نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر
13 ستمبر 2023
سوامی وویکانند نے 1893
میں پارلیمنٹ آف ریلیجن میں مذہبی جنونیت کے خطرات سے خبردار کیا تھا۔
اہم نکات:
1. انہوں نے کہا تھا
کہ ویدانتک نقطہ نظر جدید دنیا کے بہت سے چیلنجوں کا حل ہے۔
2. مذہبی جنونیت
اقلیتوں پر تشدد اور ان کی خونریزی کا سبب ہے۔
3. امبیڈکر نے بھی
مساوات، آزادی اور بھائی چارے پر مبنی مذہب کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
-----
9/11، کی تاریخ ہمیں
نیویارک میں ٹوئن ٹاورز پر ہونے والے خوفناک دہشت گردانہ حملوں کی یاد دلاتا ہے۔
حملوں میں مرنے والے بہت سے لوگوں کی شناخت اب تک نہیں ہو پائی۔ ان حملوں نے دنیا
کو بدل کر رکھ دیا اور اس سے مذہبی جنونیت سے لڑنے کی ضرورت بھی اجاگر ہوئی۔ یہ
تاریخ ہمیں 1893 میں شکاگو میں منعقد ہونے والی پارلیمنٹ آف ریلیجین کی بھی یاد
دلاتی ہے جہاں ہندوستان کی نمائندگی کرنے والے سوامی وویکانند نے اپنا یادگار خطبہ
پیش کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ فرقہ واریت، تعصب اور جنون کے نتیجے میں بے پناہ
خونریزی ہو چکی ہے اس لیے اس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ یہ دن ہمیں نسلی امتیاز کے خلاف
جنوبی افریقہ میں مہاتما گاندھی کے پہلے ستیہ گرہ کی بھی یاد دلاتا ہے۔
Swami
Vivekananda at the Parliament of Religions in 1893. Credit: Wikimedia Commons
------
سوامی وویکانند نے امید
ظاہر کی تھی کہ دنیا کی پارلیمنٹ فرقہ پرستی، تعصب اور اس کی 'خوفناک پیداوار'
جنونیت کا خاتمہ کر دے گی۔ بدقسمتی سے آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستان میں فرقہ
واریت اور مذہبی جنونیت نے مزید خوفناک شکل اختیار کر لی ہے۔ ہندوستان، جس کا
سماجی فلسفہ ویدانت پر مبنی ہے جو قلب و باطن کی تطہیر اور توحید پر زور دیتا ہے
جو خدا اور اس کی تخلیقات کے ایک ہونے پر یقین رکھتا ہے۔ ویدانتک فلسفہ تمام
مخلوقات کے لیے محبت اور ہمدردی اور امن کو فروغ دیتا ہے۔ اس فلسفے کو دبا دیا گیا
ہے اور اب فرقہ واریت، تشدد اور مذہبی جنونیت کے نظریے کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔
اس نظریے کا ہدف اقلیتیں ہیں، خاص طور پر مسلمان۔ ہندوستان کے دلتوں اور عیسائیوں
کو بھی اکثریت پسندی کے ہاتھوں نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ صدیوں سے، نچلی ذات کے لوگوں
کو اعلیٰ ذات کے ان لوگوں نے ذلت و رسوائی، جبر و تشدد اور امتیازی سلوک کا نشانہ
بنایا جو طاقت اور اقتدار کے نشے میں چور تھے۔ ان کو مخاطب کرنے کے لیے لفظ ملیچھا
ایجاد کی گئی۔ اس اکثریتی پسندی کا نیا ہدف اب مسلمان بن رہے ہیں۔ زندگی کے ہر
شعبے میں ان کے ساتھ مار پیٹ کی جاتی ہے ان کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ
امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ان کے قتل عام اور ان کے معاشی بائیکاٹ کا اعلان
کرنے کے لیے دھرم سنسد (مذاہب کی پارلیمنٹ) بلائی جاتی ہے جب کہ ہندوستان کا
اسٹریٹجک پارٹنر سعودی عرب اپنی سرزمین پر لاکھوں ہندوستانیوں کو روزگار فراہم
کرتا ہے جس سے ہندوستان کے غیر ملکی زر مبادلہ میں بہتری آتی ہے۔ سعودی عرب یا
دوسرے خلیجی ممالک کے مسلمان ہندوستان کے ہندوؤں کے معاشی بائیکاٹ کا اعلان نہیں
کرتے۔ حکومت اب تک ایسے شرپسند عناصر کی ناک میں نکیل نہیں ڈال سکی جو کھلے عام
مسلمانوں، عیسائیوں اور دلتوں کے خلاف تشدد میں ملوث ہیں۔ نوح میں مسلمانوں کے
خلاف اور منی پور میں عیسائیوں کے خلاف تشدد ہندوستان میں مذہبی جنونیت کا بدترین
مظہر ہے۔
آئین ہند کے معمار اول
امبیڈکر کا یہ بھی ماننا تھا کہ ہندوستان صرف اسی صورت میں ترقی کرسکتا ہے جب یہاں
مساوات، آزادی اور بھائی چارے پر مبنی مذہب نظام کا قیام ہو اور ایسے مذہب کی
بنیاد اپنشدوں پر ہو گی۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی نے بھی کہا کہ میرے ایک ہاتھ
میں گیتا اور دوسرے میں قرآن ہے۔ لیکن ہندوستان میں اکثریت پسندی کے عروج نے
ہندوستان کی جامع ثقافت کو خطرہ میں ڈال دیا ہے۔ قومی میڈیا کے ذریعے سیاستدانوں
کے فرقہ وارانہ بیانات نے ملک کے سماجی تانے بانے کو مخدوش کر دیا ہے۔ قومی میڈیا
پر چلائے جانے والے مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ پروگراموں نے نوجوانوں کے دلوں
میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکا دی ہے۔ حال ہی میں ایک پولیس کانسٹیبل نے
مسلمانوں سے نفرت کی وجہ سے ممبئی کے قریب ٹرین میں تین مسلمانوں کو گولی مار کر
ہلاک کر دیا۔ ایک ایسے ملک میں جہاں کی کئی ریاستوں میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی
بھی نہیں ہے، کئی مسلمان نام نہاد گؤ رکھشکوں کے ہاتھوں قتل کیے جا چکے ہیں، جن
میں مونو مانیسر بھی شامل ہیں۔
مسلمان لڑکیوں کو ایک
ایسے ملک میں حجاب پہننے پر ہراساں کیا جاتا ہے جہاں ہندو خواتین گھروں کے اندر
اور باہر پردے کا اہتمام کرتی ہیں۔ اس قسم کے پردے کو گھونگٹ کہتے ہیں۔ آج کل بہت
سی ہندو لڑکیاں ایسا ماسک پہنتی ہیں جو مسلم خواتین کے پردے کی طرح ہوتا ہے۔ آج
کل، مذہبی جلوس مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور ان کے خلاف تشدد کا ایک ذریعہ بن چکے
ہیں۔ مختلف قسم کے مذہبی جلوس نکالے جاتے ہیں جن میں شرکاء ہتھیار اٹھائے ہوئے
ہوتے ہیں اور مسلم مخالف نعرے لگاتے ہیں۔ یہ نعرے بعض اوقات فرقہ وارانہ تصادم کو
جنم دیتے ہیں لیکن حکومت ان سب کے باوجود کوئی پیشگی اقدامات نہیں کرتی۔
نوح، کھرگون، دہلی اور
ہاوڑہ میں ایسے ہی مذہبی جلوسوں کے دوران تشدد ہوا تھا۔ ابھی تک حکومت نے ایسے
مذہبی جلوسوں سے نمٹنے کے لیے کوئی پالیسی تک وضع نہیں کی ہے۔
کوکی اور میتی برادریوں کے
درمیان فسادات مئی سے جاری ہیں لیکن حکومت تشدد پر قابو پانے میں اب تک کامیاب
نہیں ہو سکی ہے۔ فسادیوں کے ہجوم نے دو بے سہارا خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی جس
کی ویڈیو وائرل ہوئی لیکن اس سے بھی اعلی عہدے پر براجمان لوگوں کا ضمیر بیدار
نہیں ہوا۔ یہاں ہندوستان میں ہنگامے ہفتوں اور مہینوں تک جاری رہتے ہیں جب کہ ملک
کے دوسرے حصوں میں عام لوگ معمول کے مطابق اپنی زندگی گزارتے ہیں اور سیاست دان
اپنی انتخابی سیاست میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ اس سے وہ گھناؤنی حقیقت سامنے آتی ہے
کہ ہم بحیثیت قوم اپنا ضمیر کھو چکے ہیں۔ سوامی وویکانند اور امبیڈکر کا پرامن
معاشرے کا خواب چکنا چور ہو گیا ہے۔
------
سوامی وویکانند کی 9/11 کی
تقریر کی یاد دہانی جنہوں نے ہمیں مذہبی جنونیت سے لاحق خطرات سے خبردار کیا تھا
از، ایس۔ این۔ ساہو
13 ستمبر 2023
آج 9/11، 2023 ہے۔ عام طور
پر، 9/11 کو ہم 2001 میں امریکہ پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے لیے یاد کرتے
ہیں جن میں نیویارک کے ٹوئن ٹاور کو تباہ کر دیا گیا اور دیگر مقامات پر حملے
ہوئے۔ ہندوستان کی تاریخ سے وابستہ 9/11 زیادہ شاندار اور تعمیری ہے۔ اسی دن،
9/11، 1893 کو، سوامی وویکانند نے شکاگو میں ورلڈ پارلیمنٹ آف ریلیجین سے خطاب کیا
تھا۔ آج ہی کے دن 1906 میں مہاتما گاندھی نے جنوبی افریقہ میں اپنا پہلا ستیہ گرہ
شروع کیا تھا۔
سوامی وویکانند کی 9/11
کی مختصر اور معنی خیز تقریر نے امریکیوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ بعد میں، روحانیت اور
ویدانت پر اپنی متعدد تقریروں کے ذریعے، انہوں نے انگریزوں کے ذہنوں پر گہرا اثر
ڈالا۔ شکاگو کی اس تاریخی تقریر میں، انہوں نے بڑی ہی بامعنی بات کی کہ "فرقہ
واریت، تعصب اور اس کے خوفناک نسلی جنون نے زمین کو بے گناہوں کے خون سے رنگ
دیا"، اور امید ظاہر کی کہ وہ گھنٹی جو ورلڈ پارلیمنٹ آف ریلیجین کے آغاز پر
بجائی گئی وہ وہ مذہبی جنونیت کے لیے موت کا نقارہ ثابت ہوگی۔
یہ واقعی جھنجھوڑ دینے
والے الفاظ تھے۔ سوامی وویکانند کے ان الفاظ کے کہنے کے ایک سو آٹھ سال بعد،
امریکہ پر کچھ جنونی لوگوں نے حملہ کیا۔ بدقسمتی سے، 2023 میں، دنیا اور خاص طور
پر ہندوستان، اب فرقہ پرستی، تعصب اور جنونیت کے امتزاج کا سامنا اکثریت پسندی کی
شکل میں کر رہا ہے اور ہمارے ملک کے ریاستی نظام کو کنٹرول کرنے والے پولرائزیشن
کا کھیل کھیل رہے ہیں۔
نسل کشی کا مطالبہ کریں۔
اب ہمیں مذہب کے نام پر
نفرت اور تشدد کے مسلسل فروغ کا سامنا ہے۔ نام نہاد دھرم سنسدوں، مذہبی پارلیمانوں
سے آئے دن اقلیتوں اور وہ بھی مسلمانوں کی نسل کشی کے مطالبات جاری کیے جا رہے
ہیں۔ ان سب کے ساتھ مسلمانوں کے جامع سماجی اور معاشی بائیکاٹ کی بات بھی کی جا
رہی ہے۔ حال ہی میں ہریانہ کے نوح میں ایسا ہی دیکھنے کو ملا جہاں مسلمانوں کو
تشدد کا نشانہ بنایا گیا، انہیں اپنی ملازمتیں چھوڑ کر بھاگنے کو کہا گیا، اور ان
کے گھروں کو منہدم کر دیا گیا۔ پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے اس معاملے کا از خود
نوٹس لیا اور اپنے فیصلے میں پوچھا کہ کیا یہ "نسلی صفایہ" کی مشق ہے۔
نوح میں ہر جگہ فسادات میں
استعمال ہونے والے پتھر اور اینٹیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ تصویر: اتل اشوک ہولے
یہ بات کافی افسوسناک ہے
کہ جن ریاستوں میں نسل کشی اور سماجی اور معاشی بائیکاٹ کے ایسے اعلانات کیے جا
رہے ہیں ان کے نام سپریم کورٹ کے احکامات کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ ماضی قریب
میں سپریم کورٹ نے حیرت کا اظہار کیا کہ کیا ریاست مہاراشٹر نفرت انگیز تقاریر سے
نمٹنے کے قابل نہیں رہی۔
منی پور میں نسلی بنیادوں
پر بے مثال تشدد اور خونریزی جاری ہے۔ خواتین کے ساتھ ناقابل تصور ظلم و بربریت
اور نسلی بنیادوں پر ان کے خلاف وحشیانہ جنسی تشدد کی ویڈیوز فرقہ واریت اور تعصب
کا خوفناک چہرہ پیش کر رہی ہیں، جس کی سوامی وویکانند نے نشان دہی کی تھی اور اس
کے خوفناک نسلی جنون کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ وہ یہ دیکھ کر شدید غمگین ہوئے
ہوتے کہ 9/11، 1893 کو انہوں نے جو باتیں کہیں تھیں ان کو ہندوستان میں نظر انداز
کیا جا رہا ہے، جو انہوں نے کہا، اس سے دنیا کے دیگر حصوں میں مذہب کی بنیاد پر
ستائے جانے والوں کو پناہ حاصل ہوئی۔
نفرت کی وجہ سے خطرے میں
پڑنے والی قوم کی بقا
سوامی جی نے خبردار کیا
تھا کہ دوسروں کے خلاف نفرت پھیلانے سے قوم کی بقاء خطرے میں پڑ جائے گی۔ انہوں نے
تاریخ طور پر ہندوستان کے زوال کا سبب سماج کے اندر پیدا ہونے والی نفرت اور
ہندوستانیوں کے خلاف حقارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے ساتھ تمام رابطے کو منقطع
کرنا قرار دیا۔
27 اکتوبر 1894 کو امریکہ
سے اپنے شاگرد الاسنگا پیرومل کو لکھے ایک خط میں، وہ رقمطراز ہیں، ’’کوئی انسان،
کوئی قوم اور یہاں تک کہ خود میرا بیٹا، دوسروں سے نفرت کر کے زندہ نہیں رہ
سکتا۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں، ’’ہندوستان کا انجام اسی دن لکھا جا چکا تھا جب لوگوں
نے لفظ ملیچھا ایجاد کیا تھا اور دوسروں کے ساتھ میل جول بند کر دیا تھا۔‘‘ یہ خط
کمپلیٹ ورک آف سوامی وویکانند کی جلد 5 میں دستیاب ہے اور اس کے مندرجات 2023 کے
ہندوستان کے تناظر میں کافی اہمیت کے حامل ہیں جہاں دھرم کے نام پر نفرت
ہندوستانیوں میں پھوٹ ڈال رہی ہے، اور بین المذاہب تعلق اور ہم آہنگی کو زہر آلود
کر رہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے مذہبی
جنونیت سے لاحق خطرے کی نشاندہی کی
9/11، 1893 کے سوامی
وویکانند کے اس بیان کو فراموش کر کے کہ "فرقہ پرستی، تعصب اور اس کے خوفناک
نسلی جنون نے ملک کو بے گناہوں کے خون سے رنگ دیا" ہم خود اپنے لیے خطرہ مول
لیں گے۔
مذہبی جنونیت سے لاحق خطرے
کو سپریم کورٹ نے 13 اکتوبر 2022 کے عیش شفا بمقابلہ ریاست کرناٹک کے اپنے فیصلے
میں اجاگر کیا تھا۔ کرناٹک کے اسکولوں اور کالجوں میں ہر جگہ مسلم لڑکیوں کو حجاب
پہننے کی اجازت دیتے ہوئے، عدالت نے ایس بی چوان کمیٹی رپورٹ، 1999، پر انحصار کیا
تھا، جس میں سماجی اور مذہبی ہم آہنگی کے ایک آلے کے طور پر مذاہب کے بارے میں
تعلیم کی سختی سے سفارش کی گئی تھی۔ عدالت نے اس کے ایک پیراگراف کا حوالہ دیا جس
میں کہا گیا ہے،
"قدروں پر مبنی تعلیم
ملک کو ہر قسم کی مروجہ جنونیت، بد نیتی، تشدد، بے ایمانی، بدعنوانی، استحصال اور
منشیات کے استعمال کے خلاف لڑنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے …………… سورج کی طرح، علم
کی روشنی سب تک پہنچنے اور وہ تنگ نظری، اندھی عقیدت اور عقیدہ پرستی سے محفوظ ہو
جائیں۔ اس مقصد کے لیے اگر دنیا کے تمام مذاہب کے بنیادی اصولوں کی تعلیم دی جائے
تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سیکولرازم باقی نہیں رہے گا۔
ہندوستان کی جامعیت
سو سال سے بھی زیادہ عرصہ
قبل سوامی وویکانند نے کسی ایک مذہب پر انحصار کیے بغیر ہندوستان کی تعریف بہت
جامع انداز میں کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کو ایک ویدانتک دماغ اور اسلامی
جسم کی ضرورت ہے۔
اس طرح کا نقطہ نظر
یکسانیت کو فروغ دینے اور کثیر ثقافتی کو خطرے میں ڈالنے والی ثقافتی قوم پرستی کے
برعکس، ہندوستان کو سمجھنے کے لیے کثیر العقیدہ نقطہ نظر پیش کرتا ہے جو ہے۔ جو
لوگ ایک قوم، ایک ثقافت اور ایک مذہب کا دم بھرتے ہیں وہ سوامی وویکانند کے افکار
کی نفی کرتے ہیں جنہیں وہ اکثر اپنا آئیڈیل کہتے نہیں تھکتے۔
ویدانت پر نہرو اور
امبیڈکر
یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ
سوامی وویکانند کے ویدانتک نقطہ نظر کا تذکرہ سابق وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے اس
وقت کیا تھا جب انہوں نے اپنے مشہور مقالے میں 'بنیادی نقطہ نظر' میں لکھا تھا کہ
آخر کار ایک ویدانتک نقطہ نظر جدید تہذیب کے بہت سے چیلنجوں کا حل فراہم کرے گا،
جن کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ ذہنی اذیت کا سبب ہے۔
ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے
ہندومت پر تلخ تنقید کرتے ہوئے اور اسے درجہ بند سماجی عدم مساوات پر مبنی مذہب
قرار دیا اور ذات پات کے خاتمے پر اپنے مضمون میں لکھا کہ ہندوستان کو آزادی،
مساوات اور بھائی چارے پر مبنی ایک مذہب کی ضرورت ہے اور ایسے مذہب کی بنیاد اپنشدوں
پر رکھی جا سکتی ہے۔
درحقیقت، اپنشد ہی ویدانت
کی تشکیل کرتے ہیں۔ یہ نکتہ سبق آموز ہے کہ وزیر اعظم نہرو اور ڈاکٹر امبیڈکر یعنی
جدید ہندوستان کے دونوں معماروں نے ویدانتک نقطہ نظر پر زور دیا، جسے سوامی
وویکانند نے ہندوستان کا نظریہ پیش کرنے کے لیے اسلامی اقدار کے ساتھ ملا کر تجویز
کیا تھا۔ 9/11، 1893 کو سوامی وویکانند کے بیان کردہ نظریہ پر قائم رہنا ضروری ہے،
تاکہ ہندوستان کے نظریہ کے لیے خطرہ بننے والے جنون کو شکست دی جا سکے۔
----
ماخذ: Remembering 9/11 Speech
of Swami Vivekananda That Warned Us of the Dangers Posed by Fanaticism
-------------
English Article: India Is Paying the Price for Ignoring Swami
Vivekananda's Warning: Sectarianism, Bigotry and Fanaticism Have Wreaked Havoc
on The Indian Society
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism