New Age Islam
Tue Jun 24 2025, 12:44 PM

Urdu Section ( 26 May 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Violations of Islamic Principles in Pakistan پاکستان میں اسلامی اصولوں کی پامالی

نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر

26 مئی 2023

پاکستان کی تشکیل دو قومی نظرئیے کے تحت عمل میں آئی تھی اور اس دوقومی نظرئیے کے کٹر حامی علامہ اقبال تھے۔ ملک کے چند دیگر دانشوروں نے بھی آزادی کی لڑائی کے دوران دو قومی نظرئے کو فروغ دیا اور اس نظرئیے کی بنیاد اس خیال پر تھی کہ مسلمانوں کا مذہبی اور تہذیبی تشخص ہندوؤں کی تہذیب وثقافت سے بالکل مختلف ہے اس لئے مسلمان ہندوؤں کے ساتھ ایک مشترکہ قانون کے تحت زندگی نہیں گزار سکتے۔ دوسری وجہ اس نظرئے کے فروغ کی یہ تھی کہ مسلم دانشوران اورملی قائدین کچھ ہنگامی فرقہ وارانہ واقعات کی بنیاد پر اس خوف میں مبتلا ہوگئے کہ آزادی کے بعد اکثریتی فرقہ مسلمانوں کی تہذیبی سیاسی اور سماجی ترقی میں رکاوٹیں کھڑی کریگا۔ لہذا، علامہ اقبال جو مسلم۔لیگ سے بھی وابستہ تھے اور مسلم سیاست پر اثرانداز بھی ہورہے تھے انہوں نے ہندوستان کے شمال مغرب میں مسلم اکثریتی ریاستوں کو ملا کر ایک علیحدہ ریاست کا نظریہ پیش کیا۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ ہندو اکثریتی ملک میں دستور اور قانون اکثریت کے موافق ہوگا اور اکثریری طبقہ اقلیتوں کو ان کے حق سے محروم رکھے گا۔ لہذا، مسلموں کے لئے ایک علیحدہ ریاست ان کی تعلیمی ، معاشی ، اور سیاسی ترقی کے لئے ضروری تھی۔ ان کے اس نظرئیے کو رفتہ رفتہ قبولیت عام کی سند ملتی گئی اور مسلم سیاسی لیڈروں نے اقتدار کے لئے اس نظرئیے کو ایک الگ ریاست پاکستان کے مطالبے میں تبدیل کردیا۔ اقبال کا نظریہ فکری اور فلسفیانہ بنیادوں پر قائم تھا لیکن پاکستان نواز سیاسی لیڈراں نے اسے ایک کھوکھلا سیاسی نعرہ بناکر رکھ دیا کیونکہ وہ صرف یہ سمجھتے تھے کہ اگر مسلمانوں کا ایک الگ ملک بن گیا تو وہاں وہ اقتدار میں ہونگے ورنہ اگر ہندوستان متحد رہے گا تو یہاں بڑے بڑے قومی لیڈران جو اعلی تعلیم۔یافتہ ہی نہیں تھے بلکہ ادب، تاریخ اور فلسفہ کا گہرا علم۔رکھتے تھے جن میں مہاتما گاندھی ، جواہر لال۔نہرو، پنڈت رادھا کرشنن، ڈاکٹر راجندر پرشاد، مولانا ابوالکلام آزاد، بھیم راؤ امبیدکروغیرہ شامل تھے ان کے سامنے انہیں کون پوچھے گا۔لہذا، انہوں نے پاکستان کا مطالبہ ذاتی اقتدار کے لئے کرنا شروع کردیا اور پھر ، ہاتھ میں بیڑی منہ میں پان لڑ کے لینگے پاکستان " جیسا بھونڈا نعرہ انہی اقتدار کے بھوکے مسلم لیڈروں نے دیا۔

چونکہ پاکستان کی تشکیل اعلی قومی مقاصد کی تکمیل کے لئے نہیں بلکہ لیڈروں کی ذاتی اقتدار کے لئے عمل۔میں آئی تھی اس لئے پاکستان کے قیام۔کے فورا ً بعد پاکستان میں مسلکی اور نسلی فسادات ہونے لگے۔ احمدیوں کے خلاف فسادات اور مہاجروں اور پٹھانوں کے درمیان فسادات نے پاکستان کے قیام کے جواز کی ہی نفی کردی۔ بلوچستان کے عوام نے پاکستان کو اپنا ملک ماننے سے انکار کردیا جبکہ سندھ کے عوام ہندوستان۔میں رہنا چاہتے تھے۔بنگالیوں کے ساتھ اردو داں طبقے کے امتیازی سلوک نے ان کے اندر بھی باغیانہ جذبات پیدا کئے اور بھٹو کی مجیب الرحان کے ساتھ ناانصافی نے مشرقی پاکستان کے پاکستان سے الگ ہونے کی راہ ہموار کردی۔ پاکستان کی فوج مشرقی پاکستان کو دبانے کچلنے میں ناکانم رہی۔

ان تمام واقعات کے پس منظر میں آج کی پاکستانی سیاست اور سیاسی حالات پر نظر ڈالیں تو پائنگے کہ صورت حال نہ صرف یہ کہ بدلی نہیں ہے بلکہ بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے اور اب خود پاکستان کا وجود ہی خطرے میں نظر آرہا ہے۔ یہاں سیاسی لیڈروں نے جو 99 فیصد مسلم ہیں جمہوریت اور اسلامی قدروں کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔دستور اور قانون کی علی الاعلان خلاف ورزی سیاسی رینماؤں اور پاکستانی فوج کے ذریعہ ہوری ہے۔ پاکستان کو اس وقت پولیس اور فوج نے یرغمال بنا رکھا ہے اور ہائی کورٹ سے لیکر سپریم کورٹ تک عدلیہ بے بس ہوچکی ہے۔ ایک عدالت میں ایک وکیل کو ایک جج کے ساتھ بدکلامی کرتے اور بہن کی گالی دیتے ہوئے دیکھا جاسکتا۔ کوئی بھی سیاسی لیڈر ایسا نہیں ہے جس پر کروڑوں روپئے کے غبن کا,الزام نہ ہو لیکن بدعنوانی کے مقدمے صرف اپوزیشن کے لیڈران پر چل رہے ہیں۔یہاں کی سیاست اتنی پرتشدد ہوگئی ہے کہ اپوزیشن لیڈران اور فوج کے مخالفین کو ملک سے باہر بھاگنا پڑتا ہے۔ قومی مہاجر موومنٹ کے لیڈر الطاف حسین ایک عرصے سے لندن۔میں مقیم۔ہیں اور وہیں سے اپنی پارٹی چلاتے ہیں۔نواز شریف بھی لندن میں بیٹھ کر اپنی پارٹی کو کنٹرول۔کرتے ہیں ۔اس سے قبل بھی انہیں فوج نے سعودی عرب میں پناہ لینے پر مجبور کردیا تھا اور وہ مع کنبہ سعودی عرب میں کئی برس مقیم رہے تھے۔ کئی برسوں کے بعد وہ پاکستان آئے تو انہیں لندن بھاگنے پرمجبور کردیا گیا۔پرویز مشرف بھی سعودی عرب میں پناہ گزیں تھے اور وہیں ان کی موت بھی ہوئی۔ان پر غداری کا مقدمہ چلاکر سزائے موت سنائی گئی تھی۔ اب سابق وزریر اعظم عمران خان پر بھی نواز,شریف کے بھائی شہباز شریف کی حکومت اور پاکستان کی فوج نے عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ ان کو بھی راستے سے ہٹانے کی پوری کوشش ہورہی ہے۔ گزشتہ سال ان کی حکومت کو فوج کی مدد سے برطرف کردیا گیا اور فوج کی مدد سے کئی پارٹیوں کی اتحادی حکومت قائم ہے۔عمران کی پارٹی تحریک انصاف نے خیبر پختونخوا اور پنجاب کی اسمبلی کو تحلیل کردیا تھا اور نئے سرے سے انتخابات کرانے کی مانگ کرہے تھے لیکن شہباز حکومت انتخابات کرانے سے اس لئے کترا رہی ہے کہ اگر الیکشن ہوئے تو پی ٹی آئی اکثریت میں آجاۓ گی۔جنوری میں پاکستان کی سپریم۔کورٹ نے 90 دنوں کے اندر انتخاب کرانے کا,حکم دیا تھا جو 14 مئی تک ہونے تھے لیکن شہباز حکومت اور الیکشن کمیشن نے فنڈ کی کمی کا بہانہ کرکے الیکش ملتوی کردیا اور سپریم کورٹ شہباز حکومت اور الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ نہیں لاسکی۔ اس سے پاکستانی عدلیہ کی بے بسی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

عمران خان کو پاکستان کے سیاسی منظرنامے سے ہٹانے کے لئے حکومت اور فوج نے سارے ہتھکنڈے اپنائے ہیں۔ شہباز حکومت کے وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے تو علی الاعلان کہہ دیا ہے کہ عمران کو جائز یا ناجائز طریقے سی ختم۔کردیا جائے گا۔۔ان پر اب تک دو قاتلانہ حملے ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں اپوزیشن لیڈر کو یا تو باہر بھاگنے پر مجبور کردیا جاتا ہے یا پھر قتل کرادیا جاتا ہے۔ بے نظیر بھٹو کا قتل اسی سیاست کی روشن مثال ہے۔عمران خان کو یہ بھی آفر دیا گیا کہ وہ باہر چلے جائیں ۔ ان کے لئے باقاعدہ ایک طیارے کا بھی انتظام۔کردیا گیا تاکہ وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں جبکہ دوسری طرف اسی حکومت نے ان کے خلاف سو سے زیادہ ایف آئی آر بدعنوانی اور دہشت گردی کے درج کرائے ہیں۔ ایسے خطرناک ملزم کو حکومت ملک۔میں سزا دلانے کے بجائے ملک چھوڑکر جانے کی سہولت کیوں مہیا کرارہی ہے یہ بات بعید از فہم۔ہے۔لیکن موجودہ حکومت کی بد,قسمتی یہ ہے کہ اسے ایک ضدی لیڈر سے پالا پڑے ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ۔میرے ساتھ جو کرنا ہو کرلو میں ملک چھوڑ کر نہیں جاؤنگا۔انہیں ہر روز کسی نہ کسی کیس میں عدالت میں پیش ہونا پڑتا ہے تاکہ ضمانت حاصل کریں۔عدالت میں ان کی جان کو,خطرہ ہے اس لئے انہوں نے ایک بلٹ پروف بکس بنوایا ہے جو وہ عدالت میں پیشی کے لئے جاتے ہوئے اپنے سر پر پہنتے ہیں ایک سابق وزیراعظم کے ساتھ اس طرح کا,سلوک پاکستان کے ماتھے پر ایک بدنما داغ ہے اور پوری دنیا میں پاکستان اور اسلام۔کی جگ ہنسائی کا سبب ہے۔

عمران خان کی گرفتاری کے بعد 9 مئی کو پورے پاکستان میں احتجاج ہوئے تھے اور یہ احتجاج پرتشدد ہوگئے تھے ۔احتجاج کے دوران احتجاج کاروں نے مبینہ طور پر فوج کی املاک کو بھی جلایا اور تباہ کیا۔جبکہ احتجاج کار نہتھے تھے۔ یہ تشدد کس نے کروائے یہ تحقیق طلب ہے لیکن اس کے بعد سے فوج نے تحریک انصاف کے کارکنوں اور لیڈروں کو,اندھادھند گرفتار کرنا شروع کیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ تحریک انصاف کے تمام بڑے لیڈروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور ان کے خلاف دہشت گردی اور غداری کے کیس درج کئے گئے ییں۔ تقریبا دس ہزار کارکنوں اور حقوق انسانی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ کئی لوگ ایسے ہیں جن کی پوری فیملی بشمول خواتین کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ پولیس نے گھروں میں گھس کر خواتین کے ساتھ مار پیٹ کی اور انہیں گالیاں دیں۔ کچھ لیڈران ایسے ہیں جنہیں عدالت سے ضمانت ملنے کے بعد عدالت کے احاطے سے دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔ کچھ لیڈروں کو دوبار اور تین بار گرفتار کیا گیا۔ تحریک انصاف کی خواتون لیڈر شیریں مزاری کو چار بار ضمانت ملی اور چاروں بار گرفتار کرلیا گیا۔ان کے سامنے شرط رکھی گئ کہ وہ تحریک انصاف کو چھوڑدیں تو انہیں رہا کردیا جائے گا ورنہ وہ ضمانت لیتی رہینگی اور ہر بار ضمانت کے بعد گرفتار کیا جاتا رہے گا۔ان کی وکیل بیٹی ان کی ضمانت کے لئے تگ ودو کرتی رہیں اس دوران شیریں مزاری کو جیل۔میں ان کی بیٹی کا گھر میں روتے ہوئے ویڈیو دکھا کر ان پر بفسیاتی دباؤ ڈالا گیا جس کے بعد شیریں مزاری نے پریس کانفرینس کرکے پارٹی چھوڑ نے کا,اعلان کیا۔ اسی طرح دیگر پارٹی لیڈروں کو بھی پارٹی چھوڑنے کی شرط پر رہائی دی گئی ہے۔ جو لیڈران پارٹی نہیں چھوڑتے انہیں عدالت سے ضمانت ملنے کے بعد فوراً گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ ان۔میں سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی ہیں۔ انہیں ضمانت ملنے کے بعد دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔ سابق وزیر اور تحریک انصاف کے لیڈر فواد چودھری کو بھی عدالت سے ضمانت ملنے کے بعد پولیس نے عدالت کے احاطے سے ہی گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ وہ بھاگ کر واپس عدالت کے کمرے میں گھس گئے اور دوبارہ گرفتاری سے بچ گئے۔لیکن یہ منظر پاکستان کو پوری دنہا میں شرمسار کرنے والا تھا۔

احتجاج میں شامل کئی خاتون لیڈروں اور ورکروں کو بھی گرفتار کیا گیا اور ان پر تشدد کیا گیا۔ صنم جاوید کو پولیس نے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا۔طیبہ راجہ کو بھی پولیس نے گرفتار کیا اور دونوں کو ایک ہفتے کے بعد عدالت سے ضمانت ملی۔ حراست کے دوران ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔ ایک سماجی کارکن خدیجہ شاہ جو,پاکستان تحریک انصاف کی ورکر نہیں ہیں احتجاج میں پرامن طور پر شامل تھیں۔ ان کے بھائی اور والد اور خاندان کے دیگر افراد کو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے اور گھر کی خواتین کے ساتھ بدسلوکی کی۔خدیجہ شاہ نے ایک ویڈیو بناکر ساری داستان سنائی ہے اور خودسپردگی کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی خاتون لیڈر ستر سالہ ڈاکٹر یاسمین راشد کو جو احتجاج۔میں شامل تھیں اور ورکروں کو تشدد سے روک رہی تھیں گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان پر انسداد دہشت گردی کے کیس لگائے گئے ہیں۔ عمران خان اور ان کے ورکر کہہ رہے ہیں کہ وہ پرامن احتجاج کررہے تھے۔ کچھ نامعلوم۔لوگ پراسرار طور پر ہجوم۔میں شامل ہوکر لوگوں کو توڑپھوڑ اور تشدد پر,اکسانے لگے اور خود بھی تخریب کاری اور آتشزنی کی۔

یہ ساری بدامنی اور انتشار صرف اس لئے ہے کہ شہباز حکومت اور فوج عمران خان کو برسراقتدار نہیں آنے دینا چاہتی جس طرح بھٹو نے مجیب الرحمان کو الیکشن میں جیتنے کے باوجود اقتدار میں آنے نہیں دیا تھا۔ پاکستان۔میں تاریخ خود کو,دہرا رہی ہے۔ آج اگر پاکستان میں جنرل انتخابات ہو جائیں تو یہ سیاسی عدم استحکام ختم۔ہوجاۓ گا لیکن شہباز حکومت اور فوج کو اندیشہ ہے کہ الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف بھاری اکثریت سے جیت حاصل کرے گی اور نون لیگ اور پی پی پی اقدار سے باہر ہوجائیگی۔ حال ہی میں ایک عوامی سروھ کا نتیجہ آیا ہے جس کے مطابق عمران خان کی پارٹی کو 70 فی صد عوام۔کی حمایت حاصل ہے۔

اس بحران کے درمیان پاکستان کی مذہبی جماعتوں اور ملی قائدین کا کردارمایوس کن رہا۔انہوں اس بحران کے دوران ملک کے سیاسی انتشار اور اسلامی اصولوں کی پامالی کو روکنے کے لئے کچھ نہیں کیا بلکہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔دو روز قبل ن لیگ کی لیڈر مریم نواز نے علماء و مشائخ کی ایک بڑی تعداد کو خطاب کیا۔ سارے علماء خاموشی سے مریم۔کی باتیں سنتے رہے جیسے کہ انہیں فوج کے دباؤ میں آنا پڑا ہو۔عام حالات میں یہ علماء بلند,آواز میں اشتعال انگیز تقریریں کرتے ہیں ۔ لیکن اس خطاب کے دوران وہ ایک سیاسی لیڈر کی باتیں خاموشی سے سن رہے تھے۔ بلکہ کچھ تو عمران خان کے خلاف " فتنہء عمرانیہ " کا نعرہ بھی بلند کررہے تھے۔جبکہ انہیں مریم نواز سیے کہنا چاہئے تھا کہ وہ الیکشن کرائیں اور لیڈروں اور کارکنوں کی گرفتاری پر روک لگائیں۔ ادھر تحریک۔لبیک کے لیڈر سعد رضوی بھی میدان میں آگئے ہیں اور جلسے کرکے اس انتشار میں اضافہ کررہے ہیں۔

اس بحران کے دوران غیر جانبدار اور حکومت کے غیر جمہوری اقدامات کی تنقید,اور مخالفت کرنے والے صحافیوں کے خلاف بھی حکومت اور فوج نے کچلنے کی پالیسی اپنائی ہے۔ مقبول صحافی عمران ریاض خان کو ایک ہفتے قبل پولیس نے گرفتار کیا اور پھر تین دنوں کے بعد انہیں رات کے دو بجے رہا کیا جبکہ رات کے دو بجے کسی کو جیل سے رہا نہیں کیا جاتا۔ جہاں انہیں چھوڑا گیا وہاں پہلے سے کچھ نقاب پوش افراد گاڑی لیکر کھڑے تھے۔ ان نقاب پوشوں نے عمران کا,اغوا کیا اور نامعلوم۔مقام۔پر لے گئے۔۔آج تک ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے آئی جی پنجاب کو,عدالت میں طلب کرکے انہیں عمران ریاض کو عدالت میؔ پیش کرنے کا,حکم دیا تو,آئی جی نے کہا کہ انہیں عمران ریاض کے متعلق کوئی علم نہیں ہے کیونکہ انییں چھوڑ دیا گیا تھا۔ جب چیف جسٹس نے کہ اغوا کی ویڈیو فوٹیج عدالت میں چلانے کو کہا تو اس نے جواب دیا کہ وہ فوٹیج ضائع ہو گیا ہے۔ اپنی بے بسی اور پولیس افسر کی دیدہ دلیری پر چیف جسٹس آبدیدہ ہوگئے اور آی جی سے کہا کہ تین دنوں کے اندر عمران ریاض کو عدالت میں حاضر کیجئے لیکن تین دن گزرنے کے بعد بھی پولیس نے انہں عدالت میں پیش نہیں کیا ہے۔یہ ہے پاکستان کے ایک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی اوقات۔

ایک اور صحافی آفتاب اقبال کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔مشہور صحافی اور دانشور اوریا مقبول جان کو بھی ایک کالم۔تحریر کرنے پر اغوا کرلیا گیا ہےکچھ صحافی پاکستان سے باہر چلے گئے ہیں اور وہیں سے یوٹیوب پر پروگرام کررے ہیں۔ان میں سے ایک صابر شاکر ہیں۔ پاکستان میں صحافیوں کی گمشدگی اور اغوا عام بات ہے اور نامعلوم افراد کے ہاتھوں ان کا قتل بھی ہو تا ہے۔ پاکستان میں نامعلوم سے مراد فوج کے افراد ہے۔فوج اپنے مخالفین اور ناقدین کو یا تو غائب کردیتی ہے یا پھر ان کا قتل کروادیتی ہے۔ عمران ریاض کے متعلق بھی لوگوں کو اندیشہ ہے کہ ان کا قتل کیا جا چکا ہے۔اس سے پہلے بھی انہیں کئی بار گرفتار کیا جا چکا ہے لیکن چھوڑ دیا گیا تھا۔ لیکن اس بار گرفتاری سے قبل انہیں ایک نامعلوم نمبر سے فون آیا تھا۔ کسی نے ان سے کہا تھا کہ اس بار تمہیں پکڑ لیا تو تم نہیں بچوگے۔ اس لئے وہ ملک سے باہر جارہے تھے۔ انہیں رات کے وقت سیالکوٹ سے اغوا کر لیا گیا۔

مجموعی طور پر پاکستان کی سیاسی صورت حال بے حد خراب اور مایوس کن ہے اور یہ اس ملک کا,حال ہے جو اسلام۔کے نام پر بنا تھا ۔ دنیا میں 50 سے زیادہ مسلم۔اکثریتی ممالک ہیں اور کئی ممالک۔میں سیاسی انتشار بھی ہے لیکن جتنی بری حالت پاکستان کی ہے اور اسلامی اصول کی پامالی جتنی پاکستان میں ہوتی ہے وہ کسی دوسرے اسلامی ملک میں نہیں ہوتی۔ یہ عالم اسلام کے لئے ایک لمحہء فکریہ ہے۔

----------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/violations-islamic-principles-pakistan/d/129854

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..