سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
18 نومبر 2023
غزہ پر اسرائیلی بمباری کےچالیس
دن مکمل ہوچکے ہیں۔ اس دوران غزہ کے شہریوں کو بمباری سے ایک دن کی بھی راحت نہیں ملی
ہے۔ غزہ کا کوئی بھی مقام محفوظ نہیں ہے اور اب تک اس بمباری میں گیارہ ہزار سے زہادہ
معصوم افراد مارے جاچکے ہیں جن میں چار ہزار سے زیادہ بچے ہیں۔ اس جنگ کا سب سے افسوس
ناک پہلو یہ ہے کہ اسلامی ممالک نے غزہ کے شہریوں کے قتل عام کو بے حسی سے دیکھا اور
ان پر بمباری رکوانے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ بہت کمزور تھے یا کچھ
کرنے کی حالت میں نہیں تھے۔ ان کے پاس تیل اور گیس کی دولت تھی۔ ان کے پاس طاقتور افواج
تھیں اوراسرائیل اسلامی ممالک کے تیل اور گیس کا محتاج تھا۔ لیکن یہ اسلامی ممالک نہ
اس پر پابندیاں لگا سکے اور نہ ہی اسپتالوں ، اسکولوں اور پناہ گزیں کیمپوں پر بمباری
پر روک لگا سکے۔ وہ صرف جذباتی تقریریں کرتے رہے ، مذمتی بیان دیتے رہے اور اسرائیل
سے جنگ بندی کی مانگ کرتے رہے۔
یہ عرب اور اسلامی ممالک اتنے
کمزور تھے کہ وہ غزہ میں اشیاء خوردنی ، ایندھن اور دوائیں بھی اسرائیل کے خوف سے نہ
بھجواسکے۔ صرف اردن ایک بار اسرائیل کی اجازت سے ایک اسپتال کے لئے دوائیں جنگی جہاز
سے غزہ بھجواسکا وہ بھی اس لئے کہ اردن نے اسرائیل کی غلامی ایک لمبے عرصے سے کی ہے۔
لیکن اسے بھی اس سے زیادہ کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ جب اسرائیل نے غزہ پر زمینی حملہ
نہیں کیا تھا تو ترکی کے صدر اردوگان نے اسرائیل کو تنبیہہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ زمینی
حملہ سرخ لکیر سمجھا جائے گا۔ جب اسرائیل نے زمینی حملہ شروع کردیا تو ترکی کے صدر
صرف دھمکیاں دیتے رہے۔ اسرائیلی افواج نے نہ صرف غزہ کو تباہ کردیا بلکہ وہاں کے اسپتالوں
کو بھی بند کرادیا۔ اب ترکی کے صدر کہہ رہے ہیں کہ مسجد القصی سرخ لکیر ہے۔ یہ وہی
بات ہوئی کہ محلے میں دو لڑکوں میں لڑائی ہو تو مار کھانے والا لڑکا کہے کہ تونے مارا
تو مارا ابکی مار کے دیکھ۔ یہی اوقات ان اسلامی ممالک کی رہ گئی ہے۔ جب ان کی بزدلی
اور کمزوری ساری دنیا اور بالخصوص مسلمانوں پر کھل گئی اور ساری دنیا کے مسلمان لعنت
ملامت کرنے لگے تو انہوں نے اپنی لاج بچانے کے لئے علامتی اقدامات کرنے شروع کئے۔سعودی
عرب نے فلسطینیوں کے لئے اربوں روپئے کا چندہ شروع کردیا ۔ متحدہ عرب امارات نے غزہ
میں اسپتال بنوانے کے لئے سازوسامان بھیجنا شروع کیا اور ترکی نے اپنے ملک میں پیپسی
اور نیسلے کا بائیکاٹ کرکے فلسطینیوں سے اپنی ہمدردی کا ڈھونگ رچایا۔ جبکہ اس وقت ضرورت
تھی اسرائیل کے خلاف فوجی کارروائی کی۔ کسی اسلامی ملک کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ اسرائیل
کو اس قتل عام پر طاقت کے بل پر روک سکتا۔
ایسا نہیں ہے کہ ان اسلامی
ممالک کے پاس اسرائیل سے کم ہتھیار ہیں ۔ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں عرب ممالک کی
مجموعی فوجی طاقت اسرائیل کی فوجی طاقت سے کم تھی لیکن ناقص پلاننگ ، عدم ربط اور اردن
کی مخبری کی وجہ سے ان کو اسرائیل کے مقابلے میں شکست ہوئی۔ آج اکیسویں صدی میں عرب
ممالک اور ایران اور ترکی کے پاس اتنی فوجی طاقت تھی کہ وہ اسرائیل کی اس سینہ زوری
کو روک سکتے تھے لیکن عرب ممالک کے حکمراں اسرائیل کے خلاف سینہ سپر ہونے سے اس لئے
ڈرتے ہیں کہ وہ عوامی حمایت سے برسراقتدار نہیں آئے ہیں۔ وہ غیر جمہوری طریقے سے اقتدار
میں آئے ہیں اور صرف اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اقتدار میں ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اسرائیل
اور امریکہ سے دشمنی مول لینے پر سازش کرکے ان کا تختہ الٹ دیا جائے گا یا پھر ملک
میں بدامنی پھیلاکر عوام کو ان کے خلاف کھڑا کردیا جائے گا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان
کا خفیہ طریقے سے قتل بھی کرادیا جائے۔ عرب حکمراں اس حقیقت سے واقف ہیں کہ اگر وہ
امریکہ اور اسرائیل کے خلاف کھڑے ہونگے اور خطے میں ان کے مفادات کو نقصان پہنچائیں
گے تویا تو ان کا اقتدار چلا جائے گا یا پھران کی جان ہی چلی جائے گی۔ فرانس کی طرف
سے شام کے صدر بشارالاسد کے خلاف جنگی جرائم کے لئے گرفتاری وارنٹ جاری ہونا ان خطرات
کی ایک مثال ہے جو عرب حکمراں محسوس کرتے ہیں جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ فرانس اور
یوروپی ممالک اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نتن یاہو کے خلاف جنگی جرائم۔کے لئے گرفتاری
کا وارنٹ جاری کرتے۔
اسرائیل کے غزہ پر حملے سے
قبل کی عرب اور اسلامی ممالک کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں۔ یہ ایک دوسرے کے خلاف کیسے برسرپیکار
ہوجاتے تھے یا پھر نقصان پہنچانے کے درپے رہتے تھے دوسال قبل مسلم اکثریتی ملک آذربائیجان
اور عیسائی اکثریتی ملک آرمینیا کے درمیان جنگ ہوئی توترکی کے صدر اردوان اس جنگ میں
کود پڑے تھے اور آذر بائیجان کو فوجی مدد پہنچائی تھی۔ آج وہی آزر بائیجان فلسطین کے
مقابلے میں اسرائیل کی حمایت کررہاہے کیونکہ آذر بائیجان اسرائیل کا اتحادی ہے۔ خود
ترکی کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہیں اور امریکہ کے فوجی اڈے ترکی میں قائم ہیں۔ سعودی
عرب کو امریکہ نے عربوں ڈالر کا ڈیفنس سسٹم دیا ہے ۔ امریکہ کا فوجی اڈہ بھی سعودی
عرب میں قائم ہے۔ یہ سب صرف اس لئے کہ امریکہ اور اسرائیل نے سعودی عرب اور خطے کے
دیگر اسلامی ممالک کو ایران کا خوف دکھایا ہے اور ان کے دل میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ
ایران تمہارے مفادات اور وجود کے لئے خطرہ ہے۔جنوبی ایشہا کے کسی ملک نے چاہے وہ ہندوستان
ہو، پاکستان ہو، ایران ہو سری لنکا ہو ، افغانستان ہویا بنگلہ دیش ہو امریکہ کو اپنی
زمین پر فوجی اڈہ قائم کرنے کی اجازت نہیں دی ہے لیکن ان عرب ممالک نےامریکہ کو اپنی
زمین پر فوجی اڈے قائم کرنے کی اجازت دی ہے تاکہ اگر کبھی کوئی اسلامی ملک اسرائیل
پر حملہ کرے تو وہ اس کی حفاظت کرسکے۔امریکہ نے عرب اور افریقی ممالک میں فوجی اڈے
اسلامی ممالک کی حفاظت کے لئے نہیں بلکہ اسرائیل اور امریکہ کے مفادات کی حفاظت کے
لئے قائم کئے ہیں۔
ایران اور عراق دس سال جنگ
لڑ چکے ہیں لیکن جب فلسطینیوں کے لئے اسرائیل سے لڑنے کی باری آئی تو ان کاغذی شیروں
کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ ایران آج بھی صر ف یہی کہہ رہا ہے کہ وہ اپنے فلسطینی بھائیوں
کے ساتھ کھڑا ہے۔
غزہ کے اسپتالوں کے انہدام
سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اسرائیل غزہ کے تمام انفراسٹرکچر کو ختم کردینا چاہتا ہے تاکہ
فلسطینیوں کے لئے قابل رہائش نہ رہ سکے اور انہیں یہاں سے مصر منتقل ہونے پر مجبور
کردیا جائے۔ 30 اکتوبر کو جنگ کے دوران ہی اسرائیل نے برطانیہ اور اٹلی کی 12 کمپنیوں
کو غزہ کے ساحلی علاقے پر گیس کی دریافت کا لائسنس دیا۔ اسرائیل نے غزہ میں گیس کی
دریافت کی ہے۔ اگر غزہ سے گیس کی پیداوار شروع ہو جاتی ہے تو اسرائیل اس خطے میں عرب
ممالک پر منحصر نہیں رہے گا اور اس کے ساتھ ہی ساتھ مغربی ممالک کا بھی عرب ممالک پر
انحصار بہت کم ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ مصر سے گزرنے والی سوئز نہر کے متوازی ایک نہر
اسرائیل غزہ سے نکالنا چاہتا ہے جس کی تیاری کے بعد تجارتی نقل وحمل کے لئے یوروپی
ممالک کا انحصار مصر پر کم ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس ، یونان برطانیہ اور اٹلی
کے سربراہ اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نتن یاہو سے مل رہے تھے۔ ان کی بنجامن نتن یاہو
سے اتنی ہمدردی کی وجہ یہی ہے۔
غزہ میں گیس کی دریافت اور
نہر (بن گورین ) کی تعمیر سے عرب ممالک کو معاشی اور سیاسی نقصان ہوگا ۔ اس لئے بھی
عرب اور اسلامی ممالک کو اس جنگ میں اسرائیل کے خلاف کھڑا ہونا چاہئے تھا تاکہ غزہ
ہی نہیں پورے عرب ممالک کےخلاف اسرائیل کے خطرناک منصوبوں کو ناکام بنا دیتے۔ لیکن
چونکہ یہ عرب حکمراں صرف اپنی بادشاہت قائم رکھنے میں ہی دلچسپی رکھتےہیں اور سیاسی
حکمت و دانش سے محروم ہیں اس لئے اجتماعی طور پر کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔ ان کی اسی
کمزوری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بنجامن نتن یاہونے ان عرب حکمرانوں سے کہا کہ تم لوگ
اگر اپنی خیر چاہتے ہو تو اپنی حکومت چلاؤ اور میرے خلاف کھڑے مت ہو۔ اسلامی ممالک
کے لئے اس سے زیادہ شرم اور ذلت کی بات کیا ہوسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism