New Age Islam
Thu Apr 17 2025, 09:12 PM

Urdu Section ( 22 Jun 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Official Support of Hatred Is the Main Culprit of Uttarkashi نفرت کی سرکاری پشت پناہی اتر کاشی کی اصل مجرم

عاصم جلال

18 جون،2023

اتر کاشی کے پرولا میں عدالتی مداخلت کے بعد بھلے ہی انتظامیہ کو حرکت میں آنا پڑا اور 15جون کو مہاپنچایت ٹل گئی مگر ایسا نہیں کہ یہاں مسلمانوں کااعتماد بحال ہوگیا ہے۔ جس وقت یہ سطور لکھی جارہی ہیں زمینی سطح سے ر پورٹنگ کرنے والے میڈیااداروں کی رپورٹوں کے مطابق 35مسلم خاندانوں نے ہمیشہ کے لئے اور 6 خاندانوں نے عارضی طور پر پرولا خالی کردیا ہے۔ ان میں بی جے پی اقلیتی مورچہ کے لیڈر بھی شامل ہیں۔

سب واقف ہیں کے جیتندر سینی اور عبید نامی دو نوجوانوں کے ساتھ ایک غیر مسلم لڑکی کی گھومتے ہوئے پکڑنے کے بعد ”لوجہاد“ کاشوشہ چھوڑا گیا اور پھر حالات کو اس قدر بگاڑا گیا کہ نازی جرمنی میں جس طرح یہودیوں کے گھروں پر ’کراس‘ کے نشان اور نوٹس پرولامیں مسلمانوں کو دھمکی دی گئی کہ وہ 15 جون کو مہا پنچایت سے قبل پرولا خالی کر دیں۔ خوفزدہ مسلم خاندانوں نے بوریا بستر سمیٹنا شروع کردیا، خاندانوں کی منتقلی شروع ہوگئی او رجو لوگ منتقل نہیں ہورہے تھے انہیں دھمکانے کاسلسلہ بھی چل پڑایہاں تک کہ مسلمانوں کودوکان یا مکان کرایہ پر دینے والے غیر مسلم برادران وطن کو دھمکایا جانے لگا مگر حکومت خاموش تماشائی بنی رہی۔ وہ حرکت میں اس وقت آئی جب معاملہ عدالت پہنچا اور جھارکھنڈ ہائی کورٹ نے یاد دہانی کرائی کہ نظم ونسق کو برقرار رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس کے ساتھ سوشل میڈیا اور میڈیا پر اس معاملے میں بحث و مباحثہ پر پابندی عائد کرتے ہوئے کورٹ نے ریاست کی پشکر سنگھ دھامی سرکار کو 3 ہفتوں میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی مگر عدالت کا یہ حکم آتے آتے او رانتظامیہ کے برائے نام کارروائی پر مجبور ہونے تک 18 ہزار آبادی والے برولا میں مقیم دو سو سے ڈھائی سو مسلم خاندانوں میں سے اکثر شہر چھوڑ کر دیگر علاقوں میں منتقل ہوچکے تھے۔

اتر کاشی میں جو کچھ ہوا وہ ملک کے کسی اور حصے یا گوشے میں نہیں ہوگا اس کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔نفرت کو سیاسی اور سرکاری پشت پناہی کا رجحان جوگزشتہ چند برسوں میں پروان چڑھا ہے او رمسلسل چڑھ رہاہے وہ اس کا اصل مجرم ہے۔اتراکھنڈ جہاں سے نفرت انگیز دھرم سنسد وں کا سلسلہ شروع ہوا ہے، میں اگر پہلے ہی نفرت کو بڑھنے سے روکنے کی کوشش کی گئی ہوتی تو صورتحال یہاں تک نہ پہنچتی۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ کچھ مفروضے گڑھ لئے گئے ہیں اور انہیں عوام کے سامنے اس طرح ”حقیقت“ او ر ”سازش“ بنا کر پیش کیا جاتاہے کہ وہ کوّا کان لے گیا کہ کہاوت کے مصداق اپنے کان کوٹٹول کر دیکھ لینے کے بجائے کوّے کے پیچھے بھاگنا شروع کردیتے ہیں۔

عبید، جیتندر سینی اور ان کے ساتھ ملنے والی نابالغ لڑکی کامعاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔متوازن میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق اس معاملے میں اس بات کی جانچ اور تحقیق کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی کہ جو لڑکی دونوں لڑکوں کے ساتھ ملی اس کا تعلق عبید سے تھا یا جتیندر سے۔بس چونکہ اس معاملے میں ایک نام مسلمانوں والا تھا اس لئے دوسرے کو پس پشت ڈال کر فوری طور پر ”لو جہاد“کا شوشہ چھوڑ دیا گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ وزارت اعلیٰ کے انتہائی ذمہ دار عہدہ پر فائز شخص اس معاملے میں ذمہ دارانہ بیان دینے کے بجائے ”لوجہاد کے معاملوں سے سختی سے نمٹنے“ کا بیان جاری کردیتاہے۔ ان بیان میں اس بات کی تائید نظرت آتی ہے کہ پرولا میں جو معاملہ سامنے آیا ہے وہ”لو جہاد“ کاہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”ہم کسی کے خلاف نہیں مگر اتر کھنڈ کو لو جہاد کاسافٹ ٹارگیٹ نہیں بننے دیں گے۔“

لو جہاد کے مفروضے کو بی جے پی کی حکومتیں نہ صرف قانون بنا کر حقیقت ثابت کرنے پرتلی ہوئی ہیں بلکہ قومی میڈیا بھی سر میں تال ملا کر سماج میں نفرت کے فروغ میں اہم رول ادا کررہا ہے۔عالم یہ ہے کہ اکثریتی فرقے کا ایک بڑاحصہ یہ سمجھنے لگا ہے کہ واقعی مسلم نوجوان غیر مسلم لڑکیو ں کو دام محبت میں گرفتار کرتے ہیں تاکہ ان کا مذہب تبدیل کرواسکیں۔ دھامی کایہ کہنا کہ ”گزشتہ چندمہینوں میں زمینی سطح پر ایسے واقعات میں اضافہ ہوا ہے،ہم بھائی چارہ کے جذبے کے ساتھ رہتے ہیں مگر اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ ایسی غلط حرکتوں کی اجازت دے دی جائے گی“ کسی تحقیق سے قبل ہی نتیجے پر پہنچنے کے مترادف ہے جس نے اترکاشی میں آگ میں گھی کاکام کیا۔ اس علاقہ کے انصاف پسند مقامی صحافیوں نے نشاندہی کی ہے کہ اس معاملے میں بی جے پی قیادت کی سطح سے لے کر کارکن کی سطح تک پیش پیش رہی ہے۔

اتر کاشی میں اچانک مسلمانوں کے خلاف ”لوجہاد“ کے نام پر چھیڑی گئی یہ نفرت انگیز مہم ہوکہ مہاراشٹرمیں اورنگ زیب کے نام پر مسلمانوں کونشانہ بنا نے او رفساد برپا کرنے کاسلسلہ اوراس پر فرنویس کی بیان بازی،مدھیہ پردیش میں اسکول کی غیر مسلم طالبات کی تصویر حجاب کے ساتھ ہونے پر پرنسپل کی گرفتاری ہو یا لاء کمیشن کااچانک ”یکساں سول کوڈ“ کابھوت نکال کر لے آنا او راس کا مسودہ عوام کے سامنے ان کی رائے کیلئے پیش کردینا۔ یہ سب کچھ اقتدار کھودینے کی ا س بے چینی کا نتیجہ ہے جو آئندہ ہونے والے کئی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات اور 2024 کے پارلیمانی الیکشن کے تعلق سے پھیلی ہوئی ہے۔

ان رپورٹوں کے بیچ کہ جنوبی ہند میں کرناٹک ہارنے کے بعد شمالی ہندوستان میں بھی زعفرانی پارٹی کو دھول چاٹنی پڑسکتی ہے، زعفرانی خیمہ اچانک سرگرم ہوچکا ہے۔ یہ خوف کہ کہیں یوپی، اتراکھنڈ، بہار، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں 2019 ء میں ملنے والی لوک سبھا سیٹیں کم نہ ہوجائیں، سماج کو مذہبی خطوط پر بانٹنے کی کوشش پوری شدت سے شروع ہوچکی ہے کہ وہ دانشمندی کامظاہرہ کرے اور ان ووٹروں کو انتشار سے بچانے کی پہلے سے زیادہ کوشش کرے جو ملک میں پھیل رہی اس نفرت کے خلاف اقتدار میں تبدیلی دیکھنا چاہتا ہے او راس کا انتظار طویل عرصے سے کررہا ہے۔

18 جون،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

----------------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/uttarkashi-support-main-culprit/d/130050

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..