخل ہونے کی کوشش نہیں
کرسکتا،" اور نہ ہی یہ اس کا فرض ہے کہ "ہمیں اچھا بنائے"۔ وہ کہتے
ہیں کہ، "سیاست میں اور ریاستی تسلط کے فریم ورک میں شامل کوئی بھی اخلاقی
دلیل، آخر کار ایک سیاسی دلیل کے سوا کچھ نہیں، جو کہ "سیاسی عزائم کو قانونی
حیثیت دینے کا ایک طریقہ ہے"۔
یہ کوئی نیا منظر نہیں ہے۔
1940 کی دہائی سے لکھتے ہوئے، محمد اسد نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ
"شریعت اب پرانے کپڑوں کی ایک بڑی دکان سے زیادہ کچھ نہیں ہے جہاں قدیم سوچ
کے ملبوسات، جن کی اصل تقریباً ناقابل شناخت ہے، میکانکی طور پر خریدے اور بیچے
جاتے ہیں، پیوند لگائے جاتے ہیں اور دوبارہ فروخت کیے جاتے ہیں، اور جہاں خریدار
کی واحد خوشی پرانے درزی کی مہارت کی تعریف کرنے میں ہوتی ہے"۔
اسلام اخلاقی طور پر ایک
اعلیٰ ثقافت ہے جو اس نظریے کو رد کرتا ہے کہ حقیقت اور معیار الگ الگ ہو سکتے ہیں
اور جس کے لیے "سیاسی" کی اصطلاح صرف گھومتی ہوئی خاندانوں کے انتظامی
حکمرانوں کی طرف اشارہ کرتی ہے جو اپنے منصفین کے ساتھ معاشرے کے بڑھتے ہوئے قریبی
تعلقات سے الگ رہتے ہیں اور جن کا کام ہے ٹیکس لگانا، فوجیں بڑھانا، اور معمولی
ضابطے نافذ کرنا۔ جدید مغربی شہری کی افسوسناک حالتِ زار کے برعکس، جس کی موضوعیت
کو ریاست اپنی خود غرضی کے لیے وضع کرتی ہے، اس کائنات میں، ایک انفرادی مسلمان کا
"خود کی دیکھ بھال کرنا" اپنے آپ کو احکام شریعت کے مطابق اخلاقی طور پر
ڈھالنا زندگی کا اصول ہے۔ حلاق کے لیے، "اسلامی روایت نظریاتی، فلسفیانہ،
سماجی، بشریاتی، قانونی، سیاسی اور اقتصادی مظاہر پر مشتمل ہے جو اسلامی تاریخ میں
مثالی عقائد اور معمولات کے طور پر ابھرے ہیں"۔
مصنف خلافت کو ایک سیاسی
استعارہ قرار دیتے ہیں۔ جو ایک سیاسی ضابطہ اور وجود ہے جہاں اسلامی اخلاقی اقدار
کو فوقیت حاصل ہے اور ریاست کو لوگوں اور ان کی املاک کی حفاظت کے لیے شریعت نے
پابند کیا ہے۔ مصنف جمہوریت، سیکولرازم اور اضافیت جیسے جدید سیاسی نظریات کی
ریاست اور سیاست کے اسلامی تصورات سے عدم مطابقت پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔
وہ تاریخی اور فقہی نقطہ
نظر سے سیاست کے اسلامی تصورات پر تفصیل سے بحث کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ کتاب ISIL
(Islamic State of Iraq and Levant) کی جانب سے اپنی نام نہاد اسلامک اسٹیٹ کے اعلان کے بعد اسلامک
اسٹیٹ کو سمجھنے کی ایک کوشش تھی، لیکن یہ کتاب مغربی سیاست کے مقابلے میں اسلامک
اسٹیٹ کے ارد گرد ہونے والی وسیع بحثوں کو ایک وسیع تناظر سے سمجھنے میں مدد کرے
گی۔
مسلمانوں کو اچھی زندگی
حاصل کرنے کا راستہ فراہم کرنے کے لیے، حلاق اسلامی تاریخ کے وسیع اخلاقی تعلیمات
کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔ اس عمل میں، وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ نہ تو مسلم مذہب ہے
اور نہ ہی اسلامی دنیا سیاسی اور سماجی طور پر"اسلام کے بحرانوں" کی خاص
وجہیں ہیں۔ مسلمان ان بحرانوں اور مشرق اور مغرب دونوں کے موجودہ حالات کے درمیان
مماثلت کو تسلیم کرکے مغربی باشندوں کے ساتھ زیادہ مؤثر طریقے سے معاملات کرسکتے
ہیں۔
یہ کتاب اسلام پسند/سیاسی
مسلمانوں پر ایک زبردست تنقید ہے جو ایک جدید اسلامی ریاست کی خواہش رکھتے ہیں۔
آخری باب میں انہوں نے اسلامیت کے حامیوں کی سیاست کا تجزیہ کیا ہے۔ اسلام پسند
سیاست اسلامی ریاست کو مغربی قومی ریاستوں کے مطابق دوبارہ تشکیل دینے کی کوشش
کرتی ہے۔ ایسے حالات میں ریاست شریعت پر غالب آجائے گی اور مقامی اشرافیہ شریعت
اور سیاسیات کے نگہبان ہوں گے، جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ وہ بیان کرتے ہیں
اسلام پسندوں کے سیاسی منصوبے اسلامی قانون کو مکمل طور پر ریاست کی نگرانی میں
لانے کی کوشش کرنا ہے، اور ریاست کو شہریوں پر (غیر) اخلاقی حقوق حاصل ہوں گے۔ وہ
اسلامی تحریکوں کو مقامی اشرافیہ کی طرف سے انسانی ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقی
حکمرانی فراہم کرنے میں مغربی سیاست کی ناکامیوں کا ردعمل قرار دیتے ہیں۔
اس کتاب کو کئی حلقوں کی
جانب سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔ طلال اسد نے اس کتاب کو اسلامی سیاست کو
سمجھنے کی ایک ناکام کوشش قرار دیا اور مصنف کی اسلامی سیاست کی تفہیم پر تنقید
کی۔ ان کا سوال بڑا اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر شریعت اس پسماندہ نفاذ سے بھی باہر
ہو جس کی جدید سیاسی منصوبے اجازت دیتے ہیں، تو اسلام کی بطور سیاسی نظام کیا
اہمیت رہ جاتی ہے؟ لیکن یہ کتاب اسلامک اسٹیٹ اور اسلام پسند سیاست کی غلط فہمی کو
سمجھنے کی ایک قابل تعریف کوشش ہے۔
English
Article: The Impossible State: Wael Hallaq’s Reading Of
Theocratic State
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism