نیو ایج اسلام اسٹاف
رائیٹر
27 جنوری، 2024
قرآن کی ایک آیت علماء
میں خاص طور پر موضوع بحث رہتی یے۔ وہ آیت مندرجہ ذیل ہے:
۔"اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور
حاکموں میں جو تم میں سے ہوں اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو رجوع کرو طرف اللہ
کے اور رسول کے اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ، یہ بات اچھی ہے
اور بہت بہتر ہے اس کا انجام۔"(النساء:59)۔
اس آیت میں کوئی پیچیدہ
بات نہیں کہی گئی ہے جس کی تاویل یا تفسیر کی ضرورت محسوس ہو۔ ہر مسلمان جانتا ہے
کہ اللہ اور رسول کا فرمان ہی کسی بھی معاملے یا تنازع میں حرف آخر ہوتا ہے اور ہر
مسلمان قرآن اور حدیث کے احکام پر ہی عمل کرتا ہے۔
دین کے معاملے میں قرآن
سے رہنمائی حاصل کرنے اور قرآن سے لوگوں کو نصیحت کرنے کا حکم دوسری آیتوں میں بھی
دیا گیا ہے۔
۔"سو تو سمجھا قرآن سے اس کو جو ڈرے میرے ڈرانے
سے۔۔"(ق:45)
۔"اور نصیحت کر ان کو قرآن سے۔"(الانعام:70)۔
۔"اس واسطے نہیں اتارا ہم نے تجھ پر قرآن کہ تو محنت میں پڑے
مگر نصیحت کے واسطے اس کی جو ڈرتا ہے۔۔"(طہ:٣)۔
قرآن میں اور
بھی آیتیں ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کو دین کی بات قرآن کی مدد سے پہنچاؤ ۔
ایسا اس لئے ہے کہ قرآن ہی اسلامی شریعت کی بنیادی کتاب ہے ۔ اس کے بعد اسلامی
شریعت کی ثانوی ماخذ حدیث ہے جس میں رسول پاک ﷺ نے اسلامی قوانین و تعلیمات بیان
کردی ہیں۔ لہذا، قرآن سورہ النساء میں کہتاہے کہ دین کے معاملےمیں کسی بھی تنازع
میں رہنمائی کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو۔ یعنی قرآن اور حدیث کی
روشنی میں سارے اختلافی مسائل کا حل تلاش کرو۔
لیکن سورہ النساء کی اس
آیت سے کچھ علماء کو یہ پریشانی ہوتی ہے کہ اس سے عقیدہ تقلید پر ضرب پڑتی ہے۔
قرآن کسی بھی اختلافی مسئلے پر کسی مسلک کے امام سے رجوع کرنے کے بجائے براہ راست
قرآن اور حدیث سے رجوع کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔ لہذا، وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ دنیا
میں کوئی بھی عالم چار اماموں سے زیادہ قرآن اور دین کا علم۔نہیں رکھتا۔ اس لئے
کوئی مسلمان کسی مسئلے میں ڈائریکٹ قرآن پڑھ کر مسئلہ کا حل نہیں نکال سکتا۔ لہذا
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کسی تنازع میں کسی ایسے عالم سے رجوع کرے جو قرآن کا علم
رکھتا ہو۔ اس طرح کسی مسئلے میں امام (ابو حنیفہ) سے رجوع کرنا ضروری ہوگا۔
دراصل ، ہر مسلک کے عالم
اپنے اپنے عقیدے کے مطابق قرآن کی آیتوں کی تاویلات پیش کرتے ہیں اور اپنے مسلک یا
عقیدے کو قرآن سے ثابت کردیتے ہیں۔ قرآن کی آیتوں کی روشنی میں اپنے عقائد میں
تبدیلی نہیں لاتے۔ قرآن کے مفسرین اور شارحین کا قد قرآن سے اونچا کردیا گیا ہے جس
کے نتیجے میں مسلمانوں میں ایسے عقائد راہ پا گئے ہیں جن کی تائید قرآن نہیں کرتا۔
اگر ان موضوعات پر قرآن کی طرف رجوع کرینگے تو ان کا عقیدہ یا مؤقف غلط ثابت ہو
جائے گا۔ اس لئے یہ مسلک پرست علماء مسلمانوں کو براہ راست قرآن سے رہنمائی حاصل
کرنے سے روکتے ہیں۔ ایسے کئے مسائل ہیں جن کو اگر قرآن کی روشنی میں ریکھیں تو ان
کو اپنے مؤقف میں تبدیلی کرنی پڑے گی۔ مثال کے طور ایک مسئلہ ارتداد ہے۔عام عقیدہ
یہ بن چکا ہے کہ مرتد واجب القتل ہے جبکہ قرآن اس مسئلے پر خاموش نہیں ہے بلکہ
واضح مؤقف رکھتا ہے اور وہ مؤقف یہ ہے کہ مرتد کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ اگر
وہ خود سے ہدایت پا جائے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ آخرت میں بدترین عذاب سے دوچار
ہوگا۔قرآن کا یہ عام اصول بھی ہے کہ دین کے معاملے میں کوئی جبرواکراہ نہیں۔ لہذا،
اگر اس مسئلے پر قرآن سے رجوع کرینگے تو انہیں مسئلہء ارتداد پر اپنا عقیدہ ٹھیک
کرنا پڑے گا۔
اسی طرح مسئلہ بشریت
ونوریت ہے۔ ایک مسلک کا عقیدہ یہ ہے کہ پیغمبرﷺ نور ہیں اور اس مسئلے کو اسلام کا
ایک اہم مسئلہ بنادیا گیا ہے۔ اگر اس مسئلہ کو قرآن کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش
کرینگے تو معلوم ہوگا کہ اس عقیدے کی قرآن میں تائید نہیں کی گئی ہے بلکہ رسول پاکﷺ
کو کم از کم تین آیتوں میں بشر کہا گیا ہے اور مسلمانوں کو یہی عقیدہ رکھنے کو کہا
گیا ہے۔ تیسرا عقیدہ کھڑے ہوکر صلوةو سلام پڑھنا ہے۔ اس عقیدے کا بھی قرآن میں
جواز نہیں ہے۔ قرآن میں حضور پاک ﷺ کی خدمت میں صلوة وسلام کثرت سے پڑھنے کی تاکید
کی گئی ہے لیکن کھڑے ہوکر صلوةوسلام پڑھنے یا جماعت سے صلوةوسلام پڑھنے کو لازمی
نییں بنایا گیا ہے۔
اسی طرح ا یک فرقہ ختم
نبوت پر ایمان نہیں رکھتا جبکہ قرآن میں ایمان رکھنے کا دعوی کرتا ہے جبکہ قرآن
میں واضح طور پر کہہ دیا گیا یے کہ حضور پاک حضرت محمدﷺ خاتم النبین ہیں ۔ وہ فرقہ
بھی قرآن کی سورہ الاحزاب آیت نمبر 40 کی تاویل اپنے طور پر اپنے عقیدے کو درست
ٹھہرانے کے لئے کرتے ہیں۔
مسلمانوں میں تشدد اور
تکفیر کی روایت اسی قرآن سے رہنمائی نہ لینے اور مفسرین اور اہل الرائے کی ذاتی
تفسیر اور رائے کو شریعت کا حصہ بنادینے کی وجہ سے ہی پروان چڑھی ہے۔ اگر مسلمان
دین کے تنازعات اور مسائل کو براہ راست قرآن کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کرتے
اور اپنے عقائد کو قرآن اور حدیث کی کسوٹی پر تولتے تو آج مسلمانوں میں اتنا فکری
اور نظریاتی انتشار اور تشدد نہ ہوتا۔
---------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism